یوں تو امریکا سے مسلمانوں کے معاملے میں کبھی خیر کی توقع رہی ہی نہیں، بالخصوص جب معاملہ اسرائیل اور مسلمانوں کے درمیان ہو تو امریکی پلڑا ہمیشہ صہیونیوں کے حق میں جھکتا ہے۔ لیکن بہت سی
مصلحتوں کے پیش نظر امریکی انتظامیہ کو اپنے چہرے پر منافقت کا نقاب اوڑھے
رکھنا پڑتا تھا۔ لیکن…!
ٹرمپ صدر کے اقتدار میں آنے کے
ساتھ ہی امریکی حکمرانوں نے منافقت کے
سبھی نقاب اتارڈالے۔ سابقہ امریکی انتخابات سے قبل ہی اہل بصیرت اس بات کو
بھانپ چکے تھے کہ ٹرمپ کو امریکی صدر بنوانے میں صہیونی لابی پیش پیش ہے اور اس
سلسلے میں یہ لابی اس قدر کھل کر سامنے آئی کہ یہ انتخابات امریکی تاریخ کے
متنازعہ ترین انتخابات بن گئے۔
ٹرمپ کی صہیونیوں سے راہ ورسم
محض زبانی محبت یا مفادات کی حد تک ہی محدود نہ رہی بلکہ رشتہ داری میں بھی ڈھل
گئی، ٹرمپ کا داماد جیرڈ کوشنر جو کہ شدید متعصب یہودی، اسرائیل کا بھرپور حامی
اور مشرق وسطیٰ کے معاملات میں ٹرمپ کا دست راست اور مشیر
خاص ہے یہ انتخاب ہی اس بات کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہے کہ ٹرمپ کی
خواہشات و ارادے کیا ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے آتے ہی
کئی دہائیوں سے جاری مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی کو بہت جلد
بدل کر رکھ دیا۔ جہاں اس سلسلے میں
انتہائی ہوشیاری اور جوڑتوڑ کے ذریعے عرب حکمرانوں کو قائل کیا، وہیں بہت
سے ایسے عملی اقدامات اٹھائے جو کئی دہائیوں سے جاری امریکی سیاست سے بالکل
برعکس تھے۔ درحقیقت یہ اقدامات اس ڈیل آف
دی سینچری کی راہ ہموار کر رہے تھے جو آگے آنے والے وقتوں میں مشرق وسطی ٰ کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دے گی ، جس کے بارے میں
جیراڈ کوشنر کا کہنا تھا کہ ڈیل آف دی سینچری کو درحقیقت "آپورچیونٹی آف دی سینچری (صدی کا سب سے
بڑا موقع ) کہا جا سکتا ہے۔ یقینا یہ ان کے ہاتھ اس صدی کا سب سے بڑا موقع ہی لگا
ہے جس کی تفصیلات ایک لمبے عرصے سے چھپائی جا رہی ہیں۔ یہ ان
کیلئے بہترین موقع ہی تو ہے کہ تمام عالم اسلام کے حکمرانوں میں کوئی ایسا نہیں جو
ان کے سامنے دم مارنے کی ہمت رکھتا ہو۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے اپنی آمد کے ساتھ ہی اکھاڑ پچھاڑ نہیں شروع کر
دی، کیونکہ اسے علم تھا کہ مقابلہ امت مسلمہ
سے ہے جو بلاشبہ خواب غفلت میں ہے لیکن اگر بیدار ہو گئی تو اسے نکیل ڈالنے
والا کوئی نہیں ملے گا۔ چنانچہ برسراقتدار
آنے کے ساتھ ہی اس نے مختلف اقدامات کے ذریعے امت مسلمہ کی حساسیت اور ردعمل کا
جائزہ لینا شروع کر دیا تاکہ کھوکھلے
ردعمل دکھا کر تھک ہار کر یہ بالکل بےحس
ہو جائیں تو ان پر آخری کاری وار کیا جا سکے۔ ذیل میں ہم ٹرمپ کے اسرائیل نواز اور
فلسطین مخالف اقدامات کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں جو درحقیقت ٹرمپ کے بڑے منصوبے
ڈیل آف دی سینچری کی راہ ہموار کرنے کیلئے
تھے۔
فروری
2017
ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم
بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ 15 فروری وائٹ ہاؤس میں پہلی ملاقات کے بعد کہا کہ وہ
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان
تنازعے کے خاتمے اور خطے میں نام
نہاد امن کیلئے" دو ریاستی حل
"کے ساتھ ساتھ" یک ریاستی حل " پر بھی غور کیلئے تیار ہیں۔
اس وقت سے مشرق وسطیٰ کیلئے
ٹرمپ کے مشیر "دوریاستی حل" کی تائید سے گریزاں ہیں۔ یاد رہے دو ریاستی
حل مشرق وسطیٰ میں امن کا وہ طریقہ کار ہے
جس پر عرب لیگ، یورپی یونین روس اور اوباما دور تک امریکا سمیت سبھی ممالک اتفاق
کرتے رہے ہیں۔ اس فریم ورک کے تحت 1967 میں
عرب اسرائیل جنگ سے قبل کی اسرائیلی
حدود کے مطابق غرب اردن، غزہ پٹی اور
مشرقی القدس میں ایک آزاد فلسطینی ریاست
کا قیام ہے۔
6
دسمبر 2017
ٹرمپ نے القدس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کر لیا جو کہ کئی دہائیوں سے جاری امریکی سیاست اور طرزعمل
کے بالکل برعکس تھا، اس فیصلے نے فلسطینیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی، جو کہ
القدس کے مشرقی حصے کو جس پر اسرائیل نے
1967 کی جنگ میں قبضہ کیا تھا مستقبل میں
اپنی مملکت کا دارلحکومت بنانے کے خواہاں تھے، اس فیصلے نے عالم اسلام کے ساتھ ساتھ امریکا کے حلیف مغربی ممالک میں بھی
تشویش کی لہر دوڑا دی۔ ٹرمپ نے یہ بھی
اعلان کیا کہ جلدامریکی سفارتخانہ القدس
منتقل کیا جائے گا۔
جنوری
2018
ٹرمپ انتظامیہ نے اقوام متحدہ
کے تحت فلسطینی مہاجرین کی مدد کیلئے قائم ادارے اونرو(UNRWA) کی مالی مدد میں سے 65 ملین ڈالر کی کٹوتی کی، یہ ادارہ اردن، لبنان،
فلسطین، شام مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور
مقبوضہ مشرقی القدس میں موجود پانچ ملین سے زائد فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کرتا
ہے۔
7 ماہ بعد واشنگٹن نے اس کے تمام فنڈز روک دیئے جو کہ سالانہ 300
ملین ڈالر تھے، اسی طرح فلسطینیوں کی مدد کیلئے قائم دوسری کئی تنظیموں اور
اداروں کی امداد میں سے سینکڑوں ملین ڈالر فنڈز کی کٹوتی کی۔ امریکا
نے جو کہ اونروا کو سب سے
زیادہ فنڈ دینے والا ملک تھا یہ تجویز پیش
کی کہ اس ادارے کو توڑ کر جن ممالک میں
فلسطینی پناہ گزین ہیں وہ ممالک ان کی ذمہ داری سنبھالیں۔
14
مئی 2018
القدس میں امریکی سفارت خانے کا
افتتاح، جس کے ردعمل میں فلسطینیوں نے اسرائیل
اور غزہ کی حدود پر پتھراؤ، اور احتجاج
کیا، دوسری جانب سے اسرائیلی فوجیوں کی
فائزنگ سے دسیوں فلسطینی شہید ہوئے۔
10
ستمبر 2018
ٹرمپ انتظامیہ نے واشنگٹن میں PLO (فلسطین لبریشن آرگنائزیشن) کا دفتر بند کرنے کا اعلان کیا، جس کا
جرم یہ تھا کہ اس نے اسرائیل کے خلاف
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں کاروائی کی کوشش کی تھی۔
4
مارچ 2019
القدس میں امریکی قونصل خانہ جو کہ واشنگٹن کا
فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست ڈپلومیٹک
چینل تھا کو القدس میں نئے امریکی سفارت خانے میں انضمام کرنے کا اعلان، اس سے قبل
قونصل خانہ تمام رپورٹس براہ راست واشنگٹن
بھیجتا تھا لیکن اس فیصلے کے بعد فلسطینی معاملات سے متعلق اپنی رپورٹس سفارت خانے
میں موجود امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کو پیش کرنے لگا۔
25
مارچ 2019ء
ٹرمپ نے امریکا کی جانب سے
گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو
تسلیم کرنے کا اعلان کیا، جس پر اسرائیل
نے 1967ء کی جنگ میں سوریا سے قبضہ کر کے
اپنی ریاست میں شامل کیا تھا لیکن بین الاقوامی طور پر اسے تسلیم نہ کیا گیا،
فلسطینی اسے ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کی
حمایت میں ایک اور قدم تصور کرتے ہیں۔
19
مئی 2019ء
وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ وہ
بحرین میں 25 اور 26 جون کو "اقتصادی
امن کانفرنس " کے عنوان کے تحت
فلسطینی علاقوں میں سرمایہ کاری جمع کرنے کیلئے کانفرنس کا انعقاد کرے گا کیونکہ
یہ ٹرمپ کی ڈیل آف دی سینچری کے
منصوبے کی پہلی شق ہے۔
ٹرمپ کے مشرق وسطی ٰ سے متعلق
خصوصی وفد جس کی قیادت ٹرمپ کا داماد جیرڈ کوشنر اور مشرق وسطیٰ کیلئے خصوصی ایلچی
جیسن گرین بلاٹ کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ امن کے اس منصوبے کی سیاسی شقیں
آنے والے وقت میں ظاہر کی جائیں گی، یہ
آنے والا وقت ممکنہ طور پر ستمبر میں دوبارہ منعقد ہونے والے اسرائیلی انتخابات کے
بعد کا ہو سکتا ہے۔
8 جون
2019:
اسرائیل میں متعین امریکی
سفیر ڈیوڈ فریڈ مین نے کہا اسرائیل کو حق ہے کہ وہ غرب اردن کے کچھ حصوں
کو ضم کر لے اگرچہ ایسی کاروائی بین الاقوامی قانون کے تحت غیرقانونی ہوگی۔یاد رہے
اسرائیلی انتخابات سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن
یاہو نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ
غرب اردن میں تعمیر شدہ یہودی بستیوں کو
اسرائیلی ریاست کا حصہ قرار دے دیں گے۔
فلسطینی رہنماؤں نے فریڈمان کے اس بیان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی
قرار دیا۔
22 جون
2019ء
بحرین کانفرنس سے پہلے کوشنر نے اس نام نہاد امن منصوبے کی اقتصادی شق
کی تفصیلات جاری کیں، جس کے مطابق اس منصوبے میں 50 ارب ڈالرز کی مالیت سے فلسطین اور اس کے ہمسایہ عرب ممالک
میں اقتصادی ترقی کے منصوبے لگائے
جائیں گے اس کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے درمیان نقل و حرکت کیلئے 5 ارب ڈالر سے ایک گزرگاہ تعمیر کی جائے گی۔
ڈیل آف
دی سینچری درحقیقت ہے کیا…!
مختصرا یہ امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ کا مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے منصوبہ ہے
جو کہ میڈیا میں ڈیل آف دی سینچری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مصری صدر
عبدالفتاح السیسی وہ پہلے سربراہ مملکت ہیں جنہون نے ٹرمپ کے پیش کردہ امریکی امن
منصوبے کو اپریل 2017 میں وائیٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کے بعد ڈیل آف دی
سینچری کا نام دیا۔ انھوں نے کہا کہ
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن ڈیل آف دی سینچری ہو گی، اور امریکی صدر سے مزید کہا
"آپ فلسطینی مسئلہ کے حل کی کسی بھی کوششوں میں مجھے پوری قوت اور وضاحت سے
اپنے ساتھ پائیں گے اور جناب صدر اس مسئلے کو آپ ہی حل کر سکتے ہیں"۔
اس کے بعد امریکی اخبارات میں
نامعلوم ذرائع سے اس منصوبے کے خدوخال لیک ہونے کے نتیجے میں امریکی میڈیا اور
سیاسی حلقوں نے اس اصطلاح کو زیادہ
وسیع پیمانے پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں کے رازداری سے بھرپور اسرائیل اور عرب ممالک کے دورے، جس کے ساتھ ہی ان مسلسل دوروں
سے وابستہ امیدوں کے بارے میں کئی سوالات ابھرتے تھے جن کا سرکاری طور پر کوئی
جواب نہ دیا جاتا بلکہ محض ڈپلومیٹک سے بیانات پر اکتفا کیا جاتا۔ اس ساری صورتحال نے اس
ڈیل آف دی سینچری کے بارے میں شکوک وشبہات کو مزید بڑھاوا دیا۔
ڈیل آف دی سینچری کے بارے میں ابھی تک یقینی طور پر
کون سی معلومات ظاہر ہوئی ہیں؟
آخری چند مہینوں میں ڈیل آف دی
سینچری کی مختلف شقوں کے بارے میں
معلومات گردش کرتی رہیں، جن میں سے کچھ کی
تصدیق باقاعدہ سرکاری عہدیداروں کی جانب
سے ہوتی رہی ہے، ان میں سے بھی کچھ تبدیلی
اور کمی بیشی کی گنجائش ہے۔ ان یقینی حاصل شدہ معلومات میں سے کچھ کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ نے (جیساکہ پیچھے
گزر چکا)عملی اقدامات اٹھا لئے ہیں اور کچھ کی تکمیل کیلئے آنے والے وقت کا انتظار
ہے۔ یہ شقیں درج ذیل ہیں:
دنیا کے تمام ممالک کی جانب سے
القدس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنا۔
دنیا کی جانب سے اسرائیل کو یہودیوں کا قومی وطن اور فلسطین کو فلسطینی قوم کا قومی وطن تسلیم کروانا۔
فضا اور بین الاقوامی پانیوں پر
اسرائیلی تسلط۔
بلدۃ ابودیس جسے القدس سے ایک
دیوار الگ کرتی ہے اسے فلسطین کا دارلحکومت بنانا اور مشرقی القدس سے فلسطین کی دستبرداری، اور مغربی کنارے کے کٹے پھٹے
حصوں کو نئی فلسطینی مملکت میں شامل کرنا۔
نئی فلسطینی مملکت کی جانب سے
ان اسرائیلی نو تعمیر بستیوں پر رضامندی
کا اظہار جن کی تعمیر روکنے کا اقوام متحدہ پہلے سے مطالبہ کر چکی ہے۔
مغربی کنارے کو تین حصوں میں تقسیم کرنا، اور غزہ
میں سیاسی ادارے قائم کرنا، ابودیس
اور القدس کے درمیان پل کی تعمیر جسے عبور کر کے مسلمان مسجد اقصیٰ میں نماز کیلئے
جا سکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے
اور غزہ کی پٹی کے درمیان نقل و حرکت
کیلئے 5 ارب ڈالر سے ایک گزرگاہ تعمیر کی جائے گی۔
فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی
کے حق کا خاتمہ، جس کیلئے امریکہ فلسطینی پناہ گزینوں کو عرب ممالک میں آباد کرنے
کے سلسلے میں مدد دے گا، جن میں سرفہرست، اردن
اور مصر ہیں، جس کے بدلے انھیں
اقتصادی مدد فراہم کی جائے گی۔ اس کی مزید تائید
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے فلسطینی
پناہ گزینوں کی مدد کیلئے قائم ادارے اونروا کی مدد ختم کرنے سے ہوتی ہے۔
نئی فلسطینی مملکت کو فوج رکھنے
کی اجازت نہ ہو گی البتہ پولیس کا محکمہ بھرپور اختیار کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔
مصر، اردن اور امریکا کے درمیان
باہمی انٹیلی جنس معلومات کی شراکت۔
خلیجی ممالک فلسطینی مملکت کے
قیام کیلئے 10 ارب ڈالرمہیا کریں گے جس میں ائیرپورٹ، غزہ کی بندرگاہ کی تعمیر کے
ساتھ ساتھ آبادکاری، زراعت نئے شہروں اور صنعتی علاقوں کے منصوبے شامل ہوں گے۔
جہاں تک غزہ کا تعلق ہے اس
سلسلے میں یہی امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ اسے نئی فلسطینی مملکت میں شامل کیا جائے
گا بشرطیکہ حماس اور دیگر مسلح تنظیمیں
ہتھیار پھینکنے پر اپنی رضامندی ظاہر کریں۔ جس کے بدلے فلسطینیوں کو نقل
وحرکت میں آسانی ہو گی، غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کیا جائے گا، اس کے علاوہ غزہ کی
پٹی کی تعمیر کیلئے اربوں ڈالر خرچ کئے جائیں گے جن کی ذمہ داری خلیجی ممالک
اٹھائیں گے۔
ڈیل آف
دی سینچری کا اعلان کب ہوگا؟
ڈیل آف
سنچری کے باقاعدہ اعلان اور تفصیلات کو کئی بار ملتوی کیا گیا، یہاں تک کہ مارچ
میں جیرڈکوشنر نے سکائی نیوز کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ اس منصوبے کی تفصیلات اور باقاعدہ اعلان اپریل
میں ہونے والے اسرائیلی انتخابات کے بعد کیاجائے گا۔ تاہم 9 اپریل کو ہونے والے
اسرائیلی انتخابات میں سیاسی جماعتیں
حکومت کی تشکیل میں ناکام رہیں جس کی وجہ
سے اسرائیلی وزیر اعظم نے 17 ستمبر کو دوبارہ کینسٹ (پارلیمنٹ ) کے انتخابات کا
اعلان کیا ہے اور توقع کی جار ہی ہے کہ اس انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہی اس ڈیل
آف دی سینچری کے سیاسی پہلو سے متعلق تفصیلات سے پردہ ہٹایا جائے گا۔
فی الحال بحرین میں ہونے والی
کانفرنس میں اس کے اقتصادی پہلو پر ہی بات چیت ہو گی، دلچسپ امر یہ ہے کہ جہاں
فلسطینی قیادت نے اس مسئلے کے اقتصادی حل
کو نامنظور کرتے ہوئے پہلے سیاسی حل تلاش
کرنے پر اصرار کیا ہے وہیں اقوام متحدہ کا بھی یہی ردعمل تھا کہ اس
مسئلے کا حقیقی حل سیاسی پہلو کو حل کرنے
میں ہی مضمر ہے۔ اور یقینا ٹرمپ انتظامیہ بھی اس
پہلو سے بخوبی واقف ہے لیکن سیاسی
پہلو کی تفصیلات عیاں کرنے سے
پہلے کسی مناسب وقت کی منتظر ہے۔
بہرحال آنے والا وقت یہ بتائے
گا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی ان خواہشات کو عملی جامہ پہنانے میں کتنی مشکلات کا سامنا
کرنا پڑے گا، کون امت کے حق میں اپنا کردار ادا کرے گا اور کون تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بننا چاہے گا۔ اور
کیا یہ سانحہ عالم اسلام کی بیداری کا سبب بنے گا یا حسب سابق چند دن جذباتی کیفیت
میں گزار کر قصہ پارینہ بن جائے گا۔