ڈیل آف سنچری ، فلسطین اور امریکہ
|
:عنوان |
|
|
کانفرنس میں کوئی فلسطینی دھڑا شریک نہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشی حالات خراب ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں ، لیکن اصل مسئلہ سیاسی ہے، حقوق انسانی کا ہے، اس لیے اسے پہلے کھول کر سامنے لایا جائے |
|
|
تحریر: فلک شیر
کچھ عرصے سے فلسطین کے مسئلے کے حل کے
لیے امریکی صدر ٹرمپ کی "صدی کی ڈیل" کا شہرہ ہے۔دو سال بل جب ٹرمپ نے
اقتدار سنبھالا ، تو اس پرانے مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کے کسی بڑے اقدام کا
اعلان بھی کر دیا۔ امریکہ نے کل ہی بحرین میں اس ڈیل کے اقتصادی پہلو کے حوالے سے
ایک ورکشاپ منعقد کی ہے، جس میں کسی فلسطینین دھڑے نے شرکت نہیں کی ، ان کا کہنا
ہے کہ ہمارے معاشی حالات خراب ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں ، لیکن اصل مسئلہ سیاسی
ہے، حقوق انسانی کا ہے، اس لیے اسے پہلے کھول کر سامنے لایا جائے کہ پٹاری
میں کیا ہے۔ محمود عباس اور حماس سمیت سب فلسطینی دھڑوں کے اعلان لاتعلقی کے بعد
امریکہ نے اسرائیل کو بھی اس ورکشاپ میں دعوت نہیں دی، گو کہ اخبارات کے مطابق
اسرائیلی اس ڈیل پہ رضامند ہیں اور بظاہر یہ سب ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق ہی
ہو رہا ہے ۔اس ڈیل کے سیاسی پہلو کو ابھی منظر عام پہ نہیں لایا گیا ور اس کے لیے
چند ہفتوں بعد کا وقت دیا جا رہا ہے ۔ کل ہونے والی ورکشاپ میں 50 بلین ڈالر سے
غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں میں تعمیر و ترقی ، شاہرات اور انفراسٹرکچر
وغیرہ کا جال بچھانا ہے ۔یہ ذہن میں رہے کہ اس بھاری انوسٹمنٹ کے غالب حصے کے لیے
امریکہ خلیجی ریاستوں ہی کی جیب استعمال کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے, کل بحرین میں
ہونے والی ورکشاپ میں یہ خلیجی ریاستیں اس کی تائید و سرپرستی کے لیے موجود تھیں۔
ابھی اس مختصر نوٹ کے لکھنے کے دوران مختلف آرٹیکلز دیکھے، تو ایک عرب صحافی نے
اپنی تحریر کے آغاز میں ایک لطیفہ لکھا، وہ سن لیجیے :
عدالت میں ایک گواہ سے وکیل صفائی نے پوچھا: "کیا تم نے میرے مؤکل کو مدعی کا
انگوٹھا چباتے ہوئے دیکھا؟"
جواب میں گواہ نے کہا :"نہیں"
وکیل مسکرایا اور کہا "اچھااا! تو پھر تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو، کہ
میرے مؤکل نے ایسا کیا ہے"
گواہ نے کہا :"کیوں کہ میں نے اسے ایسا کرنے کے بعد ، مدعی کا انگوٹھا منہ سے
باہر پھینکتے دیکھا تھا"
صحافی لکھتا ہے کہ ٹرمپ کی ڈیل آف سنچری کا سیاسی پہلو ابھی منظر عام پہ نہیں آیا
، لیکن اس گواہ کی طرح ہم اسے اگلتے ہوئے دیکھ رہے ، بلکہ دیکھ چکے ہیں ۔
اس خدشے کی تصدیق سابقہ معاہدوں ، دھوکوں اور جبر کی داستان سے ہوتی ہے۔ ویسے اس
ورکشاپ کے بعد آج ہی روس کے بین الاقوامی ٹی وی چینل RT نے خبر دی ہے ، کہ یہ ڈیل مندرجہ ذیل نکات پہ
مشتمل ہو گی (خبر کا ربط ان کے ٹویٹر ہینڈل سے لیا جا سکتا ہے ):
1) فلسطینی 'مغربی کنارے' کے ساٹھ فیصد حصے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے
2)فلسطینی فوج نہیں رکھ سکیں گے
3)اپنی حفاظت کے لیے فلسطین اسرائیل کو مالی ادائیگی کرے گا
4) اگر فلسطینی ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں ، تو امریکہ ان پہ پابندیاں عائد کر
دے گا
حقیقت تو یہ ہے کہ کتنی صدیوں سے فلسطین خریدنے والے بھی منڈی میں موجود ہیں اور
بیچنے والے بھی ، اکثر حصہ جبراً ہتھیا بھی لیا گیا، مگر مسلم عوام، ہر انصاف پسند
انسان اور میدان میں ڈٹا ایک ایک فلسطینی اور ان کے سیاسی و عسکری محاذوں پہ جمے
بوڑھے بچے اور جوان اس رستے کی رکاوٹ ہیں ۔
بے شک وہ تدبیر کرتے ہیں اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے
فلک شیر
25 جون 2019ء
|
|
|
|
|
|