ہجرت کے پندرہ سو سال بعد!
حافظ یوسف
سراج
کون مانے؟
کسے یقیں آئے؟
وہ چار قدم
تاریخِ انسانی کو بدلنے کے لیے
خدا کی سنگلاخ دھرتی پر اٹھے
وہ چار قدم
جبر کو توڑتے، گرد ِراہ کو کاٹتے، عزم سے اٹھتے اور یقین سے زمیں پر آ پڑتے
سوئے منزل رواں وہ چار قدم
ان چار قدموں پر جو مبارک دھڑ اور مقدس سر تھے۔ بشریت کا وہ اعجاز دو بشر تھے۔
بے دری کی حالت، بے سروسامانی کا عالم، مال نہ متاع ، کہیں بسیرا نہ کوئی پناہ،
وسائل کافور، مسافر مجبور و مقہور۔
خیر جو بھی تھا، ستم کا سماج اور جبر کا راج بدلنے کو یہ قدم اب بہرحال اٹھ چکے
تھے۔
یاحیرت! دنیا بدل دینے کا
قصد
اور یہ دو جسد
تنِ
تنہا دو نفوس
مگر
پر عزم اور پرخلوص
لیکن
آخرش تو دو ہی تھے!
پورے
نظام اور سماج کے مقابل محض دو لوگ کرتے بھی تو کیا؟
کس
کس کا مقابلہ کرتے؟
کیونکر
ہدف سے جا ملتے؟
کیاایسا
ممکن بھی تھا؟
آدمی
سوچ میں پڑ جاتا ہے!
لیکن
ذرا سا تھم جائیے،
کم
از کم اتنا جان لیجیے
کہ
تعداد میں اگرچہ وہ دو ہی تھے،
پر
ہرگز معمولی وہ نہ تھے۔
ان
کے مباک سینوں میں،
نورِ
ایماں کے خزینوں میں،
بڑے
اجلے دل دھڑکتے تھے،
کیا
نور کے جگنو چمکتے تھے۔
پھر دل کی اک اک دھڑکن
سے، صبر و ثبات اور ایمان و استقامت کے مصفا چشمے ابلتے تھے۔ وہ کہ آسمان جن کے
بارےکہہ چکا:
'' خدا یہ لکھ چکا کہ بالضرور میں اور میرے رسول ہی غالب ہو کر رہیں گے۔ لاریب
اللہ ہی قوی اور زبردست ہے۔''
اور فرمایا:
''جس نے اللہ پر توکل کیا، اس کے لیے تو بس خدا کی نصرت ہی کافی ہے۔ بے شک خدا کو
اپنا کام کرنا آتا ہے۔''
اچھا تب آپ کیا کہیں گے،
جب تاریخِ انسانی کی اس عظیم ترین شاہراہ پر اٹھنے والے ان چار قدموں میں سے، دو
قدم، جمیع مخلوق سے بہتر و برتر اور اعلیٰ و افضل شخصیت کے قدم ہوں۔
وہ کہ احمد و محمدؐ جن کا نام، مجتبیٰ و مصطفےٰ جن کا مقام اور کوثر جن کا جام۔
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر جن کی شان اور ان شانئک ہو الابتر جن کی آن۔ ہر
پل ذکرِ خدا جن کا معمول اور و رفعنالک ذکرک جن کی رفعت کا زریں اصول۔ وحی جن کا
مکتب اور ابلاغِ دین جن کا منصب۔ معراج جن کی سیر اور براق جن کی سواری۔ خدا جن کا
خلیل اور مرسلین جن کے مقتدی۔ اقصیٰ جن کا مصلی اور مقامِ محمود جن کا مکان۔ میری
کل محبتیں، کل کائناتیں ان کی گردِ راہ کے کسی نامعلوم ذرے پر قربان، صد جان سے
قربان۔
صلی اللہ علیہ وسلم
تو یہ تھے دو قدم!
خیال آیا، انھی دو قدموں تک آنا ہی تو انسانوں کا مقصدِ حیات ہے، اسی فاصلے میں
تو سارا فیصلہ ہے۔ اپنی کامیابی کے لیے انسانیت نے ان دو قدموں کی طرف دو قدم ہی
تو اٹھانے ہیں، بچپن سے بڑھاپے تک یہی دو نقشِ قدم ہی تو پانے ہیں۔ آدمی کی اپنی
حیات اور اس کے گرد بکھری اس کائنات کی اس کے سوا کوئی اور قیمت اور قسمت ہی کیا
ہے؟ ہر دور کے ہر درد کی ان دو قدموں کے سوا اور دوا ہی کیا ہے؟ یہی دو قدم، ان
قدموں کے نقشِ قدم!
اور ان کے رفیقِ سفر!
وہ صدیقِ اکبر، اللہ اکبر
بقولِ اقبال جن کے لیے تو کافی ہے خدا کا رسول بس۔ محبوب کی خوشی، جن کے لیے حاصل
ِ زندگی۔ جن کی صداقت قرآن کی عبارت ،جن کا تذکرہ اہلِ ایمان کی تلاوت، مومنوں کی
عبادت:
''وہ جو سچائی لایا اور وہ جس نے سچائی کی تصدیق کی۔''
سبحان اللہ کیا راہ تھی اور کیا راہی۔ کیا صاحب تھے اور کیا مصاحب۔ ایک سید
الانبیا تو دوسرے بعد از انبیا سیدالبشر۔ یہ فخرِ رسولاں، وہ فخر ِامتاں !
ہجرت کی راہ تھی اور یہ
چار قدم تھے۔
منزل دور، سفر دشوار اور پا پیادہ سیدالبشر۔ کعبہ پیچھے اور مدینہ آگے، دل یہاں
تو قدم وہاں۔ یہاں کچھ بھی آسان نہ تھا، آگے بڑھانے والا تو بس ایمان تھا۔ ہجرت
آسان ہوتی ہے اور نہ اس کا صلہ کمتر۔ ہزاروں میل سیدالبشر نے پیدل چل دیے، تاکہ
نتیجتا مدینہ سے پھوٹتی انوار کی کرنیں کل عالم کو جگمگا دیں۔ سفر کہاں تھا ابوبکر
کے لیے تو یہ البیلی معراج تھی۔ سو پل پل بوڑھے قحافہ کے رقیق بیٹے کی آنکھیں
بھیگتی جاتی تھیں۔ یہ ایسی مسرت کے آنسو تھے، کائنات میں جو کبھی کسی دوسرے کو
نصیب نہ ہوسکی۔ صحابہ بہت تھے اور اہلِ ایمان بھی رہتی دنیا تک رہیں گے، سفرِ ہجرت
کی رفاقت مگر صرف صدیق کے لیے اتری تھی۔ چنانچہ خیرالخلق کلہ کی رفاقت پر صدیق کی
آنکھیں ہجرت کے ہر قدم پر اپنے ہونے کا پتہ دیتی جاتی تھیں۔ سفر آسان نہ تھا،
دشمن پیچھے تھا تو خطرہ آگے، دلوں میں مگر ایمان کے چراغ فروزاں تھے۔ عالم جب یہ
ہو تو کاہے کاخطرہ اور کاہے کا ڈر۔ قرآنی الفاط میں کہیں تو لاضیر۔ کچھ مضائقہ
نہیں، چنداں حرج نہیں۔
ہجرت ایک فرد کی کب ہوتی ہے۔ یہ تو ایک امت کی ہجرت تھی۔ ہر ایک کا جس
میں ایک کردار تھا۔ مثلاً رفیقِ طریق سیدی و سیدنا صدیق کی عالی ہمت بیٹی سیدہ
اسماؓ۔ وہ جو رسول کے صدیق کی بیٹی تھیں اور حواری رسول کی بیوی۔ ہجرت کے کینوس پر
کیا سنہرا یہ بھی کردار رقم ہوا۔ ہجرت کے اس ہنگام عجب بپتا پڑی تھی۔ وقت کم تھا
اور معاملہ سنجیدہ و سنگیں۔ بروقت سوچنا ہی نہ تھا، کچھ کر دکھانا بھی تھا۔ تو کیا
ہوا، صدیق کی فہیم بیٹی ہر طرح کے حالات سے پوری طرح باخبر بھی تھی اور ان سے
نمٹنے کو ہرطرح سے تیار بھی، فی الفور کمر بند پھاڑ کے انھوں نے کھانے کی پوٹلی
تیار کر دی۔ یہ کھانا قریشیوں کےستائے مہاجروں اور مسافروں تک پہنچنا تھا، سو
پہنچا۔ اقبال نے کہا تھا، سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی۔ کسی شاعر کو اس
موقع کے لیے بھی کچھ کہنا چاہیے کہ کس طرح ایمان کے پشتیبان گھرانے کی اس لڑکی نے
بناتِ امت کے لیے علو ہمتی کی روشن، رفیع اور بلیغ مثال قائم کر دکھائی۔ یقینا تا
نہ بخشد خدائے بخشندہ۔ ذرا سوچیے تو! صحرا کا سفر، ایک اکیلی لڑکی، دل میں لیکن اس
کے تھا حمایت رسول کا دریا موجزن۔ ایسا ہو تو پھر کاہے کا ڈر، کاہے کا نقصان، وہی
قرآنی الفاظ ، لا ضیر، لا ضیر!
ادھر پیچھے مکہ میں،
قیامت کی اس گھڑی میں، بسترِ رسول پر چھوٹے عم زاد لیٹ گئے تھے۔ رسول کے راحت رساں
چچا ابوطالب کے جری بیٹے علیؓ۔ کیا واقعی یہ اس رات لیٹنے کا ایک عام بستر ہی تھا؟
شاید ہاں، شاید نہیں۔ شاید مقتل، شاید موت کا ساماں۔ کیا ابوطالب کا وہ بیٹا نہ
جانتا تھا کہ یہ ان کی آخری نیند بھی ہو سکتی تھی؟ کتنے بے نصیب ہیں جو ایمان کے
ہمالیہ کے مقابل بونی عقل لا کھڑی کرتے ہیں۔ کوئی مقابلہ بھی تو ہو! آج لائیں اور
سلائیں موت کے اس بستر پر وہ اپنی حرماں نصیب عقل کو۔ میت نہ اٹھ جائے گی ایمان سے
عاری عقل کی۔ آخری تجزیے میں، یہ ایمان ہے، جو آگ میں کودتا، نیل میں پھاندتا،
چھری تلے مسکراتا اور موت کے بستر پر ہنس کے لیٹ جاتا ہے۔ حیدرِ کرار یہ جانتے تھے
کہ موت گھات میں ہے مگر وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ یہ نیند زندگی کی آخری نیند بھی
ہو تو غم نہیں۔ یوں بھی ہو تو اس سے بڑا انعام ہی کیا ہو سکتا ہے؟
جی ہاں ،جان جائے تو بھی
لا ضیر، لا ضیر۔
حرج ہی کیا، مضائقہ ہی کیا!
ادھر آگے شاہراہِ ہجرت کے آخری کنارے پر، بلدہ طیبہ، سر زمینِ پاک میں منور دلوں
والی وہ پاکیزہ قوم منتظر کھڑی تھی، قرآن نے جن کی حبِ رسول اور ایثارِ مقبول کی
گواہی دی۔ کیسے نگینے لوگ! فرمایا:
''ہجرت کرکے آنے والوں سے انھیں بڑی محبت ہے۔ مہاجرین کو کچھ دیا جائے تو کبھی ان
کے دل گھٹن کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ مہاجرین پر خود کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ خود
محتاج ہی کیوں نہ ہوں۔''
نفرتوں، عداوتوں ، ظلمتوں اور بغاوتوں کے مارے یثربی آج دلوں میں حبِ رسول کے
چراغ جلائے انتظار کے علم اٹھائے چشم براہ کھڑے تھے۔ دیکھا کس طرح دو قدموں کے
فاصلے نے یثربیوں کو مدنی اور یثرب کو مدینہ کر دیا۔ اللہ اکبر کیا نظر تھی کہ
مردوں کو مسیحا کر دیا۔ وہ بصد شوق اور بہزار اشتیاق آنے والے معززین کے منتظر
کھڑے تھے۔ والہانہ شوق سے وہ اس نورِ مبین کے منتظر تھے کہ آنے والا جو ان کے لیے
لانے والا تھا۔ کیا تحفے آنے والے تھے، قرآن کے یاقوت، حدیث کے موتی۔ ہر صبح
بیرونِ شہر آ کےدیدہ و دل فرشِ راہ کیے وہ ٹھہر جاتے اور دلوں پر شام اترتی تو اگلے
دن پھر آنے کے لیے لوٹ جاتے۔
کیسےلوگ!
خدا جن کو محبت سے جھانک کے دیکھے، بخدا ایسے لوگ
اور آج !
چودہ سو چالیس ہجری میں،
اس واقعہ کے ٹھیک پندرہ ہزار سال بعد۔
عین وہی دن، عین وہی یومِ امت یا یومِ ہجرت، ہم جیسے قطعی دوسری طرح کے
لوگوں پر طلوع ہو رہا ہے۔
آہ! کیسے دن ، کن لوگوں پر طلوع ہو رہے ہیں۔
آسمان سوچتا تو ہوگا،
زمیں دیکھتی تو ہوگی؟
آخر کیوں ہم بالکل بھی ان جیسے نہ ہو سکے، کہ جنھوں نے رسول رحمت کا استقبال کیا
تھا۔
وہ ایک مبارک اسم پر مجتمع ہو گئے تھے تو ہمیں ہماری خواہشات و ترغیبات نے ٹکڑوں
بلکہ ٹکڑیوں میں بانٹ ڈالا۔
افسوس، صد افسوس!
اچھا، ان کے بارے قرآن بولتا تھا، کیا ہمارے بارے قرآن کچھ نہیں کہتا؟
کیوں نہیں، قیامت تک رہنمائی دیتا قرآن آج کے مومنوں پر بھی تبصرہ فرماتا ہے:
''ان میں سے ایک گروہ خود اپنے آپ پر ظلم ڈھانے والا ہے، کچھ میانہ روی شعار کرنے
والے ہیں اور کچھ تو بتوفیقِ ایزدی نیکی کے معاملے میں سب پر سبقت لے جانے والے
بھی۔
آہ! امت کا طاقتور اجتماع آج راستوں پر اڑتی دھول کی طرح منتشر اور بے وقعت ہو
چکا۔ چنانچہ ظلم و عدوان کے ہرکارے فرزندان ِ توحید پر ٹوٹ پڑے۔ سرکار کے فرمان کے
مطابق جیسے بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ انھوں نے ان کے گھر بار اور در و دیار با
آسانی قبضے میں لے لیے۔عالم یہ ہے کہ امت کا سب کچھ اغیار پر آج حلال ہو چکا۔
تو کیا اس نئے اسلامی سال
کے نقطۂ آغاز پر یہ امت ایک بار پھر سے اس ہجرت کو دہرا بھی سکتی ہے؟ تجدید عہد
اور تحدیث عزم کا ارادہ باندھ بھی سکتی ہے؟ کیا پدرم ما سلطان بود کی روش چھوڑ کے
اور اسلاف کے تذکروں کے سامنے ناسمجھی سے جھومنے کے علاوہ کوئی جاندار کردار پیش
کر بھی سکتی ہے؟ کیا اپنی درخشاں تاریخ کے بیکراں سمندر سے یہ عبرت و سبق کے چند
گھونٹ پینے کا موقع نکال بھی سکتی ہے؟
کیا ہمارے بڑے اور بیٹے،
اس شب بستر ِرسول پر موت کے سائے تلے سوئے شجیع و شجاع سیدنا علیؓ سے نبی کی حرمت
و حمیت پہ مر مٹنے کا سبق سیکھ بھی سکتے ہیں؟
کیا ہماری بناتِ امت سیدہ اسما کی قلیل وسائل کے جمیل استعمال جیسی ذہانت سے نصرت
دین کے لیے کچھ مثبت قدریں مرتب کر بھی سکتی ہیں؟
سال بدلنے سے کیا ہمارے غافلوں کے حال بدل سکتے ہیں؟ ایسے کہ باہم بیٹھ کے وہ حاصل
و وصول کا بھی کچھ حساب لگائیں، کہ آخر ہم میں سے ہر شخص کا اپنے لیے، اپنے اہلِ
خانہ کے لیے اور اس امت کے لیے کیا کنٹری بیوشن ہے؟
ہمارے ہر نئے سال کے
آغاز پر ہجرت کا واقعہ ایک جگمگاتا استعارہ بن کے ہمارے سامنے طلوع ہوتا ہے۔ تاکہ
جو چاہے اس سے اپنا چراغ روشن کر لے اور جو چاہے غفلت کا کمبل اوڑھے پڑا سوتا رہے۔
یہ تدبر کا مقام ہے مگر صرف سوچنے والوں کے لیے۔ ورنہ تو مردِ ناداں پر کلامِ نرم
و نازک بے اثر۔ نادان تو یہ کہہ کر جان چھڑا لیں گے کہ ہجرت تاریخ کا ایک واقعہ
تھی، واقعہ، جو ہوچکا، جو گزر چکا۔ بیتی باتوں کا اب کیا مذکور، رات گئی بات گئی۔
لیکن ہم تو دائم چشمۂ وحی سے اپنے زمانے سیراب کرتے رہیں گے۔ سیرتِ پر انوار کے
قصوں سے ہدایت کی راہیں تراشتے اور تلاشتے رہیں گے۔ ان شاءاللہ، اسی چشمہ صافی سے
ہمارے یقین وایمان کے خشک سوتے پھر سے پھوٹ پڑیں گے۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی
ہوگی۔ یہی فرمان ِ الٰہی بھی ہے۔
''اےنبی! انھیں یہ قصے سنائیے کہ شاید یہ تدبر شعار کرسکیں۔''
اور یہ بھی فرمایا،
''اگر تم خدا کے رسول کی مدد کا بیڑا نہیں اٹھاتے تو نہ اٹھاؤ، خدا تو اس وقت بھی
اپنے نبی کی نصرت فرما چکا کہ جب کفار نے اسے یوں گھر سے نکال دیا تھا کہ وہ محض
دو ہی لوگ تھے ، اور ان دو میں سے دوسرا خدا کا رسول تھا۔ جب وہ غارِ ثور میں پناہ
لیے بیٹھے تھے ،تو اس وقت رسولِ خدا نے اپنے ساتھی سے یہ کہا، غم نہ کرو، خدا
ہمارے ساتھ ہے۔ خدا نے ان پر سکینت و سکون کا نزول فرما دیا۔ پھر نظر نہ آنے والے
لشکروں سے ان کی مدد فرمائی ۔بالآخر کافروں کی بات پست کی اور اللہ ہی کا کلمہ سر
بلند رہنے والا ہے۔ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔''