میرے اسلام
پسندو! پوزیشنیں بانٹ کر کھیلو؛ اور چال لمبی
تحریر: حامد کمال
الدین
یہ درست ہے کہ ہم لوگ جو یہاں کی کسی سیاسی پارٹی میں نہیں،
معاملات پر غیر معمولی کھل کر بولتے ہیں۔ حكمران نون لیگ کے اسلام مخالف اقدامات
پر خاصی خاصی شدت اختیار کر جاتے رہے۔ اور خدا خیر رکھے، اب شاید پی ٹی آئی کی
باری ہو! بےشک ایک توازن قائم رکھنے کی بھی کوشش رہی، جو اپنی جگہ ضروری ہے۔ یعنی
ان پارٹیوں کے کچھ اسلام دوست اقدامات کی کھل کر تعریف و حوصلہ افزائی بھی کرنا۔
مگر چونکہ ایسے اقدامات ان سے کبھی کبھی ہوتے ہیں، لہٰذا مخالفت کا معاملہ ہی غالب
رہا۔ آئندہ بھی، ایسا ہی چلنے کا امکان دکھائی دیتا ہے... اور کھیل تو یہ بہر حال
لمبا ہے۔
مگر کیا اُن اسلام پسندوں پر بھی، جو یہاں کی حکمران یا
اپوزیشن پارٹیوں کے اندر موجود ہیں، عین یہی چیز واجب ہے؟ یعنی ویسا ہی شدت اور
مخالفت آمیز رویہ؟ یہاں تک کہ کچھ جذباتی لوگوں کا ہمارے ان دیندار بھائیوں کو ’غیرت‘
دلانا کہ فلاں فلاں اسلام مخالف اقدامات یا پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے فی الفور
اپنی اس پارٹی سے نکل آؤ؟! گویا ان کا اپنی اس پارٹی سے نکل آنا کسی مسئلے کا حل
ہے!!! اس سے اسلام کی کونسی مصلحت بر آئے گی؟ میرے نزدیک، کوئی مصلحت نہیں۔ البتہ
اِن دیوہیکل پارٹیوں کے، دینداروں سے خالی ہو جانے میں اسلام کے کچھ بڑے بڑے
نقصانات ضرور ہیں، جن کا اندازہ کرنا ایک کوتاہ نظر آدمی کے بس کی بات نہیں۔ ہم جو
اِن پارٹیوں سے باہر ہیں، اِن کی بعض حرکتوں پر شدید ترین انداز اختیار کر جاتے
ہیں، اور جوکہ ہمارے حق میں بالکل درست بھی ہے، بلکہ ناگزیر، تو اس کا یہ مطلب
بہرحال نہیں کہ سب اسلام پسندوں کو ملک میں یہی کام کرنا ہے! خوب جان لیجئے، اسلام
پسندوں کے رول اس ملک میں اس سے کہیں زیادہ وسعت کے حامل ہیں۔
حکمران یا اپوزیشن پارٹیوں پر اسلام کے حوالے سے ایک شدید
گرفت کرنا، جو اپنی جگہ مطلوب ہو سکتا ہے، کوئی ایسی پالیسی بہر حال نہ ہونی چاہئے
جو یہاں پر ہر اسلام پسند شخص کےلیے تجویز کی جائے۔ زیادہ تر، یہ ہم جیسے ان اسلام
پسندوں ہی کےلیے موزوں رہے گی جو یہاں کی کسی سیاسی پارٹی میں نہیں۔ ایسوں کو تو
یہ کام کرنا ہی ہے۔ اور قدم قدم پر کرنا ہے۔ بصورتِ دیگر، اسلام کا یہاں خدا حافظ۔
البتہ ہمارے وہ اسلام پسند بھائی جو یہاں کی کسی سیاسی پارٹی میں کوئی سرگرم کردار
یا کوئی مؤثر پوزیشن رکھتے ہیں، اُن کو اپنے ایک خاص طریقے سے ہی اِن پارٹیوں کے
ساتھ چلنا ہے، اور ظاہر ہے اِن کی تمام تر غیر اسلامی پالیسیوں یا اقدامات کے
باوجود۔ جی ہاں آپ نے بالکل درست سنا، اِن پارٹیوں کی تمام تر غیر اسلامی پالیسیوں
اور اقدامات کے باوجود اُنہیں اِن پارٹیوں کے ساتھ چلنا ہے۔ اور اِس صبر کے بغیر
چارہ نہیں۔ خود ہمیں ہی اپنے ان بھائیوں کو اس پر چھوٹ دینی ہو گی۔ (دوسری جانب اُن
کو بھی اپنی پارٹی اور لیڈر پر ہماری کسی اسلامی تنقید کو ’برداشت‘ کرنا یا کم از
کم بھی اس پر ہمیں ’طرح‘ دینی ہو گی)۔ یعنی ایک کام اِس ملک میں ہمارے کرنے کا تھا
جو اُن کو نہیں کرنا۔ جبکہ ایک کام وہ ہے جو اُن کو کرنا ہے اور ہم وہ نہیں کر
سکتے۔ اُن کے، ملکی صورتحال پر اثرانداز ہونے کا بالکل اور تقاضا، اور ہمارے
اثرانداز ہونے کا بالکل اور۔ اِسے ہم کہیں گے: اسلام پسندوں کا ملک میں اپنے رول
تقسیم کر کے چلنا، جو اس وقت ناگزیر ہے۔ یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے، اگرچہ سطحی لوگ
اسے ہماری فکر کا ’تضاد‘ کہیں، کہ ایک چیز جو ایک شخص کے حق میں واجب ہے وہ دوسرے
کے حق میں غیر موزوں کیوں!؟ خوب نوٹ کر لیجئے: یہاں سب اسلام پسندوں کو ایک سی
حکمتِ عملی کے ساتھ ہرگز نہیں چلنا۔ بلکہ اسلام پسندوں کی ہر ہر پاکٹ کو اپنی الگ
الگ لائن آف ایکشن رکھنی ہے۔ ہر پاکٹ نے اپنی اس الگ الگ لائن آف ایکشن سے ہی، جو
ایک دوسرے کے مقابلے پر بہت بہت مختلف ہو سکتی ہے، معاشرے میں اسلام کی ایک
’’مجموعی‘‘ پیش قدمی کی تشکیل کرنی ہے۔ نتیجتاً؛ ایک مسئلہ پر ہو سکتا ہے ملک کے کچھ
اسلام پسندوں کو ایک پارٹی یا ایک لیڈر کے متعلق بالکل چپ رہنا ہو، جبکہ کچھ
دوسروں کو عین اسی پارٹی یا لیڈر کے (ایک غیر اسلامی اقدام) پر شدید لتے لینے ہوں،
اور ایک تیسرے طبقے کو ایک نپا تلا رد عمل دینے سے زیادہ آگے نہ جانا ہو۔ ان تینوں
کی اصل اور مطلق وفاداری چونکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ ہے اور اللہ و رسولؐ
کے سوا کسی کے ساتھ نہیں، لیکن ’’صورتحال‘‘ پر اثرانداز ہونے کا زاویہ ان میں سے
ہر ایک کا الگ الگ ہے، لہٰذا ہر ایک نے اپنے الگ الگ طرز عمل سے ہی ایک ’’مجموعی
سطح پر‘‘ اسلامی ایجنڈا کو ملک میں آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یعنی
مقصد اور ایجنڈا سب کا ایک: اس ملک میں اسلام کو، اِن دا لانگ رَن، برتری دلوانا
اور کفر کو سر نگوں کروانا (کیونکہ ’اِن دا شارٹ رَن‘ یہ کسی مائی کے لعل کےلیے
ممکن ہی نہیں چاہے جو مرضی کر لے)۔ البتہ اس ہدف کو حاصل کرنے کےلیے میدانِ عمل ہر
کسی کا الگ الگ۔ اور ہر میدانِ عمل میں پورا اترنے کا اپنا اپنا تقاضا۔ لہٰذا ایک
ہی نصب العین کی جانب سب کے بڑھنے کے على الرغم، ہر کسی کا رول خاصا خاصا مختلف۔
یہ ایک وِژن ہے جو ہم ایک عرصہ سے اسلامی سیکٹر کے گوش گزار
کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک زمانے سے میں یہ واضح کرنے میں لگا ہوں کہ ’’اسلامی
سیکٹر‘‘ کو اندریں حالات یہاں کی ’مذہبی سیاسی پارٹیوں‘ میں قید سمھجھنا شدید
عاقبت نا اندیشی ہو گا۔ (ان مذہبی سیاسی پارٹیوں کے اپنے ہاتھوں اسلام کا جو کچھ
سنور یا بگڑ رہا ہے، وہ بحث تو فی الحال بالکل ہی الگ ہے، جس کا یہ مقام نہیں)۔ ’’اسلامی
سیکٹر‘‘ البتہ اس سے خاصا وسیع ہے۔ ’مذہبی سیاسی پارٹیوں‘ کو __ فی الوقت __ اس
’’اسلامی سیکٹر‘‘ کا ایک خاصا چھوٹا اور ناقابل ذکر حصہ سمجھیے۔ سیاسی پہلو سے، اسلامی
سیکٹر کو میں اس وقت تین حصوں پر مشتمل دیکھتا ہوں:
1. ایک یہ ’مذہبی سیاسی پارٹیاں‘،
جن کی اپنی ایک افادیت اور ضرورت ہے۔
2.
دوسرا وہ آزاد ٹھیٹ اسلامی عنصر جو یہاں کی کسی بھی مذہبی
یا غیر مذہبی پارٹی میں نہ ہوتے ہوئے، اپنی منبر و محراب کی پوزیشن یا اپنے سماجی
روابط کو کام میں لاتے ہوئے، اور پھر اب سوشل میڈیا سے، سیاست و سماج کے میدان میں
اسلام کی نظریاتی جنگ لڑ رہا ہے؛ اور جو یہاں کی ’مذہبی سیاسی پارٹیوں‘ والی
مجبوریاں نہ رکھنے کی وجہ سے (مانند زرداری اور نواز شریف وغیرہ کا اتحادی ہونا، یا
ان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکان کو ’باقی‘ رکھنا)، یہاں اسلامی مزاحمت کے لہجے
دینے اور مسلم ذہن کو کفر کے خلاف کشمکش کروانے میں، میری نظر میں، یہاں کی ’مذہبی
سیاسی پارٹیوں‘ کی نسبت کامیاب اور مؤثر جا رہا ہے۔
3. تیسرا، وہ ڈھیروں اسلام
پسند افراد جو سیاست کی دنیا میں یہاں کی ’مذہبی سیاسی پارٹیوں‘ کی تنگنائے سے
نکل، اور یہاں کے کھڑے پانیوں سے کنارہ کر، ملک کی مین سٹریم پارٹیوں مانند نون
لیگ اور پی ٹی آئی وغیرہ پلیٹ فارموں سے بحرِ سیاست کے کھلے پانیوں اور طوفانی
موجوں کے ساتھ معاملہ کرنے اور حکومت و اپوزیشن کے اصل رنگوں سے واقفیت پانے لگے۔
سیاست کے اسلامی مقاصد کے ساتھ اِن لوگوں کی وابستگی بھی پچھلے دو طبقوں سے کم کسی
صورت نہیں۔ البتہ میدانِ عمل بےحد مختلف اور پہلے سے نہ چلا ہوا unprecedented۔ (خود یہاں کی
’مذہبی سیاسی پارٹیاں‘ آج سے پچاس سال پیشتر، ’پہلے سے نہ چلا ہوا‘ راستہ ہی تھیں
اور ’اعتراضاتِ شرعیہ‘ کی مسلسل زد میں)۔ البتہ یہ یکسر نئی چیز اپنے اسلامی مقاصد
کو خاص اپنے زاویہ سے اچیو achieve کرنے کے معاملہ میں، نیز یہاں پر
پیش آمدہ مخصوص قسم کی مجبوریوں کے ساتھ درست انداز سے پورا اترنے کے معاملہ میں، جس
دینی راہنمائی کی ضرورت مند تھی، وہ ذرا کم دستیاب ہونے کے باعث... ’’اسلامی
سیکٹر‘‘ کا یہ حصہ کچھ مخصوص مسائل کا شکار ہے۔ (سب سے بڑھ کر یہ دھڑکا کہ کہیں
کوئی غیر شرعی کام تو نہیں کر رہے؛ خصوصاً جبکہ ’فتویٰ‘ کا ہتھیار کچھ دوسرے طبقوں
کے پاس ہے؛ اور بےدریغ استعمال ہوتا ہے!)۔ اس طبقہ کو تسلی دلانے کی بےحد ضرورت ہے
کہ یہ حضرات اندریں حالات ایک نہایت خوب پیش رفت ہیں اور یہ کہ بہت سے معاملات میں
اپنی پارٹی یا لیڈر کی کسی اسلام مخالف حرکت پر خاموش تک رہ لینے کا آپشن جو اِن
کو شریعت کی جانب سے پوری طرح حاصل ہے (جس کی شرعی بنیاد ہم ذرا آگے چل کر واضح
کریں گے) ان کے حق میں کوئی ایسی غلط بات نہیں؛ بلکہ کسی وقت مطلوب ہو سکتا ہے۔ اس
کے علاوہ، دینداروں کی پیش قدمی کے اِس (نئے) میدان سے متعلقہ کچھ شرعی ضوابط، جس
سے یہاں اِن کا پیش قدمی کرنا دین اور امت کی ایک خدمت ہی بنے نہ کہ نرے پرے ایک ’سیاسی
شوق‘ کی تسکین... یہ سب تشنۂ وضاحت ہے، جس پر ہم بھی کچھ قلم اٹھانے کا ارادہ
رکھتے ہیں۔ فی الحال یہی واضح کر دینا کم نہیں کہ دین سے محبت رکھنے والے ان
باصلاحیت لوگوں کا پی ٹی آئی اور نون لیگ وغیرہ پلیٹ فارموں سے سیاست میں آنا
اندریں حالات نہ صرف ’خلافِ شریعت‘ نہیں بلکہ یہ شریعت کی مدد کا ایک بہت بڑا زینہ
ثابت ہو سکتا ہے۔ (پیش ازیں اپنے
ایک مضمون میں ہم اس پر معاصر اہل علم سے کچھ مؤیدات پیش کر چکے ہیں)۔
حالیہ مضمون میں صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ان تینوں
(دین پسند) طبقوں کو سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کی نسبت کسی قدر مختلف کردار
ادا کرنا ہے۔ لہٰذا ایک ہی چیز ان میں سے ایک طبقہ کےلیے اگر واجب کی حیثیت رکھے، تو
ہو سکتا ہے وہ کسی دوسرے طبقے کےلیے ممنوعہ کے حکم میں آئے۔
بنا بریں... ان میں سے ایک اسلامی طبقے کا کسی وقت دوسرے
اسلامی طبقے پر چڑھائی کرنا کہ جو کام ’’میں‘‘ کر رہا ہوں وہ ’’دوسرا‘‘ کیوں نہیں
کر رہا، بہت بڑی نادانی اور کھیل کی نزاکتوں سے ناواقفیت کی دلیل ہو گی۔
اب مثال کے طور پر کل کے (ایک قادیانی مشیر کی تعیناتی
والے) واقعہ کے حوالے سے:
· پیچھے ہماری ذکر کردہ ترتیب
میں دوسرے طبقے (پارٹیوں سے باہر) کے ایک دیندار شخص کو تو حکمران پارٹی کے
کارپردازوں پر ایک شدید ترین چڑھائی کرنی ہی تھی، سو وہ ہم نے حسب توفیق کی۔ یہاں؛
پی ٹی آئی میں موجود خدا و رسولؐ سے وفادار طبقوں سے البتہ ہمیں یہ بالکل توقع نہ
کرنی چاہئے کہ پی ٹی آئی قیادت پر ہماری اس بمباری میں وہ بھی برابر کے شریک ہو
جائیں۔ اور اگر ہم ان سے یہ تقاضا کریں تو یہ ہماری ناپختگی اور اِس کھیل سے
ناواقفیت کی دلیل ہو گی۔ پی ٹی آئی میں موجود اسلام سے مخلص لوگوں سے ہمیں بس اس
قدر توقع کرنا ہو گی کہ وہ ہمیں اِس تنقید پر ’برداشت‘ کریں۔ ہاں اپنی پارٹی کے
اندر جہاں جہاں وہ اس قادیانی مشیر کی تعیناتی کے خلاف رائے دے سکتے ہوں اور جتنا
جتنا اس معاملہ میں وہ اپنے پارٹی فیصلہ پر اثرانداز ہو سکتے ہوں، جذباتیت سے دور،
ایک وسیع تر لائحۂ عمل کے اندر رہتے ہوئے، وہ بس اسی حد تک اثرانداز ہوں۔ اور جہاں
وہ پارٹی فیصلہ پر اثرانداز نہیں ہو سکتے، وہاں ہمارے ان بھائیوں پر کوئی ذمہ داری
نہیں۔ اور نہ ان شاء اللہ کوئی ملامت۔ رہ گیا یہ کہ یہ خود اس کے خلاف کیوں شدت کے
ساتھ نہیں بول رہے، آخر ان کی پارٹی کا وہ ایک سراسر غیر اسلامی اقدام نہیں؟ تو اس
کا جواب یہ ہے کہ ایسے کسی اقدام پر ’’انکار على المنکر‘‘، یعنی اس کے خلاف آواز
اٹھانا، بےشک فرض ہے مگر شرعی تاصیل کی رُو سے یہ فرض کی وہ قسم ہے جسے ’’فرضِ
کفایہ‘‘ کہتے ہیں؛ نہ کہ فرضِ عین جسے ہر آدمی خود ہی ادا کرے تو وہ اس کی طرف سے
ادا ہو۔ فرضِ کفایہ، یعنی اگر ہم (پارٹیوں سے باہر آزاد اسلامی آواز) یہ فرض ادا
کر دیں تو ہمارے ان بھائیوں (پی ٹی آئی میں موجود خدا و رسولؐ کے وفاداروں) کی
جانب سے بھی وہ ادا سمجھا جائے۔ سو ہمارا اس پر آواز اٹھا لینا ہمارے ان بھائیوں کو
بھی کفایت کر جائے گا۔
· دوسری جانب، ہمارے ان
بھائیوں کو جو اس پر ایک درجہ خاموش رہنے کی گنجائش حاصل ہے (اور جس کی اوپر وضاحت
ہوئی)، اس لیے کہ پارٹی میں اپنا ایک اچھا مقام بنانا خاص ان کے حق میں ایک زیادہ
بڑی ترجیح ہونی چاہئے، اور ایسا کر کے ہی ایک آدمی کسی دن پارٹی فیصلوں پر
اثرانداز ہونے کی ایک بہتر پوزیشن میں آ سکتا ہے... تو ایسا کرنے کے ہمارے یہ
بھائی نہ صرف مجاز ہوں گے، بلکہ ان کے حق میں یہ ضروری ہو گا۔ البتہ یہ صرف ان کے
حق میں ہی ضروری ہو گا نہ کہ ہم سب کے حق میں! چنانچہ جہاں ہمارے (پارٹیوں سے باہر
اسلامی آواز) طبقوں کےلیے یہ درست نہیں کہ اپنے ان بھائیوں (پارٹیوں کے اندر اللہ
و رسولؐ سے وفادار طبقوں) کو خود اپنے والے کام (ان کی پارٹی کے غیراسلامی فیصلوں
پر کھلی ’بمباری‘) کا پابند کرتے پھریں یا پبلک میں ان کے اس پر خاموشی اختیار کر
رکھنے پر انہیں ’’غیرت‘‘ کے طعنے دینے چل دیں... ہمارے حق میں اگر یہ بات درست
نہیں تو ان کےلیے بھی یہ یات درست نہ ہو گی کہ ہم ایسے (پارٹی سے باہر اسلامی
آواز) طبقوں کو اپنی قیادت کی مجبوریاں سمجھانے کی کوئی مہم اِس موقع پر چلائیں یا
ہمیں اپنی قیادت کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر کرنے کی سعی کریں۔
قصہ کوتاہ... جب یہ طے ہے کہ اسلامی کاز کو ملک میں راستے
دلوانے کےلیے ہر ایک کے ’’کرنے کا کام‘‘ الگ ہے، تو پھر ہمیں ہمارے حصے کا کام
درست طور پر کرتا دیکھ کر ہمارے ان بھائیوں کو دلی خوشی ہونی چاہئے (بلکہ اگر اللہ
و رسولؐ سے وفاداری ان کے ہاں پورے طور پر موجود ہے، تو ہمیں اپنے حصے کا کام کرنے
میں سُست یا کوتاہ پا کر انہیں دلی طور پر ملول ہونا چاہئے)۔ دوسری جانب، ہمیں اس
پر دلی خوشی ہونی چاہیے کہ ہمارے کچھ دین پسند بھائی اپنے دائرے میں کامیاب، اور
خود اپنی پارٹی میں اونچی سے اونچی پوزیشن پاتے چلے جا رہے ہیں، جس سے اسلام کے
کچھ اہداف ملک میں زیادہ بہتر طور پر حاصل ہونے کی آس بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
یہ ہوا ’’فرضِ کفایہ‘‘ کا تصور، جو دین میں بےشمار ہیں۔ امت
کے مختلف طبقوں کا کچھ بھاری بھاری پتھر آپس میں بانٹ لینا۔ ایک اپنے کام سے عہدہ
برآ ہوا تو دوسرے کے سر سے بھی گویا وہ دین کا ایک فرض اتر گیا۔ اور دوسرے نے اپنے
میدان میں کچھ پیش رفت کر لی تو پہلے کے حق میں بھی وہ ایک ’’بریک تھرُو‘‘ ہوا۔ یہ
اُس کا محسن، وہ اِس کا۔ یہ اُس کا خیرخواہ،
وہ اِس کا۔ یہ اُس کی جانب سے ایک فرض ادا کرنے میں لگا ہے اور وہ اِس کی
جانب سے۔ ’’علیکم بالجماعۃ، وإیاکم والفرقۃ‘‘۔ یہ ہوا فی الحقیقت ’’جماعت‘‘ ہونا۔
اللہ و رسولؐ کے وفاداروں کا، بہت بہت مختلف میدانِ عمل رکھتے ہوئے، وسیع تر معنیٰ
میں ایک ہی قافلہ اور ایک ہی منزل کے راہ رَو ہونا۔ ’’واجباتِ کفائیہ‘‘ کے یہ
متنوع دائرے ہی یوں ایک سطح پر جا کر آپ کو مکمل کرتے ہیں، بشرطیکہ بیچ کے یہ مراحل
آپ ایک دوسرے کو لعن طعن میں نہ گزار دیں!
اس سلسلہ میں ایک آخری بات۔ ’’جماعۃ المسلمین‘‘ اور اس کو
درپیش اہداف کے اِس وسیع تر تصور سے چونکہ یہاں کے بہت سے دردمند فی الوقت نا آشنا
ہیں، لہٰذا بہت سے ایکسیڈنٹ یہاں جگہ جگہ ہوں گے... تاوقتیکہ ’’جماعۃ المسلمین‘‘
کی وہ اصل فقہ، جسے ’تنظیموں‘ کے اندر کسی قدر گم کر دیا گیا ہے، پوری طرح عام نہ
کر لی جائے۔ فی الحال البتہ ڈھیروں حادثات اور ناگہانی واقعات کا امکان مانیے۔
یہاں؛ ایک دوسرے کو ڈھیروں عذر دینے کی ضرورت ہے۔ وہ آپ کو عذر دے نہ دے، آپ اُسے
دیں۔ جس جس کو معاملے کی جتنی سمجھ ہے اس کو اپنے ایک دین پسند بھائی کےلیے اتنا
ہی کھلا ظرف رکھنے کی ضرورت ہے۔ "التمس لأخيك عذراً" کی اتنی ہی مشق۔
پھر... اس بات کا امکان بھی بہرحال موجود ہے کہ ایک دین
پسند نے اپنی پیش قدمی کےلیے جو میدان چنا، اس میں وہ کچھ شدید بےقاعدگیوں اور کچھ
شرعی بےضابطگیوں کا مرتکب ہو۔ یعنی خود اپنے میدانِ عمل میں بھی وہ کہیں پر غلط چل
گیا؛ اُسے وہاں جو نہیں کرنا چاہئے وہ کر بیٹھا اور اسے جہاں تک نہیں جانا چاہئے
تھا وہ اُس دائرے میں جا گھسا۔ تاہم اس کی
زندگی کی عمومی شہادت آپ کے سامنے یہی ہے کہ یہ شخص اللہ و رسولؐ کےلیے غیرت کھانے
والوں میں آتا ہے۔ ایسے شخص کی غلطی کتنی بھی بڑی ہو، بس ایک بات ہر دم مد نظر رہے:
آپ کی ’’بمباری‘‘ مخالف فریق کے صرف اور صرف اسلام بیزار عنصر پر ہی ہونی چاہئے۔ رہا
اُس فریق کا کوئی اللہ و رسولؐ سے محبت کرنے والا عنصر، تو چاہے وہ اپنے میدان میں
کوئی کتنی ہی غلط چال کیوں نہ چل گیا ہو، یا کسی جذباتیت میں آ کر، یا اپنی صوابدید
میں ٹھوکر کھا کر، کیسا ہی خبط کیوں نہ مار بیٹھا ہو، پھر بھی آپ کی توپوں کا رخ
اپنے اس دیندار بھائی کی طرف ہرگز نہیں ہونا چاہئے، بلکہ ان طبقوں ہی کی طرف رہنا
چاہئے جو اپنی سوچوں اور اپنے فیصلوں میں اصولی طور پر شریعت کی مرکزیت پر کھڑے
ہوئے نہیں۔ رہا یہ کہ ایک شخص اپنی سوچوں اور اپنے خیالات اور اپنے فیصلوں میں اصولی
حوالے سے شریعت ہی کو مرکزیت دیتا ہے، تو عملاً وہ اپنے اختیار کردہ راستے میں
خواہ کیسا ہی غلط کر گیا ہو، آپ کی اصل ترجیح اپنے اُس بھائی کو گرانا نہ ہو۔
خصوصاً جبکہ ’گرانے‘ کا شوق آپ ان ہزاروں لوگوں کے ساتھ پورا کر سکتے ہیں جنہوں نے
شریعت کی اصولی پابندی کا قلادہ سرے سے نہیں پہن رکھا۔ اصل لتے لیں تو بس ایسے ہی
لوگوں کے۔ یقین کریں ایسے لوگ اس ملک میں اتنے ہیں کہ ان کے تعاقب میں آپ کی پوری
زندگی گزر سکتی ہے؛ دینداروں کی باری آخر تک آنے والی نہیں، تا وقتیکہ آپ دین
دشمنوں کو چھوڑ کر دین دوستوں کو پکڑنے کا ’منہج‘ اختیار نہ کر لیں۔ اپنے دین سے
محبت رکھنے والے بھائیوں کو ان کی تمام تر غلطیوں اور زیادتیوں کے باوجود عذر دینا
سیکھیے۔ انہیں سمجھانا (نہ کہ گرانا) ضروری ہو گیا ہو تو کوشش کر لیں ’’پبلک‘‘ سے
نکل کر اس کی کوئی صورت ہو، اور اگر پبلک میں ہی ناگزیر ہو تو ممکنہ حد تک اشارے
کنائے میں۔
آپ کو معلوم ہے، یہاں ہر مذہبی و غیر مذہبی پارٹی ہی کے ’’اسلام
پسند‘‘ خدا کے دشمن سیکولروں کے مسلسل نشانے پر رہتے ہیں۔ آپ کے یہ دیندار اسلام
پسند بھائی اپنی کسی غلطی، یا نادانی، یا جذباتیت، یا کوتاہ نظری، یا زیادتی کی
وجہ سے اب اگر آپ دینداروں کے نشانے پر بھی آ جاتے ہیں، تو یہ اپنے ایک بھائی کے
خلاف اسلام دشمنوں کا کام آسان کرنے کے مترادف ہو گا۔
برادرم اوریا مقبول جان کے بعض مواقف مجھے بھی کھٹکتے ہوں
گے، ان کی کوئی توجیہ میں بھی شاید نہ پا
سکوں... لیکن اپنی ’ضرباتِ حق‘ کا زور دکھانے کا اگر مجھے کوئی غیر معمولی شوق ہے
تو اس کےلیے کیا واقعتاً یہاں مجھے کوئی دشمنِ دین میسر نہیں؟ ایسی توانائی آپ کو
کچھ زیادہ میسر آ گئی ہے تو اسے نکالنے کی لاکھ جگہیں ہیں، دوستو! اللہ و رسولؐ سے
محبت کرنے والوں کے ساتھ محبت کرنا سیکھیے اور ان کی حرمت کو مانیے۔
فَإنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأمْوَالَكُمْ، وَأعْرَاضَكُمْ، حَرَامٌ
عَلَيْكُمْ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، وَشَهْرِكُمْ هَذَا، وَبَلَدِكُمْ هَذَا.
ہمیشہ ذہن میں رکھیے، اہل سنت اپنی ضرب کےلیے زیادہ سے
زیادہ ’’اسلام سے دُور‘‘ کا ہدف چنتے ہیں؛ اور ’’گرے ایریاز‘‘ سے سب سے بڑھ کر
بھاگنے والے۔ جبکہ خوارج ’ذہنیت‘ یہ کہ کوئی دین سے جتنا قریب ہوا اُس کا سر کچل
کر آپ نے اتنا زیادہ مزہ لیا اور عند اللہ ماجور ہونے کی اتنی ہی آس رکھی۔ انجام
یہ کہ اللہ و رسولؐ سے محبت کرنے والوں کا گھر ڈھانا آپ کی سب سے بڑی ترجیح! اس
’اصل فرض‘ سے فراغت ملے تو دین دشمنوں کی بھی کچھ خبر لی جائے! دل کا ٹیڑھ اِس
خوارج ذہنیت پر ختم ہے، اوپر سے خدا کو پانے کی امید! خدا ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
ربنا لا تُزغ قلوبنا بعد إذ ھدیتنا۔
*****
اس موضوع سے متعلق ایک پہلو اس سے پہلے میں اپنی ایک تحریری
سیریز میں بیان کر چکا ہے، جس کےلیے اس لنک
سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔