’’سلفیوں‘‘ کے ساتھ تھوڑی زیادتی ہو رہی ہے!
|
:عنوان |
|
|
یہ درست نہیں کہ مصر یا عالمِ عرب کی سلفیت کو "حزب النور" میں محصور کیا جائے یا "حزب النور" کو بار بار "سلفیت" کے نمائندہ چہرے کے طور پر پیش کر کے یہاں کے تحریکی حلقوں کے مابین ایک مخصوص منافرت کو ہوا دی جائے |
|
|
’’سلفیوں‘‘ کے ساتھ تھوڑی زیادتی ہو رہی ہے!
عرب داعی محترم ابو
بصیر طرطوسی کے ساتھ بہت معاملات میں ہمیں اختلاف ہو سکتا ہے، گو اب ایک عرصہ سے
وہ ہمارے دیکھنے میں شدت کی جانب پُشت اور اعتدال کی جانب رُخ فرما چکے ہیں (یاد
رہے، کسی زمانے میں انہوں نے شیخ یوسف قرضاوی حفظہ اللہ کی تکفیر کر ڈالی تھی اور
ہم نے ایقاظ 2008 اور 2009 کے شماروں میں اپنے بعض معترضین کے جواب میں طرطوسی
صاحب کے اس فتوائے تکفیر کا اِبطال کیا تھا)۔ تاہم اب محسوس ہوتا ہے، انہوں نے
’’السلفیۃ الجہادیۃ‘‘ کے ایک معتد بہٖ طبقے کو جناب عصام برقاوی (ابو محمد مقدسی)
کے شدت پسند بیانیہ سے ہٹا کر جمہور علمائے سنت کے جہادی و سیاسیی بیانیہ کی جانب
لوٹانے اور یوں امت کے جہادی سفر کو پری۔القاعدہ موڈ (pre-alqaida mode)
یعنی عبد اللہ عزامؒ والی معتدل و قابل عمل راہ پر واپس لےجانے میں کسی قدر مؤثر، واضح اور دبنگ کردار ادا کرنے
کا بیڑا اٹھایا ہے اور امید ہے کچھ ہی دیر میں اس کے مثبت و نمایاں اثرات ہماری
جہادی دنیا پر دیکھے جانے والے ہیں۔
آج
سے چھ سال پیشتر، حسنی مبارک کے سقوط کے بعد، جب مصر میں اپنی نوعیت کے پہلے عام
انتخابات ہونے جا رہے تھے، تو انہی جناب ابو بصیر طرطوسی نے، اپنے ’’السلفیۃ الجہادیۃ‘‘
کی نسبت سے پہچانے جانے والے معروف مواقف سے ہٹنے کا پہلا بڑا مظاہرہ کرتے ہوئے،
وہاں کے ایک صدارتی امیدوار جناب حازم صلاح ابو اسماعیل کو ’’ووٹ‘‘ ڈالنے کےلیے
مصر کے تمام دیندار حلقوں سے اپیلِ عام کی تھی۔ معلوم رہے، حازم صلاح ابو اسماعیل
مصر کی ایک پختہ کار سلفی قیادت ہیں، اور ہماری نظر میں مصر کے اندر سلفیت کے صحیح
ترجمانوں میں شمار ہونے کے لائق ایک قابل و باصلاحیت شخصیت۔ گو مصری الیکشن کمیشن
نے ان کی والدہ یا شاید بھائی کے پاس امریکی پاسپورٹ ہونے کے حوالے سے کچھ
اعتراضات لگا کر ابو اسماعیل کو الیکشن لڑنے سے روک دیا تھا، جس کے بعد الاخوان
المسلمون محمد مرسی کو اسلامی سٹریٹ کے پاپولر صدارتی امیدوار کے طور پر لے آئے۔
یہاں جو بات واضح کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ جناب صلاح ابو اسماعیل ایک شاندار مواقف
رکھنے والی انڈی پنڈنٹ سلفی شخصیت ہیں اور ملک کے تمام دینی حلقوں میں یکساں قابلِ
احترام۔ آپ کا وہاں کی بدنامِ زمانہ مواقف کی حامل ’’حزب النور‘‘ سے کوئی تعلق تھا
اور نہ ہے۔ جناب ابو بصیر طرطوسی سمیت ہمارے عالم عرب کے تمام انڈی پنڈنٹ (سلاطین
سے دور اور کسی قدر ان کے زیر عتاب رہنے والے) سلفی حلقوں نے مصر میں جن
’’سلفیوں‘‘ کی بھرپور تائید کی تھی اور اب تک کر رہے ہیں وہ عمومی طور پر شیخ صلاح
ابو اسماعیل کا حلقہ تھا نہ کہ حزب النور۔ یہ صلاح ابو اسماعیل وہ حق پرست شخصیت ہیں
جنہیں مصر کی فوجی جنتا نے مرسی کا تختہ الٹنے سے بھی چند رات پہلے گرفتار کر لیا
تھا (جبکہ اس ’کُو‘ میں حزب النور کا شرمناک کردار سب کو معلوم ہے)۔ عدالت میں ان
کو پیشی پر لایا گیا تو یہ عدالتی کارروائی کے دوران یہ کہتے ہوئے کہ انہیں یہاں
سے انصاف ملنے کی توقع نہیں، جج کی طرف پشت کر کے لاپروائی سے اخبار پڑھتے رہے،
جسے توہینِ عدالت قرار دے کر جج نے موقع پر انہیں ایک سال با مشقت قید سنائی۔ بعد
ازاں مزید پانچ سال قید دی گئی۔ خدا کا یہ شیر آج تک اپنے مواقف پر ڈٹا ہوا زندانِ
مصر میں قید ہے، جس کے باعث پبلک میں اس کا قدر و احترام اور قد کاٹھ پہلے سے بھی
کہیں بڑھ گیا ہے۔
چنانچہ
ایک تو یہ درست نہیں کہ مصر یا عالمِ عرب کی سلفیت کو ’’حزب النور‘‘ میں محصور کیا
جائے یا ’’حزب النور‘‘ کو بار بار ’’سلفیت‘‘ کے نمائندہ چہرے کے طور پر پیش کر کے
یہاں کے تحریکی حلقوں کے مابین ایک مخصوص منافرت کو ہوا دی جائے۔ ہمارے نزدیک یہ
صرف ’’سلفیوں‘‘ کے ساتھ نہیں بلکہ پورے تحریکی عمل کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ (واضح
طور پر، کچھ لوگوں کو یہاں اپنی کدورتیں نبھانے سے غرض ہے۔ اسلام کا تحریکی مفاد
اور مخلص دینی حلقوں کا اتحاد و یکجہتی بھاڑ میں جائے، انہیں اس سے کچھ نہیں)۔
دوسرا، بےشک ابو بصیر طرطوسی صاحب ’’سلفیہ جہادیہ‘‘ کے کئی معرووف مواقف سے ہٹ کر
کچھ نرم و معتدل مواقف کی راہ اختیار کرنے کی جانب مائل ہیں اور اپنی اِس جہت میں
دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں، اور اس لحاظ سے کچھ لوگوں کے زیر عتاب بھی آئے ہوئے
ہیں، پھر بھی ان کی بابت اِن دنوں پھیلائی جانے والی بات کہ وہ مصری الیکشن میں حزب
النور کے سرگرم مؤید رہے ہیں، میری معلومات کی حد تک درست نہیں۔
|
|
|
|
|
|