ہمارے کچھ نوجوان طیب اردگان کے بارے میں عجیب و غریب
الجھن کے شکار ہیں۔ کوئی پوچھ رہا ہے کہ انہوں نے روس کے ساتھ سمجھوتہ کیوں کیا،
اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کیوں قائم کئے، ترکی نیٹو کا ممبر کیوں ہے؟ اور اب
تازہ خبر یہ ہے کہ اسرائیل کے شہر حیفہ میں جنگل میں لگی آگ کو بجھانے میں انہوں
نے مدد دی۔ ویسے بہت سارے مضمرات کے پیش نظر ایک پکے امیر المؤمنین کے لئے بھی
دشمن کے علاقے میں لگی آگ کو بجھانے کے بہت سارے جوازات ممکن ہیں لیکن میں ان پر
کئے گئے دوسرے اعتراضات کو سامنے رکھ کر کچھ گذارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
اس قسم کی الجھن رکھنے والے پرجوش نوجوان پہلے تو
جذباتی انداز میں خواہ مخواہ غلط توقعات وابستہ کر کے انہیں اپنا ہیرو بناتے ہیں
اور پھر توقعات پوری نہ ہونے پر مایوس ہو کر ان کی مخالفت شروع کردیتے ہیں۔ پہلے
ترکی کی صورت حال کوتو سمجھیں اور پھر یہ طئے کریں کہ طیب اردگان صاحب کیا کچھ
کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور کیا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ موجود عالمی سیاسی نظام میں ریاست اور حکومت
ایک ہی شئے نہیں ہے۔ قومی ریاست ایک اجتماعی اکائی ہوتی ہے جس پر براہ راست
بیوروکریسی، عدلیہ، فوج، انتظامیہ، پولیس وغیرہ کا کنٹرول ہوتا ہے۔ ان اداروں کے
افراد اہلیت کی بنیاد پر اور انتخاب کے بغیر نامزد ہوتے ہیں۔ انہیں عوام سے کوئی
ووٹ لینا نہیں ہوتا۔ چونکہ ریاست کی اہل اور قابل افرادی قوت کی ذہنی تربیت تعلیمی
نظام کے ذریعے تشکیل پاتی ہے اس لیے ریاست
کا تعلیمی نظام ان اداروں کی شناخت اور فیبرک کی تشکیل پر دور رس اثر ڈالتا ہے۔
ذرائع ابلاغ بھی اپنے پروپیگنڈے کی قوت کی وجہ سے ریاست پر فوری طور پر اثر انداز
ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک منتخب حکومت اگرچیکہ کافی اہمیت کی حامل ہوتی ہے
لیکن مختصر عرصے میں ریاست کے رخ، پالیسی اور شناخت کو تبدیل کر کے رکھ دے یہ ممکن
نہیں ہوتا۔ یہ کوئی بادشاہت نہیں ہے جہاں پر بادشاہ کے ایک حکم پر سب کچھ ہوجائے۔
آج کے دور میں اگر کوئی منتخب حکمران ریاست کی فیبرک کو تبدیل کرنے میں تھوڑی سی
بھی جلد بازی دکھائے تو فوج اس کو اکھاڑ پھینکتی ہے اور عدلیہ سیکولر فوج کے اس
اقدام کو جواز دینے کے لئے تیار رہتی ہے۔ اسی بات کو سامنے رکھ کر آپ الجیریا اور
مصر اور پھر حالیہ تناظر میں ترکی کو دیکھ سکتے ہیں۔
آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ ترکی ایک سیکولر ریاست ہے اور
جبری سیکولرزم کے ساتھ اس کی تین نسلیں گذر چکی ہیں۔
سیکولر ریاست کے حوالے سے اوپر جو تشریح کی گئی ہے اس
سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک سیکولر ریاست میں اسلام پسندوں کے پاس مندرجہ ذیل آپشن
ہوتے ہیں۔
اول: چونکہ آپ سربراہ ہو کر بھی ریاست کو اسلامائز نہیں
کرسکتے اس لئے سیاست میں حصہ نہ لیں۔ اس طرح آپ کفر کے فیصلہ کرنے سے بچ جائیں گے
اور ریاست اپنا کفریہ نظام آرام سے مسلم عوام پر نافذ کرتی رہے گی۔ ایسی صورت میں
یہ ہوسکتا ہے کہ آپ پریشر گروپ کے طور پر کام کریں اور احتجاج وغیرہ سے ریاستی
فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں۔ یا پھر کوئی غیر سیاسی ادارہ بنا کر
معاشعرے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور امید رکھ سکتے ہیں کہ آپ کی یہ خاموش کاوش
کسی دن "ریاست" کی فیبرک تبدیل کردیگی۔
دوم: آپ سیاست میں حصہ لیں اور ریاست کو فی الفور تبدیل
کرنے کی کوشش کریں اور اس بات کا انتظار کریں کہ بین الاقوامی قوتوں کی حمایت سے
فوج اور عدالت مل کر آپ کا تختہ پلٹ دے اور پھر تختہ دار تک پہنچانے کی کوشش کریں۔
اور پھر کوئی دوسرا زندیق حکمران آرام سے آکر عوام پر کفریہ نظام چلاتے رہے۔
سوم: آپ سیاست میں حصہ لیں اور بطور سربراہ مملکت دھیرے
دھیرے فوج، عدلیہ اور انتظامیہ پر اثر انداز ہونا شروع ہوجائیں۔ بین الاقوامی
معاملے میں مسلمانوں کی تھوڑی بہت حمایت کریں لیکن کھل کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے
نجات دہندہ کے طور پر پیش نہ کریں۔ ایسا کرتے ہوئے آپ کو بہت سارے ناجائز بلکہ
حرام بلکہ کفریہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی پاسداری کرنی پڑیگی
اور آپ چاہنے کے باوجود ان معاہدوں اور قوانین کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے۔
اس کے نتیجہ میں آپ کب اسلامی حکومت قائم کر سکتے ہیں اور آیا کر بھی سکتے ہیں یا
نہیں یہ یقینی طور نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اس پوزیشن میں رہتے ہوئے بہت سارے بین
الاقوامی معاملوں میں مسلمانوں کے حق میں اپنا وزن ڈال سکتے ہیں۔
اب ان تین طرز عمل میں کونسا صحیح ہے اس کا فیصلہ آپ
خود کریں۔ طیب ارگان نے تیسرے طرز عمل کو اختیار کیا۔ آپ کو پورا حق ہے کہ آپ ان
سے اختلاف رکھیں اور کھل کا اس کا اظہار کریں۔ لیکن ان کے بارے میں رائے قائم کرتے
ہوئے یا ان سے کسی قسم کی توقع رکھتے ہوئے پوری صورت حال کو سامنے رکھیں۔
یہ تو رہی اس بات کی تشریح کی ایک سیکولر ریاست میں
منتخبہ اسلام پسند حکومت کیا کچھ کر سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ترکی کے عوام کی ایک
تعداد نے اسلامی جذبے کی وجہ سے طیب اردگان کو ووٹ دیا ہو، لیکن اردگان ترکی کے
ہیرو اس لیے ہیں کیوں کہ انہوں نے ترکی کی معاشی ترقی میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔
اس لئے عوام کا اصل ووٹ انہیں معاشی ترقی کے لئے ملا ہے نہ کہ اسلام پسند ہونے کی
وجہ سے۔ اگر ہم یہاں پر بیٹھ کر یہ توقع کریں کہ ارگان کی کسی "اسلام پسندانہ
مہم جوئی" کی وجہ سے اگر ترکی پر بین الاقوامی سطح پر معاشی پابندی پڑی تو
عوام ان کو برداشت کریں گے تو یہ ایک کھلی حماقت ہوگی۔
اب یہی دیکھیں کہ کچھ دنوں پہلے طیب اردگان کی حکومت نے
ایک نیا قانون متعارف کروایا جس پر خواہ مخواہ اتنا اعتراض کیا گیا کہ انہیں یہ
قانون نافذ کرنے سے پہلے واپس لینا پڑا۔
ترکی میں قانونی اعتبار سے
age of consent یا جنسی معاملے میں رضامندی کی عمر
اٹھارہ سال ہے۔ اگر کسی مرد نے اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق قائم
کیا چاہے وہ آپسی رضامندی سے ہو اور چاہے ان کی شادی بھی ہوچکی ہو تو بھی اس کو
ریپ ہی گردانا جاتا ہے۔ لیکن دور دراز کے علاقوں میں جہاں پر لوگوں کو قانون کا
پورا پتہ نہیں ہوتا تو لڑکی کی شادی کم عمری میں بھی ہوجاتی ہے۔ اس میں لڑکی اور
لڑکے کے والدین کی کم علمی کا بھی مسئلہ ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کی
صورت میں معاملہ عدالت میں چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے لڑکا جیل میں ڈال دیا جاتا ہے
جبکہ لڑکے اور لڑکی دونوں کے والدین کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کوئی قانون
توڑا ہے۔ اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی کا بچہ بھی ہوتا اور پھر
بعد میں لڑکا لاعلمی کی وجہ سے پابند سلاسل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے خاندان ٹوٹ
جاتا ہے اور لڑکی کو سب سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے۔ بقول ترکی کے وزیر اعظم کے اس
قانون کا مقصد یہ تھا کہ ایک مختصر عرصے کے لئے اس قانون کو نافذ کر کے جو شادیاں
کم عمری میں ہوچکی ہیں ایک بار ان کو قانونی تحفظ دے دیا جائے اور پھر لوگوں کو کم
عمری کی شادی سے روک دیا جائے۔ اور پھر اس قانون کو معطل کر دیا جائے۔
اب کوئی سمجھدار شخص جو اس قانون کے مضمرات اور مقصد کو
سامنے رکھے گا وہ اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ لیکن ترکی کے لبرلوں نے اور بین
الاقوامی میڈیا نے اس قانون کی اس طرح سے تشہیر کی کہ نئے قانون کے مطابق اگر کوئی
ریپسٹ لڑکی سےشادی کر لے تو ریپسٹ کی سزا معاف کردی جائے گی۔ اتنا دباؤ پڑا کہ
مناسب ہونے کے باجود حکومت کو قانون واپس لینا پڑا۔ بی بی سی اردو کے پروگرام
سیربین میں ایک تبصرہ نگار نے اس قانون کو اس بات سے تعبیر کیا کہ اردگان ترکی کے
قانون کو کچھ نہ کچھ اسلامائز کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس واقعے اور اس پر
مبنی پراپیگنڈے سے ہمیں یہ سمجھ جانا چاہئے کہ ترکی میں ایک لبرل طبقہ اس پر تلا ہوا بیٹھا ہے کہ
اردگان کچھ تو ایسا کریں اور پھر وہ ان کے خلاف ایک احتجاجی تحریک شروع کی جائے۔
تو میرے پرجوش اسلام پسند دوستو، اگر ان مجبوریوں کے
ساتھ آپ کو ارگان قبول نہیں ہیں تو اس بنیاد پر اردگان کی مخالفت کریں کہ انہوں نے
الیکشن لڑ کر ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ لیکن ایک کٹر سیکولر ریاست کے صدر ہونے کے
پیش نظر ان سے غلط توقعات وابستہ نہ رکھیں۔ بار بار مایوسی ہوتی رہے گی۔ ہاں اگر
مجبوری کی وجہ مثالیت پرستی پر سمجھوتہ کر سکتے ہو تو پھر ان کے اقدامات کی تعبیر
ان کی مجبوریوں کے پیش نظر کرو۔