۱۔ جہاد کے لئے ایک منظم حکومت کی شرط جہاد کو معطل کرنے کے برابر ہے۔ اقدامی جہاد کے لئے لازمی طور پر ایک منظم حکومت کی شرط ہے لیکن آپ کے گھر پر حملہ ہونے کی صورت میں ایسی کوئی شرط غلط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کی حکومت ٹوٹ گئی تو جہاد معطل ہوجائے گا۔ بالفاظ دیگر اگر کوئی طاقتور قوت آپ کی حکومت کو ختم کردے تو جہاد ناجائز ہوجاتا ہے۔ اس اصول سے تو دنیا کی ہر بڑی اور ظالم حکومت خوش ہی ہوگی۔ تدبیر، پلاننگ اور حکمت علمی ضرور ہونی چاہئے۔ لیکن اس کے لئے ایسی شرائط کا بیان کرنا دراصل جہاد کو معطل کرنے کے برابر۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا عالم اسلام میں اسلام کی کوئی سیاسی قیادت ہے بھی یا نہیں؟ پوری بات میں ایک چیز کو فرض کو کر لیا گیا ہے کہ بعد از استعماروالی مسلمانوں کی سیاسی لیڈرشپ کو حقیقی لیڈرشپ مانا جائے۔ اس پوری جہادی تحریک کے تحت تو سب سے بڑا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ عالم اسلام کے پاس اس وقت قیادت ہی نہیں ہے۔ یہ تو کچھ چہرے ہیں جو استعمار کا ہی تسلسل ہیں۔ آپ عالم اسلام کی پچھلی ساٹھ ستر سال کی تاریخ دیکھیں، جہاں پر بھی اسی استعماری اقتدار کے تسلسل کو توڑنے کی کوشش کی گئی وہاں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ موجودہ صورت حال کو ہم ایسے دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاس قیادت ہے نہیں۔ اور کہیں پر قیادت قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو دہشت گرد اور بنیاد پرست قرار دے کے انہیں قتل کردیا جاتا ہے۔ بنیادی بحث ہی یہ ہونی چاہئے کہ اگر عالم اسلام کی کوئی حقیقی سیاسی قیادت ہے نہیں تو کیا کیا جائے؟
یہ حقیقی قیادت تو جہاد کے ذریعے سے ہی وجود میں آئے گی!
۲۔ اخلاقی مزاحمت۔ غامدی صاحب نے جہادی تحریکوں کو چھوڑکر اخلاقی مزاحمت کی وکالت کی ہے۔ یہ بات ایک مفروضےکے طور پر بیان ہوئی ہے کہ دنیا کی حکومتیں اپنے آپ کو کسی قسم کے اخلاقی اصولوں کا پابند مانتی ہیں۔ ۔ دنیا کی بڑی قومیں صرف اپنے ملک اور عوام کے معاملے میں کسی اخلاقی اصولوں کو مانتی ہے۔ وہ بھی صرف عوام کے اندر اخلاقی تأثر کو باقی رکھنے کے لئے۔ رہی قومی مفاد کی بات تو یہ قوتیں نہ صرف اپنے آپ کو اخلاقی اعتبار سے مکمل آزاد سمجھتی ہیں بلکہ اس معاملے میں انتہائی بے شرم واقع ہوئی ہیں۔ عراق پر حملے کی خلاف انہیں ممالک میں سب سے بڑے احتجاجی جلوس ہوئے۔ لیکن ان چیزوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ عراق پر حملے کے لئے بش نے جو دو جوازات پیش کئے تھے وہ دونوں غلط ثابت ہوئے اور امریکہ نے اس کا غلط ثابت ہونا تسلیم بھی کرلیا۔ اس کے باوجود امریکی اخلاقی حالت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ بہت سارے امریکی دانشوروں نے امریکی حکومت پر سخت تنقیدیں کیں۔ کوئی فرق پڑا؟ سابقہ امریکی خارجہ سکریٹری میڈیلین البرائٹ کو جب پوچھا گیا کہ عراق پر پابندیوں کی وجہ سے پچاس لاکھ بچے مرگئے تو کیا یہ چیز قابل قبول ہے تو موصوفہ نے کہا کہ ہاں یہ قابل قبول ہے۔
ویتنام پر حملے کے معاملے میں امریکہ پر اندرونی اور بیروبی اعتبار سے سب سے زیادہ دباؤ پڑا۔ اس کے باوجود امریکہ پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ امریکی حکومت پر اخلاقی دباؤ جبھی پڑا جب بکثرت امریکی فوجیوں کے تابوت وہاں پر پہونچنے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی دباؤ بڑی قوموں پر جبھی کام کرتا جب قومی پرچم میں لپیٹے ان کے اپنے بیٹوں کی لاشیں ان کے یہاں پر پہونچنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ مغربی ممالک عالم اسلام کے معاملے میں کسی اخلاقی دباؤ کو محسوس کرتے تو بات یہاں تک آتی ہی نہیں۔ غامدی صاحب نے یہ ایک مفروضہ گھڑا ہے کہ یہ لوگ عالمی اور قومی معاملات میں کسی اخلاقی اصول کے پابند بھی ہیں۔ اگر غامدی صاحب مغرب کے اخلاقی اصولوں کو اتنا ہی مانتے ہیں تو پھر جہاد کے معطل کرانے کی ان کی یہ کوشش کم از کم قابل فہم ضرور ہے۔ ایک غلط مفروضے کی بنیاد پر مسلمانوں کو گمراہ کرنا اتنہائی گمراہ کن ہے۔
اخلاقی اور سیاسی مزاحمت کے معاملے میں بار بار قائد اعظم کی جدوجہد کی مثال دے رہے ہیں۔ لیکن قائد اعظم نے برٹش گورنمنٹ کے خلاف کوئی جد و جہد کی ہی نہیں! مزید یہ ہے کہ جب مجاہدین کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں وہاں پر "دیگر عوامل" کا چکر شروع کردیتے ہیں۔ لیکن جب آزادی اور پاکستان بنانے والے پر امن احتجاج کی کامیابی کی بات ہوتی ہے تو دیگر عوامل غائب ہوجاتے ہیں، جبکہ یہاں دیگر عوامل کے ہونے کا احتمال بہت زیادہ موجود ہے۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے برٹش گورنمنٹ انتہائی کمزور ہوگئی تھی اور اس کے پاس ان ممالک کو سنبھالنے کے وسائل تھے نہیں۔ دوسرے یہ کہ قائد اعظم کی کامیابی کی اصل وجہ ان کا دیندار نہ ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ کم از کم اس معاملے میں برطانیہ کو اس بات کی تسلی تھی کہ قیادت غیر مذہبی قوتوں کے پاس جارہی ہے۔
۳۔ اخلاقی اور سیاسی مزاحمت کرنے کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ آپ مغرب کے اخلاقی اور سیاسی معیارات، جیسے حقوق انسانی، مساوات اور آزادی کے مغربی تصور کو قبول کریں۔ اگر یہی کرنا ہے تو پھر کسی مزاحمت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ آپ نے ویسے ہی مغرب کو قبول کیا ہوا ہے۔ آپ اس جہادی جدوجہد کو اس نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں پر ظلم ہورہا اور ہم اس کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ جبکہ اس کا ایک خالص نظریاتی پہلو ہے۔ مغرب صرف ہتھیاروں کی طاقت نہیں بلکہ اس کی اصل قوت تو اس کے نظریات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے نظریات کو قبول کرنے کے بعد ہمارے پاس مزاحمت کی بنیاد ہی کیا رہ جائے گی؟ اگر مسلمان بھی انسانوں کے اجتماعی معاملے میں دین کو نکال کر مغرب کے سیکولر نظریات کو قبول کریں، تو میں آپ کو پورا یقین دلاتا ہوں کہ ہمیں مزاحمت کی ضرورت قطعی طور پر نہیں پڑے گا۔ فلسطینیوں کے رہنے کے لئے کوئی اور زمین میسر آجائے گی۔
۴۔ غامدی صاحب اپنی بات کی تائید کے لئے نتائج کی مثال دیتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی جہادی تحریکوں کے کسی مثبت نتیجے کی بات کی جاتی ہے تو فوراً بات کو شرعی حکم اور دیگر عوامل کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا تضاد ہے۔ کشمیر میں جب پر امن طور پر سیاسی احتجاج کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلنے کی بات کرتے ہیں تو بات کو شرعی احکامات کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ یعنی نتائج کو دیکھ کر فیصلہ کرنا جبھی صحیح ہے جب وہ غامدی صاحب کی تائید میں ہو۔
۵۔ جمہوریت کی بنا پر زرداری جیسے لیڈروں کو پاکستان کا نمائندہ قرار دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں عوام کے نمائندے کو چننے کے معاملے میں جمہوریت کو ایک اتفاقی اصول کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی مثال ہمیں ملتی نہیں۔ دوسرے یہ کہ زرداری جیسے لیڈروں کا پاکستان کا قائد بننا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس نظام کے تحت گھٹیا سے گھٹیا قسم کا شخص قوم کا نمائندہ بنتا ہے۔ انتخابی نظام میں اتنی خامیاں ہیں کہ اسے مغرب میں بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک سیدھی سی مثال ہے، کیا بغیر پیسے کے ایک اچھا فرد انتخاب جیت سکتا ہے؟؟ اسی طرح سے قومی ریاست کو انسانون کو تقسیم کرنے کی بنیاد تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ نے مغرب کو بطور دین قبول کیا ہوا ہے۔ جب آپ نے دین مغرب کو قبول ہی کیا ہے تو پھر جہاد کا معطل ہونا قابل فہم ہے۔ جب آپ کسی کو نظریاتی اعتبار سے حریف ہی نہیں مانتے تو جہاد کی تائید کیوں کریں گے؟اس ہوری بحث سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ غامدی صاحب نے مغرب کے اس وقت کے گلوبل اخلاقی معیارات کو دلی طور پر قبول کیا ہوا ہے۔ اور وہ یہاں پر اسلام کو مغرب کے نظریاتی اور فکری فریم ورک میں کہیں فٹ کرنے کے چکر میں ہیں۔ ایسی باتیں کہہ کر کچھ کم علموں کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے اور بس۔
۶۔ مادی وسائل حاص کرنے کے لئے وقفے کو بڑھانے کا نکتہ ہے تو بہت ہی جاندار۔ لیکن یہاں پر آپ جن وسائل کی بات کر رہے ہیں وہ سب کے سب مغرب کے پاس ہیں۔ اس کو حاصل کرنے کے لئے آپ کے پاس مضبوط اور آزاد حکومت ہونا چاہئے جو کہ آُپ کے پاس ہے نہیں۔ اور اگر کوئی مغرب سے بے نیاز ہونے کی کوشش کرے تو اس پر پابندیاں اور الزامات لگا کر اسے ختم یا انتہائی کمزور کیا جاتا ہے۔ آ جا کر یہ وقفہ ہی آپ کا "معمول" بن جاتا ہے جو کہ جہاد کے معطل ہونے کا انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ اگر آپ خود سے ان وسائل کو بنانے کی کوشش کریں گے تو بھی آپ ہمیشہ ان سے پیچھے رہیں گے۔ اگر انہیں شبہ بھی ہوا کہ آپ ان سے آگے بڑھ سکتے ہیں تو کسی نہ کسی بہانے ایک اور عراق برپا کیا جاسکتا۔ اور عراق نہیں تو ایران تو آسانی کے ساتھ برپا کیا جاسکتا ہے۔ ہے یا نہیں؟
۷۔ مغربی اخلاقیات کے حوالے سے غامدی صاحب کا یہ کہنا ہے کہ اگر افغانستان یا ایران میں ایک منتخب جمہوری حکومت ہوتی تو وہ وہاں ہر حملہ کرنے کی جرأت ہی نہ کرتا۔ میں اس دلیل کو ویسے تو نہیں مانتا۔ لیکن اگر مان بھی لیا جائے تو اس کو دوسرے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ ایک منتخب حکومت اگر مغربی مفادات کے خلاف جائے تو اس پر اتنی پابندیاں لگائی جاتی ہیں کہ اس کے اپنے ملک کے عوام اور کاروباری لوگ تنگ آجاتے ہیں۔ اور حکومت کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی پالیسی مغرب کے حق میں تبدیل کردے۔ ایران کی مثال سامنے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک منتخب حکومت ہونے کی صورت میں مغرب بغیر جنگ کے اپنا مفاد حاصل کرلیتا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس منتخب حکومت کا تختہ پلٹ دیا جاتا ہے اور اپنی مرضی کا ڈکٹیٹر مسلط کردیا جاتا ہے۔ مصر کی مثال سامنے ہے۔
تو جناب غامدی صاحب نے جو اتنی سمجھداری کی باتیں کی ہیں وہ باتیں انہیں ہی اچھی لگتی ہیں جو کہ پہلے سے ہی ان سے متفق ہیں اور غامدی سے آگے سوچنے کے قابل ہیں نہیں۔ کچھ اور نکات ہیں جس پر لکھنے کے لئے دل کر رہا ہے لیکن میری کاہلی اجازت نہیں دیتی۔ موقعہ ملا تو تو شاید مزید لکھوں اس بارے میں۔
آخر میں ایک نکتہ بالکل ہی واضح ہو۔ میں نے اس تحریر میں کہیں پر بھی جہاد کی تائید میں کچھ نہیں لکھا ہے۔ اور میں نے یہاں پر جہاد کے شرائط بھی نہیں لکھے اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ کونسا جہاد صحیح ہے اور کونسا غلط۔ اس تحریر کے لکھنے کا مقصد یہ تھا ہی نہیں۔ یہ لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ غامدی صاحب نے جو باتیں کی ہیں مجھے اس سے علمی اختلاف ہے۔ اور میں نے بس صرف اس علمی اختلاف کا اظہار کیا ہے۔
ویسے ایک بات اور واضح کردوں کہ موصوف کی کچھ باتیں قابل غور ضرور ہیں۔ لیکن ان کی اہمیت جبھی ہے جب کہ وہ جہاد کے اصولی بنیادوں کو تسلیم کر لیں۔ماخوذ