کشمیر کےلیے چند کلمات
حامد کمال الدین
برصغیر پاک و ہند میں ملتِ شرک کے ساتھ ہمارا ایک سٹرٹیجک معرکہ
آج کشمیر میں لڑا جا رہا ہے۔ دو ملتوں کی یہ صدیوں سے چلی آتی جنگ جو پیچھے ان گنت
موڑ مڑ آئی ہے اور بہت سے عظیم الشان موڑ اللہ کی توفیق سے ابھی اسے مڑنے ہیں، اس
وقت البتہ کشمیر ہی کے موڑ پر کھڑی ’بیداریِ مسلمان‘ کی منتظر ہے۔
یقیناً اللہ کے ہر کام میں حکمت ہے جس کا صحیح علم اُسی کے پاس
ہے؛ ہم بندوں کو اُس کی تقدیر میں خیر کے پہلو تلاش کرنا اور ان میں اپنے کردار کا
تعین کرنا ہوتا ہے۔ یہ ’کشمیر‘ نامی مسئلہ 1947 ہی میں سرے لگ جاتا تو کیا معلوم جنوب
ایشیا میں شرک اور توحید کی یہ جنگ مسلمان
کو آواز دینے میں آج اپنے اِس تہذیبی انحطاط کے وقت کیسی کیسی رکاوٹیں پاتی! برصغیر
کا مسلمان فی الوقت میدانِ عمل میں نظر نہیں آ رہا تو اس کے پیچھے ہمیں لاحق وہ تہذیبی
ضُعف ہی ہے، ورنہ آج جب یہ اپنا ’’غوری‘‘ اور ’’غزنوی‘‘ میدان میں لا چکا
اور ’’تکبیر‘‘ سے موسوم اپنی ایٹمی دفاعی صلاحیت جہان کو دکھا چکا، حق یہ تھا کہ دنیا آج
اِسی کو سنتی، کہ یہ نہتا دنیا پر غالب آتا رہا ہے، مگر بطور مسلمان یہ آج اِس رزم
سے تقریباً روپوش ہے۔ یہ اِس تہذیبی عدم فاعلیت کا شکار آج نہ ہوتا تو دیویوں مورتیوں
کی عبادت کا دین ہندوستان میں اِس اکیسویں صدی کے اندر جس قابل ترس حالت میں ہوتا وہ
تصور کرنے کا ہے۔ پس سب سے مشکل کام آج اس مسلمان کو جگانا اور ایک ’پیچھے سے چلی آتی‘‘
کہانی میں اس کا وہ کھویا ہوا کردار بحال کروانا ہے۔ کشمیریو! ہم تمہارے شکر گزار ہیں
جو اپنی ان بےتحاشا قربانیوں سے تم اس مسلمان کو بیدار کرنے کا ذریعہ بن رہے ہو۔ برصغیر
میں دو ملتوں کی تاریخی آویزش میں اُس ’ڈیڈ لاک‘ کا عنوان بنے ہوئے ہو جو اِس آویزش
کی سب سے صحیح اور سچی حقیقت ہے۔ تم نہ ہوتے تو ’ممبئی‘ کی سکرینوں میں محو اس مسلمان
کو بھلا ہم کیا حوالہ دے کر اٹھاتے اور کس نام سے اس کی غیرت کو جگاتے!
مغربی برصغیر کا ہر مسلمان یہاں اپنےآپ کو کسی قرض کا زیر
بار جانتا ہے تو اُسی ’سن سنتالیس‘ والی کہانی کے حوالے سے جو ’’کشمیر‘‘ کے عنوان سے
ابھی ناتمام چلی آتی ہے۔ پس کچھ بیداری ہے یا اس کا امکان ہے تو کشمیریو تمہارے دم
سے! تصور کرو تم نہ ہوتے تو ’امن کی آشا‘ کے سُروں پر ہم کس بری طرح اپنا آپ
ہارتے! ’بالی وڈ‘ کی دھنیں ہمارے لیے کیسی مست قبریں ہوتیں! اُس کے سستے آلوؤں اور
ٹماٹروں اور اُس کی حدِّنگاہ شوگر منڈیوں پر ہماری کیسی کیسی رال نہ بہتی! یہاں
حمیت کچھ جاگ اٹھتی ہے اور مسلم فاعلیت اپنے تاریخی دھارے کا کچھ پتہ پوچھتی ہے تو
تمہارے بہتے لہو کے معجزے سے! اس کشمیری بیٹی اور بہن کے آنچل پر ہمارے نوجوان
کیوں فدا نہ ہوں جو رشتوں کی ’’اسلامیت‘‘ کا آج واحد حوالہ رہ گیا ہے اور
’’اسلام‘‘ سے بڑھ کر بھلا کیا رشتہ ہے! تم ہمارے محسن اور ہراول ہو اور تمہاری
نصرت ہم پر ایک دیرینہ قرض اور ایک شرعی خدائی عہد؛ جس کےلیے ہم نہ صرف خدا کے آگے
بلکہ تاریخ کی عدالت میں بھی جوابدہ ہیں۔ اس خاص پہلو سے؛ ہمالیہ اور بحیرۂ عرب
کے مابین واقع اِس وسیع و عریض خطے میں اسلامی احیاء کا ایک قومی حوالہ آج صرف اور
صرف ’’کشمیر‘‘ ہے۔ البتہ یہ ایک ایسا احیاء ہے جس کی بیل کسی چھوٹےموٹے عمل سے
منڈھے چڑھنے کی نہیں۔ یہ تکمیل پاتا ہے برصغیر کے اُسی تاریخی ریلے کو بحال کروانے
سے جو اگر لوٹ آتا ہے تو وہ اپنی نہاد میں اس قدر عظیم الشان ہے کہ ’کشمیر‘ کی
حیثیت تب اس کےلیے صرف ایک نقطۂ ابتدا کی ہو سکتی ہے۔ اور کشمیر کےلیے یہ کوئی معمولی
شرف نہیں۔
ایک ایسا ہی دشوار تاریخی مقام جہاں آج ہماری ناؤ جا پھنسی
ہے اس کا نام ’’کشمیر‘‘ ہے، جو اِس پورے خطے میں ’’مسلمان‘‘ کی پیدائشِ نو کی
بنیاد rationale کچھ ایسے دلگداز اور ناگزیر انداز میں پیش کرتا
ہے.. کہ اسے ناں کرنے کی گنجائش ہمارے ایک گناہگار سے
گناہگار شخص کے پاس باقی نہیں رہ گئی ہے۔ سب ایک بات کو سمجھنے لگے ہیں، اور اللہ
کے فضل سے کسی نہ کسی سطح پر اس کےلیے سنجیدہ ہونے بھی جا رہے ہیں، گو اس راہ میں
بڑھنے کےلیے ہر شخص اور ادارے کو اپنی اپنی پوزیشن نگاہ میں رکھنی ہے..
کہ مسئلہ صرف سامنے کھڑے ایک بےرحم دیوہیکل دشمن کا نہیں
بلکہ اس کی پشت پر کھڑی عالمی اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہے جس کے ہاتھ آج مسلم ملکوں کے
گلیوں محلوں اور یہاں کے میڈیا مائیکروفونوں اور تعلیمی نصابوں تک جا پہنچے ہوئے
ہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ ایک ایسی مشکل گھاٹی عبور کرنے کا فوری اور براہِ راست
حوالہ immediate and desperate reference میرے مبارک کشمیری بھائیو
اور بہنو آج تم ہو؛ اور تمہارے سوا کوئی نہیں۔ تم وہ داعیۂ عمل ہو جو بخدا یہاں
بہت سے باہمت نفوس کو ساری ساری رات جگاتا اور بہت سے باعزیمت اداروں، جماعتوں اور
انجمنوں کو شبانہ روز سرگرم رکھتا ہے۔ یقین کرو، یہاں کا کسان اپنی گندم اٹھاتے وقت
’’کشمیر‘‘ کا حصہ نہیں بھولتا اور یہاں کے تاجر نے اپنی دکان کے کسی گوشے میں ’’کشمیر‘‘
کی صندوقچی بالعموم رکھ چھوڑی ہوتی ہے... ان تمام پابندیوں کے باوجود جو ہمارے کلمہ گو حکمرانوں نے اپنی
’بین الاقوامی‘ ذمہ داریوں کے تحت یہاں کے قومی و ایمانی جذبوں پر شدت کے ساتھ عائد
کر رکھی ہیں!
*****
ایک بات کشمیر کی صحوۃ مبارکہ (بابرکت اسلامی بیداری) کےلیے
مجھے ضرور کرنی ہے۔ درون سے ہم پر حملہ آور فتنے اس وقت ایک نہیں دو ہیں: جدت پسند
اور شدت پسند۔ یہ دونوں بھیانک ’’بیانیے‘‘ عالم اسلام میں اپنے وجود کےلیے ایک
دوسرے پر باقاعدہ سہارا کرتے اور اپنی پزیرائی کےلیے ایک دوسرے سے عملاً مدد پاتے
ہیں۔ دونوں کا ’چین ری ایکشن‘ chain
reaction بڑے طریقے سے ایک خطے کی اسلامی بیداری کو تباہ
کرتا ہے۔ یہ جہاں گیا وہاں کی لہلہاتی فصلوں کو اجاڑ آیا۔ داخلی طور پر یہ دونوں
بےشک ہمارے کچھ پرانے عقائدی فتنوں کا احیاء یا تسلسل ہوں، مگر بیرونی سطح پر دشمن
ان دونوں سے اپنے اپنے انداز اور ضرورت کی مدد پانے لگا ہے۔ ان دونوں کا جدل dialect ایسا خوفناک ہے کہ ہم اپنی ایک سائڈ بچاتے بچاتے
دوسری سائڈ تباہی کی زد میں دے بیٹھتے ہیں اور پھر ادھر سے بچتےبچتے اپنی پہلی
سائڈ گنوا بیٹھتے ہیں۔ ایک آپ پر کافر کی تلوار کو وجہِ جواز بخشتا ہے اور دوسرا
مسلمان کے خلاف مسلمان کی تلوار کو بےنیام کرواتا اور اس کےلیے ’علمی بنیادیں‘ فراہم
کرتا ہے۔ اپنی مبارک بیداری کو پس جہاں آپ کو آج کچھ غامدی اور شذوذی افکار سے
بچانا ہے وہاں ٹی ٹی پی اور داعش وغیرہ ایسے رجحانات سے بھی اتنا ہی اس کا تحفظ
کرنا ہے۔ اس ’’وسطیت‘‘ پر رہنے اور فتنے کے ان دونوں رخوں سے بیک وقت دامن کش رہنے
کےلیے بطورِ خاص ان علماء کا دامن تھامنا ضروری ہے جو آپ کو سنت و سلف کے علمی
ورثہ کے ساتھ صحیح معنیٰ میں جوڑ سکیں؛ کہ فہم کا توازن دینا ایسے ہی علماء کے بس
میں ہے، ورنہ آپ کے خطے کا اسلامی عمل ایک پنڈولم بنا افراط اور تفریط کے مابین
ڈولتا رہتا اور ہر دو جانب سے شیطان کو اپنے اندر راستہ دیتا چلا جاتا ہے۔ یہ
دونوں فتنے (جدت پسند و شدت پسند) اپنے اس بنیادی مضمون میں ایک ہیں کہ مذہبی
نوجوان اس وقت امت کے مین اسٹریم علماء سے ایک بڑی سطح پر برگشتہ کروا دیے جائیں،
ہاں پھر جیسے مرضی ان کو خراب کرو! ان دونوں کی مصنوعات، مسلم نوجوان کا علمائےامت
سے ٹانکہ تڑوائے بغیر، نہیں بکنے کی۔ فالحذر الحذر۔
(مقبوضہ کشمیر کے اسیر
عالم ڈاکٹر محمد قاسم کی تالیف ’’غامدی نظریات کا ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ کےلیے
لکھے گئے تقدیمی کلمات سے چند پیرے)