Hamid Kamaluddin
Eeqaz
کلمہ گو تاتاریوں کےساتھ بھی ابن تیمیہ کا قتال بنیادی طور پر انکو"طائفة ممتنعة"کےطور پر لینےکےباب سےرہا ہےنہ کہ انکو’کافر‘قرار دینےکےباب سے۔ پھر وہ بھی"افراد"اور"تنظیموں"کی سطح پر نہیں بلکہ1سرکاری اقدام کےطور پر
شیعہ سنی تصادم میں ابن تیمیہؒ کو ملوث کرنا!
کل ہمارے یہاں ایک ٹویٹ ہوا تھا:
شیعہ سنی تصادم ہر جگہ قابل مذمت ہے۔ البتہ ایک بات پر غور ضروری ہے: خمینی انقلاب سے پہلے کیا آپ کو کہیں بھی ’شیعہ سنی تصادم‘ دکھائی دیا تھا؟ پاکستان میں؟ افغانستان میں؟ عراق میں؟ خلیج میں؟ لبنان میں؟ کہیں بھی؟ اس فتنہ کے ختم ہونے کے بعد بھی ان شاءاللہ یہ کہیں آپ کو دکھائی نہیں دے گا۔
اس پر ایک اعتراض آیا:
ہمارے علماء کرام جن میں شیخ الاسلام سرفہرست ہے، کا کہنا ہے کہ روافض کے خلاف جہاد واجب ہے اور افضل ترین جہاد ہے!!! اور آپ اسے قابل مذمت قرار دے رہے ہیں؟؟؟
ہمارا جواب تھا:
سبحان اللہ! کہاں کہا ہے شیخ الاسلام نے کہ روافض کے خلاف جہاد واجب ہے؟ جہاد بمعنیٰ قتال؟ ابن تیمیہ اہل قبلہ کے مابین خونریزی کے شدید ترین مخالفین میں آتے ہیں، وہ کب ایسے قتال کو واجب ٹھہرانے لگے؟ کوئی حوالہ؟
جس پر اس دوست کا جواب الجواب تھا:
ان کے کفریہ اعتقاد مع شرک اکبر کے بھی یہ اہل قبلہ کیسے؟ حالانکہ انکی تکفیر میں ہمیں سینکڑوں فتاوی ملتے ہیں!!! شیخ الاسلام کی نص ملاحظہ فرمائیں: https://www.sahab.net/forums/index.php… اس پر ہمارا جواب:
ابن تیمیہ کے موقف کی بابت چند باتیں نوٹ فرما لیجئے محترم:
1۔ ابن تیمیہ نے یہ بات روافض کے کسی مخصوص جتھے کی بابت کی ہو تو کی ہو، عمومِ روافض کے متعلق ان کا یہ موقف نہیں۔ ایک الگ تحریر میں ان شاء اللہ یہ بات واضح کی جائے گی۔
2۔ ابن تیمیہ کے ہاں "طائفة ممتنعة" سے قتال کر لیا جاتا ہے، باوجود اس کے کہ اُس (طائفہ) کے عمومی احکام مسلمانوں والے ہی رہیں (وَیَکُونُ الدِّینُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ کے باب سے)۔ یہاں تک کہ اس کی مثالوں میں وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بستی مستقل طور پر اذان چھوڑ جائے، حتی کہ فجر کی سنتیں چھوڑ جائے تو اسلامی حکومت اس کےساتھ قوت استعمال کرے گی۔ (آپ کی ذکر کردہ ابن تیمیہ کی عبارت میں ’’قھر الروافض‘‘ کے لفظ کسی قدر اسی بات پر دلالت کرتے ہیں جو ہمارے یہاں ’’ایک مسلم حکمران کے کسی قانون شکن جماعت کے خلاف قوت استعمال کرنے‘‘ سے تعبیر ہوتی ہے۔
3۔ کلمہ گو تاتاری جتھوں کے ساتھ بھی ابن تیمیہ کا قتال بنیادی طور پر ان کو "طائفة ممتنعة" کے طور پر لینے کے باب سے رہا ہے نہ کہ ان کو ’کافر‘ قرار دینے کے باب سے۔ (آپ کی ذکر کردہ ابن تیمیہ کی عبارت میں تاتاریوں کے خلاف قتال بھی مذکور ہے۔ اس ("قتالُ الطائفةِ الممتنعةِ") کی بنیاد ان کے نزدیک ایک جماعت پر دار الاسلام میں "شریعت کی رِٹ" لاگو کرنا ہے نہ کہ اس کو "کافر" گرداننا۔ دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے۔ اور ان کو خلط کرنے سے ہی آپ کے یہاں تکفیر کے کچھ غیر ضروری مباحث جنم لیتے ہیں)۔
4۔ پھر یہ نوٹ کر لیا جائے کہ "طائفة ممتنعة" (دار الاسلام میں شریعت کی رِٹ سے نکلنے والے ایک گروہ) کے خلاف قوت کا استعمال بھی ابن تیمیہ یہاں کسی "فرد" کو نہیں دے رہے۔ شریعت کے عمومی اصولوں کے تحت، یہ صرف اسلامی حکومت کے ساتھ خاص ہے۔ وہ جب قتال کا عَلَم اٹھائے تو آپ اس کے ہم رکاب ہو سکتے ہیں۔
غرض اس کی درست صورت اسلامی شرعی حکومت کے تحت ہونے والی ایک فوجی کارروائی ہے۔ جبکہ ہمارے اُس ٹویٹ کا موضوع "شیعہ سنی تصادم" تھا جو آپ کو معلوم ہے "افراد" یا "تنظیموں" کی سطح پر ہوتا اور مار دھاڑ کی صورت اختیار کیے رکھتا ہے۔ لہٰذا یہ الگ سے ایک خلط ہے جو ہمارے بہت سے لوگ بڑے آرام سے فرماتے چلے جاتے ہیں۔ نہ جانے ابن تیمیہ کو یہ کہاں کہاں ساتھ لے جانے پر مُصِر ہیں!
*****
غلام یاسین:
حضرت موجودہ دور کے شیعہ کے عقائد اس قابل ہیں کہ انہیں مسلمان شمار کیاجاۓ
اکثم ساریہ:
یا اہل قبلہ شمار کیا جائے ؟
جواب:
یہاں فی الوقت موضوع وہ خونریزی ہے جس کو ابتداءً واجب ٹھہرانے کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ ہم نے اس کا رد کیا ہے۔ رہ گیا یہ کہ ان پر حکم لگانے کی کیا تفصیل ہے، تو اس پر کلام کا ایک علیحدہ محل ہے۔
محمد وسیم:
شيخ اب اگر کسی علاقے میں شیعہ اہل سنہ پر حملہ آور ہوں جائیں اور اہل سنہ کے پاس کوئی حکومت نا ہو تو ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟
دفع الصائل (ایک حملہ آور کی زیادتی کو اپنے سے دفع کرنا) بھی ایک الگ موضوع ہے۔ یہاں اس نظریے کا رد کیا جا رہا جو ایسی کسی خونریزی کو ابتداءً واجب یا مطلوبِ دین ٹھہرانے پر زور صرف کر رہا ہے اور ساتھ میں ابن تیمیہ کا نام استعمال کرتا ہے۔ ہماری تحریر میں ان حضرات کا رد ہوا ہے۔