مذہبی سیاسی جماعتیں: "اتحاد" سے پہلے ایک "مضبوط
کیس" رکھنے کی ضرورت
مذہبی جماعتوں کا سیاسی اتحاد خوش آئند ہے۔ اصولاً، ہونا چاہئے۔ رہ
گیا اس سے کچھ برآمد ہونا، تو وہ ایک الگ بحث ہے۔ خواہش اور
توقع میں فرق ضرور ہے۔ سیاست میں موجود
مذہبی جماعتوں کو اتحاد سے پہلے ایک مضبوط کیس درکار ہے؛ اور وہ میرا خیال ہے اس
وقت ان کے پاس نہیں ہے۔ ابھی میں وضاحت کروں گا، کیسے؟
پچھلے برسوں کے دوران حکمران جماعتوں کا
اتحادی رہ چکا ہونا لازمی طور پر آپ کو ان جماعتوں کی نیک نامی یا بدنامی کا حصہ
دار بناتا ہے۔ پبلک پرسیپشن public perception میں، اس سے مفر نہیں۔ انتخابی اکھاڑے میں اترنے
کےلیے یہاں آپ کے دو ہی نعرے ہو سکتے ہیں: ایک، مذہبی الائنس ہونے کے ناطے
’’اسلام‘‘ کا نعرہ۔ دوسرا، سکہ رائج الوقت ہونے کے ناطے ’’کرپشن و ناانصافی کا خاتمہ‘‘۔
آئیے ان دونوں کا تھوڑا تھوڑا جائزہ لیں:
جہاں تک پہلے نعرے کا تعلق ہے یعنی ’’اسلام‘‘
اور ’’شریعت کا نفاذ‘‘ وغیرہ، تو بےشک اپوزیشن جماعتیں اس معاملہ میں حکمران جماعت
سے زیادہ بدنیت رہی ہوں، لیکن شریعت کو عملداری سے محروم رکھنے کی تیرگی پچھلے
پانچ سال میں برسرِ زمین اگر کسی کے حصے میں آئی رہی تو وہ حکمران جماعت ہی ہے۔ پھر
یہ گزشتہ ٹرم تو خاص طور پر اہم ہے جب لبرل ایجنڈا یہاں کے سرکاری و نجی عمل پر چھاتا
چلا گیا، اور جس کے باعث یہاں کے لبرل ٹولے کو حکومتی شخصیات پر کسی قدر فدا ہوتے
دیکھا گیا۔ زیادہ تفصیل میں نہ بھی جائیں، ایسی مذہبی جماعتیں جو ممتاز قادری کو
پھانسی ہو جانے پر بھی حکمران جماعت کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے عہدِ وفا نبھانے کے
عزم دہراتی چلی آئی ہوں، ان کےلیے یہاں عام آدمی کے ’’مذہبی‘‘ جذبات امڈ آئیں گے، بہت
درست توقع نہیں۔ ’’شریعت‘‘ کے ساتھ حکمران اتحاد کا پورے پانچ سال تک جو رویہ رہا
ہے اُس سے یکسر بیزاری دکھا کر یہ جماعتیں ’’شریعت‘‘ کے نعرہ پر پبلک کو موبلائز
کر لیں گی، زیادہ قرینِ توقع نہیں۔ لگانے کو اگرچہ آپ ’’اسلام‘‘ اور ’’اسلامی
ایشوز‘‘ کا نعرہ لگائیں گے، لیکن فی الواقع یہ لوگوں کو آپ کی مسیحائی کا معتقد کر
لے گا اور وہ اسے دین اور لادینیت کی ایک جنگ کے طور پر لیتے ہوئے تن من دھن کے
ساتھ آپ کے پیچھے آ کھڑے ہوں گے، کسی قدر خام خیالی ہو گی۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ
وہ مذہبی جماعتیں بھی جو گزشتہ ٹرم میں حکمران اتحاد کا حصہ نہیں رہیں، حکمران
اتحاد کا حصہ رہ چکی مذہبی جماعتوں کے ساتھ کھڑی نظر آ کر، اپنے اسلامی نعرے کی
رہی سہی اپیل ختم کر لیں۔ اس لحاظ سے، صحیح قربانی میرے خیال میں اس مذہبی الائینس
کے اندر ان جماعتوں کی ہو گی! یہ پچھلی پوری ٹرم کے دوران اپوزیشن کا کردار ادا
کرتی رہیں لیکن الیکشن آیا تو قیمت البتہ وہ دیں گی جو حکمران پارٹی کے حلیفوں کو دینا
ہوتی ہے! خصوصاً اسلام کے ساتھ سنجیدگی ایسے مسئلہ پر۔ پس اِس ’’اتحاد میں برکت‘‘
جتنی بھی ہے وہ اس اتحاد کی کچھ ہی جماعتوں کے حصے میں آنے والی ہے۔ بطور مجموعی،
یہ الائینس ’’اسلام‘‘ اور ’’شریعت‘‘ کے حوالہ سے عوام میں کچھ خاص اپیل نہ رکھے
گا۔ پانچ سال تک نواز شریف کے ساتھ کھڑی رہنے والی کوئی جماعت ’’اسلام‘‘ اور
’’شریعت‘‘ کا کیس اب زور و شور کے ساتھ عوام میں پیش کرنے لگی ہے، لوگوں کےلیے یہ
کوئی گرمجوشی کی بات شاید نہ ہو۔
اب آ جاتے ہیں آپ کے دوسرے ممکنہ نعرے پر:
’’کرپشن‘‘۔ یہ ایک اچھا نعرہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ آپ لگائیں گے کس کے خلاف؟ ہر
حرام خوری تو ظاہر ہے ’’کرپشن‘‘ نہیں کہلاتی، ورنہ چلیے آپ اپوزیشن پارٹیوں کو بھی
کھنگالتے۔ ’’کرپشن‘‘ اس بلا کا نام ہے جس کا تعلق اختیارات کے ناجائز استعمال سے
ہو۔ ’’اختیارات‘‘ اِن گزرے برسوں کے دوران کس کے پاس رہے ہیں؟ آپ کے اتحادیوں کے
پاس؟ تو ’’کرپشن‘‘ اس دوران اگر تھی تو آپ کہاں تھے؟ اور اگر پچھلی حکومت کرپشن سے
پاک تھی تو اس کا مطلب ہے کرپشن اس وقت پاکستان کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے؛ پھر اس
پر اتنا شور کیوں!؟ اس لحاظ سے، یہ نعرہ بھی اپنے حق میں آپ نے بےجان کر لیا ہوا
ہے، چاہے بجائےخود اس میں کتنی ہی جان ہو۔ پھر بھی اس کی ایک زبردست اپیل دیکھتے
ہوئے ’کرپشن‘ کا نعرہ آپ لگائیں گے ضرور، لیکن یہ بالواسطہ یہاں کسی اور کے بیانیے
کو مضبوط کرے گا؛ اور آپ کے یہ نعرہ لگانے کا فائدہ بھی فی الحقیقت اُسی کو جائے
گا جس کے ہاں گزشتہ برسوں کے دوران ’’حکمرانوں کی کرپشن‘‘ ٹیپ کے مصرعے کی طرح
بیان ہوئی ہے۔ غرض یہ نعرہ بھی اس الائینس کو کوئی بُوسٹ boost دینے والا نہیں۔
باقی کیا بچا جسے آپ لوگوں کو موبلائز کرنے
کےلیے بنیاد بنائیں؟ نہ اسلام کے نعرے پر اب لوگ آپ کو سنجیدہ لینے لگے ہیں اور نہ
کرپشن وغیرہ ایسے ایشوز آپ کے بیانیے پر کچھ بہت زیادہ جچتے ہیں۔ وہی گنی چنی
سیٹیں جو کچھ خاص مذہبی یا مسلکی حوالوں سے، یا کچھ مخصوص علاقوں میں لوگوں کے کام
وغیرہ کروانے کے بل پر، آپ کو ملتی آئی ہیں، یہاں آپ کی کل امید ہو سکتی ہیں۔ کیا
صرف انہیں بچانے کےلیے یہ سب تدبیر ہے؟ اور جو اصل انتخابی معرکہ ہوتا ہے وہ تو
ظاہر ہے اوروں ہی کے مابین ہے!؟
ایک تیسرے نعرے کا بھی جائزہ لیتے چلیں، جسے
شاید نون لیگ سب سے بڑھ کر لگانے والی ہے:
’’جمہوریت‘‘؛ جس کا اصل ترجمہ اِس دی ہوئی صورتحال given
situation میں ’’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ ہے، جبکہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘
یہاں اپنے اُس وسیع تر معنیٰ میں جس کا فور فیس fore-face پچھلے دنوں ’’سپریم کورٹ‘‘ اور اس
کے کچھ معروف فیصلے بنے رہے ہیں۔ مگر کیا آپ واضح ہیں کہ اس مذہبی الائینس کی سب
جماعتیں اپنا بیانیہ ’جمہوریت‘ کے خلاف اُس ’سازش‘ کے گرد اٹھانے لگی ہیں جس کا
فورفیس حالیہ ایام میں ملکی عدالتیں رہی ہیں اور جس کا ’بطلِ عظیم‘ نواز شریف نامی
ایک شخص چلا آتا ہے (پارٹی بھی نہیں، تاحال صرف ایک شخص)؟ اول تو آپ سب جماعتیں
ملکی اداروں کے خلاف ایسے کسی نعرے کی متحمل نہیں۔ اور اگر ہوں بھی، آپ کے حصے میں
’جمہوریت‘ کے اس نعرے کا بھوسہ ہی آنے والا ہے جبکہ اس کے دانے اگر آئے تو وہ
’شہیدِ جمہوریت‘ کے گھر جانے والے ہیں؛ آپ پھر خالی کے خالی۔ اس صورت میں بہتر
ہوتا کہ آپ الیکشن میں بھی کسی نہ کسی طرح ’شہیدِ جمہوریت‘ ہی کے ہمرکاب ہوتے تا
کہ ’دانوں‘ میں سے ہی کچھ حصہ پا سکتے۔ ’بھوسے‘ پر کیا محنت!
غرض ’جمہوریت‘ کا نعرہ سمجھو نواز شریف کا ہو
چکا، خواہ کوئی لگائے اس کی وصولیاں جس قدر ہوئیں اسی کو ہوں گی۔ ’کرپشن‘ کا نعرہ
عمران خان کے نام ہو چکا، خواہ کوئی لگائے اس کا ثمرہ بیشتر اسی کو پہنچنے والا
ہے۔ رہ گیا ’’اسلام‘‘ کا نعرہ جو ویسے آپ کے لگانے کا تھا، تو ایک مخصوص قسم کی
سیاست میں اتنی عمر گزار لینے کے بعد وہ اب آپ کے لگانے کا نہیں رہا۔ یہاں ایک نیا
چہرہ، خادم حسین رضوی، تو گھنٹوں کے اندر دیوانگی کی وہ سب تاریں مذہب کے متوالوں
میں چھیڑ لیتا ہے جن کے وہ ’نظارۂ دیرینہ‘ کے متلاشی منتظر رہے ہیں، لیکن اپنے اس
بھاری بیگیج کے ساتھ جو آپ سیاست میں رکھتے ہیں، وہ تاریں چھیڑنا آپ کے بس میں
نہیں۔
کچھ ان وجوہات کی بنا پر ایسا ہوا ہے... کہ
مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا سن کر اِس بار مجھے کوئی گرمجوشی excitement نہیں ہوئی۔ شاید ان کے اکٹھا نہ
ہونے کی صورت ’’اسلام‘‘ کا کچھ بھرم رہ جائے؛ ہونا تو جو ہے وہ تقریباً معلوم ہے!
ظاہر ہے یہ ایک رائے ہے، احباب یقیناً اس سے مختلف رائے رکھ سکتے ہیں۔
*****
ایک چیز پاکستان کی حالیہ سیاست کے بارے میں
پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ گو اس جانب میں اپنی ایک گزشتہ تحریر ’’آپ فی الوقت ان
دونوں پارٹیوں کے سوتیلے ہیں‘‘ میں کچھ اشارہ کر آیا ہوں۔ مذہبی گیٹ اپ
کے ساتھ سیاست میں آنے کی صورت میں یہاں آپ کے لگانے کا نعرہ ’’اسلام‘‘ ہی ہے اور
’’اسلام‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی ’’اسلام‘‘ کے نام پر ہی آپ یہاں مذہب کے متوالوں
میں ایک (مثبت معنیٰ کی) جنونیت پیدا کریں؛ ’’اسلام‘‘ کی بنیاد پر ہی سٹیٹس-کو
پارٹیوں کے ساتھ آپ ایک ’’رزمیہ‘‘ کھڑا کریں (’’رزمیہ‘‘ کا کچھ مظاہرہ، جیسا کیسا،
آپ کو خادم رضوی صاحب کے حالیہ ایپی سوڈ میں ضرور نظر آیا ہو گا۔ کم از کم اندازہ
ہو گیا ہو گا کہ ’مذہب‘ پر مبنی کچھ شدید اور غیر مفاہمتی لہجے سیاسی طور پر بھی
آپ کےلیے ایک برا آپشن نہیں)۔ معلوم ہونا چاہئے، پاکستانی سیاست میں یہ آسامی اِس
وقت مکمل طور پر خالی ہے (’’اسلام‘‘ کا نعرہ لگا کر سیاست میں آنا)، خواہ اسے کوئی
پُر کر لے، شرط صرف یہ ہے کہ اس کےلیے چہرہ جاندار ہو اور مذہبی جنونیت کے ساتھ
ذرا ایک درجہ مطابقت رکھتا ہو۔ اور قابل ترجیح یہ کہ کسی ایک مسلک کی پوری سٹرینتھ
لے کر آ سکتا ہو۔ ’جمہوریت‘ اور ’کرپشن‘ وغیرہ کےلیے کراہتے دیکھے جانے والے چہرے
البتہ اِس آسامی کےلیے مِس فٹ رہیں گے (کیونکہ مذہب کے متوالوں میں یہ کبھی
پزیرائی نہیں پا سکتے لہٰذا ان پر چیخنا چلانا سیاسی طور پر فضول ہے)۔ یہاں وہ
چہرہ فٹ رہے گا جو صرف مذہبی ایشوز کےلیے درد ظاہر کرتا رہا ہو۔ (مذہبی شخصیات کے
ہاں لوگ اس کے سوا کسی چیز کے متلاشی نہیں؛ یہ ایک واقعہ ہے)۔ غرض ایک ٹھیٹ
غیرمفاہمتی مذہبی نعرے کے ساتھ، سیاست میں کسی قدر کامیابی حاصل کر لینے کا امکان
موجود تو ہے، اگر آپ میں اس کی ہمت ہو۔ اس کے طلبگار، معاشرے میں مفقود بہرحال
نہیں ہیں۔ مذہبی حلیے کے ساتھ سیاست میں جو نعرہ آپ کو سب سے بڑھ کر سوٹ کرتا ہے
وہ ’مذہب‘ ہی ہے (بس ہو وہ مذہب کا ایک دیوانہ وار نعرۂ مستانہ؛ جس کے ساتھ ’جمہوریت
کا درد‘ وغیرہ ایسی کوئی شےء نتھی نہ ہو؛ کیونکہ مذہب کے نام پر دیوانہ ہو سکنے
والے عوامی طبقوں کو فی الحال مذہب کے ساتھ کسی اور چیز کا ٹانکا پسند نہیں ہے،
خواہ یہ حقیقتِ واقعہ آپ کو اچھی لگے یا بری)۔ خلاصہ یہ کہ ایک خالص مذہبی نعرے کو
بھی کچھ کامیابی یہاں مل ضرور سکتی ہے۔ بالکل خالی رہنے والی بات یہ نہیں ہے۔ خالی
وہ رہیں گے جو کسی ایک بھی نعرے کی قیمت دینے پر آمادہ نہیں یا جو کئی نعروں کی
بیک وقت قیمت دینا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ، اللہ اعلم، نری مشقت کےلیے ہیں۔ خصوصاً
اگر وہ موقع پرست بھی نہیں ہیں، پھر تو سیاست میں ان کا کوئی بھی کام نہیں ہے۔ (یہ
یاد رہے، ہر نعرہ ایک لانگ ٹرم انوسٹمنٹ ہوتی ہے، یعنی ایک عرصہ اس کی ایک قیمت دی
جاتی ہے اور ذرا محنت اور صبر کے بعد اس کی فصل آنے لگتی ہے)۔
یہ رہا ایک رُوٹ، اگر آپ کو مذہبی فیس religious
face کے ساتھ میدان میں اترنا ہے۔
ہاں اگر آپ ’مذہبی ایشوز‘ کی بجائے ’پاپولر‘
نعروں کا روٹ اختیار کرنا چاہتے ہیں، مانند قومی ترقی، انصاف، کرپشن کا خاتمہ، گڈ
گورننس، مہنگائی کا خاتمہ، بجلی گیس وغیرہ کے بحران پر قابو، عورتوں کے حقوق یا
مسائل وغیرہ، اور جوکہ ایک مین سٹریم پارٹی بننے کےلیے بوجوہ درکار ہے... تو اس
صورت میں بہتر یہ ہو گا کہ آپ مذہبی پیکنگ کے بغیر سیاست میں آئیے۔ (یہ کوئی شرعی
مسئلہ نہیں، محض زمینی حقائق کے حوالے سے بات ہو رہی ہے)۔ اسی لیے، اپنی اُس گزشتہ تحریر
میں ہم یہ کہہ چکے کہ پاکستانی سیاست میں اردگان ٹائپ ایک ڈویلپمنٹ درکار ہے جو
اپنا جذبہ aspiration, motivation تو مذہب سے لے رہی ہو لیکن اپنے ساتھ لوگوں کو
چلا سکنے کے حوالے سے وہ معاشرے کے ہر ہر طبقے کی پارٹی ہو۔ خاصے یقین سے کہا جا سکتا
ہے، ایسی ایک پارٹی ان شاء اللہ یہاں سب کو کھا جائے گی۔
ہاں البتہ اگر آپ ایسی کسی (پاپولر) چیز کو
لانے کے بھی روادار نہیں، یا متحمل نہیں، تو اس صورت میں – اور واضح رہے، صرف اسی صورت میں – ہم نے یہ کہا
تھا کہ عوام الناس کےلیے پُرکشش charismatic ہو سکنے والے ہمارے کچھ باصلاحیت نفوس کے پاس یہ ایک آپشن رہ جاتا ہے کہ
وہ یہاں کی مین-سٹریم پارٹیوں میں ممکنہ حد تک اوپر پہنچنے
کی کوشش کریں، اگرچہ وہ کچھ غیر مذہبی پارٹیاں کیوں نہ ہوں، مانند پی-ایم-ایل-این
اور پی-ٹی-آئی وغیرہ۔ (اس کی کچھ تفصیل آپ ہمارے
اُسی مضمون میں دیکھ سکتے ہیں)۔ جب تک آپ خود مین-سٹریم
نہیں بن سکتے اُس وقت تک ان مین-سٹریم پارٹیوں کو لبرل ایجنڈا برداروں کے حاوی ہونے
کےلیے چھوڑ رکھنا میری نظر میں ہلاکت ہے۔ ان (غیر مذہبی) پارٹیوں کو شجرِ ممنوعہ
جانتے ہوئے خاص مذہبی سیاست کے اندر محصور رہنا اندریں حالات درست نہ ہو گا
(خصوصاً جبکہ مذہبی سیاست فی الوقت ایک بند گلی ہو اور اس کا منتہائے سعی چند
سیٹیں۔ حقیقت یہی ہے، خواہ اسے آپ الفاظ میں لائیں یا چھپائیں)۔ واضح رہے ہم نے
کہا دین پسندوں کا مذہبی سیاست کےاندر ’’محصور‘‘ رہنا ایک نادرست بات ہو گی۔ یہ
نہیں کہا کہ مذہبی سیاست ’’کرنا‘‘ غلط ہے۔