کوٹ پینٹ پہننے کا شرعی حکم
|
:عنوان |
|
|
جبکہ کوٹ پینٹ نام کا لباس اس میں نہیں آتا جو کافروں کے ساتھ خاص ہو، بلکہ بہت سے خطوں اور ملکوں میں یہ مسلمانوں اور کافروں کے مابین عام ہے۔ |
|
|
کوٹ پینٹ
پہننے کا شرعی حکم
سوال: بہت سے مسلم ملکوں میں سوٹ کا رواج ہے، یعنی کوٹ پینٹ۔ جبکہ
گرم موسم میں گرمی کی شدت کے باعث صرف پتلون اور شرٹ یا ٹی شرٹ پہن لیا جاتا ہے،
پورے بازوؤں کی یا آدھے بازوؤں کی۔ کیا یہ لباس پہننا غیر مسلموں کے ساتھ تشبّہ
میں داخل ہوتا ہے؟ جواب (از ’’اللجنۃ الدائمۃ
للإفتاء‘‘):لباس کے
مسئلہ میں اصل اباحت ہے، کیونکہ یہ ’’عادات‘‘ کے امور میں سے ہے۔ اللہ کا فرمان
ہے: قُلْ
مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ
الرِّزْقِ ۚ ’’ کہو کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے
اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع
کر دیں؟‘‘۔ اس سے وہی اشیاء
مستثنیٰ ہوں گی جس کو حرام یا مکروہ ٹھہرانے پر دلیلِ شرعی کی دلالت پائی جائے،
جیسے مردوں کےلیے ریشم، یا جو لباس شفاف ہونے کے باعث ستر کو ظاہر کرے کہ اس سے
نظر گزر کر جلد کا رنگ نظر آتا ہوں یا وہ تنگ اتنا ہو کہ ستر نمایاں ہو رہا ہو،
کیونکہ اس صورت میں وہ برہنہ کے حکم میں ہی آ جائے گا جبکہ ستر کو برہنہ کرنا
ناجائز ہے۔ یا جیسے وہ پوشاک جو کفار کی امتیازی پہچان میں آتی ہو، تو ایسی چیز کا
پہننا مردوں کےلیے جائز ہو گا اور نہ عورتوں کےلیے، کیونکہ نبیﷺ نے کافروں کے ساتھ
تشبّہ سے منع فرمایا ہے۔ یا جیسے مردوں کے حق میں زنانہ لباس پہننا یا عورتوں کے
حق میں مردانہ لباس پہننا، کیونکہ نبیﷺ نےمردوں کو عورتوں کے ساتھ تشبہ سے اور
عورتوں کو مردوں کے ساتھ تشبہ سے ممانعت فرمائی ہے۔ جبکہ کوٹ پینٹ نام کا لباس اس
میں نہیں آتا جو کافروں کے ساتھ خاص ہو، بلکہ بہت سے خطوں اور ملکوں میں یہ
مسلمانوں اور کافروں کے مابین عام ہے۔ صرف بعض ملکوں میں نفوس اس سے ایک تنفر
رکھتے ہیں کیونکہ یہ وہاں کا رواج نہیں اور یہ وہاں کے باشندوں کے رواج کے خلاف ہے
اگرچہ کسی دوسری جگہ کے مسلمانوں کے رواج کے خلاف نہیں بھی ہو۔ تاہم مسلمان کے حق
میں اَولیٰ یہ ہے کہ جب وہ ایسے علاقے میں ہو جس کے باشندے اس لباس کے عادی نہ ہوں
تو وہ اس کو نمازوں، عوامی اکٹھ کی جگہوں اور گلیوں بازاروں میں پہن کر نہ جائے۔ وباللہ
التوفیق، وصلى اللہ علیٰ نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔
فتویٰ
کا ویب لنک
|
|
|
|
|
|