جوازِ اقتدار
legitimacy اور ہیومنسٹ جاہلیت
یہاں ہم ابن
تیمیہؒ کے متن میں وارد اُن دو حدیثوں پر جو غیر مقبول unpopular اُمراء کی اطاعت فرض ٹھہراتی ہیں، قاری کی توجہ چاہیں گے:
وَفِي صَحِيحِ
مُسْلِمٍ عَنْ أُمِّ الْحُصَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا سَمِعَتْ
رَسُولَ اللَّهِﷺ بِحَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ يَقُولُ: وَلَوْ اسْتَعْمَلَ
عَبْدًا يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ اسْمَعُوا
وَأَطِيعُوا۔
صحیح مسلم میں ام الحصین سے روایت ہے، کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو حجۃ الوداع میں یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اگرچہ تم
پر ایک غلام کو
والی کیوں نہ بنایا گیا ہو جو تم کو کتاب
اللہ کے مطابق چلائے، تو سمع و اطاعت ہی کرو۔
یہ ہے ’’يَقُودُكُمْ
بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘ کی آئینی حیثیت: سمع و اطاعت۔ اسلام میں ’’جواز‘‘ legitimacy کی اصل بنیاد یہ ہے، یعنی شریعت کی رِٹ قائم ہونا۔ چنانچہ آپ یہاں حدیث میں دیکھتے ہیں... اگر ’’يَقُودُكُمْ
بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘ کی شرط پوری ہو رہی ہے تو مسلم والی کی اطاعت سردست فرض ہے۔ وہ والی کس
طرح اقتدار میں آیا، یہ بات اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود ایک ثانوی مسئلہ ہےجس کی
شریعت میں اپنی جگہ تفصیل ضرور ہے (شریعت میں زبردستی حکمران بننے کی
باقاعدہ ممانعت ہے اور خاص حدود اور قیود کے تحت امت کے علماء، اصحابِ رائے اور قضاۃ وغیرہ اُس والی کو ہٹا بھی
سکتے ہیں، یا امت کو اس معاملہ میں کوئی ہدایات بھی جاری کرکے دے سکتے ہیں) مگر ’’يَقُودُكُمْ
بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘ کے مقابلے پر ہے وہ ایک ثانوی مسئلہ۔ کیونکہ جماعتِ
مسلمہ کا اصل دردِ سر ہی یہ ہے یعنی اجتماعی امورِ زندگی کتاب اللہ کی رُو سے
چلیں؛ کیونکہ اِس کے بغیر جماعت کی موت ہے اور بطور ’’آسمانی امت‘‘ اس کا
امتیاز ہی چلا جاتا ہے۔ اِدھر ہمارے اِس جدید ملغوبے میں جو اِس وقت عام جپا
جاتا ہے legitimacy
کا سرچشمہ عوامی ہڑبونگ سے منتخب ہوکر آنا ہے، ’’يَقُودُكُمْ
بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘ ثانوی مسئلہ ہے (اگر ہے!)۔ ’جائز حکومت‘ اور ’ناجائز حکومت‘ کا
تمام تر تعلق اس کے ’منتخب‘ یا ’غیرمنتخب‘ ہونے سے ہےنہ کہ اس بات
سے کہ کتاب اللہ کی جانب اُس حکومت کا رخ ہے یا اُس کی پشت! یہ وجہ ہے کہ ’’غیرمنتخب‘‘
ہونے کی صورت میں حکمران کے حقِ حکمرانی کو کالعدم ٹھہرانے کی رِٹ تو لوگوں
کو (بلکہ خود اسلام پسندوں کو!) بآسانی سمجھ آ سکتی ہے لیکن یہ رِٹ کہ کتاب
اللہ کو قائم نہ کر رکھنے کے باعث حکمران معاشرے میں اپنا جوازِ اقتدار legitimacy سوفیصد کھو
چکا ہے، ایک ہکابکا ہوکر سنی جانے والی چیز ہے،
حتیٰ کہ اچھے اچھے فضلاء کے ہاں بھی! کتاب اللہ کی یہ حیثیت تھوڑی ہے کہ یہ legitimacy
ہی کی بنیاد ہوجائے...!
عجم ہنوز نہ داند رموزِ دیں...!
*****
وَفِي رِوَايَةٍ: عَبْدٌ حَبَشِيٌّ مُجَدَّعٌ۔
ایک روایت میں الفاظ
ہیں: نکٹا حبشی غلام کیوں نہ ہو
وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ عَوْفِ بْنِ
مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ قَالَ: خِيَارُ
أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ
وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ
وَيُبْغِضُونَكُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ
اللَّهِ أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّيْفِ عِنْدَ ذَلِكَ؟ قَالَ: لَا؛ مَا
أَقَامُوا فِيكُمْ الصَّلَاةَ۔ لَا؛ مَا أَقَامُوا فِيكُمْ الصَّلَاةَ۔ أَلَا مَنْ
وُلِّيَ عَلَيْهِ وَالٍ فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةٍ فَلْيَكْرَهْ مَا
يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ۔ (رقم 1855)
نبیﷺ نے ولی الامر
کی اطاعت میں رہنے کا حکم دیا ہے اگرچہ حبشی غلام کیوں نہ ہو، جیساکہ صحیح مسلم میں نبیﷺ کا حکم ہے:
اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا
وَإِنْ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ۔
سمع و اطاعت پر کاربند رہو اگرچہ ایک حبشی غلام جس کا سر منقے جیسا ہو
تم پر والی مقرر کیا گیا ہو۔
وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي أَنْ اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا؛ وَلَوْ كَانَ حَبَشِيًّا
مُجَدَّعَ الْأَطْرَافِ۔
ابو ذر سے روایت ہے، کہا: میرے پیارےﷺ نے مجھے تلقین
فرمائی تھی کہ: ’’سمع و اطاعت کا پابند رہنا، اگرچہ وہ کوئی حبشی غلام ہو جس کے اعضاء کٹے ہوئے
ہوں‘‘
وَعَنْ الْبُخَارِيِّ:
وَلَوْ لِحَبَشِيٍّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ۔
بخاری کی روایت میں: ’’اگرچہ ایسے حبشی (کی اطاعت کرنی پڑے) جس کا سر منقے
جیسا ہو‘‘