ترکی میں ’مذہب‘ کی واپسی ’مذہبی‘ سلوگن کے بغیر
ترکی کی ’’انصاف و ترقی پارٹی ایک سراسر لبرل سیکولر پارٹی
ہے‘‘، اس عنوان سے ایک
عربی ویڈیو کلپ پر ہمیں ٹیگ کرنے والے کوئی بھائی ماضی میں ہمارے پیجز پر حزب التحریر کی تائید
میں بعض ایشوز پر بحثوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ ہمارے ان بھائیوں کی خاصی تگ و دو
چونکہ اردگان اور ان کی پارٹی کو دلوں سے گرانے کےلیے ہوتی محسوس ہو رہی ہے...
تو گویا ایک اچھی چیز ہاتھ آئی جس کو عربی ہونے کے باوجود
یہاں شیئر بھی کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو اس پر ٹیگ بھی کیا جا رہا ہے!
’’تحریک’’ کا ایک طالبعلم ہونے کے ناطے، مجھے مناسب لگا کہ
اس پر چھوٹا سا ایک نوٹ لکھ دیا جائے، مگر اس سے پہلے ایک وضاحت: دینی امور کا حق
یہ ہے کہ ان میں ایک بےلاگ بات کی جائے، یہ کسی کا ذاتی مسئلہ نہیں۔ ترکی کی
’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ کے یہاں جو ایک کمی ہمیں محسوس ہوتی ہے وہ بھی اپنی
تحریروں میں کہیں کہیں ہم نے ذکر کر دی ہے اور اس سے جو فائدہ اسلام کو ہو رہا ہے
اس کا بھی تذکرہ ہمارے یہاں ہوتا رہتا ہے۔ کسی کا ہر حال میں دفاع کرنا کم از کم
ہمارے پیش نظر نہیں۔ ہاں نکتۂ نظر اپنا اپنا ہونا دوسری بات۔
اب آتے ہیں اس کلپ پر جہاں ایک عرب اینکر ’’انصاف و ترقی
پارٹی ترکی‘‘ کے کسی نمائندہ شخص (امر اللہ اشلر) کو لائیو لیتے ہوئے، پارٹی کے
ابتدائی تعارف کے دوران، اسے ایک ’’اسلامی پارٹی‘‘ کہہ ڈالتے ہیں جس پر پارٹی
ترجمان ان کی فوری تصحیح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ایک اسلامی پارٹی نہیں ہیں۔ اور
اس وضاحت کی سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت یوں بیان کرتے ہیں کہ ترکی آئین ایک
سیکولر آئین ہونے کے ناطے، کسی مذہبی پارٹی کو سیاسی سرگرمی رکھنے کی اجازت ہی سرے
سے نہیں دیتا۔ ظاہر ہے، ترکی میں سب سے پہلے یہ ایک قانونی مسئلہ ہے۔ ’’مذہبی‘‘
پارٹی ہونے کی صورت میں آپ صرف گھر بیٹھ سکتے اور ’طلبِ نصرت‘ کے پمفلٹ چھاپ کر
جرنیلوں کو درخواستیں دے سکتے یا نچلی سطح کے افسروں کو مسلح بغاوت کی دعوت پر
مشتمل ہینڈ بلز کچھ چھوٹے موٹے مجمعوں میں تقسیم کر کے اپنے نوجوانوں کی ایک تعداد
کو جیلوں میں کروا سکتے ہیں، البتہ سوسائٹی میں پنپنے کی صورتیں آپ کےلیے تقریباً
معدوم رہیں گی۔ دستیاب مواقع کو، جس قدر کہ وہ دستیاب ہیں، لینے کےلیے اس بات میں
کوئی حرج نہیں کہ آپ خود تو ایک پکے ’’اسلامی‘‘ اور ’’مذہبی‘‘ ہی ہوں (اور آپ کی
اپنی سب اٹھان اور تربیت تو اسی پر ہو)، لیکن جہاں تک آپ کی لانچ کی ہوئی سیاسی
پارٹی کا تعلق ہے تو اس کی پبلک ڈسکرپشن یا کیٹگرائزیشن البتہ ’مذہبی‘ نہ ہو۔ یوں
آپ دستوری سیاسی عمل میں تو صرف اتنی ہی گنجائش لیں جتنی کہ دستور آپ کو دیتا ہے،
البتہ اس سے بڑھ کر گنجائش لینے کےلیے آپ کی تحریک بیک وقت بہت سے محوروں پر
سوسائٹی میں کام کر رہی ہو؛ اور یوں مختلف محوروں پر ہونے والے کام اپنےاپنے زاویے
سے ایک ’’بڑی مگر تدریجی اسلامی تبدیلی‘‘ کو سپورٹ دیتے چلے جائیں۔ آج کی مخصوص
پیچیدہ صورتحال میں اسلامی ایجنڈا کو پیش قدمی کروانے کےلیے، یہ ایک اجتہاد ہے؛
اور ہم نے جا بجا اس کے صائب ہونے کے شواہد بیان کیے ہیں۔ لیکن ہے یہ بہرحال اجتہاد۔
کسی کو اس سے اختلاف ہونا بالکل کوئی مسئلہ نہیں؛ ہر کسی کا اپنا اپنا اجتہاد ہے۔ البتہ
اس کو ایسے انداز میں پیش کرنا کہ دیکھو یہ تو اسلام ہی سے ایک شخص یا جماعت نے
کیسی واضح بیزاری کردی ہے (جیسا کہ کلپ کو ایڈٹ کرنے اور اس پر عنوان جڑنے والے
لوگوں کے عمل سے محسوس ہوتا ہے) تو یہ البتہ کوئی بہت دیانتدارانہ رویہ نہیں۔
مزید برآں، ترک حکمران پارٹی کے ترجمان نے کلپ میں یہ صراحت
کی ہے کہ جہاں تک اُن کا اپنا تعلق ہے تو وہ خود تو اسلامی لوگ ہی ہیں البتہ بطور
پارٹی وہ کوئی اسلامی گروپ بن کر لانچ نہیں ہوئے۔ ہاں اس نے یہ بھی مانا کہ پارٹی
میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو مذہبی نہیں بھی ہیں۔ اس آخر الذکر امر میں بھی،
ہمارے نزدیک، کوئی حرج کی بات نہیں (کہ پارٹی میں ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں ہوں
جو مذہبی نہیں)۔ بلکہ فی الوقت آپ کو ایسی ہی ایک کیمسٹری درکار ہے کہ: ایک سماجی
پروگرام کا روح رواں تو وہ لوگ ہوں جنہوں نے اسلامی عقیدہ روح کی گہرائیوں تک پی
رکھا ہو، البتہ اس پروگرام میں چلائیں وہ سب کو (بغیر ’مذہب‘ کا ڈھنڈورہ پیٹے) یا
معاشرے کے ایک بڑے حصے کو۔ یہی وہ مہارت اور کامیابی ہے جو آپ کو یہاں دکھانی ہے،
خواہ آج دکھا لیں، خواہ کل، اور خواہ پرسوں۔ معاملہ عین اِسی نقطے پر آپ کا منتظر
کھڑا ہے (خود ہمارے اِس ملک میں بھی)۔ بلکہ میرے نزدیک تو چیزیں ہی اِس وقت یہاں
دو درکار ہیں۔ ایک: کسی سماجی پروگرام میں صحیح العقیدہ لوگوں
کا روحِ رواں ہونا (بغیر اس کے کہ خود اس سماجی پروگرام ہی پر ٹھپہ ’مذہبی‘ کا
لگوا لیا ہو)۔ دوسری: ان صحیح العقیدہ لوگوں میں وہ ٹیلنٹ talent
اور
کارزما charisma ہونا جو انہیں ایک سماجی
پروگرام پر حاوی ہو جانے کی صلاحیت عطا کرے۔
ترجمان نے مزید کہا (ہمارے اپنے الفاظ میں اس کی تلخیص) کہ:
سیاسی عمل میں سیکولر پیکنگ کے اندر آنا ترکی کی ایک قانونی اور دستوری ریکوائرمنٹ
requirement تو ہے ہی، لیکن اس سے ہٹ
کر بھی ہم (انصاف و ترقی پارٹی کے اصحاب) کچھ ایسا ہی وژن رکھتے ہیں۔ اب یہ آخری
بات البتہ تفصیل طلب ہے:
1. یا تو اس (انصاف و ترقی
پارٹی ترکی) کے روحِ رواں لوگوں کا اپنا عقیدہ ہی یہ ہو کہ اسلام ریاست کا دستور
بننے کےلیے سرے سے نہیں ہے بلکہ یہ محض کچھ روحانی و اخلاقی ضابطوں کا نام ہے جبکہ
امورِ ریاست سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا خواہ کوئی ہو،
صاف انحراف پر ہے۔ بلکہ جہل اور تاویل کا عذر مانع نہ ہو تو ایسا شخص کفر کا
مرتکب بھی ہو سکتا ہے؛ کیونکہ یہ اسلام کی ایک نہایت واضح اور مسلّمہ حیثیت کا
انکار ہے۔
2. یا پھر اس بات کا تعلق ان
لوگوں کے ’’اعتقاد‘‘ سے نہ ہو بلکہ ’’سٹرٹیجی‘‘ سے ہو۔ اس پر اوپر گفتگو ہو چکی۔
اصولاً اس بات کی گنجائش ہے کہ کسی سیاسی پروگرام میں اسلام کی کوئی بات اتنی ہی
سامنے لائی جائے جتنی ایک ’’دی ہوئی صورتحال میں‘‘ in a given situation قانونی یا سماجی طور پر اس کی گنجائش ہو۔ باقی
باتیں ذہن میں ہوں اور رفقاء کے اپنے مابین رہتی ہوں۔
غرض پہلی بات کی ہرگز گنجائش نہیں۔ دوسری بات کی پوری
گنجائش ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ترکی کی ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ پر کونسی صورت لاگو
ہوتی ہے، پہلی یا دوسری؟ ترک حکمران پارٹی کو زیادہ قریب سے جاننے والے کسی شخص کا
جواب میرے جواب سے مختلف ہو سکتا ہے، یہ مجھے تسلیم ہے۔ ایک طالبعلم کے طور پر البتہ
جو میری ایک سرسری ریڈنگ ہے، اور اتنے دور سے ایک سرسری رائے ہی رکھی جا سکتی ہے،
وہ یہ کہ:
پہلی صورتحال گو نہیں ہے۔ پارٹی کے روح رواں لوگ اپنے فکر
اور اعتقاد کے معاملہ میں ’’تحریک اسلامی‘‘ کے ہی فرزند ہیں۔ اسلام کو سوسائٹی پر
حاوی کروانا ان کے اعتقاد کا جزوِ اصیل ہے۔ یہ نہ ہوتا تو ہمیں ان سے کچھ سروکار
بھی نہ ہوتا، آخر باقی کتنے مسلم ملک ہیں جن کی حکمران پارٹیوں سے ہمیں کوئی تعلق
واسطہ نہیں! تاہم، ’’شرع کی حاکمانہ حیثیت‘‘ پر ہمارے ان ترک بھائیوں کا یہ اعتقاد
کیا کچھ عصری اشکالات کی زد میں تو نہیں آیا ہوا؟ اس کا جواب میرے جائزے assessment میں، کسی حد تک ہاں میں ہے۔ یعنی شریعت کے حاکم
ہونے پر ان کا اعتقاد تو ہےلیکن ہیومنسٹ ڈیموکریٹک پیراڈائم نے جو لاشعوری طور پر
ہمارے آج کے اچھے اچھے اسلامی ذہنوں کو کہیں کہیں متاثر کر رکھا ہے، اس سے ہمارے
یہ ترک بھائی بھی مکمل بچے ہوئے نہیں ہیں۔ اور یہ بلا تو ویسے ہر جگہ ہے۔ ایک
نہایت ٹھیٹ موحد پیرڈائم تو سمجھیے آج خال خال ہی کسی اسلامی تحریک کے یہاں آپ کو
دکھائی دے گا۔ بہت سے صالح اذہان اس عصری مصیبت سے کچھ نہ کچھ متاثر ضرور ہیں۔ اس
لحاظ سے، ہمارے ان ترک بھائیوں کے ہاں کچھ فکری الجھنیں بجا طور پر پائی بھی جاتی
ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ فکری دائرے میں وہاں سب اچھا ہے، درست نہ ہو گا۔ فکر کے
کئی ایک ایریاز میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ بھی بہرحال موجود ہے۔ میں جن دنوں امریکہ کی ’’میساچوسٹس’’
سٹیٹ کے شہر ’’ووسٹر‘‘ کے اسلامی سینٹر سے منسلک تھا انہی دنوں اردگان کے حالیہ
مشیر خاص جناب ڈاکٹر ابراہیم کالن بھی اسی شہر میں کالج آف دا ہالی کراس کے اسلامک
سٹڈیز کے پروفیسر تھے، ہم انہیں اپنے سینٹر میں دروس کےلیے بھی بلاتے اور ان کے
ساتھ گپ شپ بھی رہتی۔ ان کے علاوہ بھی ترکی کی حالیہ حکمران پارٹی کے لوگوں سے
شناسائی کا موقع رہا۔ چنانچہ میرا یہ تبصرہ اپنے ان ترک بھائیوں کو کچھ بہت دور سے
دیکھنے پر مبنی بھی نہیں ہے۔ بنابریں، جتنا سا فکری جھول یہاں موجود ہے اس کا عمل
اور تطبیق کے اندر بھی جھلک آنا بالکل ممکن ہے۔ اور جہاں تک دوسری بات (سٹرٹیجی)
کا تعلق ہے، تو یہاں میرا اندازہ یہ ہے کہ سیاست میں یہ پیش قدمی بہت بڑی حد تک تو
ہمارے ان ترک بھائیوں کے ہاں سٹرٹیجی ہے لیکن کہیں کہیں شاید نری سٹریٹجی نہ ہو،
بلکہ اعتقاد کا ناخالص پن بھی عمل کی بعض صورتیں دھارے ہوئے ہو۔ قصہ مختصر، یہ ایک
ملی جلی صورتحال ہے۔ ہمارے یہاں اس کی اگر تحسین ہوتی ہے تو وہ اس میں پائی جانے
والی مجموعی خیر کے حوالے سے ہوتی ہے، ہاں اس مجموعی خیر کے پائے جانے میں البتہ
کوئی کلام نہیں۔ سچ پوچھیں تو آج کے دور میں بہت سی اسلامی پیشرفتوں کا ایسا ہی
معاملہ ہے۔ اُن کی تمام تعریف اور تحسین اُن میں پائی جانے والی اسی مجموعی خیر کو
دیکھتے ہوئے کی جاتی ہے، بلکہ جس قدر اندھیرا اِس وقت ہے وہ سامنے ہو تو ان کو صد غنیمت
مانا اور ان پر صد شکر کیا جائے گا۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی فکر کی جانچ
پر کھ کرتے وقت اسلام کے خالص معیارات کو پس پشت ہی ڈال لیا جائے۔ یہ وجہ ہے کہ
ہمارے مشائخ یہ ایک نہایت متوازن منہج دیتے ہیں: اعتقاد (تصورِ دین) میں تو آخری
درجے کا ٹھیٹ پن؛ اور یہاں کوئی ذرہ مفاہمت قبول نہ کرنا۔ البتہ عمل اور پیش قدمی
میں ’’جو ممکن ہو‘‘؛ یعنی انسانی کمزوریوں کا پورا لحاظ کرنا خصوصاً سماجی حقیقتوں
کے ساتھ سر ٹکرانے اور پھوڑنے کی بجائے ان کے ساتھ ایک حکیمانہ تعامل کرنا۔
علماء کے دیے ہوئے اس منہج کے دوسرے نقطے کے حوالے سے، یعنی
سٹرٹیجی کے باب سے، یہ وضاحت کر دوں کہ ہمارے اہل علم اس بات کی گنجائش صرف اُس
صورتحال سے مشروط نہیں رکھتے جہاں قانون ہی آپ کو سیاست یا سماج میں اسلامی سلوگنز
کے ساتھ اترنے کی اجازت نہ دیتا ہو (جیساکہ اِس وقت ترکی میں ہے)۔ بلکہ اس بات کی
گنجائش ان شاء اللہ وہاں بھی ہے جہاں قانون چاہے اس بات کی اجازت دیتا ہو تاہم
سماجی معروضی حقیقتیں اس بات کی متقاضی ہوں کہ آپ کسی مذہبی نعرے کو آگے رکھے بغیر
امت کو سیاست یا سماج کے کچھ بند راستے کھول کر دیں (جیسا کہ اس وقت پاکستان میں
ہے؛ جہاں مذہبی سیکٹر بڑی دیر سے ایک بند راستے پر پہنچا کھڑا ہے)۔ یہاں سے؛ ہمارا
یہ موضوع اس سیریز سے جڑ جاتا ہے جو ہم نے ’’دستیاب مواقع‘‘ کے حوالے سے شروع کر
رکھی ہے، اور جس میں بعض اشکالات پر ہماری گفتگو ابھی باقی ہے۔
*****
ہمارے اس بھائی نے جماعتِ اردگان سے متعلق عربی زبان کا ایک
ویڈیو شیئر کر ہی دیا ہے، تو کچھ حرج نہیں عربی سمجھنے والے احباب کے ساتھ ہم بھی
یہ ایک ویڈیو شیئر کر لیں جو اتفاقاً اُسی ویڈیو کے متصل بعد آٹو پلے کے طور پر
ہمارے سامنے آ گیا۔ یہ معروف کویتی مفکر ڈاکٹر عبد اللہ النفیسی ہیں جو جماعتِ
اردگان کی صورت میں ترکی کے اندر اسلامی سیکٹر کی حالیہ پیش قدمی کو ’’اسٹرٹیجی‘‘
کے حوالہ سے نہایت ہی خوبصورت انداز میں بیان کر رہے ہیں:
https://www.youtube.com/watch?v=W_7GZ5YEz98