’نظام‘ کی بحث.. متنبہ رہنے کی بات بس ایک
ہے
وقت کے ایک رائج سیاسی نظام میں حصہ لینے کے حوالہ سے جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے ایک
حالیہ فیصلہ کے پس منظر میں۔
جماعۃالدعوۃ کے نوجوان اُس دن تک ان شاءاللہ
مغرب کی اس کھوسٹ بڑھیا کی عشوہ طرازیوں سے محفوظ رہیں گے جب تک یہ جمہوریت کو
’’اسلامی‘‘ کا ٹانکہ نہیں لگاتے۔ ’جمہوریت‘ کو نری استعمال کی چیز سمجھیں نہ کہ
تقدیس کی۔ ہاں جس دن یہ خدا نخواستہ اُس کی تقدیس جپنے لگے اُس دن وہ بڑھیا اِنہیں
نگلنے میں دیر نہ لگائے گی جو اس سے پہلے ہمارے بڑے بڑے گبھرو اٹھا چکی۔ اللہ
انہیں محفوظ رکھے اور ہماری سب تحریکوں کو خالص اسلامی پیراڈائم پر اکٹھا کرے۔
یہاں ہم اپنے ایک پرانے مضمون (شمارہ جولائی 2013) سے تھوڑے تصرف کے ساتھ چند
اقتباس دیں گے :
******
اقتباس 1
سیاست وغیرہ میں ’’دستیاب مواقع‘‘ سے اِن دینی
جماعتوں کا فائدہ اٹھانا ہماری نظر میں اصولاً غلط نہیں ہے بشرطیکہ ایک ٹھیٹ
پیراڈائم خود اِن جماعتوں کے اپنے کارکنان کے ہاں باقی رہے اور ان کے وجود سے پھوٹ
پھوٹ کر نشر ہو، نیز مصالح و مفاسد کا ایک شرعی موازنہ اور اسلامی ضوابط کی پابندی
برقرار رہے۔ بلکہ ایک ٹھیٹ عقیدہ کے ہوتے ہوئے ان کا سیاست میں پیش قدمی کرنا،
ہماری نظر میں، اُس ہدف کے حصول میں ممد ہوگا جسے ہم نے ان دو نقاط میں ملخص کیا
ہے، اور جوکہ ہمارے (عالم اسلام کے) اِس بحران کے اصل پائیدار حل کی جانب ایک درست
ترین پیش قدمی ہے:
1. مغرب کی فکری مصنوعات (خصوصاً مغربی مصنوعات کی ’اسلامیائی‘ گئی
صورتوں) کا قلع قمع اور اس کے مقابلے پر خالص اسلامی پیراڈائم کا احیاء۔ اِسی کو
ہم ’’استشراق کے ساتھ جنگ‘‘ کا نام دیتے ہیں اور جوکہ ایک وسیع البنیاد معرکہ ہے
اور جس کے لیے ایک شدید درجے کا نظریاتی رسوخ اور ایک فکری استقامت درکار ہے۔ اِسی
سے متصل، استعمار کے ساتھ ہماری وہ جنگ ہے جس کا کلائمکس اِس وقت ہمیں افغانستان
اور فلسطین کے اندر درپیش ہے اور جس کے جیتنے یا ہارنے کی صورت میں شاید پورے عالم
اسلام کی صورت اور ہیئت تبدیل ہوکر رہ جانے والی ہے اور یہاں پر ہمارا یا پھر
عالمی استعمار کا بہت کچھ تہ و بالا ہوجانے والا ہے۔
2. معاشرے کی سرزمین پر (نہ کہ محض اقتدار پر) اسلامی قوتوں کا ایک
معتدبہٖ حد تک قبضہ، جس پر ہم متعدد بار گفتگو کرچکے ہیں۔
*****
اقتباس 2
بعض مسلم ملکوں میں، جہاں اس کی گنجائش ہو، مغرب
اور اُس کے کاسہ لیس لبرلز کو لگام دینے (یا ’ٹف ٹائم‘ دینے) کےلیے ’جمہوریت‘ کا
استعمال کچھ ایسا تشویش ناک نہیں۔ سیاست کے اِس عمل میں حصہ لینا ہے تو لفظِ
جمہوریت کا ایسا (الزامی) استعمال بھی باعثِ قدح نہیں (الزامی سے یہاں ہماری مراد
کہ: ہم تو اس جمہوری شریعت کے پابند نہیں؛ اور ہماری شریعت تو آسمان سے ہی اترتی
ہے، ہاں اُنہیں اُن کے اصولوں سے باندھا یا پسپا کیا جائے، جہاں اور جتنا ممکن ہو ۔ ممکن نہ ہو تو ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں؛ اللہ پر
بھروسہ اہل ایمان کا پہلا اور آخری ہتھیار ہے۔ البتہ جہاں کچھ ممکن العمل ہو وہاں
تدبیر اور اقدام کا سہارا لینا بھی اہل ایمان کا شیوہ ہے)۔ جمہوری عمل کا ایسا
استعمال ہماری نظر میں مضرت رساں نہیں، کم از کم بھی یہ کہ علمائے توحید کے ہاں یہ
ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے، یعنی اِس معاملہ میں تعددِ آراء کی گنجائش ہے، لہٰذا کوئی
اگر یہ رائے اختیار کرتا ہے تو آپ زیادہ سے زیادہ اُس کے ساتھ ایک فقہی قسم کا
اختلاف رکھ سکتے ہیں جوکہ کوئی ایسی پریشان کن بات نہیں۔ اصل باعثِ تشویش مسئلہ
’’ڈیموکریسی‘‘ اور اس کے مشتقات کو خود اپنے فکری پیراڈائم کے اندر جگہ دینا اور
اپنے نظریات کی دنیا میں اس کو قبول کرنا ہے، جس پر پیچھے ہم گفتگو کر آئے ہیں۔
********
اقتباس 3
جیسا کہ ہم اپنے مضمون ’’درمیانی مرحلہ کے بعض
احکام‘‘ میں عرض کرچکے، مغربی اشیاء کے ساتھ (مصالح اور مفاسد کے موازنہ کی بنیاد
پر) معاملہ deal کرنا تو مسئلہ نہیں (تاآنکہ خدا عالم اسلام میں
ہمیں ایک پائیدار صورتحال نصیب فرمائے اور ہم اِن جاہلی اشیاء کے ساتھ معاملہ
deal کرنے تک سے مستغنی ہو جائیں)، البتہ اِن اشیاء کو ’اسلامی‘ جوڑ
لگانے بیٹھ جانا، ان اشیاء کو خود اپنے نظریات کے احاطے ہی میں جگہ دے ڈالنا اور
ان کو اسلام سے ’ہم آہنگ‘ کرنا درحقیقت ایک بڑی آفت ہے اور جوکہ یہاں ایک ٹھیٹ
اسلامی تبدیلی کے ریشنال ہی کو فوت کردیتی اور خود اپنا ہی راستہ اپنے اوپر بند
کرلیتی ہے، علاوہ اس اہم تر بات کے کہ یہ چیز خدا کو ہی ناراض کردینے کا موجب ہے۔
پس ان جاہلی اشیاء کے ساتھ معاملہ کرنا تو قابلِ
فہم ہے مگر ان جاہلی اشیاء کو اسلام کے ٹانکے لگانا خود اپنے ہی کیس کو ختم کرلینے
کے مترادف ہے۔ اِس حقیقت کو تسلیم کرلینے میں اب مزید عشرے نہیں لگانے چاہئیں۔
جاہلی اشیاء (مانند ڈیموکریسی، کونسٹی ٹیوشن، پارلیمنٹ، لیجس لیشن، نیشن سٹیٹ،
بیسک رائٹس... روٹی، ترقی اور آسائشاتِ دنیا کے نعرے، جوکہ یہاں فی نفسہٖ مطلوب
بلکہ معبود ہوتے ہیں، وغیرہ) کو اسلام کے ٹانکے لگا کر ہمارا اسلامی کیس فوت
ہوسکتا ہے
*******
اقتباس 4
آدمی خود ایک محکم و راسخ عقائدی بنیاد پر کھڑا
ہو، تو ملکی سیاست یا انتظامی مشینری میں ’’دستیاب گنجائش‘‘ کے مطابق ہی اپنے آپ
کو فی الحال نمایاں کرنا اور اپنا پورا ایجنڈا سامنے لانے سے ایک عرصہ تک گریز
کرنا اور پھر جیسے جیسے گنجائش ملتی چلی جائے ویسے ویسے کھلتے چلے
جانا، البتہ جتنی گنجائش ملے اُس کو بھرپور طور پر (اور آخری حد تک بےلحاظ ہو کر،
بلکہ بوقتِ ضرورت اپنی زندگی اور سلامتی کی قیمت پر) اسلامی ایجنڈا کے حق میں
استعمال کر جانا اور باقی کےلیے مسلسل کوشاں اور مواقع کا متلاشی رہنا... غرض عمل
اور نفاذ میں ’’تدریج‘‘ کا راستہ اختیار کرنا اور سارا کچھ ایک ہی دن میں کر گزرنے
کے اسلوب سے کنارہ کش رہنا ایک صائب طریقِ کار ہے۔ اس کو اختیار کرنے میں ہرگز
کوئی مضائقہ نہیں۔ جہاں مضائقہ ہے اُس کی ہم نے نشاندہی کردی اور وہ آدمی کا اپنا
’’تصورِ دین‘‘ اور ’’حقیقتوں کے تعین کے معاملہ میں اُس کی اختیار کردہ اپروچ‘‘ ہے
جس میں جاہلیت سے یکسر مختلف طریق اختیار کرنا، مشرک اور دوزخی ملتوں سے الگ تھلگ
ایک طریق اختیار کرنا، اور راستوں کے اِس فرق کے مسئلے میں کوئی جھول نہ آنے دینا
’’مسلم‘‘ ہونے کا بنیادی ترین تقاضا ہے۔ اِسی کو ہم عقیدہ بھی کہتے ہیں۔ اِس میں
کوئی ’’تدریج‘‘ نہیں۔ یہاں ’’استطاعت و عدم استطاعت‘‘ کی کوئی بحث نہیں۔ اِس میں
کوئی ڈھیل اور کوئی نرمی نہیں۔ ہاں ’’اعمال‘‘ کے اندر ’’تدریج‘‘ بھی ہے۔ ’’عدمِ
استطاعت‘‘ کا اعتبار بھی۔ اور نرمی و رخصت وغیرہ ایسی اشیاء کی گنجائش بھی۔ نیز
بھول چوک اور سستی کوتاہی پر چھوٹ اور معافی کا امکان بھی ’’اعمال‘‘ میں زیادہ ہے
بہ نسبت ’’اعتقاد‘‘ کے۔ پروردگار کے سامنے اعلیٰ ترین حالت میں پیش ہونا
’’اعتقاد‘‘ کے معاملہ میں کہیں اہم تر اور نازک تر ہے بہ نسبت ’’اعمال‘‘ کے۔
۔
پس نوشت: اوپر کے مضمون پر وارد بعض اعتراضات کے پس منظر میں لکھی جانے والی ایک تحریر: دین و دنیا.. اور ’نظام‘ کی بحث