اسلام کی
’اجارہ دار‘ قومیں
مسلم روہنگیا پر شرق تا غرب دل تڑپتے دیکھے تو وہ
احساسات پھر عود کر آئے جو ایسے مواقع پر، تمام تر دکھ اور پریشانی کے باوجود،
’’امت‘‘ کو موجزن دیکھ کر دل پر وارد ہوتے ہیں۔ سوچا، اس بار ان کا کچھ حصہ قلم
بند کر ہی دیا جائے۔
*****
تین قومیں مجھے بےحد پسند ہیں، جو دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے ہر مسئلہ کو خالصتاً
اپنا مسئلہ دیکھتی ہیں۔ (واضح رہے، ہم نے کہا ’’قومیں‘‘۔ ’حکومتوں‘ کے متعلق بات
کرنا فی الوقت گفتگو کا مزہ برباد کر سکتا ہے)۔
ہمیشہ
ان تین قوموں کےلیے دل سے دعاء نکلتی ہے خدا اِنہیں شاد آباد رکھے، اِن کے در و
دیار کو اسلام اور ایمان سے معمور، اور اِن کی نسلوں کو سدا اِن کے اسلامی جذبوں
کا وارث اور امین۔ میں ان تینوں میں سے کسی ایک میں پیدا ہوا
ہوتا، میرے لیے یکساں فخر کی بات تھی؛ گو حجاز کی خصوصیت اپنی ہے۔ کچھ پروا نہیں
جو میں اپنی نسلیں اِن تینوں میں سے کسی ایک میں چھوڑ کر مروں: پاکستانی، سعودی اور ترکی۔
اسلام پر دنیا میں کہیں کچھ
برا گزرے، یوں تو ہر مسلمان قوم اور فرد ہی اس پر فکرمند ہوتا ہے؛ کہ مسلمان ہونے
کا یہ ایک قطعی اور لازمی تقاضا ہے؛ اور اس کے بغیر آدمی مسلمان کیسا۔ تاہم تین
قومیں ایسی ہیں کہ یہ اس کو محض اپنا بوجھ اور پریشانی دیکھتی ہیں۔ ان تینوں میں
ایک ایک، اس موقع پر، اس طرح نہیں سوچتی کہ ’اور بھی تو ہیں، وہ کچھ کر لیں گے یا
اُن کو کچھ کرنا چاہئے‘ یا یہ کہ ’اُنہوں نے کچھ کیوں نہ کیا‘ بلکہ اس طرح سوچتی
ہے کہ ’’ہمارے علاوہ اور کون ہے جس نے کچھ کرنا تھا لہٰذا ہم نے اگر کچھ نہیں کیا
اور ہماری حکومت اس پر خاموش تماشائی ہے تو یہ اس مسئلہ کی خرابی کی واحد وجہ
ہے‘‘۔ اسلام اور مسلمانوں کی ذمہ داری محسوس کرنا، یوں گویا اس مسئلہ کےلیے ان کے
سوا دنیا میں کوئی نہیں ہے، اِن تینوں قوموں کی گھٹی میں ہے؛ جس کی اپنی اپنی
تاریخی و سماجی وجوہات ہیں؛ اور سب کی سب مبارک اور قابلِ رشک۔ ’’سعودیہ‘‘ جو اپنے
آپ کو اسلام کا گھر سمجھتا ہے اور اس کے خیال میں پوری دنیا میں کسی کا عقیدہ درست
ہونا آج بھی اِسی کے دم سے ہے۔ ’’پاکستان‘‘ جو اپنے آپ کو اسلام کا قلعہ سمجھتا ہے
اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کا اصل گڑھ۔ ’’ترکی‘‘ جو پچھلی چھ صدیوں سے خلافت کا
پایۂ تخت چلا آیا ہے اور جس کی قوم میں تیزی کے ساتھ یہ شعور بیدار ہو رہا ہے کہ
ہمارے نیچے جانے سے ہی مسلمانوں کو آج یہ برے دن دیکھنے پڑے ہیں اور اب ہمارے
اٹھنے سے ہی مسلمانوں کے دن پھریں تو پھریں۔ بے شک اس کا نتیجہ کسی وقت یہ بھی ہو
کہ ان میں سے ایک ایک قوم اپنے آپ کو ’اسلام کی ٹھیکیدار‘ باور کرے اور ’اسلام کی درست
تعبیر‘ یا ’اسلام کی اصل روح‘ کو لے کر چلنے کے حوالے سے کسی دوسرے کو خاطر میں نہ
لائے، اس کے باوجود مجھے تو اِن تینوں پر پیار ہی آتا ہے؛ چاہے تفاصیل میں ان میں
سے کسی کے ساتھ کتنا ہی اختلاف ہو۔ اسلام کی یہ ’اونرشپ‘ اپنی ذات میں ایک نہایت
پاک جذبہ ہے اور ایک ’’قوم‘‘ کےلیے تو جہان کا سب سے بڑا اثاثہ؛ بےشک ایک
’’اثاثے‘‘ کا کسی وقت ایک غیرمعیاری استعمال ہی کیوں نہ ہونے لگے۔ فی نفسہٖ، یہ
ایک زبردست بات ہے۔ اسلام سے جُڑا ہونا ’’فرد‘‘ کی بجائے ایک ’’قوم‘‘ کی سطح پر ہو
تو یہ بات آدمی کو خوشی سے نہال کرتی ہے۔
ان تینوں اقوام کی پچھلی سو سالہ صحافت اور
خطابت تھوڑی بہت نظر سے گزری ہو، تو ان میں سے ایک ایک کا تحت الشعور یوں بولتا ہے
کہ اسلام نے اب رہنا ہے اور یقیناً رہنا ہے تو ان شاء اللہ ہمارے دم سے۔ ’ہمارے‘
خلاف دنیا میں جو کوئی سازش ہو رہی ہے وہ اصل میں اسلام کے خلاف سازش ہے اور اسلام
کے خلاف ہر سازش درحقیقت ’ہمارے‘ خلاف! یہ اندازِ فکر کسی وقت غلط یا بےجا بھی ہو
تو بھلا لگتا ہے! کوئی تو اسلام کےلیے اس سطح پر جا کر سوچتا ہے؛ یعنی وہ اسلام کے
دم سے اور اسلام اُس کے دم سے! سبحان اللہ۔ ’’اسلام‘‘ کے ساتھ یوں جُڑ چکی قوم پر
آپ ہزار دل سے فدا ہوتے ہیں۔ بےشک دورِ آخر میں نیشنلسٹ جاہلیت نے بھی کہیں کہیں
اِن قوموں کے اِس اساساً درست جذبے کو تھوڑا بہت بہکایا یا پٹڑی سے سرکایا ہو، اور
اُس کی اصلاح کا بےشک اپنا ایک محل ہے، پھر بھی ’’اسلام‘‘ کو اپنی پہچان بنا چکی
قوم اُس جاہلیتِ خالصہ کا کبھی شکار نہیں ہو سکتی جو عقیدۂ نینشنلزم کا مقصود ہے،
اِلا یہ کہ کوئی بدبخت اِن کو اس بات پر قائل کر لے کہ اسلام بطورِ قوم اِن کی
پہچان نہ رہے اور خواجۂ یثربﷺ سے اِن کی نسبت جہان کی ہر نسبت پر حاوی نہ ہو۔
ایک چوتھی قوم بھی اِس
فہرست میں شامل ہونے کی مستحق ہے ضرور لیکن فی الوقت وہ ایک بڑا جیل خانہ ہے، اس
کے سب قومی و اجتماعی جذبے زنجیروں میں جکڑ دیے گئے ہیں اور اِس وقت تو یوں معلوم
ہوتا ہے کہ اس کی وہ مبارک سرزمین پڑوس میں قائم ریاستِ بنی صیہون کا ادنیٰ سا ایک
سیٹلائٹ ہے: مصر، جو پچھلی بڑی صدیاں اسلام کا تہذیبی، سیاسی و عسکری مرکز رہا ہے۔
’’قاہرہ‘‘ میں آپ اسلام کی سطوت کے آثار اور شواہد پڑھتے مہینوں گزار سکتے ہیں اور
’’اسکندریہ‘‘ کے ساحل پر کھڑے ہو کر بحر ابیض کے آر پار معرکۂ ہلال و صلیب کی
بازگشت آج بھی سن سکتے ہیں۔ مصر کی یہ حیثیت ایوبیوں اور ممالیک کے دور میں تو تھی
ہی، بعد میں بھی یہی خطہ افریقہ و بلاد عرب کے اندر عثمانی اثر و رسوخ کا سب سے
بڑا مرکز رہا۔
یہ سب دراصل کچھ بڑے بڑے
اسلامی حواضر (metropolitans) تھے اور جب عالم اسلام بڑا ہوا تو اِن میں سے
ایک ایک نے عالم اسلام کا ایک ایک کونہ سنبھال لیا جہاں وہ ملت کی پاسبانی کرنے
لگی اور اسلام کی تمام شان و شوکت عالم اسلام کے اس بڑے گوشے میں اسی ایک کے دم سے
قائم رہی۔ حجاز کی حیثیت کچھ اور پہلوؤں سے فائق رہی، تاہم اِن باقی حواضر کا یہی
معاملہ رہا۔ یعنی عالم اسلام کے کسی بہت بڑے گوشے کا سیاسی، تہذیبی و عسکری مرکز؛
جہاں کافر اس کی اجازت کے بغیر پر نہ مار سکے اور باقی عالم اسلام پر چڑھ آنے کا
سوچ تک نہ سکے۔ صدیوں پر محیط ان کی اِس پوزیشن نے اِن میں سے ایک ایک اسلامی ’’میٹروپولٹن‘‘
کی باشندہ قوموں میں یہ نفسیات بٹھا دی کہ اسلام کی ترقی ہے تو وہ ہمارے وجود سے
اور امت شادآباد ہے تو ہماری ہمت سے۔ یہاں تک کہ دورِ زوال کی صدیاں بھی اِن معزز
قوموں کے ذہن سے یہ احساس کھرچ نہ سکیں کہ اسلام کی شوکت ہو گی تو بس اِنہی کے
زورِ بازو سے اور اسلام پر کوئی برا وقت آیا تو بس اِنہی کی تقصیر سے۔ آج بھی امت
پر کہیں کوئی مصیبت آئے تو اِن میں سے ایک ایک قوم کی وہی پرانی رگ جاگ اٹھتی ہے۔ بےشک
ہاتھ میں آج کچھ بھی نہیں، اور سروں پر کچھ ایسے لوگ مسلط جو اسلام کے کسی تاریخی
رشتے پر فخر کرنے سے آشنا تک نہیں، بلکہ اسلام کو شاید کوئی ’’رشتہ‘‘ ہی ماننے پر
تیار نہ ہوں اور نہ کوئی ایسی زبردست چیز جو اِس جسد میں خون کو انگیخت دے۔ بلکہ
ایک عرب رائٹر کے بقول: کیا زمانہ ہے کہ مغرب کے نائٹ کلبوں کے چھوکرے اور چھوکریاں
آج امتِ محمدؐ پر تعینات ’’واجبِ اطاعت ولیُّ الامر‘‘ ہیں۔ مگر قوموں میں وہ
تاریخی احساسات پھر بھی بولتے ہیں۔ اِن مبارک مقدس احساسات کو موت کی نیند سلانے
کےلیے ملحد میڈیا فی الوقت کچھ نئے عزائم اور دیوہیکل تیاریوں کے ساتھ میدان میں
اترا ہے اور تعلیم میں بھی صلیبی کینہ سے لبریز کچھ ’این جی اوز‘ کا ہاتھ بہت دور
تک جا پہنچا ہے، جس کے اثرات چند عشروں میں سامنے آ سکتے ہیں۔ جبکہ تیور اِس بار
یہ کہ: اب دیکھتے ہیں وہ ’’مسلمان‘‘ جو اپنے اسلام پر فخر کرتا رہا، ان کے ہاتھ سے
کس طرح بچا رہتا ہے! اب یہ ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ جو ہونے جا رہا ہے، روہنگیا
میں ہونے والے واقعے سے چھوٹا ہرگز نہیں۔ ہماری اسلامی جماعتوں اور دینی طبقوں کو
اپنے ساتھ ہونے والی اِس واردات کے خلاف شاید اسی طرح محاذ آرا ہونا ہے جس طرح اِن
دنوں یہ برما کے خونخوار بُدھوں کے خلاف سیخ پا دکھائی دیے، بلکہ اس سے بھی کچھ
بڑھ کر؛ کہ یہ این جی اوز اُس صدیوں کی عمر رکھنے والے ’’مسلمان‘‘ کو موت کے گھاٹ
اتارنے پر تُلی ہیں جو ’’جسدِ اسلامی‘‘ کے کٹنے پھٹنے پر چیخنا اور آہ و بکا کرنا
آج تک نہیں بھولا۔ وہ خوب جانتے ہیں ’’درد‘‘ زندگی کی ایک نہایت زبردست علامت ہے
اور ’’کچھ کرنے‘‘ اور ’’ہاتھ پیر مارنے‘‘ کے پیچھے متحرک قوی ترین جذبہ۔ اور آج
اُن کی سب تعلیمی و ابلاغی محنت ہمارے اِسی دیرینہ ’درد‘ کی ’دوا‘ کرنے پر مرکوز
ہو چکی ہے؛ کتنی دیر آخر یہ مریض ’ہائے ہائے‘ کر لے گا، یہ چپ ہو تو اس سے ’اگلا
کام‘ شروع ہو!
کسی درجے میں ان ’’مسلم پاسبانوں‘‘ کی فہرست میں
’’مراکش‘‘ کا بھی نام آتا ہے، خاص آج کا یہ چھوٹا سا مراکش نہیں بلکہ وہ پوری قوم
جو ’’المغرب العربی‘‘ کے تحت درج ہوتی ہے اور جو کہ شمالی افریقہ میں بحرابیض کے
ساحلوں پر تیونس سے شروع ہو کر الجزائر سے گزرتی ہوئی حالیہ مراکش اور پھر بحر
اوقیانوس پر واقع موریتانیا تک پہنچتی ہے۔ یہیں سے اٹھ کر ہمارا ایک بربر کمانڈر
طارق بن زیاد اندلس فتح کرنے گیا تھا۔ اور پھر ایک بار جب اندلس میں اسلام کی کشتی
بری طرح ڈولنے لگی تو یہیں سے یوسف بن تاشفین کے شیر مرابطین اٹھ کر الفانسو کی
سپاہ پر ٹوپ پڑے اور اس کی تکہ بوٹی کر کے اپنی اِس کچھار میں لوٹے تھے۔ اس سے صدیوں بعد آخر جب فرڈیننڈ اور
ازابیلا (اور درحقیقت ہماری اپنی طوائف الملوکی) کے ہاتھوں وہ ’’گلستانِ اندلس‘‘
اجڑا تو وہاں کے لٹے پٹے قاقلے یہیں پر آ کر ٹکے تھے اور ان کی بچی کھچی نسلیں آج
بھی یہیں بیٹھی ہیں۔ اسی عظیم مراکش (المغرب العرَبی) نے آخری صدیوں میں امت کا وہ
محاذ سنبھال کر رکھا جس نے فرانسیسی، ہسپانوی اور پرتگالی استعمار کے خلاف فدائیت
کی ناقابلِ یقین داستانیں رقم کیں اور لاکھوں جانیں دے کر بحیرۂ ابیض اور بحرِ اوقیانوس
کے ان ساحلوں پر ’’اسلام‘‘ اور ’’محمدؐ‘‘ کا نام از سر نو ثبت کیا۔ ان کے شہیدوں
کی کھوپڑیاں آج بھی آپ کو ’مہذب‘ ’انسان پرست‘ پیرس کے میوزیم میں ’ڈسپلے‘ ملیں
گی۔ اس خطے کے لوگوں کے ساتھ بھی آپ رہ کر دیکھیں تو اپنے آپ کو اسلام کے دم سے
اور اسلام کو اپنے دم سے قائم پانے میں یہ کم ہی کسی سے پیچھے دکھائی دیں گے اور
کم ہی کسی دوسرے کو خاطر میں لائیں گے۔ وجہ وہی کہ وہ پورا ایک اسلامی زون جو
بحیرۂ ابیض اور بحرِ اوقیانوس کے سنگم پر واقع ہے، سرزمینِ اسلام کے اُس کونے میں
یہی قوم اسلام اور امت کو درپیش چیلنجوں کے ساتھ صدیوں پورا اترتی آئی ہے۔ قیروان،
تلمسان، سوس، فاس، طنجہ، مکناس اور الرباط آج بھی آپ
کے اندر شوکتِ اسلام کی کچھ لا متناہی یادوں کے تار چھیڑتے ہیں۔ وہ تاریخی اسلامی جذبہ
اس خطے کی قوموں میں اِس وقت شاید سب سے زیادہ آپ کو الجزائر میں نظر آئے گا
باوجود اس کے کہ خطے کی باقی قوموں کی نسبت سب سے طویل عرصہ اِسی کو استعمار کے
جبڑوں میں رہنا پڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ پیش ازیں اس پورے خطے میں
الجزائر کو خلافت عثمانیہ کی سب سے بڑی فوجی چھاؤنی ہونے کا شرف حاصل رہا ہے،
خصوصاً عثمانی بحری افواج کا علاقائی مرکز۔ ہمارے سمندری شیر خیرالدین باربروسہ کی
تگ و تاز زیادہ یہیں سے ہوتی رہی تھی۔
واضح رہے، یہاں ہم اسلام کے نامور تہذیبی مراکز
کا ذکر نہیں کر رہے، جوکہ بہت زیادہ ہیں۔ ورنہ ہم بغداد اور دمشق کا بھی تذکرہ
کرتے جہاں اسلامی تہذیب صدیوں اٹھکیلیاں کرتی رہی، تاہم خلافت یہاں سے منتقل ہو
جانے اور قابل ذکر اسلامی امارتوں کا دور گزر جانے کے بعد یہ خطے اسلامی تہذیب اور
علوم و فنون کے مراکز تو بدستور رہے لیکن مسلم اقوام کی پاسبانی اور چوکیداری کے
حوالے سے باقاعدہ ایک مرکز یا بیس کیمپ ہونا پچھلی متعدد صدیوں سے بغداد اور دمشق
کے حصے میں نہیں ہے۔ خاص علمی، ثقافتی اور تہذیبی حوالے سے بات ہوتی تو ہم ٹمبکٹو
کا بھی ذکر کرتے جو افریقہ کے آخری مغربی کنارے پر صدیوں روشنی کا مینار بنا
جگمگاتا رہا۔ خاص مسلمانوں کے تہذیبی مراکز ہمارا موضوع ہوتے تو سمرقند و بخارا،
بلخ و ہرات اور شیراز و اصفہان کے بغیر ظاہر ہے ہماری بات نامکمل رہتی۔ صنعاء،
خرطوم، بیروت، بيت المقدس، طرابلس، باکو، جکارتہ، کوالالمپور،
دوشنبہ، کمپالا، ڈاکار، مقدیشو، سرائیوو، کاشغر، مرۡو،
خیوہ، فرغانہ.. یہ سب اسلامی تہذیب کے وہ گڑھ ہیں جو اپنی سحرانگیزی سے آپ کو
مدہوش کر سکتے ہیں۔ مگر یہاں ہمارا موضوع وطنِ اسلامی کے وہ زون ہیں جو پچھلی متعدد
صدیوں کے دوران اسلام کے کسی نہ کسی بڑے گوشے کی پاسبانی کے فرائض انجام دیتے رہے یہاں تک کہ
عالم اسلام میں اپنی یہ حیثیت اور اہمیت اِن قوموں کے تحت الشعور میں جا بسی؛ جوکہ
دورِ زوال کی اِن آخری صدیوں میں بھی ان کے لاشعور سے کھرچی نہ جا سکی۔ اِنہی
کے وجود میں اٹھنے والی لہریں ہمارے لیے آج سب سے زیادہ باعثِ کشش ہیں اور ہماری
سب سے بڑی اسلامی امید۔ ان میں اہم ترین اس وقت اسلامی قوت کے یہ دو بڑے بازو ہیں:
’’پاکستان‘‘ مسلم تاریخ میں تختِ دہلی کا وہ بچا کھچا ورثہ جو صدیوں اسلامی
ایمپائر کا شرقی بیس کیمپ رہا ہے۔ جبکہ ترکی اس ایمپائر کا وہ غربی بیس کیمپ جو دور
آخر کی صدیوں میں سلاجقہ، آلِ زنکی، آلِ ایوب اور ممالیک کا مشترکہ وارث بن کر
سامنے آیا۔ پچھلے ہزار سال سے اسلامی قوت بڑی حد تک انہی دو بازوؤں پر قائم رہی۔ تاریخ میں یہاں تک لکھا ہے
کہ سلطنتِ دہلی کے کمزوری کے ایام میں تُرک ممالیکِ مصر کے بحری بیڑے بحر ہند میں
آ کر پہرے دیتے رہے تھے کہ مبادا اُن کے ساتھ برسر پیکار یورپی ٹڈی دَل عالم اسلام
کے اِس مشرقی حصے میں نقب لگا لیں۔ اسلامی طاقت کے اِنہی دو محوروں نے ہزار سال تک
عالم اسلام کا اکثر بوجھ سنبھال کر رکھا۔ آج بھی یہی دو خطے سب سے پہلے اور سب سے
بڑھ کر سر اٹھانے لگے ہیں۔ کچھ طبقے اِن دو مبارک مسلم قوموں کی انتظامی، معاشی،
سائنسی اور عسکری ترقی میں جان کھپا رہے
ہیں تو کچھ طبقوں کو یہاں کی ایمانی، روحانی، وجدانی بازیافت پر اپنا زور صرف کر
دینا ہو گا اور اِن کے تاریخی اسباق اِن کو از سر نو یاد کرانے ہوں گے۔ امتِ محمدؐ
میں خدا نے آپ کو اگر کوئی امتیازی حیثیت دی ہے تو اِس شرف کو برقرار رکھنے کےلیے
اپنا پورا زور صرف کر دینا چاہئے۔ وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ
لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم (محمد: 38) ’’اب
اگر تم پیٹھ پھیرتے ہو تو وہ تمہاری جگہ تمہارے سوا لوگ لے آئے گا، جو پھر تم جیسے
نہ ہوں گے‘‘۔
کس قدر شرمساری کی بات ہے،
روہنگیا برصغیر کا حصہ ہونے کے ناطے اصولاً ہمارے حصے میں آتا تھا اور خالصتاً
ہماری ذمہ داری۔ ان روہنگیا مسلمانوں کی جیسی کیسی مدد کےلیے تین سمندر پار ’’ترکی‘‘
سے ایک نیک خاتون امینہ اردوگان چل کر اِدھر آ پہنچی مگر ہمارے یہاں کا کوئی مرد
اپنے ہی اِس بحر ہند میں بیٹھی ایک مظلوم بنجاری قوم کے ساتھ یکجہتی دکھانے کےلیے
اٹھ کر آگے نہ بڑھ سکا۔ صاحبو اتنی سی نخوت، مردانگی اور نصرتِ حق کا ثبوت تو ہم
اپنے آس پاس کسی کافر پر ظلم ہوتا دیکھ کر دے لیا کرتے تھے؛ یہ تو پھر مسلمان
ہمارے نبیؐ کی امت ہیں!
*****
دعا یہ بھی کرنی چاہئے کہ
مسلم طاقت کے یہ چھ سات محور کسی دن اکٹھے ہو جائیں اور کوئی مشترکہ دفاعی حکمت
عملی ترتیب دیں۔ آج نہیں تو کل، ان شاء اللہ یہ کام ہونا ہے۔ کسی خلافت کے تحت نہ سہی مسلم طاقتوں کے ایک الائینس کے طور
پر ہی سہی۔ یہ الائینس اگر وجود میں آ گیا تو دنیا کی کسی بھی ’ویٹو پاور‘ سے بڑی
پاور ہو گا، ان شاء اللہُ تعالیٰ۔ روہنگیا ایسے دلدوز واقعات، جن میں ہماری بےبسی
حلق تک آ پہنچی ہے، ہمارے اندر ایسی کوئی سوچ پیدا کر تو سکتے ہیں۔ احساس زندہ ہو
جائے تو باقی کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے؟ اپنی یہ ’’مرگِ مفاجات‘‘ جو ہر چند ماہ
بعد ہم دنیا میں کہیں نہ کہیں مر رہے ہوتے ہیں اور ہماری یہ پانیوں میں تیرتی لاشیں
عالمی ذرائع ابلاغ کی دن دو دن توجہ لینے میں بمشکل کامیاب ہوتی ہیں، اس کے پیچھے
اک ’’جرمِ ضعیفی‘‘ کے سوا کچھ نہیں تو آخر کوئی تو مداوا اور ازالہ اِس ’’ضعیفی‘‘
کا بھی ہو۔ یہ کچوکے جو ہمیں صبح شام لگ رہے ہیں، ان سے کچھ ہی سبق سیکھیں۔
روہنگیا کا خون نرا ضائع جانے کےلیے تو نہیں!