سوال: عورت کے اعتکاف کے
بارے میں راہنمائی کریں۔ کیا آج کے زمانے
میں وہ گھر پر اعتکاف کر سکتی ہیں؟
سائل:
حافظ شمشیر شاہد
جواب: پہلی بات تو یہ نوٹ کر لی جائے، اعتکاف مرد یا عورت
کسی پر بھی فرض نہیں۔ بہت سے کیسز میں عورتوں کا مسجدوں میں اعتکاف کرنا کچھ مفاسد
کا موجب ہوتا ہے، بڑی عمر کی خواتین کے حوالے سے نہ سہی تو جوان دوشیزاؤں کے
معاملے میں کچھ غیرمعمولی مفاسد پیش آ سکتے ہیں۔ یہ عبادات درحقیقت قلوب کی اصلاح
کےلیے ہیں نہ کہ کچھ اور بھی نئے فتنوں کو جنم دے ڈالنے کےلیے۔ چونکہ اللہ نے اعتکاف فرض نہیں کر رکھا اس لیے
اس کے معاملہ میں عورتوں کا مساجد میں رش کرنے کا رجحان بوجوہ نقصان دہ ہو سکتا
ہے، لہٰذا مفاسد سے بچنے کےلیے اجتناب بہتر ہے۔
البتہ جہاں تک فقہی مسئلہ کا تعلق ہے تو اعتکاف صرف مسجد
میں ہے، عورت کے حق میں بھی اور مرد کے حق میں بھی۔ امہات المؤمنین کا اعتکاف
احادیث میں مسجد ہی کے اندر کرنا مذکور ہے۔ گھر میں اعتکاف کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں شیخ خالد بن عبد اللہ المصلح کے فتویٰ کا ایک
حصہ:
حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ حنابلہ کے علمائے جماہیر کا مذہب ہے کہ: عورت مرد کی طرح ہے۔ اس کا
اعتکاف درست نہیں مگر مسجد میں ہی۔ بنابریں اس کا اپنے گھر کی نمازگاہ میں اعتکاف
کرنا درست نہیں۔ برخلاف حنفیہ کے مذہب کے
جن کا کہنا ہے: عورت کا اپنے گھر کی نمازگاہ میں اعتکاف کرنا درست ہے۔ اس مسئلہ میں جمہور کا مذہب ہی درست ہے۔ کیونکہ
اصل یہ ہے کہ عورت اور مرد حکم میں یکساں ہوں، سوائے جہاں دلیل آ جائے۔ چنانچہ
مشروع یہ ہے کہ عورت مساجد میں ہی اعتکاف کرے۔ تاہم یہ جاننا ضروری ہی کہ شادی شدہ عورت کےلیے شوہر
کی اجازت کے بغیر اعتکاف کرنا درست نہیں، ازرُوئے قول جمہور علماء۔ کیونکہ شوہر کا اس پر حق ہے۔ (حوالہ
ویب لنک)
شیخ صالح المنجد کے فتویٰ کا ایک حضہ:
جی ہاں۔ عورت کےلیے جائز ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ وہ مسجد
کے اندر اعتکاف کرے۔
بلکہ اعتکاف عورت مرد دونوں کے حق میں سنت ہے۔ امہات
المومنینؓ نبیﷺ کی زندگی میں آپﷺ کے ساتھ اعتکاف کرتی رہی ہیں۔ اور آپ ﷺ کی وفات
کے بعد بھی اعتکاف کرتی رہیں۔
بخاری اور مسلم میں ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ
نبیﷺ کا معمول رہا رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف کرنا یہاں تک کہ اللہ نے آپﷺ کو اپنے
پاس بلا لیا۔ آپﷺ کے بعد آپﷺ کی بیویاں اعتکاف کرتی رہیں۔
عون المعبود میں اس کی شرح کے اندر آتا ہے: اس میں دلیل ہے
کہ عورتیں اعتکاف کے معاملہ میں مردوں کی طرح ہیں۔ (حوالہ ویب لنک)
(نوٹ: واضح رہے، فقہی موضوعات پر ہم خود فتویٰ نہیں دیتے،
صرف اہل علم کے فتاوىٰ کے ناقل ہوتے ہیں۔ ان میں ہمارا مصدر بالعموم کتب و مشائخِ حنابلہ
ہوتے ہیں، دیگر فقہی مذاہب کے پیروکار اپنے مراجع سے رجوع کر سکتے ہیں)۔