بدترین برگ و بار والا مذہب
|
:عنوان |
|
|
بیٹا کیا تم یہ برداشت کرو گے کہ کوئی اور آدمی تمہاری بہن کے ساتھ ایسا کام کرے؟ لڑکے نے بےپروائی سے کندھے اچکائے اور بولا: آئی ڈونٹ مائنڈ اف شی از اوکے ود دیٹ! اب یہ ہکابکا، اس ظالم نےتو حدیث بھی پوری نہ کرنے دی |
|
|
بدترین برگ و بار والا مذہب
تحریر:
حامد کمال الدین
عزیزم
کاشف نصیر کے اس ٹویٹ
نے مجھے ایک واقعہ یاد دلا دیا۔ یہ ایک سچا واقعہ ہے جو امریکہ میں ہمارے ایک دوست
عالمِ دین کے ساتھ پیش آیا۔
امریکہ
کی اسلامک سوسائٹی آف گریٹر ووسٹر Islamic Society of Greater Worcester (میساچوسٹس) میں مجھ سے پہلے مصر کے ایک خطیب
ہوتے تھے جو بیچارے آج کل جنرل سیسی کی جیل میں جا پھنسے ہیں، اللہ ان کو وہاں سے
رہائی دلائے۔ ڈاکٹر صلاح سلطان۔ انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ بزبانِ
خود سنایا اور بعدازاں ان کا یہی واقعہ شیخ وجدی غُنَیم نے بھی شکاگو میں اکنا کے سالانہ کنونشن میں نقل کیا۔ کہتے ہیں: میں مصر سے نیا نیا شریعت میں پی ایچ ڈی کر کے آیا تھا۔ سب حدیثیں
ابھی حافظہ میں تازہ تھیں۔ اور امریکہ کا ماحول میرے لیے بہرحال نیا تھا۔ امریکہ
میں ائمہ و خطباء کے پاس لوگ اپنے تقریباً سبھی مسائل لے کر آتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
ایک دن ایک فیملی میرے پاس آئی اور درخواست کی کہ میں ان کے ایک ٹین ایجر بچے کو
فہمائش کےلیے ایک سیشن دوں جو جنسی بےراہ روی کا شکار ہونے لگا ہے، شاید کہ میرے
سمجھانے سے کچھ سمجھ جائے۔ میں نے نوجوان کو اپنے آفس میں بلایا اور کچھ ابتدائی
گفتگو کے بعد برسرِ مطلب آ گیا۔ واقعتاً محسوس ہوا، لڑکے کو نصیحت کی شدید ضرورت
ہے۔ سنت طریقے سے بڑھ کر بھلا چیز کارگر ہوسکتی ہے۔ میرے ذہن میں وہی نبیﷺ والی
حدیث جو آپﷺ نے ایک ایسے نوجوان کو فہمائش کرتے ہوئے فرمائی تھی جو زنا کرنے کا
خواہشمند تھا اور لوگ اس کو ڈانٹ رہے تھے تو آپﷺ نے فرمایا: میرے قریب آؤ۔ وہ آپﷺ
کے قریب آیا تو آپﷺ نے فرمایا: کیا تم یہ چیز اپنی ماں کےلیے پسند کرو گے؟ اس نے عرض
کی: نہیں اللہ کی قسم، اللہ مجھے آپ پر فدا کروائے۔ آپﷺ نے فرمایا: لوگ بھی تو
اپنی ماؤں کےلیے یہ پسند نہیں کرتے۔ پھر فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کےلیے یہ پسند
کرو گے؟ اس نے عرض کی: نہیں اللہ کی قسم، اللہ مجھے آپ پر فدا کروائے۔ آپﷺ نے
فرمایا: لوگ بھی تو اپنی بیٹیوں کےلیے یہ پسند نہیں کرتے۔ پھر فرمایا: کیا تم یہ
چیز اپنی بہن کےلیے پسند کرو گے؟ اس نے عرض کیا: نہیں اللہ کی قسم، اللہ مجھے آپ
پر فدا کروائے۔ آپ نے فرمایا: لوگ بھی تو اپنی بہنوں کےلیے یہ پسند نہیں کرتے۔ پھر فرمایا: کیا تم یہ چیز اپنی پھوپھی کےلیے
پسند کرو گے؟ اس نے عرض کیا: نہیں اللہ کی قسم، اللہ مجھے آپ پر فدا کروائے۔ آپﷺ
نے فرمایا: لوگ بھی تو اپنی پھوپھیوں کےلیے یہ پسند نہیں کرتے۔ پھر فرمایا: کیا تم
یہ چیز اپنی خالہ کےلیے پسند کرو گے؟ اس نے عرض کیا: نہیں اللہ کی قسم، اللہ مجھے
آپ پر فدا کروائے۔ آپﷺ نے فرمایا: لوگ بھی تو اپنی خالاؤں کےلیے یہ پسند نہیں
کرتے۔ الیٰ آخر الحدیث (مسند
احمد ، عن ابی اُمامۃ)۔ کہتے ہیں یہ حدیث میں نے خوب ذہن میں کر رکھی تھی۔
تربیت کی کتب میں اس حدیث پر جو زور دے رکھا گیا ہے، وہ بھی میرے سامنے تھا۔ اور
میں اس بات کےلیے تیار تھا کہ سنت میں وارد اِس طریقۂ تربیت و فہمائش کو آج ان
شاء اللہ عمل میں لایا جائے گا، اور اس سے میں اعلیٰ نتائج کا امیدوار بھی تھا۔
میں نے نوجوان کےلیے گفتگو کی ایک تمہید بنائی اور ایک سنجیدہ فضا پیدا کر کے آخر
وہ سوال زبان پر لے ہی آیا: بیٹا کیا تم یہ برداشت کرو گے کہ کوئی اور آدمی تمہاری
بہن کو کہیں لے جا کر اس کے ساتھ ایسا کام کرے؟ لڑکے نے بےپروائی سے کندھے اچکائے
اور بولا: I don’t mind if she is okay with that۔ اب یہ ہکابکا، اس ظالم نے تو حدیث بھی پوری
نہیں کرنے دی! ماں کا ذکر، پھر بیٹی کا، پھر پھوپھی پھر خالہ کا، یہ سب تو ابھی
ہونا تھا اور توقع تھی لڑکے پر ایک رنگ آتا اور ایک رنگ جاتا ابھی دیکھا جائے گا۔ اپنی بہن، ماں اور بیٹی کےلیے واقعتاً یہ سننا آدمی کی برداشت سے باہر ہے۔ مگر لڑکے نے تو بات ہی ختم کردی؛ سب
کچھ ہی اتار پھینکا۔ کہتے ہیں، مصر میں
میں نے برے سے برا اور گندے سے گندا آدمی دیکھ رکھا تھا۔ لیکن کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنی بہن اور ماں کے
ذکر پر آگ بگولہ نہ ہو جائے۔ (سوائے لبرلزم کے، کسی بھی جاہلیت میں بےغیرتی کی یہ
نوبت شاید کبھی نہ آئی ہو)۔ اور یہی وہ چیز تھی جسے نبیﷺ نے اپنی فہمائش میں بنیاد بنایا
تھا۔ مگر یہاں تو آدمیت اور انسانیت کا معاملہ سرے سے ختم ہے۔ بات تو آدمیوں کے ساتھ کی جاتی ہے؛ اب اِس کے ساتھ آپ
کیا سر پھوڑیں گے؟ میں نے اپنے آپ سے کہا: تم اس نئی دنیا میں ہو جس سے پہلے انسانوں
کو کبھی واسطہ نہیں پڑا، جہاں فطرت اس درجہ میں مسخ ہو چکی ہو وہاں کہنے کو کیا
باقی ہے؟
واقعتاً کچھ باقی نہیں۔
تو بھائی کاشف نصیر! بہت اچھا کیا آپ نے جو اس سے وہ سوال
نہیں پوچھا، ورنہ شاید ناک پر ہاتھ رکھ کر واپس آنا پڑتا۔ یہ بالکل ایک اور مخلوق ہے اور انسانیت کی تاریخ
میں سراسر ایک نیا مذہب۔ یہ سب ملتوں اور
سب اخلاقی ضابطوں کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے، جس کے بارے میں ہمارے کچھ اصلاح کاروں
کا خیال ہے کہ ارتداد کی اِس کھلی دعوت کو آہنی ہاتھ سے ختم کرنے کی بجائے اس کو پچکارنے اور اس کے نخرے اٹھانے کا رویہ
مناسب تر ہے۔ ابھی کل سے میں حیران ہوں،
پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے جیت پانے پر سجدۂ شکر کر لینے کا واقعہ اِس ملکِ خداداد
پاکستان میں ایک ’ایشو‘ کے طور پر ڈسکس ہو رہا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ خدا
کو ایک سجدہ بھائی، صرف سجدہ، مسلمانوں کے معاشرے میں! چھوڑ دو فی الحال ’شریعت کے
نفاذ‘ کی بات، وہ سیکولرزم کا مسئلہ بہت پیچھے رہ گیا، اب لبرلزم کی بات کریں، محض
خدا کو سجدہ کر لینا، ایک ایشو اور ایک تنازعہ! اور خیر سے اس شخص کا حکم دین میں
ہے کیا جو خدا کو ایک سجدہ ہو جانے پر جل بھن کر رہ جاتا ہو؟ کیا آپ کو اندازہ ہے،
قومی سطح پر آپ کس نوبت کو پہنچے ہوئے ہیں؟ آپ کا یہ مسلم معاشرہ کس منحوس دانش کے
نرغے میں آیا ہوا ہے؟
سچ ہے جو نبیﷺ نے فرمایا: إذا لم
تستحيِ فاصنع ما شئت. ’’جب شرم چلی
جائے تو پھر جو بھی کر لو‘‘۔
یعنی پھر کوئی حد ہے نہیں۔ ۔۔۔
ایقاظ کا خصوصی ضمیمہ ’’ویلنٹائن.. مردار تہذیب کی دستک‘‘ اس لنک سے | |
|
|
|
|
|
|