اپنے حصے کی شمع کیسے جلائی جائے؟
میں
نے اپنی ٹائم لائن پر
استاد حامد کمال الدین کی تحریر"پسماندہ
مسلم معاشرے.. پڑھے لکھے بھیڑیوں کے نرغے میں" کا ایک اقتباس پیش کیا تھاجس میں قوم کے گھاگ اور ہوشیار اینکروں،
سیاستدانوں، دانشوروں اوربہروپ بھر کے آئے ہوئے ’ترقی‘ کی راہ دکھانے والے ٹولے کے
رویے پر تنقید کی گئی تھی کہ کس طرح یہ ایک بے حیلہ و پسماندہ قوم پرنظریاتی
چڑھائی کر رہے ہیں۔ ایک صاحب علم
اور درد مند دوست نے اس پر اپنا تبصرہ پیش کیا کہ "کیوں نہ اپنے حصے کی شمع
جلائی جائے؟"۔ان کاکہنا ہے کہ اس طرح
کی مخالفت کرنے کے بجائے ہمیں مثبت کام کر
کے ان کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا چاہئے۔
بات
اچھی اور قابل فہم تھی لیکن میرے نزدیک یہ ایک طرح سے بے محل اور غیر متعلقہ بات
تھی۔چونکہ ہمارے دین کا دردرکھنے والے بعض افراد ایسے بھى ہيں جن کے نزدیک کسی کی
برائی بیان نہیں کی جانى چاہے بلکہ مثبت انداز میں بس اپنے حصے کی شمع جلاتے جانا
چاہئے اس لئے خیال ہوا کہ اس ذہنیت پرایک مختصر تحریر لکھی جایے۔
ویسے
تو دین کے کرنے کا بہت سارا کام ہیں، جن کے اندر جذبہ اور صلاحیت ہے وہ کرتے بھی
ہیں۔ اس وقت میڈیا جیسے اژدھے کا مقابلہ کرنا کسی فرد کیا، جماعت کیا بلکہ کسی ملک
کے لئے بھی انتہائی مشکل ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی اپنے آپ کو اس بارے میں
بے بس پارہے ہیں قطع نظر اس سے کہ موصوف خود اپنے مؤقف میں کتنے حق بجانب ہیں۔
موجودہ دور کا میڈیا اصل میں بڑی کمپنیوں کی فنڈنگ سے چلتا ہے اور اب وہ خود ایک
منافع بخش کاروبار ہے۔ اس اعتبار سے یہ سرمایہ داری کا ہی پھیلاؤ اور اس کا محافظ
ہے۔ سرمایہ داری کچھ مفروضات اور مابعد الطبیعات اپنے ساتھ لے کر آتی ہے۔ اس لئے
جہاں پر سرمایہ داری اور فری مارکيٹ ہوگی وہاں پر یہ میڈیا دندناتا پھرے گا۔یہ
میڈیا اور دانشوروں کاٹولہ لازمی طور پر ایسے ہی نظریا ت اور آئیڈیاز کی ترویج کرے
گا جو کہ سرمایہ داری کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
اب
سوال یہ ہے کہ اس میڈیائی دانشوری کی
شرارتوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔
ایک
ترکیب یہ ہے کہ ایک متبادل ابلاغی نظام پیش کیا جائے۔ اس پر کوشش کرنے والوں نے کوششیں
کی ہیں، لیکن یہ مقابلہ ہاتھی اور چیونٹی کے مقابلے کی طرح ہے۔ الیکٹرانک ابلاغیات
کے لئے بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، متبادل دینی میڈیا جو بھی ہوگا وہ اتنا
سرمایہ اکھٹا نہیں کر پائے گا جو کہ وہ میڈیا کر پائے گا جو کہ سرمایہ دارانہ نظام
کا محافظ ہے۔ اور اگر کر بھی لے تو اتنا منافع نہیں جمع کر پائے گا کہ وہ جاری رہ
سکے۔
چونکہ
میڈیا بنیادی طور پر پروپیگنڈے کا آلہ ہے اس لئے اس کا مقابلہ کرنے کا ایک اور
طریقہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کر کے میڈیا کا مقابلہ کیا جائے۔ اس طرح
ممکن ہے کہ سوشل میڈیا کے ٹرینڈ کے دباؤ میں آکر روایتی میڈیا محتاط رہے۔ اسی طرح
سوشل میڈیا کو استعمال کر کے روایتی میڈیا کی شرارتوں اور خباثتوں کو خوب خوب
آشکار کیا جائے۔ یہ گویا کہ ایک بیداری کی مہم اور عوام میں میڈیائی دانشوری کے
بارے میں شعور پیدا کرنے کی ایک کوشش
ہوگی۔
ان
کاموں سے بہت زیادہ فائدہ تو نہیں ہوگا، لیکن باشعور طبقے کے اندر میڈیا کی حقیقت
پر آگاہی پیدا ہوگی اور ان کی شرارتوں اور خباثتوں سے بیزاری کا ماحول پیدا ہوگا۔
اس کے دور رس مثبت نتائج نکلیں گےاور اگلی نسلوں تک یہ اثرات مضبوط ہوجائیں گے۔
اپنے
حصے کی شمع جلانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ جو گندی ہواؤں کے جھکڑ، اور آندھیاں
آرہی ہیں ان سے اپنے اور دوسروں کو بچانے کے بجائے شمع پر شمع جلائی جائے اور وہ
بجھتی رہے۔ شاعری کرنا الگ چیز ہے لیکن ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں
ہیں کہ ہم نشیمن پر نشیمن پر تعمیرکرتے جائیں اور بجلی کا گرتے گرتے خود بیزار
ہونے کا انتظار کرتے بیٹھیں۔ ہمارا کام مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔ اگر کوئی
برائی ہورہی ہے تو اس کو ہاتھ سے روکنا ہے اور نہ روک سکیں تو اس پر نکیر کرکے
اپنے آس پاس کے انسانوں کو اس خبردار کرنا بھی ضروری ہے۔
موجودہ
دور میں دین کے کام کے حوالے سے کچھ ذہن ایسے بنے ہوئے ہیں کہ بس ہم اپنے حصے کا
تعمیری کام کرتے رہیں اور کسی کی برائی نہ کریں۔ دین کے حوالے سے انبیاء کا کام
ایسا نہیں تھا۔شر اور زیادتی ہمیشہ اچھائی اور انصاف کی شکل میں اپنے آپ کو پیش
کرتی ہے۔ انہیں اس التباس سے نکال کر برہنہ کرنا بھی بہت ضروری ہے، یہ بھی اپنے
حصے کی شمع جلانا ہی ہے۔ کسی کی نفی کئے بغیر "اچھا کام" کرنا نہ علمی
اعتبار سے ممکن ہے اور نہ عملی۔ پتہ نہیں کیوں "کسی کی برائی" بیان کرنے
پر کچھ "اچھوں" کا ذہن احتجاج کرنے لگتا ہے۔ کلام پاک میں منافقین اوراہل کتاب کی خباثتوں اور بدنیتی کوخوب خوب واضح کیا
گیا ہے۔ منافقین کانام تو نہیں لیا گیا ہے لیکن منافقین کے رویے کو ایسے بیان کیا
گیا ہے کہ خوب واضح تھا کہ کون منافق تھا اور کون نہیں۔ شمع جلانا ہے تو پھر خوب
جلائی جائے، ایسی روشنی پھیلائی جائے کہ ملت پرپل پڑے یہ دانشور اپنے آپ کو چھپا
نہ پائیں۔ پوری ملت کے سامنے ایسے برہنہ ہوکر سامنے آئیں کہ ان کاایک ایک عیب سب
پر عیاں ہوجائے۔ وہ کونسی شمع ہے جس کی روشنی میں بھی یہ شریر اپنی عزت باقی
رکھ سکیں؟
رہی دعوت و اصلاح کی بات ، اگرچہ یہ ایک مثبت اور اچھی سوچ
ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیاکبھی یہ طے کرپائیں گے کہ ان کی اصلاح کی
کوشش ہوچکی ہے؟ اور کیاجب تک ان کی اصلاح کا کام کر کے ان پر اتمام حجت نہ ہوجائے
انہیں اپنی خباثت اور شرارتوں کا نشانہ بننے کے لئے اس بھولی بھالی امت کو تھالی
میں رکھ کر پیش کیا جائے؟ ہم کسی کی اصلاح کے بارے میں ناامید تو نہیں ہیں، لیکن
یہ خبیث طبقے دین کو ہم سے زیادہ جان کر ہوائے نفس کو اپنا معبودبنائے ہوئے ہیں۔
یہ چھٹے ہوئے طبقے ہوتے ہیں اوران کوتنبیہ کرنے کاایک طریقہ ہی یہ ہے کہ ان کو ان کے التباس سے نکال کربرہنہ
کر کے عوام کے سامنے لایا جائے۔ کیا پتہ عوام کے سامنے اس طرح حقیقت کو آشکار ہوتے
دیکھ کر ہی کسی کو تنبیہ ہوجائے۔ کبھی کبھی ذہنی جھٹکے لوگوں کی توبہ کا باعث بنتے
ہیں۔