یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلجئس فریڈم
نے ایک ’مقامی‘ این جی او کی مشاورت سے پاکستانی درسی کتابوں کے سلسلہ میں ایک
مزید نظر ثانی کی سفارش کی ہے۔ سفارش میں یہ اصرار کیا گیا ہے کہ درسی کتابوں سے
’’اسلام کے واحد صحیح دین‘‘ ہونے پر زور دینے کو ہر حال میں ختم کیا جائے۔ (دی نیوز کی رپورٹ)
اس پر ایک مسلمان کا کیا موقف ہو سکتا ہے؟
قرآن اور محمدﷺ کو اس حیثیت میں پیش نہ کرنا جس حیثیت میں خود اور قرآن
اور محمدﷺ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور ہم اسے قبول کرنے
کے بعد ہی اس پر ’’ایمان لانے والے‘‘ ہوئے... یہ ہمارے حق میں صاف ارتداد کی دعوت ہے۔
کیا یہ بات این جی اوز طے کریں گی کہ دینِ اسلام اور محمدﷺ انسانوں کے سامنے اپنے آپ کو کس حیثیت میں پیش کریں اور کس
حیثیت میں پیش کرنے سے ’گریز‘ کریں؟ اور کیا این جی اوز کی ان اھواء کو درخورِ
اعتناء جاننے کے بعد ہم مسلمان رہتے ہیں؟
*****
دین اسلام اور نبوتِ محمدﷺ کی اصولی پوزیشن اس
سلسلہ میں واضح کر دینا ضروری ہے... اور ہمارے لیے ’’عقیدہ‘‘ کا ایک بنیادی ترین مسئلہ۔
اس دین کی بابت سب سے پہلی بات جاننے کی یہ ہے کہ یہ اپنے آپ
کو آدم علیہ السلام سے چلے آنے والے ایک تسلسل کے طور پر پیش کرتا ہے نہ کہ سن 610
عیسوی میں پہلی بار دنیا میں نمودار ہونے والی کوئی چیز۔ اور اس کا مرکزی نقطہ ہے:
زمین پر اترنے والی خدائی رسالتوں کا اقرار؛ جو انسانیت کو ’’ماننے والوں‘‘ اور
’’نہ ماننے والوں‘‘ میں ایک تسلسل کے ساتھ تقسیم کیے چلا آتا ہے۔ اصل بات اہل زمین
کےلیے ’’خدا کا خطاب‘‘ Divine
Communication ہے جو
’’رسالتوں‘‘ کے ذریعے ایک تسلسل کے ساتھ عمل میں آیا ہے۔ ’’قرآن‘‘ اور ’’محمدﷺ‘‘ کو اِس سیاق میں لانا ضروری ہے، نہ کہ محض ایک ’مذہبی کتاب‘
اور محض ایک ’مذہبی پیشوا‘ کے طور پر لینا۔
خوب نوٹ فرما لیجئے: زمین پر خدائی ہدایت اور فرمانروائی کا
ایک تسلسل..
خدا کی اتھارٹی کے آگے سر تسلیم خم کرنا اور اُس کے سب رسولوں،
اُس کی سب کتابوں اور اُس کے سب احکام کو تسلیم کرتے چلے جانا، اور کسی ایک کا بھی
انکاری ہونے کا روادار نہ ہونا۔ یہ وہ دین ہے جس میں صرف ایک محمدﷺ کا نہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرنا بھی ویسا ہی کفر
ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا انکار کرنا بھی۔ اور ابراہیم علیہ السلام کا انکار کرنا
بھی۔ یہی حیثیت اِس دین میں تمام پیغمبروں کی ہے۔ ان میں تفریق کرنے سے ہمیں جابجا
ممانعت ہوئی اور اس بات کو ہمارے حق میں کفر گردانا گیا ہے۔ محمدﷺ کی اس بابت کوئی خصوصیت ہے تو وہ یہ کہ آپﷺ وقت کے رسول ہیں، یعنی عین وہ حیثیت جو ابراہیمؑ کے بعد بڑی
صدیوں تک موسیٰؑ کی تھی اور جو موسیٰؑ کے بعد بڑی صدیوں تک عیسیٰؑ کی رہی۔ البتہ
سلسلہ series
یہ تاریخی ہے اور زمین پر انسانی وجود کے روزِ اول سے چلا آتا ہے۔ اس کا تعلق کسی
گروہ سے نہیں بلکہ انسانوں کےلیے خدا کی پسندیدہ اس روش سے ہے جو زمین پر ایک
تسلسل کے ساتھ پائی گئی ہے اور جس کو ٹھکرانے پر عذابات آنے کا ذکر یہاں کے سب
معروف آسمانی صحیفوں میں آج بھی موجود ہے۔ تورات میں موسیٰؑ نے جس اتھارٹی اور جس
زور کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کیا اور خود پر ایمان لانے کا باقاعدہ ایک تقاضا رکھا،
انجیل Gospel
میں عیسیٰؑ نے جس اتھارٹی اور جس زور کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کیا اور اپنے اوپر
ایمان لانے کا باقاعدہ ایک تقاضا رکھا، محمدﷺ کا تقاضا عین اُسی
آسمانی سلسلہ کی آخری کڑی ہے۔ اس کو ماننے یا نہ ماننے کی آپ کو پھر بھی پوری
آزادی ہے، لیکن اس کا یہ سٹیٹس ختم کرانے کا حق آپ کو نہیں ہے کہ یہ خدا کا حتمی
مطالبہ ہو۔ یعنی جس حیثیت میں موسیٰؑ نے اپنے آپ کو اپنے مخاطبین کے سامنے پیش
کیا، یا جس حیثیت میں عیسیٰؐ نے اپنے آپ کو اپنے مخاطبین کے سامنے پیش کیا، یا جس
حیثیت میں محمدﷺ نے اپنے آپ کو اپنے مخاطبین کے سامنے پیش کیا، اور جوکہ صاف
ایمان کا مطالبہ تھا اور ایمان نہ لانے کی صورت میں خدا کی پکڑ سے صاف ڈرا دینا
تھا، آج آپ موسیٰؐ یا عیسیٰؑ یا محمدﷺ پر یہ پابندی لگائیں کہ وہ اپنے آپ کو اس حیثیت میں پیش ہی کرنے
کے مجاز نہ ہوں؟! (ایمان کا) یہ مطالبہ آپ کے سامنے رکھا ضرور جائے گا، ہاں اسے
قبول کرنے یا نہ کرنے کی آپ کو آزادی ہے۔ یہ ہے رواداری کا صحیح تصور جو ہمیں
اسلام نے دیا ہے۔ نہ آج کے شدت پسندوں کی فرمائش پر ہم اس کو سکیڑ سکتے ہیں اور نہ
آج کے جدت پسندوں کی فرمائش پر ہم اس کو پھیلا سکتے ہیں۔ ہم اپنے دین کو کس حیثیت
میں پیش کریں، آپ ہمیں یہ سبق نہیں دے سکتے، یہ سبق ہم اپنے دین ہی سے لیں گے۔ خدا
کے پیغمبروں کو کس حیثیت میں انسانوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کا انکاری ہونے
کو انسانوں کے حق میں کس قدر سنگین مانا جائے، نیز خدا کے سوا کسی معبود کو پوجنے
پر کیا وعید رکھی جائے، یہ جاننے کےلیے ہمارے پاس خدا کی کتاب موجود ہے۔ یہاں تک
کہ ان معاملات میں تمہاری اھواء کو درخورِ اعتناء جاننے پر سخت ترین وعیدیں بھی
ہماری کتاب میں جابجا درج ہیں۔ ایسی فرمائشیں اِس دین سے ہمیشہ ہوتی آئی ہیں اور
ان سے پیش آنے کی بابت ہمیں واضح ہدایات دے رکھی گئی ہیں:
قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ
اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ
اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
(البقرة: 120)
(ان سے) کہہ دو کہ خدا کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے۔
اور (اے پیغمبر) اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحیِ خدا) کے آ جانے پر بھی ان کی
خواہشوں پر چلو گے تو تم کو (عذاب) خدا سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ
کوئی مددگار۔
(ترجمہ جالندھری)
تفصیل کےلیے دیکھیے ہمارا مضمون : یو ایس کی اگلی فرمائش: شریعت ہی نہیں عقیدہ سے
بھی پسپا ہو جاؤ