اردو
استفادہ از: سید قطب
اِس
پوری ’انٹلکچول تحریک‘ کا نشانہ صرف ایک ہے: اسلام کا عقیدہ اور اسلام کی شریعت۔
کوئی
اِس شریعت کی نصوص کو مروڑنے میں لگا ہے۔ کوئی اس کے مسلمات کو کھوکھلا کرنے کےلیے
اندر تک کھودتا چلا جا رہا ہے۔ کوئی اس کے متفقہ و اجماعی امور کو ’خرافات‘ کے
بھیس میں پیش کر رہا ہے۔ کوئی اس کے معانی کی تحریف میں لگا ہے۔ اور کسی کا روزگار
اس کی تاویل سے وابستہ ہے۔ نصوصِ شریعت کو آج وہ وہ معانی پہنائے جا رہے ہیں جن کی
یہ نہ محتمل ہیں اور نہ اسلاف نے ان کے وہ معانی اور وہ مفہومات کبھی لئے ہیں۔ یہ
سب ”دیدہ ور“ مل کر آج شریعت سے اس کی سب ”قدامت پسندی“ نکالنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اُن دعوتوں کےلیے آج یہاں کے سب لاؤڈ سپیکر کھول دیے گئے ہیں جو ہمیں سمجھانے میں
لگی ہیں کہ ”اسلامی شریعت“ کے بغیر بھی ”مسلم معاشروں“ کا دنیا کے اندر کوئی تصور
ہے! بلکہ یہ کہ ”مسلم معاشروں“ میں اُس چودہ سو سال پرانی شریعت کا اب کام ہی کیا
رہ گیا ہے! کمال شفقت اور مہربانی کے ساتھ آج ہمیں ایسے نابغے میسر کرائے گئے ہیں
جو صبح شام ہمیں یہ ناصحانہ دروس دیتے پھریں کہ ”شریعت“ کا احترام برقرار رکھنا ہے
تو اس کو ”معاشرے“ میں لانے سے اجتناب کیا جائے اور ”معاشرے“ پر ترس کھانا ہے تو
اس کو ”شریعت“ کی عملداری سے دور رکھا جائے!
...
...
’مفکروں‘
اور ’دانشوروں‘ کی یہ فوج ظفر موج اِسی لئے ہے کہ ہمارا وہ عقیدہ اور اس عقیدہ کی
پختگی مسلم نفوس سے ختم کروا دی جائے جس سے کام لے کر کبھی اِس امت نے اپنے راستے
کے بڑےبڑے پہاڑ ہٹائے تھے اور جس کی قوت سے اِس نے قیصر وکسریٰ سے پنجہ آزمائی کی
اور عشروں کے اندر بر اعظموں کے براعظم فتح کر لئے تھے! بلاشبہ وہ ایسا ہی ایک
زبردست عقیدہ اور تصورِ حیات ہے۔ کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں اِس عقیدہ کو مسلم
دماغوں سے کھرچ دینے کےلیے کیسے کیسے ”علمی“ اسلوب اپنائے جاتے ہیں! کہیں پر
”تحقیق“ ہو رہی ہے۔ کہیں پر ”علوم کی تنقیح“ ہو رہی ہے۔ کہیں پر ”ادب“ کے شہ پارے
ہیں۔ کہیں پر ”آرٹ“ اپنے عروج کو پہنچا ہوا ہے۔ کہیں پر ”قلم کاری“ کے جوہر ہیں۔ کہیں
پر ”صحافت“ اپنا آپ منوا رہی ہے۔ کہیں پر سماجی علوم میں ”معروضیت“ objectivity کے قصیدے ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے اِس ”معروضیت“ کا کیا مطلب
ہے؟ جی ہاں، مغرب کی عقل سے سوچنا اور اس سے سر مو انحراف نہ کرنا! نیز ”محققینِ
اہل کتاب“ کے دیے ہوئے فرموں میں ہی غلام دماغوں کو زیادہ سے
زیادہ کس کر جکڑ لینا!
... ...
یہ
راز سب سے بڑھ کر یہود کو معلوم ہے کہ اِس امت کی تمام تر جان اِس کے عقیدہ کے
اندر پوشیدہ ہے۔ اِس عقیدہ کو اِس سے نکال دو، اِس کی ساری جان خود بخود نکل جائے
گی اور ”پچپن ملکوں“ پر مشتمل ’’تین براعظموں‘‘ پر پھیلا ایک بھاری بھر کم وجود کسی
بے جان لاشے کے مانند ڈھ جائے گا۔ پس یہ عقیدہ ہی ہے جو اِس امت کے جسد میں روح کا
کام دیتا رہا ہے۔ اِس روح کو اس سے جدا کر دو، یہ خود بخود بے جان ہو رہے گا؛ اور
پھر اِس کے ساتھ جو چاہو کرو۔ جتنی دیر یہ ایمان کے اِس مضبوط کڑے کو تھام کر کھڑی
ہوتی ہے، اِس کے دشمن کی کوئی ایک بھی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ جس وقت اِس کا نسب
اسلام ہوتا ہے، اور اِس کی پہچان قرآن ہوتا ہے، اِس کی وطنیت اور قومیت میں اِس کی
دھرتی کی بجائے اِس کا آسمانی عقیدہ بولتا ہے، اور اِس کا پرچم اور اِس کا نظامِ
حیات لا الہ الا اللہ پر استوار رہتا ہے، یہ دنیا کی سب سے ناقابل تسخیر قوت ہوتی
ہے۔
یہ
راز سب سے بڑھ کر یہود کو معلوم ہے۔ ہمارا یہ پرانا بھیدی آج اِس بات کے سب
انتظامات عمل میں لا رہا ہے کہ یہ امت اپنے ایمانی عقیدہ سے غافل کر رکھی جائے۔
اِس کو خدائی منہج سے دور رکھنے کےلیے جو جو جتن آج ہمارے اِس دشمن کی جانب سے کئے
جارہے ہیں وہ ناقابل یقین ہیں۔ اِس دشمن کا جو اصل چہرہ ہے، خود اُس کو پہچاننا
بھی تو اِسی بات پر موقوف تھا کہ یہ امت اپنے عقیدہ کی روشنی میں اِس دشمن کو
دیکھنے کی استطاعت پیدا کرے اور ان کے دور رس اہداف اور حربوں کو اپنے عقیدہ سے
مدد لے کر پہچانے۔ قرآن سے یہ نظر پائی ہوتی تو ہمیں اپنے مدمقابل کی اصل صورت اور
اصل حقیقت نظر آتی!
...
...
رہ
گیا یہ کہ اِس پورے فنامنا کے پیچھے کچھ سیاسی اور زیادہ تر معاشی اہداف کارفرما
ہیں.. تو اِس میں کیا شک ہے کہ دنیا کے وسط میں بیٹھی ہوئی اِس امت کی زرخیز
زمینوں اور اِس کے سر سبز و شاداب اور غلے سے لدے کھیتوں اور کھلیانوں اور اِس کے
قدرتی وسائل سے مالامال خطوں کو دیکھ دیکھ کر اس کے دشمن کے منہ سے رال ٹپکتی
ہے....!
سو
عالم اسلام کو قابو کرنے کے مادی محرکات اپنی جگہ درست ہیں...
”یہودی“
سے بڑھ کر دنیا کا پجاری کون ہو سکتا ہے؟! یقیناً وہ مسلم خطوں سے نکل سکنے والے اس
”محصول“ پر للچائی ہوئی نظریں لگا کر بیٹھا رہا ہے اور اس کو لوٹنے کا کوئی ایک
بھی موقعہ ضائع کرنے کا روادار نہیں۔ مگر اِس امت کے عقیدہ اور مشن کو (يَعْرِفُونَهُ
كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَھُمْ ) ”اپنے
بیٹوں“ سے بڑھ کر جاننے والا یہ دشمن خوب واقف ہے کہ اِس امت کے سیاسی و معاشی
استحصال کی بھی کوئی صورت نہیں جب تک اِس امت کو اس کے اصل میدان میں مغلوب نہ کر
لیا جائے۔ جس کےلیے ضروری ہے کہ اِس امت کے ہاتھ سے اِس کا عقیدہ چھین لیا جائے۔
اُسے خوب معلوم ہے، اِس امت کی جان کہاں ہے اور اِس کے بلاد اور اموال پر ہاتھ صاف
کرنے کےلیے بھی سب سے پہلے وہیں پر اِس کا گلا گھونٹنا ضروری ہے۔ صدیوں کے تجربے
نے ان چوروں کو یہ بات سکھا دی ہے کہ اِس امت کے وجود میں جب بھی اِس کا عقیدہ جاگ
اٹھتا ہے تو پھر چوروں کو اِس کے ہاں سے راہ فرار اختیار کیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔
جب یہ امت بیدار ہو تب البتہ اِس کے آگے اُن کی کچھ پیش نہیں آتی۔ صدیوں کے عمل نے
اُن کو اِس نتیجہ پر پہنچا دیا ہے کہ جب یہ امت اپنی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے اور
اپنے آسمانی مشن اور منہج سے وابستہ ہوتی ہے، جب اِس کی بستیوں میں آسمان سے اتری
ہوئی سچی شریعت کا راج ہوتا ہے، اور یہ قرآن سے پائی ہوئی نظر سے کام لے کر اپنے
دشمن کے مکر و فریب کو دیکھنے اور پہچاننے کی صلاحیت سامنے لے آتی ہے، تو اِس کے
ہاں سے ان کے گھناؤنے اہداف کو پھر خیر نہیں پڑتی۔ لہٰذا ہمارے معاشی و سماجی
استحصال کو ممکن بنانے اور یہاں پر ایک اندھی لوٹ مار مچانے کےلیے بھی اُن کی نظر
میں یہی ضروری ٹھہرا کہ سب سے پہلے وہ ہمارے ہاں اِس ”عقیدہ“ اور اِس ”شریعت“ کی
روشنی ہی گل کروائیں اور پھر اس اندھیرے میں وہ اور اُن کے اعتماد یافتہ ”مقامی
عناصر“ ہمیں جی بھر کر لوٹیں اور غلاموں کی منڈی میں جیسے چاہیں ہماری خرید وفروخت
کریں۔
...
...
کوئی
تصور تو کرے ہمارے اِن مفکروں اور دانشوروں اور پروفیسروں اور ریسرچ کاروں کے دم
سے اہل کتاب کی پہنچ کہاں تک ہونے لگی ہے! اُن کے یہ تیکھے تیکھے ’برمے‘ ہمارے
دماغوں میں کس کامیابی کے ساتھ کھداائی کرتے چلے جا رہے ہیں!
اہل
کتاب خود عالم اسلام میں آ کر محمد بن قاسمؒ اور طارق بن زیادؒ کو ڈاکو اور لٹیرا
کہیں گے تو کون اُن سے یہ بات قبول کرے گا، بلکہ اُن کے خلاف یہاں جلوس نکلیں گے۔
اس لئے اے استشراق کے ہونہار شاگردو! اب یہ کام عالم اسلام میں تمہیں کرنا ہے اور
آج کے مسلم ذہن کو مرحلہ در مرحلہ اِسی نوبت کو پہنچانا ہے کہ اس کو ”اپنی“ تاریخ
سے وحشت آنے لگے۔ مسلم نوجوان ”اپنے“ ماضی سے گھن کھانے لگے اور ”اپنی“ شریعت کا
نام سن لے تو اس کے اوسان خطا ہو جائیں.... اور ہمیں تمہاری اِس ”اسکالرشپ“ کا
پورا یقین ہے!
(عرصہ
پیشتر، سید قطب کی کتاب ’’معرکتنا مع الیھود‘‘
کی ایک طویل فصل کا اردو استفادہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس کے چیدہ چیدہ اقتباسات
جو اس جنگ کی نظریاتی جہت سے متعلق ہیں، یہاں شیئر کیے گئے ہیں۔ واضح رہے ’’اردو
استفادہ‘‘ ہماری ایک اصطلاح ہے جس میں اصل تحریر کو اردو مضمون کےلیے محض ایک
بنیاد بنایا گیا ہوتا ہے۔ حامد کمال الدین)