تحریر: محترم خلیل
الرحمن چشتی
سینٹ ویلنٹائن... روم کے ایک
پادری تھے۔
سب کی شادیاں کراتے ہوئے اور
خواتین کو دعائیں دیتے ہوئے خود ایک حسینہ کے عشق میں گرفتار ہوئے۔
ہم ہوئے ، تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
مرد عورت کے لئے اور عورت مرد کے لئے بنائی گئی
ہے۔وہ ایک دوسرے کے لئے فطری کشش بھی رکھتے ہیں اور اللہ کی حکمت بھی یہی ہے کہ
اسی کشمکش کے نتیجے میں افزائش نسل بھی ہوتی رہے۔
اسلام دین فطرت ہے۔ عیسائی رہبانیت کو قرآن نے
بدعت قرار دیا ہے۔
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
ہمارے بعض صوفیا نے ان کے راستے کو اپناکر ترک ازدواج کا راستہ
اپنایا ہےاور رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کی سنت کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔
اسلام نے شادی کے لئے دونوں فریقوں کی رضامندی کو ضروری قرار دیا
ہے۔۔
۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کئی لڑکیوں سے تعلقات کے بعد ایک سے شادی کا
فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
لڑکا
اور لڑکی دونوں اپنی ترجیحات اپنے بزرگوں کے سامنے بلا تکلف رکھیں اور ان کی
ترجیحات کے مطابق وہ انتظام کریں گے۔
ہمارے لبرل بدعتی ، عیسائیوں کے عاشق مزاج ولی کی برسی ، عاشق مزاج عیسائیوں اور بے دین مغربیوں کی طرح
منانا چاہتے ہیں ۔ ان میں وہ نوجوان آگے آگے ہوتے ہیں جن کے پاس دولت نئی نئی آتی
ہے ، یا وہ دیہاتی ہوتے ہیں جو انگریزی میں گالیاں سیکھ لیتے ہیں ،وہ خاندانی لوگ
نہیں ہوتے۔ یا وہ دانشور ہوتے ہیں جن کے دین کا مطالعہ محدود ہوتا ہے بالخصوص علم
حدیث سے دور کی آشنائی بھی نہیں ہوتی۔
سینٹ ویلانٹائن کا انتقال 273 عیسوی میں ہوا۔
17444 سال بعد
بھی اس آوارہ مولوی کی برسی اسی شخص کو زیب دیتی ہے جس نے اپنے نفس کو خدا بنا لیا
ہے۔
۔۔۔
ایقاظ
کا خصوصی ضمیمہ ’’ویلنٹائن.. مردار تہذیب کی دستک‘‘ اس
لنک سے