محمد قطبؒ
اخلاق
باختگی کا ایک طوفان کچھ زخموں کو ہرا کر جاتا ہے، گو یہ سال بھر مندمل نہیں ہوتے۔
خود
فلمی دنیا کے ایک سوانح نگار جن کے مضامین روزنامہ جنگ میں قسط وار چھپتے رہے، چند
عشرے پرانے معاشرے کی ایک تصویر دکھاتے ہوئے لکھ گئے ہیں: ہندوستان میں جب نیا نیا
تھیٹر اور سٹیج آیا تو عورت کا کردار ادا کرنے کےلیے یہاں کوئی دخترِ حوا آمادہ نہ
ہوتی تھی۔ مسلمان تو مسلمان ہندو عورتوں نے اس پر تیار ہو کر نہ دیا کہ پبلک میں
مردوں کے سامنے لہک لہک کر کوئی حرکت کریں گی۔ یہاں تک کہ بازارِ حسن سے رجوع کیا
گیا۔ وہ بھی نہ مانیں۔ (جی ہاں بازارِ حسن کی عورتیں)۔ کہنے لگیں بند کوٹھے میں جو
ہوتا ہے وہ اور بات ہے، کھلے عام مردوں کے سامنے؟ یہ ہم سے نہ ہو گا۔ کہنے لگے،
آخر ایک عرصے تک عورت کا کردار ادا کرنے کےلیے بعض زنانی شکل کے مردوں سے کام لیا
جاتا جو عورتوں کا بھیس بھر کر سٹیج پر آتے اور کہانی میں ذرا رنگ بھرتے! ’سماج‘
جس چیز کا نام ہے حضرات وہ چند عشرے پیشتر خود ہمارے ہندوستان میں ’حیاء‘ کے اس
درجے پر کھڑی تھی، اور جبکہ یہ ہمارے تاریخی اسلامی معاشرے کے محض کچھ کھنڈرات تھے۔
جبکہ آج شریف زادیوں سے پوچھ کر دیکھئے گا کون
اس ’رتبۂ بلند‘ سے پیچھے رہنا چاہتی ہے! انا للہ وانا الیہ راجعون۔
عالم اسلام میں قدروں کا ایک نوحہ آئیے استاذ محمد قطب سے
بھی سنتے ہیں۔ گو یہ محض ایک اقتباس ہے اور اصل تحریر کا سیاق کچھ اور ہے۔
(ادارہ
ایقاظ)
******
زیادہ نہیں، آج سے صرف آٹھ نو عشرے پہلے کی ایک تصویر جب مغرب زدگی
کے اس عمل نے عوامی اور معاشرتی سطح پر ابھی یہ سب گل نہیں کھلائے تھے جو بعد میں
دیکھنے میں آئے...
یہ وہ دور تھا جب برہنہ ہونا ابھی صرف بڑے خاندانوں کی بیگمات تک
محدود تھا۔ متوسط طبقے کی خواتین اس برہنگی سے ابھی بڑی شرم محسوس کرتی تھیں۔ گو
اخبارات وجرائد میں تصویروں اور خبروں اور افسانوں کی صورت میں یہ سب کچھ دیکھ
دیکھ کر اور پڑھ پڑھ کر ان میں بھی بڑی خاموشی سے اس چیز کی خواہش کروٹ ضرور لینے
لگی تھی۔ یہ تو تھی متوسط اور خاصی حد تک پڑھے لکھے طبقے کی بات۔ پھر جہاں تک عام
گلی محلے کی بیٹیوں کا معاملہ تھا وہ تو اس برہنگی سے ہول کھاتی تھیں اور اس بات
کو انتہائی لچر جانتی تھیں۔
یہ وہ دور تھا جب کسی لڑکے اور لڑکی میں محبت کا معاملہ اگر کبھی ہو
جاتا تھا ___اور وہ بھی ایسی محبت جسے آج کے ادب میں ’معصوم‘ کہا جاتا ہے___ تو وہ
حیا سے مر جانے کی بات ہوتی تھی۔ اپنے تعلق کو آخری حد تک چھپانے کی ضرورت محسوس
نہ کرنے والی لڑکی حد درجہ نیچ جانی جاتی تھی! یہ وہ دور تھا جب کتب اور
جرائد میں مغربی فکر مغربی شخصیات کے نام سے ہی پھیلایا اور شائع کیا جاتا تھا اور
فحش ادب لکھنے والے اگر مقامی ہوتے بھی تھے تو وہ اسے اپنے فرضی نام سے شائع کرنا
مناسب سمجھتے تھے۔ تھیٹر، سینما، ریڈیو سب کچھ تھا، یہ سب کچھ اس فکری یلغار کو
آگے بڑھانے میں مدد بھی دیتا تھا مگر اس صنعت نے مقامی سطح پر ابھی بہت زیادہ وہ
ترقی نہیں کی تھی اور اس کی تاثیر بھی ابھی بالکل ابتدائی قسم کی تھی۔
مختصر یہ کہ معاشرے کے ظاہری بگاڑ میں ابھی وہ شدید تیزی نہیں آئی
تھی جو اس سے کچھ دیر بعد دیکھنے میں آئی۔ پھر خاص طور پر اس نے جو آخری زقند بھری
وہ تو سب کچھ ہوا ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد۔
یہ تو تھا اس بگاڑ کے بیرونی مظاہر کا معاملہ۔ دوسری جانب ہماری
’مشرقی روایات‘ ___کم از کم ظاہری حد تک___ ہنوز قائم تھیں اور دیکھنے والے کو یہ
فریب دینے کیلئے کافی تھیں کہ ہماری یہ روایات اس فکری یلغار کے سامنے جس طرح اس
سے نصف صدی پہلے کھڑی تھیں ویسے ہی نصف صدی بعد بھی کھڑی رہ جائیں گی۔ یہ فریب
ہوتا بھی کیوں نہ لوگوں کی بڑی تعداد ابھی نمازی تھی۔ حتی کہ بڑے دارالحکومتوں میں
بھی جو کہ اس فکری یلغار کا گڑھ ہوا کرتے تھے لوگ مسجدوں میں بڑی تعداد میں آتے
تھے۔ رمضان میں چھوٹے بڑے سب روزے رکھتے۔ بے روزہ بھی کسی کے سامنے کھانے پینے کی
جرات نہ کرتا۔ شادی ہمیشہ والدین کی جان پہچان سے بلکہ انہی کے ہاتھوں انجام پاتی۔
خاندانی روابط قابل رشک تھے۔ یہ وہ دور تھا جب خاندان کے سربراہ کی سنی جاتی اور
گھر کے بڑوں کی مانی جاتی تھی۔ بچے بچیاں جوان ہو کر بھی روایات سے نہیں نکلتے
تھے۔ اگر کوئی اپنی خاندانی اور معاشرتی روایات سے پیر باہر رکھتا تو لوگ کم از کم
بھی اس سے منہ پھیر لینے اور اس کو شدید برا جاننے کی ضرورت محسوس کرتے۔ ابھی یہ
شہروں کا حال تھا۔ دیہات میں تو جیسے ابھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ نسلوں سے جو طرز
زندگی چلا آتا رہا دیہات میں ابھی وہ من وعن باقی تھا۔ دیہات کے لوگ ’شہروں کی بے
راہ روی‘ سے گھن کھاتے تھے اور ’پرانا زمانہ‘ گزر جانے پر حسرت سے آہ بھرتے تھے۔
ایسے مظاہر کو بادی النظر دیکھنے والے سے بہت سے حقائق روپوش رہ سکتے
تھے!
کوئی تھوڑی دیر سے نہیں، عرصہ دراز سے اسلام واقعی روایات کا ایک
مجموعہ بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ یہ روایات اسلام کی حقیقی روح سے خالی تھیں۔ یوں
بھی قوموں کی زندگی میں ایک خاص مرحلے میں جا کر روایات سے وابستگی اس نوبت کو
پہنچ جاتی ہے کہ دیکھنے والے کو پہلی نظر میں یہ لگتا ہے کہ لوگ واقعی دین کی حقیقت
پر قائم ہیں۔ لیکن روایات اگر کسی شعوری بنیاد پر قائم نہیں تو کچھ عرصے بعد یہ
ایک ایسے درخت کی طرح سوکھنا اور سکڑنا شروع ہو جاتی ہیں جسے جڑوں سے غذا ملنا بند
ہو گیا ہو۔ روایات اور مظاہر بھی ایک ایسا ہی درخت ہے جسے فکر اور شعور کی غذا
کافی مقدار میں نہ ملے تو ایک طرف یہ سوکھنا اور سخت لکڑی بننا شروع ہو جاتا ہے تو
دوسری طرف اسے اپنا پورا پھیلاؤ برقرار رکھنے میں بھی شدید دشواری پیش آتی ہے۔ پھر
بھی روایات کے اس درخت کا بھرم صدیوں تک رہ سکتا ہے اگر معاشرے میں نیچے کی سطح پر
کوئی زوردار بھونچال یا فضا میں کوئی طوفان نہ آجائے۔ اب ایک ایسے درخت کا کھڑا
رہنا یا کھڑا نہ رہنا بہت اہم سوال نہیں رہ جاتا جس کا ڈھ جانا بہرحال ٹھہر گیا
ہو۔ اس درخت کو تو آخرکار مٹی خود کھا جاتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کسی اور فکر کی
یلغار کی شدت اسے ’وقت‘ سے پہلے گرا دیتی ہے۔
عالم اسلام کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ عالم
اسلام پر مغرب کی فکری یلغار کے جو ہتھوڑے برسے اور جو کہ بڑی شدت اور بڑی بے رحمی
سے برسائے گئے، ان کا ہدف ہماری یہاں کی روایات نہیں بلکہ ان کا اصل ہدف درحقیقت
اسلام تھا۔ روایات کے پیچھے وہ دراصل اسلام کو ملیامیٹ کر دینا چاہتے تھے۔ ان کے
پیچھے واقعی اسلام اپنی روح کے ساتھ ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی مگر خالی روایات
ان ضربوں کا بھلا کہاں تک مقابلہ کرتیں جو بڑی منصوبہ بندی سے اور ایک لگاتار
انداز میں اور بہت ہی بے دردی کے ساتھ سو سال تک برسائی جاتی رہیں۔
ساٹھ ستر سال میں یہ منظر نامہ حیران کن حد تک تبدیل ہو گیا۔ یہاں تک
کہ وہ قوم جو ان شہروں اور ان دیہات میں ساٹھ ستر سال پہلے بستی تھی، گویا وہ سب
کی سب کہیں کو سدھار گئی اور اس کی جگہ گویا یہاں کوئی اور قوم آبسی ہے جن کے آپس
میں صرف نام ملتے ہیں۔ پرانے جسے ’بے راہ روی‘ کہتے تھے وہ یہاں ’ترقی پسندی‘ اور
’روشن خیالی‘ بن کر ہر طرف پھیل گئی۔ زہریلے سانپ کا زہر جس طرح جسم میں پھیلتا ہے
اسی تیزی سے یہ زہر معاشرے میں ہر طرف پھیل گیا۔ اب وہ وقت نہیں جب برہنگی بڑے
خاندانوں کی بیگمات کا خاصہ سمجھا جائے۔ متوسط طبقے کی بیٹیاں بھی اب کسی سے پیچھے
نہیں۔ حتی کہ رفتہ رفتہ یہ آفت اب دیہات کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی ہے!
لڑکوں اور لڑکیوں میں ’معصوم‘ ہی نہیں ’غیر معصوم‘ تعلقات بھی معمول
کی چیز ہو چکے بلکہ کسی نوجوان کا اس ’معمول‘ سے بچ رہنا آج حیرانی کا باعث جانا
جاتا ہے! خاندان ٹوٹ پھوٹ چکا۔ خاندان کے سربراہ کا دورِ اقتدار ختم ہوا۔ بڑوں کی
ماننا ماضی کا قصہ کہلایا۔ لڑکے اور لڑکیاں اپنے معاملات اب خود بہتر جاننے لگے
ہیں اور والدین کو ’دخل در معقولات‘ کی بہت کم اجازت ہے۔ ’دین‘ اور ’مذہب‘ عموماً
جمود اور بند ذہنیت کی علامت سمجھا جانے لگا۔ دیندار ہونا پسماندگی کا نشان اور
زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا سبب جانا گیا۔ نقش کہن پہ اَڑنا آدمی کے ان پڑھ
ہونے کی دلیل بنا اور کسی بھی اعلیٰ قدر پر جم جانا جمود اور کم عقلی جانا گیا اور
کہا یہ گیا کہ یہ زمانہ جمود کا نہیں ارتقاءکا ہے۔
ساٹھ ستر سال میں یہ سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ قدروں کے حوالے سے قوم کی اس اجتماعی خودکشی بھلا کیا نام دیا گیا؟ معاملے کی
یہ جہت بھی نہایت دلچسپ ہے۔ قوم کی اس اجتماعی تنزلی کو علم اور
ارتقاء کا نام دیا گیا۔ یعنی ’’تعلیم‘‘ اور ’’ترقی‘‘۔ جو شخص اس پیکیج کا خریدار
نہیں یا اس کی رَو میں سرپٹ بھاگنے پر آمادہ نہیں وہ دراصل یہاں ’’تعلیم‘‘ اور
’’ترقی‘‘ کا دشمن ہے۔ بعینہٖ انہی الفاظ کے ساتھ سو سال تک یہ چورن بیچا گیا۔
اصل کام اس تعلیمی اور ابلاغی نظام نے کیا جو اس یلغار کو دلوں اور
دماغوں میں گہرا گھر کر گیا اور جس کے نتیجے میں بڑی تدریج کے ساتھ ہر نئی نسل
فکری اور عملی طور پر اسلام سے دور ہونے اور مغرب کے نئے ’دین‘ کو اپنانے میں پہلی
نسل سے دو ہاتھ آگے ہوجاتی رہی۔
(محمد
قطب کی ایک طویل تحریر سے اقتباس۔ ماخوذ از ’’دعوت
کا منہج کیا ہو‘‘)
۔۔۔
ایقاظ
کا خصوصی ضمیمہ ’’ویلنٹائن.. مردار تہذیب کی دستک‘‘ اس
لنک سے