ایک اردو نظم سوشل میڈیا پر اڑتی اڑاتی، ہماری سماعت تک
پہنچی بعنوان ’ہاں تو کافر‘۔ ہمارے کچھ دین پسند نوجوان گرمجوشی کے ساتھ اسے شیئر
کرتے دیکھے جا رہے ہیں۔ نظم کے ساتھ دی گئی ڈسکرپشن سے معلوم ہوا، یہ کسی ملحد کی
نظم کے جواب میں کہی گئی ہے جس کا عنوان تھا ’میں بھی کافر تو بھی کافر‘، اور جس
کے اندر سب یا کچھ دینی طبقوں پر طنز کیا گیا تھا کہ یہ بات بات پر لوگوں کو کافر
کہتے ہیں۔
علاوہ اس بات کے کہ یہ جوابی نظم فنی لحاظ سے کچھ ایسی
زبردست نہیں جسے ہاتھوں ہاتھ لیاجائے (خود ملحد کی نظم بھی کوئی ایسا ادبی شہ پارہ نہیں۔ لگتا ہے
دونوں جانب سے ایک ’نظریاتی مشقت‘ زیادہ ہوئی ہے!)... یہ ملحد کی نظم میں
قائم کیے گئے مقدمے کو بعض پہلوؤں سے نادانستہ مضبوط کر جاتی ہے! گویا ملحد جو
’رونا‘ یہاں رو کر گیا، یا دینداروں کو جو ’طعنہ‘ دے کر گیا، ہمارے کسی جوشیلے
دوست نے اپنی دینی حمیت کے اظہار میں خود ہی اس پر ایک مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ
ہاں ایسا ہے تو سہی!
یہاں ضروری معلوم ہوا کہ اپنے بھائیوں کو اس پر توجہ دلائی
جائے۔ ملحدوں اور ان کے وسیع تر قبیلہ ’لبرلز‘ کے ساتھ ہمیں اس وقت جو ایک ابلاغی
جنگ درپیش ہے، اس کے حوالے سے ایک درست حکمتِ عملی کے خدوخال واضح ہونا ضروری ہے۔
ہماری گفتگو یہاں مسئلہ کے فقہی جوانب سے متعلق نہیں کہ کفر
کیا ہے؟ یا کسی پر کفر کا حکم لگانے کی دینِ اسلام کے اندر کیا حدود و قیود ہیں؟
ہماری معروضات کا سیاق یہاں کی وہ ابلاغی کشمکش ہے جو ہمارے اور ملحدوں کے مابین
مختلف معاشرتی فورمز پر ایک عرصہ سے بپا ہے، اور جوکہ خاص اپنے کچھ ڈائنامکس رکھتی
ہے۔
ابلاغی جنگ میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ مخالف آپ کو جو طعنہ دے
رہا ہے اس سے درحقیقت وہ کونسا پوائنٹ سکور کرنا چاہتا ہے؟ کونسا فائدہ لینا اپنے
اُس پوائنٹ سے ا س کے پیش نظر ہے اور کس طبقے کو متاثر کرنا اور اپنا ہمنوا بنانا
یا اس کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اس کا مقصود ہے؟ جواب میں آپ کو بھی اس کا وہ
اصل پوائنٹ گرانا ہوتا ہے جسے اس نے سکور score کرنے کی کوشش کی ہو تاکہ وہ طبقہ جو ویسے
اُس کے پوائنٹ پر پھڑک اٹھتا، اب آپ کا پوائنٹ آ جانے کے بعد اس کی رَو میں بہنے
سے اِبا کر دے اور ہو سکے تو اُس کے مقابلے پر اب آپ کا ہم خیال ہونے لگے۔ ابلاغی
جنگ میں دراصل آپ ان لوگوں کو متاثر نہیں کر رہے ہوتے جو پہلے سے آپ کے ہم خیال
ہیں، بلکہ یہاں آپ کی نظر اس طبقے پر ہوتی ہے جو آپ کے مخالف کی بات میں بھی آ
سکتا ہے جبکہ آپ کی بات سے بھی اس کے متاثر ہونے کا پورا امکان ہے۔ ایسے undecided طبقے کو متاثر کرنے والی بات آپ کی یا آپ کے
مخالف کی کوئی دلیل بھی ہو سکتی ہے اور محض اسلوب بھی۔ نہ صرف مضمون بلکہ پیرایہ
بھی۔ نثر بھی اور شاعری بھی۔ صحافت بھی اور خطابت بھی۔ کامیڈی بھی اور ٹریجڈی بھی۔
حتیٰ کہ تاثر بھی۔ اشارۂ ابرو تک یہاں کاؤنٹ کرتا ہے اور ایک ایک بات میں اس
پوائنٹ سکورنگ point scoring کے
اندر آپ کو ہوشیار رہنا ہوتا ہے۔
اب زیرنظر بحث میں سوال یہ ہے کہ ملحد نے دینداروں کو یہ
’’تکفیر‘‘ کا طعنہ کیوں دیا ہے؟ کیا آپ کی اس بات سے اُس کا دل ٹوٹ گیا ہے!؟ یا
کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کا اُس کی یا اُس جیسے کسی شخص کی تکفیر کرنا اصولی
طور پر اس کے نزدیک غلط ہے؟ ظاہر ہے، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ آپ کے ان سب اصولوں
کو ہی نہیں مانتا، ان کا درست یا غلط لاگو ہونا تو بعد کی بات! خود مسلمان ہونے
میں اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ کفر کا سادہ مطلب اگر اسلام کو اور اس کے حلال و حرام
کو ٹھکرا دینا ہے تو اُسے خود معلوم ہے کہ وہ اسلام کو اور اس کے حلال و حرام کو
ماننے سے صاف انکاری ہے۔ بلکہ وہ اس انکار کا داعی اور معاشرے میں اس کا باقاعدہ
علم اٹھا کر کھڑا ہے۔ اس لحاظ سے تو خود اسے معلوم ہے کہ وہ کیا ہے۔ ملحد کا ایک
ہلکا سا نفسیاتی جائزہ آپ کو بتا سکتا ہے کہ یہ اس کےلیے قابلِ فخر بات بھی رہی ہو
گی۔ پس اس لحاظ سے تو کفر اس کےلیے کوئی طعنہ نہیں۔ وہ تو یہ سب حدیں گزر چکا۔ اس
کی حالت حدیث میں مذکور شیطان کی اس کیفیت سے مختلف نہ ہو گی جہاں شیطان کو لعنت
کرنا اس حوالہ سے بےفائدہ بتایا گیا کہ اس پر وہ الٹا پھولتا ہے یہاں تک کہ مکان
جتنا ہو جاتا ہے (کہ میں کوئی چیز ہوں) البتہ اس کے آگے اللہ کا نام لو تو وہ اس
قدر سمٹتا ہے کہ مکھی جتنا ہو جاتا ہے۔ (سنن ابی داوٗد)۔ یہ ملحد تو ’کافر کافر‘
کہنے کو ایک ایسی چیز کے طور پر لے رہا ہے جو بوجوہ آپ کی چھیڑ بن گئی ہے یا بنا
دی گئی ہے! آپ کو تو یہاں بات کو کوئی ایسا زبردست موڑ twist دینا ہے جو الٹا وہ مجمع کے زیر عتاب آئے۔
کیونکہ خود مجمع کے اصولوں سے ہی، فی الوقت مجرم وہ ہے نہ کہ آپ۔ یہاں وہ چاہتا یہ
ہے کہ اپنے کالے کرتوتوں کو وہ آپ کی ’فتویٰ بازی‘ کی اوٹ میں اس قدر چھپائے
کہ لوگ الٹا آپ پر برہم ہوں کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں! یہاں مہارت کے ساتھ آپ کو وہ
اوٹ ہٹا دینی ہے جس کے پیچھے وہ اپنے گندے کرتوتوں کے ساتھ چھپ رہا ہے اور پھر اس
کا بھیانک چہرہ مسلسل اس طرح لوگوں کے سامنے لانا ہے کہ اپنے چھپنے کےلیے وہ کوئی اوٹ ہی دستیاب نہ
پائے اور بس مجمع کی نفرتیں سمیٹتا چلا جائے؛ کیونکہ وہ ہے اسی قابل۔ اس کا اصل
چہرہ، بشرطیکہ سامنے آ سکے، خود مجمع کی برداشت سے باہر ہو گا۔ اب اس کا طریقہ یہ
ہے کہ کچھ دیر کےلیے آپ ’فتویٰ‘ کی وہ زبان بند کر دیں جو فی الوقت اس کےلیے فائدہ
پانے کا ذریعہ بن رہی ہے (بھلے وہ فتویٰ کی زبان کسی اور مقام اور سیاق پر درست
کیوں نہ ہو)۔ یہاں اپنے جذبات پر پورا قابو رکھتے ہوئے، اس کے وہ گھناؤنے کرتوت
سامنے لاتے چلے جائیں جن پر وہ اب بھی مجمع سے گالیاں کھا سکتا ہے۔ مثلاً اس کا
اللہ اور رسول کا ٹھٹھہ اڑانا جبکہ یہ مجمع اللہ اور رسول پر جان دیتا ہے۔ اس کا
قرآن پر پھبتیاں کسنا جبکہ قرآن کی توہین اس مجمع کی برداشت سے باہر ہے۔ اس کا
آیتوں کی پیروڈی کرنا۔ امہات المؤمنین کی بابت غلاظتیں بکنا۔ معاشرے میں رائج
قدروں کو صاف چیلنج کرنا اور ان کا مذاق اڑانا۔ اخلاقیات کو فرسودہ بتانا۔ بیوی
اور بہن کے مابین اصولاً کوئی فرق نہ رکھنا (طبی بنیاد پر ہو تو ہو، اصولاً نہیں!)
اور ماں کے ساتھ ’سیکس‘ کو بھی اصولاً اتنا ہی مباح جاننا جتنا بیوی کے ساتھ۔ بلکہ
ہر چیز ہی کو مباح جاننا اور حرام حلال کا کوئی تصور ہی باقی نہ رکھنا۔ ’کنواری
ماؤں‘ کےلیے ہمیشہ اور ہر سماج میں بند رکھے گئے دروازے کو کھولنے یا تڑوانے کی
خواہش اور نظریہ رکھنا۔ (لبرل اکثریت دین کے ساتھ ٹھٹھہ مذاق نہیں بھی کرتی ہو گی
لیکن بیوی اور بیٹی کے فرق کو اصولاً ختم جاننا اور حرام و حلال کا ایسا کوئی binding تصورِ ہدایت نہ
رکھنا ان سب کا عقیدہ ہے۔ وغیرہٗ) یہ سب وہ باتیں ہیں جن پر مجمع اس ملحد کی خبر
لینے کےلیے بےچین ہو سکتا ہے بشرطیکہ آپ مجمع کو اپنی بجائے اُس کی جانب پھیر دینے
کا ہنر رکھیں۔ جس کےلیے آپ کو وہ سب اوٹیں گرا دینا ہوں گی جن کے پیچھے وہ اس
مہارت کے ساتھ چھُپا ہوا ہے کہ اپنے اصل بھیانک چہرے کے ساتھ مجمع کو کہیں نظر تک
نہیں آ رہا۔ بلکہ الٹا آپ کی اوٹ لے کر اپنے بھیانک پن کو آپ کے کھاتے میں ڈالتا چلا جا رہا ہے۔ یہاں
تک کہ مجمع کو آپ پر چڑھا لانے میں کامیابی پانے لگا۔ اسے کہیں گے اُس کی چابک
زبانی اور ہمارا ابلاغی عجز۔
وہ طعنے جو ایک مذہبی ماحول میں کبھی کارگر رہے ہوں گے،
ہمارے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ایک لبرل دنیا میں بھی وہ ان کو ویسے ہی کام دے
جائیں گے! اور آپ کا ’’فتویٰ‘‘ پڑھ کر یا ’’اللہ اور رسول کو چھوڑ بیٹھنے‘‘ کا
طعنہ سن کر یہ لبرل مخلوق بس پانی پانی ہو جائے گی! یقین کیجئے یہ اِس مخلوق کے
ساتھ ایک درجے میں حسنِ ظن ہے! حقیقت میں اس کا معاملہ اس سے کہیں آگے ہے۔ یہ Emile Durkheim اور
Sigmund Freud کی امت دنیا
کی تمام قدروں، تمام شریعتوں اور تمام الہامی دستوروں کے خلاف ایک منظم ابلیسی
بغاوت ہے۔ یہ انبیاء کو اِس جہان سے باہر کر آنے کی ایک باقاعدہ دجالی تحریک ہے۔
البتہ زبان اور لہجوں پر اس درجہ عبور پا رکھا ہے کہ سننے والے کو اس کا زہر ایک
باقاعدہ تریاق لگے اور اس کے بل پر چور الٹا کوتوال کو ڈانٹ دینے کی صلاحیت پیدا
کرلے! ایسی خرانٹ مخلوق کو سادگی سے وہ چیز دے آنا جو یہ آپ کے خلاف برتنے کی تاک
میں رہتی ہے، ایسے ہی بھلےمانس تو اسے چاہئیں! حق یہ ہے کہ دعوت کوئی دل کی بھڑاس
نکالنے کا نام نہیں۔ صبر اور ہوش مندی سے میدان جیتنا یہاں آپ کا اصل ہدف ہوتا ہے۔
یہ وجہ ہے، ہمارے علماء مسلسل ہمیں سمجھانے میں لگے ہیں کہ ’’تکفیر‘‘ کی سماجی
کھپت social consumption of
takfeer اِس وقت اسلامی تحریک کے حق میں خسارے کا سودا
ہے اور یہاں کے کسی مسئلے کا علاج تو یہ بالکل بھی نہیں ہے۔ البتہ ہمارے دشمنوں کو
ڈھیروں فائدے دلوانے کا ایک ذریعہ ضرور ہے۔ ’’تکفیر‘‘ کی زبان سے گریز کرنے کی یہ
جو ہدایت اہل علم کی جانب سے ہمیں ہوتی آ رہی ہے، غور کریں تو یہ اپنے پیچھے حکمت
کے ان گنت پہلو رکھتی ہے۔ اسی کا ایک پہلو ہماری حالیہ گفتگو میں بیان ہوا۔ ضرورت
اس بات کی ہے کہ دین مخالف طبقوں کو جو چیز دینے کا ہمارا ایک عالم اور مربی اس وقت روادار نہیں، وہ ہمارے
عام دیندار نوجوانوں سے بھی ان ظالموں کو ملنے نہ پائے۔ یہ ابلاغی جنگ سب کو مل کر
ہی لڑنی ہے۔ یاد رکھیے، تکفیر کے بےمحل استعمال یا غیر مجاز طبقوں کی جانب سے اس
کے ’فتوے‘ صادر ہونا جو کچھ ممکنہ نتائج رکھے گا، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: آخر
یہ ایک چٹکلہ بن جائے اور ایسا حکم لگنے کی ہیبت ہی دلوں سے ختم ہو جائے۔
یہاں دو اقتباس ہم اپنے (ایقاظ میں شائع ہو چکے) ایک گزشتہ مضمون (مولوی تکفیر نہ کر کے سیکولر کو ’مایوس‘ کر رہا
ہے)سے بھی نقل کرنا چاہیں گے:
’’مسئلہ کچھ یوں
معلوم پڑتا ہے کہ مولوی اب ذرا چالاک ہوگیا ہے… سیکولر جدت پسندوں کو اپنے مکالمے
کے لئے کوئی بنیادیں نہیں مل رہی ہیں۔ تکفیر تو دور کی بات مولوی نے اب فتوے کی
زبان میں بات کرنا ہی بند کردیا ہے۔ فکری مکالمے سیکولر جدت پسندوں کے دانت
کھٹے کر رہے ہیں۔ ان سیکولر جدت پسندوں کے لئے فکری اور عقلی بحث میں اپنی بات میں
وزن پیدا کرنے کے لیے مظلومیت کا تڑکا بہت ضروری تھا۔ اب یہ ہتھیار ان کے ہاتھوں
سے نکل رہا ہے۔اب یہ سیکولر جان بوجھ کر بہت کچھ کہہ دیتے ہیں کہ ایک آدھ مولوی ہی
ان کے خلاف فتوی ڈال لے تا کہ مظلومیت کا ناٹک کھیلا جاسکتے۔ بڑی بڑی اور حساس
باتوں پر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ کسی ایک مولوی کوہی جلال آجائے اور ایک آدھ فتوی ہی
جاری ہوجائے۔ لیکن مولوی ہے کہ فتوی دینے میں نہیں آرہا ہے!
’’ یہ تکفیر کی
مظلومیت گویا کہ پروپیگنڈے کی دھند ہے جس میں کچھ بھی صاف دکھائی نہ دے۔ ایک
ملحد دین کے خلاف کچھ بھی بکے اور اس دھندلاہٹ سے پھر بھی سرخ رو ہوکر نکلے۔ یا
ایک پیش بندی ہے کہ آئندہ کوئی کچھ بھی بدزبانی کرے اور کسی کو ہمت نہ ہو کہ کسی
کو کافر قرار دے۔تکفیر کے نظریے کو معاشرے سے نکالنے کی پوری تیاری ہے۔ ظاہر ہے
کفر ہی نہ ہوگا تو اسلام اور کفر کو خلط ملط کرنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔ اس پورے
ڈسکورس کے اصل ڈانڈے اس سیکولر ہیومنزم کی سازش سے جاملتے ہیں جہاں انسانیت کے نام
پر ملتوں کا فرق کو ہی مٹادیا جائے‘‘۔