جب تاتاری عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے... تو مجھے یقین ہے اُس وقت
کے جدت پسندوں نے ’اسلام کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہ ہونا‘ ضرور ثابت کیا ہو گا۔ ان
کے فتویٰ کو عالم اسلام میں پزیرائی ملے بغیر بھی ہرگز نہ رہی ہوگی۔ پھر اس کے
شواہد تو ملے ہی ہیں کہ وقت کے کچھ ’مسلم فقہاء‘ اُس دوران ہلاکو کے ہم رکاب تھے
جو اغلباً اپنے اُس عہد میں ’سیکولرزم‘ کے حق ہونے کی شہادت دینے اٹھے ہوں گے۔ لوگ
ان پر رافضیت کا شبہ کر بیٹھے۔ ان ’فقہاء‘ کے بہت سے پیروکاروں نے مسلم زبانوں اور
لہجوں پر عبور رکھنے کے باعث مسلم خطوں کے سٹرٹیجک راز تاتاریوں کو حاصل کر کے دیے
اور کچھ خطیر مہمات بھی ان کےلیے انجام دی تھیں۔ کہا جاتا ہے خلیفہ اور اس کے اہل
خانہ بھی ان میں سے بعض کی نشاندہی پر گرفتار ہوئے تھے۔ اگر وہ ہلاکو سے اس بات کی
تنخواہ لیتے تھے تو یہ ایک ’پروفیشنل سروس‘ تھی، دین کو اس سے کیا؟ یہ اُس طرف ہو
گئے تو کیا، اِدھر کے لوگ کیا تنخواہ پر نہیں لڑتے؟! یہ تو تنخواہ کا مسئلہ ہے،
خواہ اِدھر سے لیں یا اُدھر سے، اس کو دین کا مسئلہ آپ نے کیسے بنا دیا! ہاں اگر
وہ نیشن سٹیٹ کے احکام توڑ بیٹھے ہوں تو ضرور یہ دین کا مسئلہ ہے، کیونکہ وثوق سے
نہیں کہا جا سکتا کہ مسلمانوں پر حملہ آور
لشکروں میں شمولیت کرنے والے سب مسلمانوں نے اُس فوج کو جائن کرنے سے پہلے وہاں کی
شہریت حاصل کی تھی۔ (محض خیرسگالی میں کوئی مدد کر دینے پر البتہ جدت پسند فقہ میں
دو قول پائے جاتے ہیں!)۔ بس یہ ایک ہی پہلو کہ بہت سے لوگ حصولِ شہریت کے بغیر ہی
جنگ میں شامل ہوئے ہوں، قابل اعتراض ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مسلم آبادیوں پر حملہ آور
ہونا فی نفسہٖ تو گناہ نہیں۔ اذانوں کے دیس کو تاراج کرنا بجائےخود تو قابل مواخذہ
نہیں۔ موجب اعتراض چیز دین کی نگاہ میں صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ حملہ آور ریاست کی
شہریت رکھے بغیر اور محض دوستی اور خیرسگالی میں تو آیا کسی نے یہ کام نہیں کر
لیا؟ (جس طرح کچھ مفتی حضرات نے ویزہ ویلڈ valid رہے
بغیر کر لیے گئے حج کو باطل ٹھہرایا ہے، اور بلاشبہ کچھ اعمال ادائےشرط کے بغیر
انجام پائیں تو باطل ٹھہرتے ہیں!)۔
پس مسئلہ کسی مسلم بستی پر حملہ آور ہلاکو یا مودی کے ہم رکاب ہونے
کا نہیں اور نہ پانچ لاکھ کشمیریوں کے خون کا ہے اور نہ مسجدوں کے دیس کو خون میں
نہلانے یا صفحۂ ہستی سے ختم کر ڈالنے کا یا جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی ایک
ابھرتی ہوئی (ایٹمی) قوت کو خدانخواستہ ریزہ ریزہ کر کے عالم اسلام کے شرقی نصف
حصے میں مسلمانوں کو ان کے سب سے بڑے سہارے سے محروم (بلکہ یتیم) کر ڈالنے (اور اس
کے نتیجے میں امتِ اسلام کے اٹھنے کی کوششوں کو سو سال پیچھے دھکیل دینے) کا ہے۔
ایسے سب اعتبارات مسئلہ کو دیکھنے کے معاملہ میں سراسر لغو ہیں۔ مسئلے کی ’شرعی
مناط‘ صرف اور صرف نیشن سٹیٹ کے احکام ہیں! ان کو توڑا گیا تو شریعت مداخلت کےلیے میدان میں
آئے گی، ورنہ مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں۔ آپ ایک ’’اسلام آباد‘‘ کی بات کرتے ہیں،
ہم کہتے ہیں ’’اسلام بول‘‘ کیوں نہ ہو! بلکہ نیشن سٹیٹ کے احکامِ مقدسہ کی پابندی
برقرار ہو تو ’’حجاز شریف‘‘ کی استثنا بھی شاید ہی کسی دلیل سے ہو سکتی ہو! آپ اگر
ایک پیشہ ور پائلٹ ہیں تو جائیے ایسے کسی بھی مسلم شہر کو ’فلیٹ‘ کر آئیے اور
احساسِ گناہ کا شائبہ تک پاس نہ آنے دیجئے، ایک نہایت معتبر فتویٰ آپ کو آخر تک
حاصل ہے!
اغلب یہ ہے کہ عالم اسلام میں بہت بار یہ ایکش ری پلے ہوا ہو...
جس وقت صلیبی اپنے نیزے بھالے اٹھائے بلادِ اسلام کو تاراج کرتے آ
رہے تھے، ضرور اس وقت کچھ ’محققین‘ ایسے ہوں گے جو اس قتال کو دین سے نہ جوڑنے کے
حق میں زبردست علمی دلائل دے رہے ہوں اور اس جنگ کے ’معاشی محرکات‘ پر سیرحاصل
گفتگو فرما رہے ہوں۔ بلکہ ’بیت المقدس پر مسلمانوں کا کوئی حق نہ ہونے‘ والی تحقیق
اس موقع پر کچھ اور بھی جوش سے پیش ہونے لگی ہو، کچھ توقف ہو گا تو بس یہ کہ بیت
المقدس بجائے عیسائیوں کے یہودیوں کو پیش کیا جاتا تو بزعم خویش (سورۃ المائدۃ کی ایک
آیت میں وارد) قرآنی حکم کی روح زیادہ صحیح طور پر پوری ہوتی! (حالانکہ پردۂ غیب
میں یہ فضیلت ہمارے آج کے جدت پسندوں کے حق میں لکھ رکھی ہوئی تھی، اُنہیں اُس دور
میں یہ کیسے مل سکتی تھی اور اُس وقت بھلا وہ یہودی کہاں سے لاتے؟!)۔
پانچویں، چھٹی و مابعد صدیوں میں مسلمانوں کا وہ عظیم جہاد، جس کے
نتیجے میں ہند میں شہروں کے شہر بتوں سے خالی ہو کر مسجدوں اور قرآن کی درس گاہوں میں
ڈھلے اور دیویوں کی بجائے یہاں خالص اللہ کی عبادت ہونے لگی اور ہر جانب محمدﷺ کا
کلمہ پڑھا جانے لگا، فداہ ابی و امی... خاصا مشکل ہے اُس وقت کچھ نکتہ ور یہ نکتہ
اٹھانا بھول گئے ہوں کہ آج نہ تو صحابہ کا دور ہے اور نہ ہند کو فتح کرنے کی مہم پر روانہ ہونے والی فوج کوئی صحابہ یا فرشتوں پر مشتمل،
لہٰذا دین اور مذہب سے اس جنگ کا کیا تعلق ہو سکتا ہے، پس اس کے معاشی محرکات اور
اس کی سیاسی وتزویراتی جہتوں ہی کا اعتبار کرو، اس کے تہذیبی یا عقائدی جوانب پر
توجہ مرکوز کرنا درست نہیں۔ البتہ ان کے روکنے سمجھانے کے باوجود جب یہ شہروں کے
شہر اسلام کے مفتوح ہو گئے اور اذانوں کی گونج
یہاں ہر طرف سنائی دینے لگی تو ایسے بہت سے نکتہ ور اپنے اُن اشکالات اور شبہات کو اٹھا کر اِن مفتوحہ شہروں میں آ
بیٹھے ہوں گے تاکہ خلقِ خدا جو اس جہاد کے نتیجے میں خیر سے اسلام میں داخل
ہو ہی گئی ہے اب کہیں ’حقیقی اسلام‘ سے ناواقف نہ رہ جائے اور مولویوں کی تحریک پر
یا بادشاہوں کے ساتھ لگ کر آگے کسی ملک کو اذانوں کے دیس میں ڈھالنے نہ چل دے۔ اور
پھر ’حقیقی اسلام‘ کے وہ دروس شروع ہو گئے ہوں گے جو ہند کو اسلام کا گڑھ بنا دینے
پر منتج ہونے والی جنگ کا ’مذہب سے کوئی تعلق نہ ہونے‘ کی دلیلوں سے لبریز ہے!
میرا خیال ہے ایسے لوگ ہمیشہ سے ہم میں رہے ہیں، کچھ مخصوص عوامل
نے آج ان کی آواز کچھ غیرمعمولی طور پر اونچی کرا دی، تو اور بات ہے۔ ہمارا کوئی دَور
ایسی آوازوں سے خالی نہیں رہا۔ آپ خاطر جمع رکھیے۔ اِس وقت صرف کشمیر کے ان مظلوم
مسلمانوں کی صدا پر کان دھریے جو ستر سال سے ہندو کے ظلم تلے کراہ رہے ہیں، اور اب
تو بخدا یہ معاملہ دیکھنا بس سے باہر ہے۔ سلام کیجئے اس قوم کے صبر اور حوصلہ کو
جو ہندو کے نیچے رہنے سے مسلسل انکاری ہے اور اس کو مسلم شناخت کا ایک ملک بنا
رکھنے پر ہی مُصر ہے۔ سبھی کو معلوم ہے، کشمیری مظلوموں کا یہ کیس ہی جنوب ایشیا
کے ان دو ملکوں کے مابین اس تلخی کا سبب چلا آرہا ہے اور اس نزاع میں ریڑھ کی ہڈی سن
48 سے لے کر آج تک یہی ایک مسئلہ ہے۔ خواہ ظاہر میں اس پاک بھارت کشیدگی پر جو بھی
رنگ آئیں مگر اس کی تہہ میں پچھلے سات عشروں سے یہی ایک مسئلہ بول رہا ہے، یعنی کشمیر کا مسئلہ جوکہ اسلامی پیمانوں پر
بھی اور انسانی پیمانوں پر بھی، ہر پہلو سے ہماری ہمدردی اور نصرت کا حق رکھتا ہے،
اور جس کےلیے ہمارے اِن اسلامی نکتہ وروں کی زبان سے شاید ہی کبھی کوئی کلمۂ خیر
بولا گیا ہو۔ اُن مجبور و مقہور مسلمانوں کےلیے اِن کے لہجوں میں شاید ہی کبھی دکھ
اور پریشانی ٹپک کر آئی ہو۔ کیا یہ ہو
سکتا ہے کہ جدت پسند فتوے کسی وقت لبرل اور سیکولر کیس کو ’مذہبی دلیلوں‘ کے سہارے
سے محروم رہنے دیں؟ کسی موقع پر اپنا یہ ’اسلامی کردار‘ ادا کرنا بھول جائیں؟ حضرات یہ وقت ہے قوم کے لہجوں میں ایک زوردار
یکسوئی لانے کا۔ دشمن ہماری یکجہتی دیکھ کر ہی ان شاءاللہ پیچھے ہٹے گا۔ اپنی یہ
یکجہتی اس موقع پر دشمن کو ضرور دکھائیے اور اِدھراُدھر کے فتووں میں ہرگز مت آئیے۔
ہم اللہ کے فضل سے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کر رہے۔ جس صاحبِ نظر کو کشمیر میں
بھارتی زیادتی، ظلم، بربریت اور وحشت نظر نہیں آ رہی اس کےلیے بصیرت اور بصارت ہر
دو کی دعاء کیجئے۔ وہ اپنے فکر و نظریہ میں کسی شرابِ افرنگ سے بری طرح مدہوش ہے،
ورنہ صورتِ واقعہ ہرگز پیچیدہ نہیں۔ کشمیر میں
بھارت کا ظالم ہونا اظہر من الشمس ہے۔ یہ مظلوم کشمیری دین میں ہمارے بھائی
ہیں اور ان کی نصرت ہمارا دینی فرض۔ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا
يَخْذُلُهُ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم
کرتا ہے اور نہ وہ(کسی کے ظلم کےلیے) اس
کو بےیارومددگار چھوڑتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)۔ پھر حملوں کی باتیں بھی ہماری طرف سے
نہیں بھارت کی طرف سے ہو رہی ہیں۔ بھارت کی جانب سے ایسی کسی جارحیت کی صورت میں اگر
ہمیں لڑنا پڑتا ہے تو اپنے دین، عقیدے اور اسلامی مفاد سے اس کا تعلق کیوں نہیں؟
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي
سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ
وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ
الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا
وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا (النساء: 75)
’’بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راه میں اور ان ناتواں مردوں،
عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کےلئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے
ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خود اپنے
پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا‘‘۔ (ترجمہ جوناگڑھی)