"کیوں وہ کہتے ہو جو کرتے نہیں"؟
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
"کیوں وہ کہتے ہو
جو کرتے نہیں"؟
مضامین
يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف:
2)
"
اے ایمان والو! تم وه بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں"
كَبُرَ
مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف: 3)
"تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند
ہے"
شاذ و نادر ہی لوگ اپنی کہی ہوئی ہر بات پر پورا اُترتے ہیں۔ یہ
ہماری انسانی کیفیت کا حصّہ ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ قریب قریب ہمیشہ اپنے قول کو سچ
کر دکھاتے ہیں اس حد تک کہ ان کے قول اور فعل میں تضاد تقریبا ناپید ہوتا ہے۔ کچھ
لوگ قول و اقرار میں وقت ضائع کئے بغیر عمل میں جت جاتے ہیں۔ ہم میں کچھ ایسے بھی
ہیں جو بولنے میں تو جلدی کرتے ہیں مگر جب کام کا وقت آتا ہےتو جیسے تیسے کرکے سر
سے اتارنے کی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو واقعتا خلوصِ دل سے وعدہ کرتے ہیں مگر
اسے پورا نہیں کرپاتے۔ اور پھر ایسے لوگ بھی جن کی بات کا اعتبار کرنا وقت ضائع
کرنے کے برابر ہے، کیونکہ ان کی نیت کبھی بھی سچی نہیں ہوتی۔
لوگوں میں پائے جانے والے قول وفعل کے
تضاد کا یہ منطقی تجزیہ ہے۔ کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہوںگےکہ اس میں تجزیہ کرنے کی کیا
ضرورت ہے کیونکہ ایسی وجوہات کا ہونا تو ظاہر سی بات ہے۔ تاہم فہم رکھنے والے
اذہان اس مضمون کا عنوان پڑھ کر ہی غورو فکر میں ڈوب گئے ہوں گے۔ اوراس مضمون کے
ابتدائی سطور پڑھ کر ہی کسی نہ کسی درجےکی ذاتی کشمکش میں ضرور مبتلا ہوگئے ہونگے۔
ہمارا مقصود ہی یہی ہے۔ کسی زمانے کی کہاوت کا مفہوم ہے کہ اپنے نفس کی خود خبر
لینے والا شخص ہی احترام کے لائق بنتا ہے۔
اکثر اوقات ہم
کچھ کہنے یا کرنے سے پہلے کچھ خاص سوچنے سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔اپنے الفاظ اورعادات کوعقل کی ناپ
تول سے گزارنا تو کجا ہم ہرگز خود کو خطا پر تصوّر نہیں کرتے۔ حالانکہ
ایسا بالکل ممکن ہے کہ کبھی ہم بھول چوک کا شکارہوجائیں۔ کبھی مشکل حالات مجبوری بن جائے یا خدانخواستہ
کبھی گناہ کی جانب قدم بڑھا بیٹھیں۔ اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے: " تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے " سورة الصف ۲،۳
عموما ایسے لوگوں کو ستائش کی نظر
سے دیکھا جاتا ہے جو اپنی نصیحت پر سب سے
پہلے خود عمل کیا کرتے ہیں۔ اسی لئے کسی کو "قول کا آدمی" کہنا بہت ہی
اچھی تعریف میں شمار ہوتا ہے۔ کردکھانے والےانسان کوایک باتونی شخص سے بالکل مختلف
نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ کرکےدکھانے والے کی عزت اوراعتبارہوتا ہے۔ خلقِ خدا ایسے
اچھے آدمی کے ساتھ خوشی سے معاملات کرتی ہے۔ لسان طرار شخص اپنے اعمال کی
غیرموجودگی کے سبب لوگوں کی نظروں میں اپنا وقار کھو بیٹھتا ہے۔ کیونکہ دنیا جان
جاتی ہے کہ ایسے فرد کے الفاظ میں کوئی وزن نہیں۔
کام کے آدمی کو اطمینان کی دولت
نصیب ہوتی ہے۔عمل کرنے کی عادت بنا لی جائےتو کوئی بھی وعدہ ایفا ہونے سے نہ رہے۔
فلسفیوں نے دنیاوی خوشی حاصل کرنے کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے مگر سچّی بات تو یہ
ہے کہ خوشی کامیابی کا دوسرا نام ہے۔ خوشی کا یہ تصّور حرکت میں برکت کے اصول کے گرد گھومتا ہے۔
بارآور محنت کامیابی اور خوشی کی ضمانت ہے۔ ہمیں ضرور منصوبہ بندی کرکے کام میں
لگنا چاہیئےمگرخام منصوبہ سازیوں میں سارا وقت ضائع نہ ہو۔ کئی ایسی مثالیں نظروں
سے گزرتی ہیں جہاں میٹنگوں اور تقریروں میں قیمتی وقت برباد کیا جاتا ہے بغیر کوئی
عملی صورت سامنے آئے۔
ہماری قوّت گویائی کوئی معمولی بات
نہیں۔ بلا شبہ ہمارا انسان کہلانا ہماری گفتو اور سوچنے سمجھنے کی اہلیت کی وجہ سے
ہے۔ کلاسیکی فلاسفروں نے تو انسان کو ''منطقی جانور'' تک کہا ہے۔تاہم اس متنازعہ
بحث میں پڑنے کی بجائے صرف اتنا کہیں گے کہ اگر ہم انسان کی بولنے کی صلاحیت کو اس
کے عمل کے ساتھ نہ جوڑیں تو ہمارا انسانیت کا زعم کھوکھلا ہے۔
وہ لوگ جو دنیا کے سامنے رول ماڈل کے
طور پر آئیں، ان کی زندگیاں ان کے اعمال ہیں۔ اور اگر ان کے اعمال بد ہوں تو نہ
صرف وہ اپنی اور دنیا کی نظروں میں نیچ ہوجاتے ہیں بلکہ شائد اللہ تعالیٰ کی نظر
میں بھی۔
قول کے کھرے آدمی کے ساتھ لوگ اطمینان
محسوس کرتے ہیں چاہے اُس کی کہی ہوئی بات ان کی مرضی کے خلاف ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے
کہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ وہ دھوکے میں نہیں رہیں گے۔ چنانچہ وہ اس
کی خلاف توقع فیصلے کا بھی احترام کرتے ہیں۔
کام کا دھنی انسان اپنی اونچی سوچ کی
وجہ سے محنتی ہوتا ہے۔ اونچی سوچ والا شخص دوسروں کی فکر اور خبرگیری کرنے والا
مثبت روّیے کا حامل ہوتا ہے۔ اور وہ کم پر ٹرخانے کو پسند نہیں کرتا۔ نہ وہ دوسروں
سے ایسا مطالبہ کرتا ہے جو وہ خود نہ کرسکے اور نہ ہی دوسروں کو ایسے کام سے منع
کرتا ہے جسے وہ خود منع نہ ہوتا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں شعیب علیہ السلام
کا اپنی قوم کو نصیحت کا کچھ یوں بتلایا:
وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ
عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا
اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي
إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ
وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (هود:۸۸)
"میرا یہ اراده بالکل نہیں کہ تمہارا خلاف کر کے خود اس چیز کی
طرف جھک جاؤں جس سے تمہیں روک رہا ہوں، میرا اراده تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا
ہی ہے۔ میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف
میں رجوع کرتا ہوں
"۔
منزل کی طرف راہی اگرچہ ٹھوکر بھی کھالے، بیٹھے رہنے والوں سے
بہتر ہی ہوتا ہے۔ دوڑنے والا شخص اگر گر بھی جائے تو کیا، اس کی سعی چلنے والے سے
تو ذیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک کشتی سمندر میں ڈوبنے کے خطرے سے دوچار رہتی ہے،
مگر سوچئے کشتی ساحل پر لگے رہنے کیلئے تو نہیں بنائی جاتی۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین
|
|
|
|
|
|