زہد کی بابت ایک غلط فہمی کا ازالہ
ایمان کا سبق
زہد کسی ’دنیا بیزاری‘ کا نام نہیں، جیسا کہ بعض کم علموں نے ایک تاثر بنا رکھا ہے...
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ”زہد“ ایسے بعض مباحث اس وقت جا کر ہی زیر بحث آنے چاہئیں جب ہم دین اور عبادت کی ’اصل بنیادوں‘ سے واقف ہو آئے ہوں۔
رسول اللہ ﷺ کے ہاں ہمیں ایسے صحابہؓ بھی نظر آتے ہیں جو بمشکل دو لبادوں میں ملبوس، صفہ پر بیٹھے، کار وبارِ زندگی میں بھی کچھ خاص سرگرم نہیں؛ بلکہ مسجد، علم اور جہاد وغیرہ کی سرگرمیوں تک ہی محدود ہیں اور زیادہ تر ان کی گزر صدقات وغیرہ پر ہی ہوتی ہے۔ جبکہ انہی اصحابِؓ رسولؐ میں ہم ایسے ایسے اصحابؓ کو بھی دیکھتے ہیں جو کروڑوں اربوں پتی ہیں اور کاروبارِ زندگی میں بھی خوب سرگرم، بلکہ فضیلت میں کئی ’کروڑ پتی‘ صحابہ کئی ’غیرکاروباری‘ صحابہ کی نسبت بلند تر درجے پر ہیں، بلکہ عشرہ مبشرہ قریب قریب سبھی کے سبھی ٹھیک ٹھاک کھاتے پیتے تاجر پیشہ لوگ ہیں اور صحابہ کے مابین سب سے افضل... پس ”زہد“ وغیرہ کی حقیقت اور مفہوم سمجھنے کےلیے صحابہؓ کی وہ مجموعی تصویر ہماری نگاہ سے روپوش نہیں ہو جانی چاہیے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے معاشرے کے اندر تشکیل دی تھی اور نہ ہی وہ ’تنوع‘ نظر انداز ہونا چاہیے جو صحابہؓ کے مابین کمال انداز میں پایا گیا اور جس کو نبی ﷺ نے باقاعدہ برقرار رکھا۔
چنانچہ ”زہد“ یہ نہیں کہ آدمی حلال اور پاکیزہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام کا درجہ دے لے۔ حلال کمائی کے معاملہ میں بے رغبتی پیدا کر لینا اور کاروبارِ دنیا کے اندر نہایت بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لینا ’زہد‘ کا ایک نہایت غلط تصور ہے جو بدقسمتی سے یہاں کئی ایک طبقوں کے ہاں بری طرح راسخ ہوگیا ہے۔ حلال کمانا، خدا کے پاکیزہ رزق کی تلاش میں نکلنا اور اس کےلیے صبح سے شام کردینی پڑے تو کردینا، اور اپنی اس کمائی سے والدین، اہل خانہ وغیرہ کے حقوق پورے کرنا، مقدور بھر اس سے صدقہ کرنا، دنیا میں اس مال سے، حسب استطاعت، جہاد اور خدا کے مشن کو تقویت دینا، اور اپنی اس مجموعی روش سے اپنی امت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا اور اہل اسلام کو ایک بیروزگار اور غیر پیداوار معاشرہ نہ رہنے دینا اور یوں مسلم معاشرے کو ایک باعزت، خودکفیل اور ایک غیر دست نگر معاشرہ بنانے میں مؤثر سے مؤثر تر کردار ادا کرنا... یہ عبادت کی ایک نہایت اعلیٰ وبرگزیدہ صورت ہے۔
”زہد“، جیسا کہ سلف سے منقول ہے، یہ ہے کہ ’دنیا‘ آدمی کے ہاتھ میں ہو نہ کہ دل میں، چاہے وہ کروڑوں کا مالک کیوں نہ ہو۔ اور یہ اسی وقت ہوگا جب اس دل میں کوئی ایسی برگزیدہ حقیقت بسا لی گئی ہو جس کے ہوتے ہوئے ’دنیا‘ کےلیے اور دنیا کے ’کروڑوں اربوں‘ کےلیے آدمی کے دل میں کوئی جگہ پائی ہی نہ جائے۔ اربوں کھربوں روپے بھی ہوں تو ان کو سمانے کےلیے ’دل‘ میں نہیں ’ہاتھ‘ ہی میں جگہ ملے!
چنانچہ حقیقی زہد جس چیز کا نام ہے وہ دراصل ایمان کے بنیادی حقائق پر محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ایک نعمت ہے۔ یہ درحقیقت دل کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ ”زہد“ کا کوئی تعلق آدمی کے ’غریب‘ یا ’مالدار‘ ہونے کے ساتھ سرے سے ہے ہی نہیں۔ ایک آدمی ارب پتی ہوکر زاہدِ دنیا اور طالبِ آخرت ہوسکتا ہے، جبکہ ایک دوسرا آدمی مفلس ہوتے ہوئے دنیا پرست اور آخرت سے غافل۔ کیونکہ ’زہد‘ اور ’دنیا پرستی‘ کا تعلق سراسر ’ہاتھ‘ یا ’جیب‘ کے ساتھ نہیں بلکہ ’دل‘ کے ساتھ ہے اور آدمی کے ’اہدافِ زندگی‘ کے ساتھ۔
پس ’زہد‘ ایسی نہایت اعلیٰ حقیقت کا قلب میں جاگزیں ہونا جس بات پر منحصر ہے وہ ہے خدا کی تعظیم۔ وہ ہے مالک الملک کی شان کو جاننا۔ وہ ہے زندگی اور رزق کے مالک سے آگہی پانے پر آدمی کی خوب محنت ہوئی ہونا اور پھر ’آخرت‘ سے آدمی کا شناسائی پا رکھنا اور آخرت ہی کی طلب کو دل میں بٹھایا ہونا۔
زہد اگر آدمی کی نگاہ میں ’دنیا کا حقیر ہوجانا‘ ہے، چاہے جتنی بھی ہو... زہد اگر دنیا کا ’دل‘ سے بے دخل کر دیا جانا ہے، چاہے ’ہاتھ‘ میں جتنی بھی ہو، اور ’دل‘ پر پڑنے والی اس کی گرد اور اس کے اثرات کو کھرچ دینا تاکہ اس دل پر خدا کا رنگ ہی گہرے سے گہرا ہوتا رہے، جیسا کہ جنید بغدادیؒ نے ”زہد“ کی تعریف کی ہے... تو پھر ایک چیز کا ’چھوٹا‘ اور حقیر ہوجانا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ کوئی اور چیز اس دل میں ’بڑی‘ اور ’عظیم‘ ہونے کا مرتبہ حاصل کر گئی ہو، جوکہ ’حقائقِ توحید‘ ہی کی دین ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ’زہد‘ اگر ’توحید‘ پر محنت کا ایک طبعی نتیجہ نہیں تو وہ کسی بڑے انحراف کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے اور عموماً ’ترکِ دنیا‘ اور ’رہبانیت‘ وغیرہ کا ہی کوئی مترادف۔
”زہد“ دینی طبقے کو اور پھر پورے مسلم معاشرے کو ایک نہایت بامقصد، عملی، ایثار شعار اور فاعلیت dynamism سے پُر بنا ڈالنے والی ایک برگزیدہ حقیقت ہے نہ کہ دنیا میں ’خدا‘ کے نام پر پسماندگی، کم دلی، سستی اور کاہلی کا مارا ہوا ایک طبقہ یا ایک تھکا ہارا معاشرہ برآمد کرانے کےلیے وجود میں آنے والا کوئی ’مذہبی‘ طرزِ عمل!!!
ایمان کے حقائق کو دل میں بٹھانے پر بے تحاشا محنت ہوتی ہے تو تب ہی کہیں جاکر آدمی ”زہد“ کے معنیٰ تک سے واقف ہوسکتا ہے، درجۂ زہد کوپہنچنا تو اس سے بھی سوا ہے۔
چنانچہ درجۂ زہد یہ ہے، اور جس کو پہنچنے کےلیے آدمی کا بے پناہ زور لگتا ہے ، کہ نہ تو دنیا کا آ جانا اس کےلیے کوئی بہت بڑی بات رہے اور نہ دنیا کا ہاتھ سے چلی جانا۔ یعنی اس کےلیے ’دنیا‘ کسی بھی پہلو سے ’بڑی بات‘ نہ رہے۔ جس کےلیے ضروری ہے کہ ’بڑی بات‘ اس کی نظر میں کوئی اور ہو جائے اور اس کے ہاں اشیاءکو ’ماپنے‘ کے پیمانے ’آخرت‘ والے ہوں نہ کہ ’دنیا‘ والے!
یہ ’پیمانے‘ بدل جانا ہی زہد کی اصل حقیقت ہے۔دنیا جتنی بھی بڑی ہو اور جتنی بھی زیادہ حاصل ہوگئی ہو، پیمانہ آخرت کا ہو تو اس میں دنیا بھلا کیا حیثیت رکھے گی!؟
تم اگر ایک حلال پاکیزہ مال کی بابت ’زہد‘ برتتے ہو... ایک ایسے پاکیزہ مال کی بابت جس کو تم اپنے دین اور اپنی آخرت میں سرفراز ی کا ذریعہ بنا سکتے ہو... تم اگر ایسے پاکیزہ مال پر پسینہ بہانے سے احتراز کرنے کو ’خدا کے تقرب کا ذریعہ‘ سمجھ بیٹھے ہو، تو نہ صرف یہ کہ تم زاہد نہیں ہو بلکہ حقیقی زہد سے آخری حد تک ناواقف بھی ہو۔
تم اگر ایک ایسے منصب اور عہدے کی بابت ’زہد‘ برتتے ہو جس پر فائز ہوکر معاشرے کے اندر تم حق کا احقاق اور باطل کا بطلان کر سکتے ہو اور اسلام کی قوت اور خلقِ خدا کے فائدہ کا ذریعہ بن سکتے ہو، مگر ایسے منصب یا سماجی مرتبے سے کنارہ کش رہنا ہی تم ’نیکی‘ سمجھتے ہو، تو تم نہ تو ’نیکی‘ کے مفہوم سے واقف ہو اور نہ ’زہد‘ کے معنیٰ ومطلب سے۔
”زہد“ دنیا کو رد کردینا نہیں بلکہ دنیا کو دل میں بٹھانے یا دنیا کو دنیا کےلیے لینے سے انکار کرنا ہے۔ ورنہ تم جانتے ہو ایک نبی اپنے دور کا سب سے بڑا زاہد ہوتا ہے اور تمہارے سامنے یہ خلیل اللہ ابراہیم ہیں جن کے مویشی پوری ایک وادی میں آتے ہیں۔ مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا ہے، یہاں تک کہ آپؑ کا لقب ہی ’ابو الضیفان‘ پڑ جاتا ہے! یہ سلیمان ہیں جن کے پاس مال دولت کے ڈھیر ہیں، بادشاہت کا منصب ہے اور حرم میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ خدا کی پیدا کردہ پاکیزہ نعمتوں کو معیوب ٹھہرانے والا کون ہوسکتا ہے؟
خاتم النبیین ﷺ سے بڑھ کر کوئی زاہد نہیں ہو سکتا۔ مگر تم دیکھتے ہو آپﷺ نے پورے نو گھر بسا رکھے ہیں اور نو گھروں کے حقوق بدرجۂ اتم ادا کر رہے ہیں۔ آپؐ کی ملکیت میں سو بکریاں ہیں۔ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ بکریاں سو سے بڑھ جاتیں تو تب آپؐ ان میں سے کوئی ایک ذبح کر لیتے۔ آپؐ کے اخراجات کےلیے فدک میں زرعی زمین کا ایک قطعہ مختص ہے۔ گھر میں بڑی بڑی دیر تک کچھ نہیں پکتا تو یہ کوئی اس لئے تھوڑی ہے کہ ’ہاتھ‘ خالی ہے! بلکہ اس لئے کہ ’دل‘ بڑا ہے!!! النبی أولیٰ بالمؤمنین من أنفسہم یہ خدا کا نبی ہے جس کو مومنوں کی اس سے کہیں بڑھ کر فکر ہے جتنی کہ خود ان کو اپنی یا اپنے اہل خانہ کی فکر ہوسکتی ہے۔ یہ دنیا کی صالح ترین جمعیت کا قائد ہے اور جماعتوں، تحریکوں اور ’انقلابات‘ کی تاریخ میں سب سے بہتر اور سب سے روشن مثال پیش کر سکنے والا راہنما! لہٰذا اس کے گھر میں مہینوں چولہا نہیں جلتا تو یہ اس کی ان پہاڑ جیسی ذمہ داریوں کی وجہ سے، جن سے خود اس کے سوا کوئی واقف ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے گھر میں بھوک بستی ہے تو اس لئے کہ یہ ایک ایسی قیادت کا گھر ہے جو سب کو کھلانے کے بعد کھانا گوارا کرتی ہے... ادھر جاہلوں نے سمجھ لیا کہ یہ ’مال دشمنی‘ اور ’دنیا بیزاری‘ ہے! اور یہ کہ اہلِ اسلام کا حصولِ رزقِ حلال کے محاذ پر جُتنا اور معیشت پر حاوی ہونا ’توکل‘ اور ’زہد‘ کے منافی ہے اور ’آخرت سے بے رغبتی‘!
یہ عبد الرحمن بن عوفؓ ہیں۔ یہ زبیر بن العوامؓ ہیں۔ یہ عثمان بن عفانؓ ہیں۔ یہ سعد بن ابی وقاصؓ ہیں۔ یہ خدیجہ بنت خویلدؓ ہیں۔ یہ ابو بکر صدیقؓ ہیں۔ یہ عبدا للہ بن عمرؓ اور یہ عبداللہ بن عباسؓ ہیں۔ لا تعداد صحابہؓ ہیں جو مارکیٹوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ مال ودولت کی ریل پیل ہے مگر دل میں خدا بستا ہے اور زبان پر سوال ہے تو آخرت کا۔ اللہم لا عیش الا عیش الآخرة، فاغفر للأنصار والمہاجرة!!!
امام احمدؒ سے سوال کیا گیا: کیا آدمی مالدار ہوکر زاہد ہوسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں، اگر مال کا بڑھنا اس کو خوشی سے بے قابو نہیں کرتا اور مال کا گھٹنا اس کےلیے حسرت کا باعث نہیں بنتا۔
حسن بصریؒ فرماتے ہیں: زہد یہ نہیں کہ آدمی مال کو ہاتھ لگانے سے پرہیز کرے یا حلال اشیاءکو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لے۔ زہد یہ ہے کہ جو خیر خدا کے ہاتھ میں ہے اس کا وثوق تمہیں زیادہ ہو بہ نسبت اس چیز کے جو تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ کہ مصیبت میں بھی تم اپنے آپ کو خدا کی محبت وقربت کے احساس میں اسی طرح سرشار پاؤ جیسا کہ مصیبت نہ ہونے کے وقت۔ اور یہ کہ تمہاری ستائش کرنے والا شخص اور تمہاری مذمت کرنے والا شخص ہر دو تمہاری نظر میں ایک برابر ہوجائیں۔
(تفصیلی مطالعہ کےلیے ہماری کتاب: ایمان کا سبق)۔