تاریخ کو آگے بڑھانے کےلیے ذہبیؒ اور ابن کثیرؒ کا ڈسکورس
مضامین
خدا کے واسطے ان نوجوانوں کو دو چیزیں
ضرور پڑھائیں: ایک ان کا عقیدہ اور ایک ان کی تاریخ۔
یہ دو چیزیں ان کو پڑھائی گئی ہوتیں
تو آج یہ ’’اتباعِ قرآن وسنت‘‘ کے صحیح مفہوم اور اس کی فقہی وسعتوں سے بھی آشنا
ہوتے... اور ’’اسلامی وحدت‘‘ یا ’’جماعت‘‘ کا صحیح معنیٰ بھی ان کو معلوم ہوتا۔
ان دو اسباق کے بغیر ’’اتباعِ حق‘‘ کے
خوبصورت دروس بھی ان کے حق میں گمراہ کن؛ اس عنوان کے تحت یہ بہت سے وابستگانِ
صحابہ کو ہی حق سے خارج سمجھنے چل دیتے ہیں۔
ان دو اسباق کے بغیر ’’وحدتِ امت‘‘ کے
خوبصورت درس بھی ان کے حق میں گمراہ کن؛ اس عنوان کے تحت یہ ایسے ایسے زہریلے
عناصر کو اِس کمپوزیشن کا حصہ بنانے پر مصر ہوتے ہیں جن کا عقیدہ اور جن کی تاریخ
ہر دو امت کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے عبارت رہی ہے۔ تب آپ کے ’’اتحاد اتحاد‘‘ کے
یہ درس ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کا مصداق ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے... ہمارا برصغیر کا تحریکی
فکر خاصی حد تک ان دو اسباق (عقیدہ اور تاریخ) کے بغیر پروان چڑھا ہے۔ اس وجہ سے
اچھے اچھے فضلاء اور نہایت صاف ستھرے ذہن کے مالک اصحاب بھی اسلامی اٹھان اور
موجودہ بحرانات کے حوالے سے ایک قابل ترس naive ڈسکورس پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ابن کثیر اور ذہبی کا ڈسکورس ان حضرات کو ’فرقہ واریت‘ لگے گا!!! آج وحدتِ امت کے جس کمپوزیشن میں روافض
سے ڈنگ کھانے کا پورا انتظام نہیں اُس سے اِن حضرات کو ’فرقہ واریت‘ کی بو آئے گی!
اور جہاں یہ ڈنگ کھانے کا پورا پورا بندوبست ہو اُسے یہ امت کی ’یکجہتی‘ باور کریں
گے جو آج تک امت کےلیے کوئی برگ و بار نہ لا سکی۔
واقعی اس وقت فیشن یہی ہے کہ ’’اصلاحِ
امت‘‘ اور ’’اقامتِ دین‘‘ اور ’’اسلامی نشأۃِ ثانیہ‘‘ کے حوالے سے کچھ ایسی
پھلجڑیاں چھوڑی جائیں جو ’سب کو ساتھ لے کر چلنے‘ ایسے کسی وہمی عمل میں عشروں (یا
بعید نہیں صدیوں) تک ہمیں 8 کے ہندسے کے اندر گھماتی رہیں! اور وہ کمپوزیشن جو واقعتاً اللہ کے فضل سے کہیں پہنچ کر دکھا سکتی ہے، اور جس نے
زنکیوں اور ایوبیوں کے زیرقیادت (فاطمی روافض کا پتّہ مصر سے ہمیشہ کےلیے صاف کر
دینے کے بعد) آپ کو بیت المقدس فتح کر کے دیا تھا، امت کو ایک ازسر نو زندگی دے
ڈالی تھی، اور صلیبی یورپ سے اٹھنے والی (پاپولیشن ایکسپلوژن اور صلیبی اِحیاء کی
اٹھائی ہوئی آندھیوں) کے آگے بڑی دیر تک شام تا افریقہ بند باندھے رکھا... وہ
کمپوزیشن جس نے سلاجقہ کی سرکردگی میں آل بویہ کے دورِ سیاہ کو قصۂ پارینہ بنایا،
روم کو از سر نو لرزایا، اسلامی تہذیب اور تقریباً مر چکے علوم و فنون کو ایک نئی
زندگی دی اور عالم اسلام کو از سر نو ایک استحکام بخشا... جس نے غزنویوں، غوریوں
اور مابعد وسط ایشیائی قافلوں کی صورت میں ہند کے بت خانے الٹے اور ہمالیہ کے اِس
(برعظیم) کو ہمیشہ کےلیے اذانوں کے دیس میں بدل کر رکھ دیا... وہ تاریخی کمپوزیشن
جس نے عثمانیوں کی صورت میں تاریخ انسانی کی سب سے بڑی اور سب سے طویل ایمپائر
اسلام کے قدموں میں لا کر رکھ دی اور جو مشرقی یورپ کو اسلام کے زیرنگیں لے کر
آئی... اور تو اور دورِ حاضر میں جس نے سوویت یونین ایسی سپرپاور کے گھٹنے لگوائے
اور جو امریکی سپرپاور کو گھٹنے ٹکوانے کی جانب اللہ کے فضل سے کامیابی کے ساتھ
گامزن ہے، اور جو خطۂ شام میں اپنے اُسی ترکی و عربی عنصر کو مجتمع کر کے آج امت
کے کچھ تاریخی دشمنوں کے ساتھ برسر پیکار ہے اور اللہ کے فضل سے کچھ ایسا برا نہیں
جا رہا...
یہ ابن کثیر،
ذہبی کا نشان زد کمپوزیشن اور طائفہ منصورہ جو تمام عرصۂ تاریخ امت کو داخلی طور
پر ڈنگ مارنے والے طبقوں کے سینے پر بھی بیک وقت مونگ دلتا رہا؛ اور جوکہ اس کی
بیرونی کامیابیوں کا ایک بڑا راز تھا... ’’البدایۃ والنھایہ‘‘ اور ’’تاریخ
الإسلام‘‘ سے پھوٹ پھوٹ کر آنے والے اِس کمپوزیشن کا احیاء آج ’فرقہ واریت‘ کے کھاتے میں ڈالا جائے گا، سبحان اللہ
العظیم!
خدا کے واسطے اپنی اِس بےسمت فیشنی
’اتحاد اتحاد اتحاد‘ کی گردان کی بجائے، جو امت کو ہزاروں ڈنگ پڑوانے کی ایک فکری
بنیاد فراہم کرواتی ہے... اور اپنی اس وہمی دنیا میں رہنے کی بجائے جو نہ اپنے
عقیدے سے واقف نہ اپنی تاریخ سے، نہ اپنے دوست سے اور نہ اپنے دشمن سے... آپ ان
نوجوانوں کو مدرسۂ ابن تیمیہ و ابن کثیر و ذہبی و شاہ ولی اللہ سے ایک اصولی و
تاریخی راستہ کشید کرنے دیجئے‘ خواہ کچھ دیر کےلیے یہ آپ کو ’فرقہ وارانہ‘ لگے۔
ان نوجوانوں سے بھی میری درخواست ہے
کہ متأخرہ ادوار کے کچھ سطحی اور فیشنی نعروں سے ہرگز مرعوب نہ ہوں، خواہ فی الوقت
آپ ان کو کتنا ہی مقبول کیوں نہ دیکھیں اور ان کے مقابلے پر اپنے اُس تاریخی
ڈسکورس کو کتنا ہی اجنبی کیوں نہ پائیں۔ ایسی کسی ادیبانہ یا دانشورانہ لومۃ لائم
سے ہرگز نہ ڈریں۔ سر اٹھا کر چلیں۔ ’’فرقۂ ناجیہ‘‘ اور ’’طائفہ منصورہ‘‘ اللہ کے
فضل سے صرف عقیدہ کی کتابوں میں ہی نہیں ملتا۔ یہ بیک وقت تاریخ کی لوح پر بھی آپ
کو اپنی پوری قوت اور فاعلیت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ پس یہ وہ طائفۂ حق ہے جو کتبِ عقیدہ اور
کارزارِ تاریخ میں بیک وقت سرخرو ہے۔ (حَتَّى يُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الْمَسِيحَ
الدَّجَّالَ ’’یہاں تک کہ ان کا آخری حصہ مسیح دجال سے قتال کرے گا)۔
یہ اس امت پر خدا کا خاص انعام ہے۔
شیخ سفر الحوالی کہتے ہیں: ہم وہ جماعت ہیں جن کے حق میں شرائعِ آسمانی اور وقائعِ
تاریخ اللہ کے فضل سے بیک وقت بولتے ہیں۔
ایک نومولود، بےسمت مگر مقبول ہو چکی
’دانش‘ کو ناں کر کے خطۂ ہند کے مسلمان کو اس کے تاریخی روٹ پر ڈالنا.. اور البداية والنهاية کے ڈسکورس کو بحال کروانا... آج ایک علمی جہاد
چاہتا ہے اور بےلحاظ ہو جانے کی حد تک ایک شجاعت۔ ان شاء اللہ تھوڑی محنت سے یہاں
کے تحریکی عمل کو کچھ ٹھوس معتدل لہجے دیے جا سکتے ہیں۔
وباللہ التوفیق