سماجی مومنٹم اٹھانے کی فکر کیجئے، آپکے پاس بڑی قوت ہے 2
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
’’سماجی مومنٹم‘‘ اٹھانے کی فکر کیجئے؛ آپکے پاس بڑی قوت ہے 2
احوال و تعلیقات
چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لہٰذا اس ملک کی
قیادتیں ایک عرصے تک اپنے آپ کو اسلام کا زیربار سمجھتی رہی ہیں۔ یہ ایک اچھی
چیز تھی مگر کافی اُس وقت بھی نہیں تھی۔ نیز یہ
اپنی اُس فائدہ دہی کے اعتبار سے وقتی ہی ہو سکتی تھی۔ پس یا تو عین اُسی ہلے میں
ملک کو اسلام کی پٹڑی پر چڑھا لیا گیا
ہوتا؛ اور پھر ملک کا اپنا دستور اور نظام ہی ایک ایسا تسلسل بن جاتا کہ ہر نئے
آنے والے کو اسلام کا پابند ہی ہو کر رہنا پڑے (جیساکہ ہماری اسلامی تاریخ میں بڑی
صدیوں تک رہا کہ جو بھی آئے، خواہ جائز طریقے سے خواہ ناجائز طریقے سے،
نظامِ مملکت اسلام ہی ہو)۔ یہ بہرحال کوئی
آسان کام نہ تھا۔ تاہم جب ایسا نہیں ہوا تو کیا یہ ممکن ہے کہ ملکی قیادتوں کو
’’نفاذِ اسلام‘‘ کے حوالے سے آپ قیامت تک اُس ایک نعرے کا قرض یاد دلاتے چلے
جائیں جو ملک کے قیام کے وقت یہاں کی قیادتوں نے ایک بار لگا لیا تھا؟
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ
حکمرانوں کو آپ ان کا وہ اسلامی نعرہ یاد نہ دلائیں جو انہوں نے قیامِ پاکستان کے
وقت زور و شور کے ساتھ بلند فرمایا تھا۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟‘‘ پر ضرور ان
کو جھنجھوڑیں۔ حسبِ مقدور ان کا گھیراؤ کریں۔ اُن لاکھوں شہیدوں کی جانب سے ان کا
گریبان پکڑیں جنہوں نے محض اسلام کی خاطر یہ اتنا سارا خون دیا تھا نہ کہ اِن کے
اللوں تللوں اور اِن کی الیکشن باریوں کےلیے۔ مگر یہ وہ قرض ہے جس کی سند تک
غائب کرائی جارہی ہےاور اس کےلیے ایک نئی انتھروپالوجی پڑھانے والے چینل وجود میں
لائے جاچکے ہیں… جو یہ سوال اٹھانے لگے کہ قیامِ پاکستان کا محرک اسلام کب تھا!
جنہیں خوب معلوم ہے کہ ان کے سامنے اب وہ نسل نہیں جس نے پاکستان بنایا یا بنتے
دیکھا تھا؛ بلکہ یہاں اُس کی پوتا یا پڑپوتا نسلیں ہیں جن کا حافظہ (memory) ہی تعلیم اور ابلاغ کے
کمپیوٹر میں کہیں اُڑ گیا ہے۔ یہ ایک کمال ’سافٹ ویئر‘ انجینئرنگ ہے؛ جبکہ
تعلیمی اور ابلاغی ساہوکار کی سب ٹریننگ اسی میدان میں رہی ہے؛ اور اب اپنی
اس محنت پر اس کو ناز بھی ہے۔ پس ایک ایسا قرض جو لگ بھگ ایک صدی پرانا ہو اور جس
کی سند بھی ڈھنگ سے لکھی گئی اب نہ ملتی ہو، بلکہ باقاعدہ ایسی ’اَسناد‘ اس کے مقابلے پر
تیار کرا لی گئی ہوں جو ایسے کسی قرض کو ہی ناثابت کر ڈالیں… غرض سو سال پرانا ایک
قرض جس کی سب حیثیت اب زبانی کلامی رہ گئی ہو اور جسے ’مُلا کا وہم‘ یا شاید
’مُلا کی دھونس‘ قرار دیا جانے لگا ہو، اور جس کو منوانے کےلیے اب نہ کوئی
مضبوط وکیل ہمارے پاس رہ گیا ہو اور نہ کوئی ڈھنگ کا چینل یا فورَم یہاں پایا جاتا
ہو، ایک ایسا قرض آخر کب تک کسی کو زیربار رکھنے میں کامیاب رہ سکتا ہے؟ لازماً اس
میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب دَیندار قرض خواہ کو اُلٹا آنکھیں دکھانا شروع کر دے؛
اور شاید یہ وقت ہماری قومی زندگی میں آچکا ہے۔
اسلامی
سیکٹر کو لازماً سماجی قوت کے کچھ اضافی امکانات کا بندوبست کرنا ہوگا؛ حکمرانوں
کو محض 47ء والے ’قرض‘ کی یاددہانی اب کافی نہیں۔ بےشک اِس یاددہانی میں بھی
سستی نہ ہونی چاہئے۔ یہاں؛ وہ سبھی ساز اور سُر ضرور ازسرنو چھیڑے جائیں جو تیس
اور چالیس کے عشروں میں اسلامیانِ برعظیم ہند کو نئی منزلوں کی جانب گام زن کرنے
کےلیے اقبال ودیگر عمائدینِ ملت نے قوم کے وجود میں چھیڑ ڈالے تھے۔ مگر اِس ادراک
کے ساتھ کہ اِس عمل کی نتیجہ خیزی اب ایک حد تک ہی ہو گی۔ سماجی طاقت کے کچھ ٹھوس
عوامل کا آپ کی پشت پر ہونا ناگزیر رہے گا؛ اور اصل
اُمید ان ٹھوس عوامل کے ساتھ ہی رکھنا ہو گی۔ گو اندیشہ یہ ہے کہ اسلامی سیکٹر
اپنی حالیہ ناتوانی کے سبب ، اور ایک خرانٹ دین بیزار میڈیا کے ہوتے ہوئے،
تحریکِ پاکستان کے وہ اسلامی سُر بھی شاید ہی یہاں چھیڑ پائے۔ ہمارا یہ اسلامی
سیکٹر تو میڈیا کے حربوں کو سمجھنے میں فی الحال ناکام جا رہا ہے؛ اسے مات دینے کی
توقع اس سے کیونکر رکھی جائے؟
یہ
بھی نہ بھولنا چاہئے کہ زمانی طور پر ہم جیسےجیسے قیام پاکستان والی دَہائی سے دور
ہوتے جائیں گے ویسےویسے ہم اپنی پشت پر موجود اُس مومنٹم کی طاقت کھوتے چلے جائیں
گے جو گزشتہ صدی کے وسط میں اِس قوم کو ’’سوئےحرم‘‘ لے چلا تھا۔ تاثیر کے
کچھ اضافی اسباب ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔ تیار رہنا چاہئے، وقت گز رنے کے ساتھ
ساتھ حالات ہمارے حق میں پہلے سے زیادہ بےرحم ہو سکتے ہیں۔
|
|
|
|
|
|