’’سماجی مومنٹم‘‘ اٹھانے کی فکر کیجئے؛ آپکے پاس بڑی قوت ہے 1
احوال و تعلیقات
ملک میں آگےپیچھے لبرل ایجنڈا برداروں کو خوش کرنے والے
اقدامات، اور اسلام پسند تنظیموں کی پریشانی اور ’عین وقت‘ پر کچھ مبنی بر تشویش
بیانات، میٹنگز وغیرہ، کے تناظر میں سوشل میڈیا پر ہماری دی گئی ایک تحریر۔
اسلامی
تحریکیں انتخابی اکھاڑے میں اس وقت جو مرضی کر لیں (ہم بھی اس کے مخالف نہیں) لیکن
اس کے آپشن یہاں فی الوقت نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اسلامی
تحریکیں الیکشن جیتیں یا ہاریں (بلکہ ہمیشہ ہاری ہیں، جیتی کب ہیں) سیاست
میں البتہ بہت بڑا بڑا کردار ادا کر جاتی رہی ہیں۔ اس نکتے پر براہ کرم غور
فرمائیے۔ ’’سیاست‘‘ میں اپنے اثرانداز ہونے کےلیے یہ جس ’چیک‘ کو اللہ کے فضل سے
بڑی کامیابی کے ساتھ کیش کرا لیتی رہی ہیں، وہ ہے ’’معاشرے میں اسلام کی جڑیں‘‘
اور ’’اسلام کے حق میں پبلک موبلائزیشن‘‘۔ اسی سے تحریکِ پاکستان کے وقت ’’حالات‘‘
نے اسلام کے آگے گھٹنے ٹیکے۔ اسی سے دستور میں قراردادِ مقاصد اور تکفیرِ قادیانیت
وغیرہ ایسے عظیم الشان اقدامات عمل میں لائے گئے، باوجود اس کے کہ دینی قوتوں
کے اپنے ووٹ اُس وقت بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ اِسی سے آپ جہادِ افغانستان
میں سرخرو ہوئے۔ اور اِسی سے بہت سارے برج الٹے گئے۔ خدا را اس نقطے کو سمجھئے؛ ہم
آج بھی طاقت کے دھانے پر بیٹھے ہیں۔
’’سماجی مومنٹم‘‘ جو اسلام کے حق میں ہو اور پبلک میں اس کو
ایک زبان میسر آ گئی ہو، آپ کی قوت کا راز ہے۔ یہ خودبخود سیاسی مومنٹم میں ڈھلتا
ہے اور بھٹو جیسے ’لیفٹسٹ‘ بھی آپ کی رَو میں بہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر
نواز شریف ایسے ’رائٹسٹ‘ بھی لبرل رَو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ خدا را اس کا ادراک کیجئے۔ اور ’نوازشریف‘ کو
موضوع بنانے کی بجائے اس جانب توجہ فرمائیے: لبرلزم کے مقابلے پر اپنی سیاسی
جنگ کو انتخابی کھیل سے وسیع تر کر لیجئے۔ آپ کے آپشن بڑھ جاتے ہیں۔
***
چند ہفتوں
کے دوران لبرل جہت کے پےدرپے کئی اقدامات کے پس منظر میں، ہمارا چند ماہ پیشتر کا
اداریہ (http://eeqaz.co/112015_idaria/) ایک بار پھر توجہ چاہتا ہے۔ اس کے چیدہ اقتباسات یہاں پیش
خدمت ہیں:
***
قیامِ
پاکستان کا مومنٹم اپنی پوری قوت کے ساتھ دو تین عشرے تک ہی چل سکتا تھا۔ یعنی
ساٹھ، بڑی حد ستّر کی دَہائی۔ یہ تو شکر کیجئے، کچھ اضافی توانائی اس کے بعد بھی
اسے افغان جہاد کے دم سے میسر آئی رہی جو نوّے کی دَہائی تک معاملہ اُسی رخ پر چلتا
رہا بلکہ ضیاء الحق ایسی اسلام پسند شخصیت کے دم سے کچھ مزید توانا نظر آیا۔ ورنہ
یہ فرق قیامِ پاکستان کے دو تین عشرے بعد ہی دیکھنے میں آسکتا تھا۔ اسلامی سیکٹر
نے اس مومنٹم سے کچھ بروقت فوائد اٹھائے بھی۔ مثلاً قراردادِمقاصد کی منظوری، 73
کے آئین میں اسلامی اجزاء کی شمولیت، قادیانیوں کی تکفیر، توہینِ رسالت کی سزا اور
کچھ دیگر اسلامی امور کو ریاستی فورم سے پاس کروا لینا۔ وقت سنبھال لینے کا یہ ایک
اچھا ثبوت تھا۔ بلاشبہ یہ کام اُسی مومنٹم کے بل پر کر لینے کا تھا جب ’قرض خواہ‘
منہ میں زبان رکھتا تھا اور ’مقروض‘ اپنے آپ کو اس کا کچھ دَیندار مانتا تھا۔ اُس
بھلے دور میں ہی یہ چیزیں اگر پاس نہ کروا لی گئی ہوتیں تو آج جب ’قرض خواہ‘ حالات
کے تیور دیکھتے ہوئے دبک گیا ہے بلکہ اپنے ’قرض‘ کی بات اونچی آواز میں کرنے پر
’حوالات‘ کا خطرہ محسوس کرنے لگا ہے… اسلامی سیکٹر آج نہ صرف اس پوزیشن میں نہیں
کہ قراردادِمقاصد یا قادیانیوں (ایسے ’معزز وبااثر شہریوں‘) کی تکفیر یا قانون
ناموس رسالت وغیرہ ایسی ’بھاری‘ اشیاء پاس کروا کر دکھا دے، اور نہ دُوردُور تک
ایسا زور پا لینے کی اس کے ہاں کوئی صورت نظر آتی ہے، بلکہ ڈر یہ پیدا ہو گیا ہے
کہ (خدانخواستہ) ایک مسلسل لبرل تخم ریزی کے نتیجے میں کوئی شاطرانہ کوشش اب اگر
کسی وقت ایسی ہوتی ہے کہ ان اسلامی اقدامات کو ایک ایک کر کے ’ترمیمات‘ کی نیند
سلا دیا جائے تو اس کے آڑے آنے کےلیے مطلوب دم خم بھی شاید ہمارے اسلامی سیکٹر کے
اندر موجود نہیں۔ یعنی وہ چیزیں جو اُن بھلے وقتوں میں پاس کروا لی گئی تھیں آج ان
کو بچا رکھنا ہی تقریباً ایک چیلنج ہے۔ یہ ناتوانی ’سیٹوں‘ کی سلاجیت سے نہ جائے
گی اور نہ ایم ایم اے یا ملی یکجہتی ایسی کسی بےفائدہ مشقت سے۔