تنقیحات
عرصہ پیشتر،
ہماری ٹائم لائن پر جولائی 2015ء کے اداریہ کا ایک اقتباس نشر ہوا تھا:
ایک دیانتدار، فرض شناس،
کردار کا کھرا اور اعلیٰ مقاصد پر یقین رکھنے والا پولیس آفیسر اس پورے علاقے میں
پائے جانے والے سینکڑوں واعظوں پر بھاری ہے۔
برائی کو ختم کرنے اور خیر کو ممکنہ حد تک معاشرے پر حاوی کرانے میں جو کردار ایسے
ایک نڈر، خداخوف، باکردار پولیس افسر کا ہے وہ مبلغوں کے ایک جمعِ غفیر کا نہیں ہو
سکتا۔ کس کو اِس میں شک ہے؟ مگر ہم سینکڑوں اسلامی تنظیمیں اور لاکھوں مساجد مل کر
ایسے کتنے دیانتدار، فرض شناس، کردار کے کھرے اور اعلیٰ مقاصد پر یقین رکھنے والے پولیس آفیسر اِس معاشرے کو دے سکے
ہیں؟ کیا یہ بات لمحۂ فکریہ نہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ خال خال کہیں ایسا
دیانتدار، چمکتے کردار کا مالک پولیس آفیسر
دیکھنے کو مل جائے تو خود ہم ’مصلحین‘ اس کو حیران ہو ہو کر دیکھتے ہیں کہ آخر یہ
کیسے ہو گیا… اور بےشمار جگہوں پر ہم خود ایسے فرشتہ صفت افسر کا ذکر کرتے ہیں!!!!
ظاہر سی بات ہے پولیس کے محکمے میں ایسا کوئی اکادکا صاف ستھرا دانہ محض اتفاقات کے زمرے میں شمار ہونے والی چیز ہے نہ کہ
یہاں پر لانچ کروائے گئے کسی باقاعدہ پروگرام کی پیداوار۔ یہاں سے آپ پر
کھلتا ہے کہ صالحین و مبلغین یہاں اپنی تمام تر دیوہیکل سرگرمی کے باوجود معاشرتی
محاذوں پر سرگرم ہونے کے لحاظ سے سرے سے غیرموجود اور منظرنامے سے مکمل غائب ہیں۔
ان شعبہ ہائے حیات کو دیکھیں تو گویا اصلاح کار یہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ ہوں گے
اپنے حجروں اور چِلّوں اور اپنے تنظیمی پروگراموں میں، جہاں شاید ان کے پاس کان کھجانے کی فرصت نہ ہو گی اور
محنت کر کر کے گلے تھکے اور پاؤں سوجھے ہوں گے، مگر معاشرے میں تو یہ کہیں
نہیں ہیں۔ دور دور تک نہیں ہیں۔ (ایقاظ کا تازہ اداریہ: فاعلیت کا فقدان
کلاسیکل
اور انقلابی منہج کا فرق)
اس پر ایک معزز
قاری کا اعتراض آیا:
اگر وہ ایمانداری کے ساتھ اپنی ڈیوٹی
نبھاتے ہوئے ملکی قانون کے مطابق کسی پوجی جانے والی قبر، کسی فحاشی پھیلاتے سینما
گھر یا کسی زنا کے اڈے بازار حسن کی حفاظت کر رہا ہو تو کیا فائدہ ایسی ایمانداری
کا؟ (لنک: https://goo.gl/fe21IX )
اس پر ہم اتنا عرض کریں گے:
اعتراض میں اٹھائے گئے امور کو ہم دو جہت سے دیکھتے ہیں، اور یہ دونوں، اِن
امور کو دیکھنے کی درست اور صالح جہتیں ہیں:
پہلی جہت:
ان امور میں
محظوراتِ شرعیہ کا اعتبار کرنا۔ یعنی ان امور کے اندر شرعی ممانعتیں ہی دیکھنا۔
تاہم ایسے کسی اندیشے کے تحت اِس تمام راستے سے کنارہ کشی کر لی جانے کی صورت میں یا تو معاشرے کے اندر اسلامی سیکٹر کو درپیش کسی اہم
تر فریضہ کا ترک لازم آرہا ہو، یا کسی سنگین تر ضررِ شرعی کا وقوع
لازم آ رہا ہو۔ یعنی ان چیزوں کو شرعاً ممنوع ہی جاننا، اور ان سے از حد بچنے ہی کی کوشش کرنا، تاہم اس امکان
کو سامنے رکھتے ہوئے کہ کسی وقت آدمی کو اِن شرعی قباحتوں کا سامنا ہو سکتا
ہے، اگر آدمی سرے سے یہ راستہ ہی نہ چلے تو مسلم فرد یا اسلامی سیکٹر کے کچھ
اہم تر اور ناگزیر تر فرائض کا ترک ہو جانا یقینی ہو، یا کچھ سنگین تر شرعی
نقصانات کا مسلم فرد یا اسلامی سیکٹر کے حق میں واقع ہو جانا یقینی ہو (اور حق تو یہ ہے کہ ایک مسلم معاشرے کا مکمل طور پر فاسقوں اور دین دشمنوں کے ہاتھ میں چلا جانا
یقینی ہو؛ جس سے دین کے وہ بہت سے جوانب جن پر آج آپ عمل پیرا ہیں وہ بھی رفتہ
رفتہ آپ کےلیے ناممکن ہوتے چلے جائیں گے)... تو اس صورت میں اس شرعی
قاعدہ پر چلتے ہوئے کہ [ایک بڑے فرض کے ترک سے
بچنے کےلیے چھوٹے فرض کا ترک آدمی کے حق میں گناہ نہ ہوگا۔ نیز ایک سنگین
تر گناہ یا ضررِ شرعی سے بچنے کےلیے ایک کمتر گناہ یا ضررِ شرعی کا ارتکاب آدمی کے
حق میں گناہ نہ ہو گا] آدمی کا وہ راستہ
چلنااور ایسے شرعی محظورات کے اندیشے سے اس راستہ کو اپنے اوپر حرام نہ کر لینا۔
یہ ہے باب ’’تعارض الحسنات والسیئات‘‘ کا۔ پیش ازیں اپنے ایک مضمون میں ہم ابن تیمیہ کے مجموع الفتاویٰ
کی فصل ’’فی
تعارض الحسنات أو السیئات أو ھما جمیعاً‘‘ کا ایک بڑا حصہ اِس موضوع پر اردو استفادہ کے ساتھ دے چکے ہیں۔ اس کا ایک
اقتباس یہاں بھی پیش ہے:
وَمَعْلُومٌ
أَنَّهُ مَعَ كُفْرِهِمْ لَا بُدَّ أَنْ يَكُونَ لَهُمْ عَادَةٌ وَسُنَّةٌ فِي
قَبْضِ الْأَمْوَالِ وَصَرْفِهَا عَلَى حَاشِيَةِ الْمَلِكِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ
وَجُنْدِهِ وَرَعِيَّتِهِ وَلَا تَكُونُ تِلْكَ جَارِيَةً عَلَى سُنَّةِ
الْأَنْبِيَاءِ وَعَدْلِهِمْ وَلَمْ يَكُنْ يُوسُفُ يُمْكِنُهُ أَنْ يَفْعَلَ
كُلَّ مَا يُرِيدُ وَهُوَ مَا يَرَاهُ مِنْ دِينِ اللَّهِ فَإِنَّ الْقَوْمَ لَمْ
يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَكِنْ فَعَلَ الْمُمْكِنَ مِنْ الْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ
وَنَالَ بِالسُّلْطَانِ مِنْ إكْرَامِ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ مَا
لَمْ يَكُنْ يُمْكِنُ أَنْ يَنَالَهُ بِدُونِ ذَلِكَ وَهَذَا كُلُّهُ دَاخِلٌ فِي
قَوْلِهِ: {فَاتَّقُوا
اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ}. فإذا
ازْدَحَمَ وَاجِبَانِ لَا يُمْكِنُ جَمْعُهُمَا فَقُدِّمَ أَوْكَدُهُمَا لَمْ
يَكُنْ الْآخَرُ فِي هَذِهِ الْحَالِ وَاجِبًا وَلَمْ يَكُنْ تَارِكُهُ لِأَجْلِ
فِعْلِ الْأَوْكَدِ تَارِكَ وَاجِبٍ فِي الْحَقِيقَةِ. وَكَذَلِكَ إذَا اجْتَمَعَ
مُحَرَّمَانِ لَا يُمْكِنُ تَرْكُ أَعْظَمِهِمَا إلَّا بِفِعْلِ أَدْنَاهُمَا لَمْ
يَكُنْ فِعْلُ الْأَدْنَى فِي هَذِهِ الْحَالِ مُحَرَّمًا فِي الْحَقِيقَةِ وَإِنْ
سُمِّيَ ذَلِكَ تَرْكُ وَاجِبٍ وَسُمِّيَ هَذَا فِعْلُ مُحَرَّمٍ بِاعْتِبَارِ
الْإِطْلَاقِ لَمْ يَضُرَّ. وَيُقَالُ فِي مِثْلِ هَذَا تَرْكُ الْوَاجِبِ
لِعُذْرِ وَفِعْلُ الْمُحَرَّمِ لِلْمَصْلَحَةِ الرَّاجِحَةِ أَوْ لِلضَّرُورَةِ؛
أَوْ لِدَفْعِ مَا هُوَ أحرم۔
پھر علاوہ
اُن (اہل مصر) کے کفار ہونے کے، یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ لازماً اُن (اہل مصر) کا کوئی معمول اور کوئی
دستور ہو مالیات کی وصولی کے معاملے میں بھی اور مالیات کے مصارف کے معاملہ میں
بھی جوکہ بادشاہ کے درباریوں پر بھی خرچ کیے جاتے ہوں گے اور اس کے اہل خانہ پر
بھی اور اُس کے لاؤ لشکر پر بھی اور اس کی رعایا پر بھی، اور (اہل مصر کے) یہ
اخراجات اُس دستور پر رائج نہ ہوں گے جوکہ انبیاء کی سنت اور ان کے عدل کی شان ہے۔ جبکہ یوسف علیہ السلام کےلیے ممکن نہ تھا کہ وہ
تمام امور انجام دےلیں جو وہ چاہتے ہیں اور جنہیں وہ دینِ خداوندی کا حصہ جانتے
ہیں۔ وجہ یہ کہ اُن لوگوں نے ابھی یوسف علیہ السلام کی دعوت پر لبیک ہی نہیں کہہ
رکھا ہوا تھا۔ لیکن جتنا بس میں تھا اتنا عدل
اور احسان یوسف علیہ السلام نے ضرور کیا۔
نیز اس اقتدار سے کام لے کر اپنے خاندان کے اہل ایمان کو اعزاز واکرام دینے
میں کامیاب رہے جوکہ اس کے بغیر وہ نہ دےسکتے تھے۔ یہ سب اللہ رب العزت کے اس قول
میں داخل ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا تمہارے بس میں
ہے‘‘۔ پس جب دو فرض آپس میں ٹکرائیں اور دونوں میں جمع ممکن نہ ہو اور ایسی صورت
میں دونوں میں سے اہم فرض کو مقدم کردیا جائے
تو وہ دوسرا فرض (جو چھوٹ گیا) اُس صورت میں فرض ہی نہ رہے گا، اور اس کا
تارک جوکہ اُس سے اہم تر فرض کو ادا کرنے کے باعث اس کا تارک ہوا بلحاظِ حقیقت
تارکِ فرض نہ ہوگا۔ اسی طرح؛ جب دو گناہ کے کام اکٹھے ہوجائیں اور ان میں سے زیادہ بڑے گناہ سے بچنے کی کوئی
صورت نہ ہو سوائے اس کے کہ ان دونوں میں سے چھوٹے گناہ کو اختیار کرلیا جائے، تو
ایسی صورت میں چھوٹا گناہ بلحاظِ حقیقت گناہ نہ ہوگا ۔ ایسی صورت میں وہ جو
ترکِ واجب ہوا تھا اُسے ایک عمومی معنیٰ میں ترکِ واجب کہہ بھی لیا جائے، یا یہ جو ارتکابِ حرام ہوا ہے اُسے ایک عمومی معنیٰ
میں ارتکابِ حرام کہہ بھی لیا جائے، تو مضائقہ نہیں۔ ایسی صورت میں جو (صحیح تر)
لفظ بولا جائے گا وہ ہے: ترکِ واجب بہ سببِ عذر، یا ارتکابِ حرام بہ سبب مصلحتِ
راجحہ یا ضرورۃ۔ یا یہ کہ ایک حرام کو اختیار کرنا اس لیے کہ اس سے بڑے حرام کو
دفع کرنا ہے۔
دوسری جہت:
تاہم اعتراض میں مذکورہ
افعال یا ان میں سے بعض کو دیکھنے کی ایک دوسری جہت بھی ہے، اور وہ ہے انسانی جانوں کی حرمت، خواہ وہ بعض شرک یا فسق
اور بدعت کے کاموں میں ہی ملوث کیوں نہ ہوں۔
اب مثال کے طور پر عیسائیت
کو ہم ایک باطل مذہب ہی کہیں گے۔ اس کے راستے کو شرک اور ہلاکت ہی گردانیں گے۔
لوگوں کو اس سے تائب ہو جانے کی دعوت اور تلقین بھی شد و مد سے کریں گے۔ تاہم
دارالاسلام میں لوگوں کو عیسائی رہنے اور اپنے مذہب
پر عمل پیرا ہونے کا اختیار بہرحال دیں گے، جن میں ان کا گرجے رکھنا اور گرجوں میں
جاناآنا بھی شامل ہے۔ نہ صرف اس کفر پر رہنے اور عمل پیرا ہونے کا ان کو اختیار
دیں گے بلکہ دارالاسلام میں ان کی
حفاظت اور سیکورٹی کو اپنا ذمہ بھی جانیں گے۔ اب مسلمانوں کی پولیس کی کوئی
گارڈ ایک گرجے کی سیکورٹی پر متعین ہے تو اس کو دیکھنے کا ایک انداز تو یہ ہے کہ
دیکھو یہ ظالم رب العزت کے ساتھ شرک ایسی ایک سرگرمی کے پہرے اور راکھی پر کھڑا
ہے! لیکن اسی عمل کو دیکھنے کا ایک انداز یہ ہے کہ ان لوگوں کو شرک کا بیان کر کے
دے دینا اور اس پر خدا کے عذاب سے خبردار کر دینا ہمارا فرض ہے (فرضِ کفایہ نہ کہ
فرضِ عین) البتہ ان کو جبراً اس سے روک دینے کا نہ صرف ہم کو اختیار نہیں بلکہ ان
کی جان و مال کی حرمت ہماری شریعت سے ثابت ہے اور وہ ان کو عین اس وقت بھی حاصل ہے
جس وقت وہ اپنی کسی شرکیہ سرگرمی میں مصروف ہوں، جس پر ان کا حساب کرنا خدا کا کام
ہے نہ کہ ہمارا۔ لہٰذا مسلم سوسائٹی کو ان کی جان و مال کی حفاظت کو بہرحال یقینی
بنا رکھنا ہے۔ اِس بات کا اُس بات سے کوئی تعارض نہیں۔
اسی طریقے سے، دارالاسلام
میں برائی یا فسق و فجور کے بعض اڈے ہیں۔ فرض کریں خود آپ ہی کو آج حکومت مل جاتی
ہے۔ کیا فسق و فجور کی ان سب سرگرمیوں کو آپ فی الفور ختم کر دیں گے؟ ہو سکتا ہے
آپ ان میں سے بعض برائیوں پر فی الفور ہاتھ ڈال دیں البتہ بعض کو ختم کرنے کےلیے
کچھ وقت لیں۔ تو کیا جس دوران آپ حاکم ہوتے ہوئے ایک برائی کا خاتمہ نہیں کر
پائے، اس برائی میں ملوث لوگوں کی جان و مال کی حرمت کو موقوف جانیں گے؟ یا ان
کی جان و مال کی سیکورٹی آپ کی ذمہ داری ہو گی؟ ظاہر ہے ان کو جان و مال کی
سیکورٹی فراہم کرنا بدستور ریاست/مسلم معاشرے کی ذمہ داری
ہو گی۔ یہ سب کچھ انسانی جان و مال کی حرمت کے باب سے۔ اندازہ کر لیجئے اُس وقت بھی جب
آپ معاشرے میں کامل اختیارات کے مالک ہوں! غرض مسلم سوسائٹی پر بعض اشیاء اپنی جگہ
فرض ہیں اور وہ لوگوں کے فسق و فجور کے باوجود موقوف نہیں ہو جاتیں۔ ان امور کو
دیکھنے کا یہ بھی ایک درست اعتبار ہے۔
جہاں تک پوجی جانے والی
قبروں کا تعلق ہے، تو مسلم معاشرے میں حاکم ہوتے ہوئے بشرطِ استطاعت آپ کو ان
سرگرمیوں کو ختم کرانا ہو گا۔ تاہم اس میں بھی اگر کسی وجہ سے تاخیر ہوتی ہے، یا
اس کےلیے پوری استطاعت پانے کا انتظار ہے، تو اُس دوران انسانی جان و مال کی حرمت
بہرحال موقوف نہیں کر دی جائے گی، اور لوگوں کو ان کی جان و مال کا تحفظ دے رکھنا پھر بھی آپ کی ذمہ داری رہے گی۔ اقتدار رکھتے
ہوئے بھی!!! تو اقتدار کے بغیر کیوں
نہیں؟
غرض یہ تحفظ سوسائٹی کی
بنیادی ذمہ داریوں میں آتا ہے، باوجود اس کے کہ اُن کی وہ سرگرمیاں نہایت قبیح اور
ان میں سے بعض تو (بشرطِ استطاعت) آہنی ہاتھ سے ختم کر دی جانے کے قابل ہیں۔
المختصر؛ یہ چیز بطورِ جنس مسلم سوسائٹی
کے معلوم فرائض میں آتی ہے۔ اور اس کو دیکھنے کی یہ جہت اِس وقت بھی متعلقہ relevant
ہے۔
*****
اس سے پہلے ہم اپنے کسی
مضمون میں یہ بات کر چکے ہیں کہ نوجوانوں کو صرف
’’عقیدہ‘‘ کی پختگی دے دینا کافی نہیں ہے جب تک ان کو ’’فقہ‘‘ کی وسعت کا بھی
اندازہ نہ کروا دیا جائے۔ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ ضروری ہیں، ورنہ معاملہ کسی ایک
جانب کو بہت بری طرح لڑھک سکتا ہے۔ اور اس وقت عملاً ایسا ہی ہے۔ جبکہ ’’چلنے‘‘
کےلیے جو سب سے ضروری چیز ہے اس کا نام ’’توازن‘‘ ہے۔
بیٹھ رہنے والوں کو اس کی
کمی کا زیادہ اندازہ نہیں ہوتا، کیونکہ اس کی ضرورت ’’چلنے‘‘ کے دوران پڑتی
ہے۔ جبکہ حادثات کرنے والوں کو اس کا
اندازہ ہو نہیں سکتا کیونکہ ان کی افتادِ طبع اس کی متحمل نہیں۔
البتہ ’’منزل‘‘ پر پہنچنا
اس سنگم کو رکھے بغیر ممکن نہیں۔
’’عقیدہ‘‘ اور ’’فقہ‘‘ کا
جوڑ یہاں ایک کمال تحریک برپا کر سکتا ہے، اللہ کے حکم اور توفیق سے۔