نبوت اور کتاب کا چیلنج
کتاب کا سبق
وَإِن
كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ
وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ فَإِن لَّمْ
تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ
وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ
لِلْكَافِرِينَ (البقرۃ:
23، 24)
اور اگر
تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو ایک سورت اس جیسی لے
آؤ اور الله کے سوا جس قدر تمہارے حمایتی ہوں بلا لو اگر تم سچے ہو۔
لیکن اگر
(ایسا) نہ کر سکو اور ہرگز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور
پتھر ہوں گے (اور جو) تیار کی گئی ہے کافروں کے لیے۔
ابن کثیر:
(پچھلی دو آیات میں) لا الٰہ الا اللہ کی تقریر فرمادینے کے
بعد اب (اِن دو آیات میں) اللہ رب العزت نبوتِ محمدﷺ کی تقریر فرما رہا ہے۔ عَلَى عَبْدِنَا سے مراد محمدﷺ۔ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ یعنی آپﷺ کے لائے ہوئے قرآن کی سورتوں جیسی ایک
سورت تم لاکر دکھا دو؛ اور اس کےلیے جن جن کو مددکےلیے بلانا چاہو بلا لو۔ کھلا
چیلنج ہے۔
یہ
چیلنج مکی قرآن میں بھی کئی مقامات پر دیا گیا (یہاں ابن کثیر کچھ ایسے مقامات کا
ذکر کرتے ہیں)۔ یہاں مدینہ آنے کے بعد (کہ جب یہود بھی معاندین کے طور پر سامنے آ
چکے تھے) ایک بار پھر یہ چیلنج دیا گیا۔
(قرآن
مجید نبیﷺ کا خصوصی معجزہ ہونے کے حوالے سے) صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ نَبِيٍّ مِنَ
الْأَنْبِيَاءِ إِلَّا قَدْ أعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ آمَنَ عَلَيْهِ
الْبَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُهُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إليَّ،
فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
انبیاء
میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جسے کوئی نہ کوئی معجزہ ایسا نہ دیا گیا ہو جسے دیکھ کر
بشر ایمان لے آیا کریں۔ تاہم مجھے جو (معجزہ) دیا گیا وہ ایک وحی ہے جو اللہ نے
میری طرف فرمائی۔ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ میرے پیروکار قیامت کے روز سب سے
زیادہ ہوں۔
سعدی:
رسول
اللہﷺ کے سچا ہونے پر ایک عقلی دلیل۔ آپﷺ کے لائے ہوئے دین کے حق ہونے کی ایک واضح
برہان۔ چنانچہ فرمایا: اے وہ لوگو جو رسولؐ کی مخالفت پر کمربستہ اور ا س کی دعوت
کو رد کرنے اور اس کو جھوٹا ثابت کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہو! ہم نے
اپنے اِس بندے پر جو دین اتارا اس کو مشکوک ٹھہرانا اگر تمہاری اتنی بڑی ترجیح
ہےتو آؤ ایک انصاف کی بات کر لیتے ہیں اور اسی پر تمہارا اور اس کا فیصلہ ہو جاتا
ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ وہ بھی تم جیسا ایک بشر ہے؛ کسی اور مٹی کا تو بنا ہوا نہیں ہے۔ تمہارے سامنے پلا بڑھا اور جوان ہوا۔ یہیں ساری
زندگی گزاری۔ تمہاری اِسی برادری میں اس کا رہن سہن۔ یہ تمام عرصہ نہ کبھی
اس نے لکھا اور نہ پڑھا۔ یکلخت یہ علم و حکمت سے لبریز ایک کتاب تمہارے پاس لے آیا
ہے اور اس کو مالکِ کائنات کی تنزیل ایک الہامی کلام کے طور پر تمہارے سامنے پیش
کرنے لگا ہے؛ جس پر تم نے جھٹ سے کہہ دیا کہ یہ تو یہ اپنے پاس سے گھڑ لایا اور
محض خدا پر جھوٹ باندھ ڈالا ہے۔ تو بات
اگر ایسی ہی ہے جیسا کہ تمیں زعم ہے تو ایسا کرو: اس جیسے الہامی کلام پر مبنی ایک
سورت تم بھی گھڑ کر دکھا دو؛ اور اس کےلیے تم اپنے جتنے اعوان و انصار سے مدد لینا
چاہو وہ بھی لے لو۔ پھر یہ کام تمہارے لیے تو اور بھی آسان ہونا چاہئے؛ کیونکہ تم
تو ادب اور فصاحت کے آسمان پر ہو اور رسولؐ کو جھوٹا کر دکھانا تمہاری ایک اتنی
بڑی خواہش بھی ہے! لہٰذا اس جیسی اگر ایک
بھی سورت تم لے آؤ تو تم اپنے زعم میں سچے۔ ہاں اگر تم اس بات سے اپنے آپ کو عاجز پاؤ
__ اور
یقیناً تم اس سے عاجز ہی رہو گے، یہ بھی ہم پہلے ہی بتائے دیتے ہیں، یہ تو ہم نے
محض ازراہِ انصاف اور چھُوٹ دینے کی ایک بات کے طور پر تمہیں پیش کش کی ہے __ تو پھر یہ ایک عظیم نشانی ہوئی اور ایک واضح
دلیل کہ یہ شخص جسے کبھی پڑھنے لکھنے سے سروکار نہیں رہا واقعتاً سچا ہے اور یہ جو
بات پیش کر رہا ہے اور جن باتوں سے تمہیں ڈرا رہا ہے وہ بھی سچ ہیں۔ اِس صورت میں
واجب یہ ٹھہرا کہ تم اس کی پیروی کرلو۔ تمہارے حق میں تب بہتر یہی ہو گا کہ اس کے
پیچھے چل کر اپنے آپ کو اُس دہکتی آگ سے بچا لو جس میں جلتے ہی انسان اور پتھر ہیں؛
تمہاری آگ کی طرح وہ کوئی عام لکڑیوں سے جلائی جانے والی آگ نہیں۔ دیکھو وہ آگ تپاتپا
کر رکھی گئی ہے انسانوں کی اُس صنف کےلیے جو خدا اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر
کرنے تک چلی جاتی ہو۔ لہٰذا اِس نبیؐ سے تصادم چھوڑ کر بہتر یہ ہے کہ تم اپنے بچنے
کا بندوبست کرو؛ جبکہ تم پر یہ واضح ہو چکا کہ یہ اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہی ہے۔
یہ اور اس قبیل کی آیات
کو آیاتِ تحدِّی کہا جاتا ہے۔ یعنی چیلنج پر مبنی آیات۔ اِعجاز یا تعجیز (عاجز ٹھہرانا) اس بات سے کہ
کوئی مائی کا لال اِس قرآن جیسا کوئی قرآن لا کر دکھا دے۔ اِسی کو معجزہ کہا جاتا
ہے۔ فرمایا: قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ
هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ
ظَهِيرًا (الاسراء: 88) ’’کہہ دو کہ اگر انسان اور جن اس بات پر مجتمع ہوں کہ
اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہ لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کو مددگار ہوں‘‘۔ ہر وہ شخص جو کلام کی اصناف سے ادنیٰ واقفیت اور
ذوق رکھتا ہوجب وہ بلاغت کے دیگر مرقعوں
کا موازنہ اِس کلامِ قرآنی سے کرتا ہے، تو وہ کبھی ان کا فرق محسوس کیے بغیر نہیں
رہتا۔
نسفی:
یعنی پچھلی دو آیات میں خدا نے اپنے بےمثال تخلیق دکھلائی
اور اِن دو آیات میں اپنی بےمثال تنزیل۔ اُدھر معبوداتِ باطلہ کا عاجز ہونا؛ ایسی
تخلیقات کر سکنے سے۔ اِدھر ان معبودات کے پوجنے والوں کا عاجز ہونا؛ ایسا الہامی
کلام اور ایسی کتابِ ہدایت پیش کرنے سے۔ اُن کائناتی نشانیوں میں خصوصی ذکر بارانِ
رحمت کا ہوا تھا جو زمین پر زندگی کا منبع بنتی ہے اور برگ وبار لانے کا واحد
ذریعہ۔ اِدھر اس آسمانی بارش کا ذکر ہوا جو قلوب میں زندگی اور ہریالی لے آنے کا
موجب ہے۔
*****
شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ
ابن کثیر: ابن عباسؓ سے: یعنی اپنے تمام مددگاروں کو۔ سدیؒ
عن ابی مالکؒ: یعنی اپنے ان شریکوں کو
جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔ مجاہدؒ سے: یعنی اپنے ان منصفوں کو جو تمہارے حق
میں فصاحت کا مقابلہ جیت لینے کا فیصلہ کریں۔
بیضاوی: شہید کا مطلب حاضر: یعنی جسے پیش کیا جا سکتا ہو۔
یا گواہی دینے والا۔ یا نصرت کنندہ۔ یا امام و رہبر۔ یہ سب شہید کے مطالب ہیں۔
إِن
كُنتُمْ صَادِقِينَ
قرطبی: اگر تم سچے ہو اپنے دعویٰ میں، جو قرآن میں ایک دوسرے مقام (الانفال:
31) پر بیان بھی ہوا: قَالُوا
قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَـٰذَا ’’کہتے ہیں یہ کلام
ہم نے سن لیا ہےاگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا (کلام) ہم بھی کہہ دیں‘‘۔
وَلَن تَفْعَلُوا
قرطبی: یہ ایک مزید چیلنج ہوا۔ ان کی ہمتوں کو ایک بار مزید
جھنجھوڑا گیا کہ وہ ایک
ایسا الہامی کلام لاکر دکھائیں۔ پھر پیشگی بتا بھی دیا کہ ایسا کوئی کام وہ کر ہی
نہیں پائیں گے۔ صاف غیب کی ایک خبر؛ ایک پیشین گوئی؛ جو ہُوبہُو پوری ہوئی۔ پس
یہ ایک نہیں دو معجزے ہوئے۔ اس سے ان کی عاجزی اور بےبسی اور بھی نمایاں ہوئی۔
فَاتَّقُوا النَّارَ
بغوی: یعنی ایمان لے آ کر اپنے آپ کو دوزخ سے بچا لو۔ ایسی
زبردست ڈھال ہے یہ قرآن اور محمدﷺ پر ایمان لانا۔
قرطبی: یعنی نبیؐ کی تصدیق اور خدا کی اطاعت اختیار کر کے۔
سلامتی کی واحد صورت۔
وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ
یعنی اس میں انسان اور پتھر جلتے ہیں۔ اس کی خوفناکی کا بس
اندازہ کر لو۔
بغوی: ابن عباسؓ اور اکثر مفسرین کا کہنا ہے: یہ گندھک کے
پتھر ہیں جو بھڑکنے میں سب سے بڑھ کر ہیں۔
ایک اور تفسیر: یعنی دنیا جہان کے پتھر اس کے اندر بھڑک اٹھیں گے؛ جس سے اس
کے ہولناک ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک اور تفسیر: مراد ہے مشرکین کے بت جو زیادہ
تر پتھروں کے ہی بنے ہوئے تھے، جیسا کہ
ایک دوسری آیت میں آیا: إِنَّكُمْ وَما
تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (
الانبیاء: 98)’’تم اور تمہارے معبود
جہنم ہی کا ایندھن ہو‘‘۔
طبری: عبد اللہ بن مسعودؓ سے: سیاہ گندھک کے پتھر۔
قرطبی: گندھک کے پتھر جن میں پانچ خصوصی وصف ہیں: بھڑک
اٹھنے میں تیز، بدبو میں ناقابل برداشت، دھواں دینے میں سخت، بدن سے چپک جانے میں
شدید، اور جب ایک بار تپ جائے تو کسی بھی دوسرے ایندھن سے بڑھ کر گرمی دینے والا۔
قرطبی مزید کہتے ہیں: اس آیت میں ایک تخویف ہے: کہ اُس آگ
کےلیے انسان کیا چیز ہے جو پتھروں کو بھسم کر جائے۔ اُس سے تو بس اللہ کی پناہ۔
أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ
طبری: یعنی پچھلی آیات میں جو بات گزری اس کو نہ ماننے
والوں کےلیے ایسی دوزخ ہے۔ اور وہ بات یہ
ہے کہ: تمہیں اور تم سے پہلوں کو پیدا کرنے والا تنہا ویکتا اللہ ہےاور تمہیں اُس
ایک کی عبادت کرنی ہے۔ تنہا اُسی نے زمین کو تمہارا بچھونا اور آسمان کو تمہارے
کےلیے چھت بنایا اور تنہا اُسی نے آسمان سے باران اتار کر اور اس سے میوے اور اناج
اگا کر یہاں زندگی کا سامان کیا (تاکہ تم اُس کی عبادت کرو)۔ اور یہ لگے اُس کے ساتھ شرک کرنے اُس کی عبادت
میں؛ زمین میں اُس کے ہمسر کھڑے کر کے۔
طبری و ابن کثیر: عبد اللہ بن عباسؓ
سے: یعنی ایسے کافروں کےلیے جو تمہارے کفر جیسے کفر پر ہوں۔ یہ دہکائی گئی ہے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر
کر کے آنے والوں کےلیے۔
ابن کثیر: یہ دلیل ہے اہل سنت کے اِس اعتقاد پر کہ دوزخ کی
تخلیق انجام پا چکی ہے۔ اس پر ابن کثیر کچھ احادیث بھی لے کر آتے ہیں۔
اعجازِ قرآن کی بابت چند مزید باتیں:
صحیحین کی حدیث پیچھے گزر چکی۔ رسول اللہﷺ کا سدابہار معجزہ یہی
قرآن ہے۔ یہ ان شاءاللہ اس بات کا موجب ہو گا کہ نبیﷺ کے پیروکار سب سے زیادہ ہوں۔
کچھ لوگوں نے یہاں اعتراض جڑا کہ یہ تو غالب اور شیکسپیئر
بھی کہہ سکتا ہے کہ میری نقل کر کے دکھاؤ، لہٰذا یہ کیسا چیلنج ہوا!
بات ’نقل‘ کی ہو ہی نہیں رہی۔ بلکہ اگر کوئی ’چربہ‘ کرے گا
تو وہ قرآن کی مثل نہیں ہو گا، کیونکہ قرآن کسی کا چربہ نہیں۔ یہ ایک بےنظیر کلام
ہے۔ چیلنج ہو رہا ہے دراصل ایک الہامی کلام لانے کا جو عمدگی میں اِس پائے کا ہو۔
عرب لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے تھے،
اِس کلام کے آگے بڑے بڑے اربابِ سخن ڈھ جاتے ہیں۔ ’حقیقت‘، ’وجود‘ اور ’تخلیق‘ ایسے موضوعات پر حیران و سرگرداں طبقے اسے
سنتے رہ جاتے ہیں۔ ’خدا‘ کے متلاشی اِسے سنیں تو آنکھوں سے ایک جھڑی لگ
جاتی ہے۔ وہ سب بڑے بڑے سوال جو کہیں سے جواب نہ پاتے تھے، یہاں اپنی منزل پر آ
لگتے ہیں۔ اس کے اثر سے لوگوں کی حالت غیر اور ان کی زندگیاں سر تا پیر تبدیل ہو
جاتی ہیں۔ پاپ کے رسیاؤں کو اِس کلام کے اثر سے تائب ہو کر فرشتوں ایسی سیرت
اختیار کرتے وہ اپنی آنکھوں دیکھ رہے تھے۔ غرض ’’الہامی کلام‘‘ کا جو کوئی اعلیٰ
سے اعلیٰ تصور انسانوں کے یہاں پایا جا سکتا ہے، یہ اس کی چوٹی پر ہے، اور وہ
بچشمِ سر اس کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
قرطبی نے اعجازِ قرآن کے بیان میں اس جانب اشارہ کیا کہ بات
اصل میں الہامی کلام کی ہو رہی ہے۔ جبکہ قرآن سے یہ بات صراحتاً واضح ہے: سورۃ ھود
میں فرمایا: قُلْ فَأْتُوا
بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ ’’کہو: تو پھر دس سورتیں گھڑی ہوئی تم لا کر
دکھا دو‘‘۔ دراصل ’’خدا‘‘ کی حیثیت میں بات
کرنا، ایک انسان کےلیے کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک ہلکا سا نفسیاتی تجزیہ
کلام کی سب حقیقت کھول دیتا ہے اور جھوٹ کھل کر آ جاتا ہے۔ لہٰذا یہ قرآن تو آپ
اپنا ثبوت ہے۔ الہامی کلام والی کوئی ایک بھی تو بات ایسی ہو جس میں قرآن سب سے اوپر نہ ہو۔ پھر یہ ادب اور بلاغت میں بھی تم
سب کو مات دے رہا ہے۔ باوجود اس کے
__ جیسا کہ امام رازی
نے کہا __ کہ قرآن نے اپنے لیے جو میدان چنا ہے وہ طبعاً
تقاضا کرتا ہے کہ ادب کی چاشنی لانا یہاں بےانتہا مشکل ہو۔ امرؤالقیس یا نابغہ یا
اعشیٰ وغیرہ کے کلام میں اگر عربوں کےلیے لطف ہے تو وہ اس لیے کہ ان کے موضوعات ہی
عربوں کے پسندیدہ مشغلوں پر کھڑے ہیں۔ مگر یہاں تو موضوع ایسے ہیں کہ ’طبیعت‘
اِدھر آتی ہی نہیں؛ کہ بالعموم یہ بڑے خشک موضوعات سمجھے جاتے ہیں۔ پھر ادب کی قوت
کا بہت بڑا راز قلابے ملانے میں ہے۔ زمین کو جب تک آسمان پر نہ پہنچاؤ، کلام میں
رنگ آتا ہی نہیں۔ تو پھر ایسا کلام جس میں یہ پابندی اختیار کر رکھی گئی ہے کہ صرف
حقیقت بیان کرنی ہے وہ تو ’رنگ باندھنے‘ کے امکانات اپنے اوپر طبعی طور پر ختم کر
چکا ہوتا ہے۔
پس ہونا وہ الہامی کلام کے طور پر چاہئے (مِّثْلِهِ
مُفْتَرَيَاتٍ)، جس کے اپنے کچھ تقاضے
ہیں۔ اور عمدگی اس کے اندر وہ ہونی چاہئے جس کے آگے تمہارے شاعری کے دیوان جواب دے
جاتے ہیں۔ جبکہ یہ شخص جو قرآن پیش کر رہا ہے، نرا اُمی ہے اور کبھی شعر کہنا تو
دور کی بات، شاعری کی مجلس کے آس پاس کبھی نہیں دیکھا گیا۔
چنانچہ عربوں نے صاف جان لیا، یہ بات ان کے بس میں نہیں۔
الہامی کلام یا تو دنیا میں ہو نہ۔
لیکن اگر ہے، اور ہوتا ہے، تو اُس کلام کو ٹھکرانے کی کیا وجہ جو الہامی کلام کے
خصائص رکھنے میں سب سے بڑھ کر ہے؟
قرطبی نے اپنے مقدمۂ تفسیر میں قرآنی کلام کے اعجاز کے دس
پہلو بیان کیے ہیں۔ یہاں ہم ان کونہایت اختصار سے ذکر کرتے ہیں:
1.
اس میں کلام کی بُنتی ایسی ہے کہ کلامِ عرب میں ایسی اعلیٰ
بُنتی پائی ہی نہیں جاتی۔ اس میں وزن ہے تاہم شعر کی طرح قافیہ نہیں ہے۔ اتنا
موزون ہونے کی وجہ سے وہ لوگ اس کو شعر سے تشبیہ دیتے تھے۔ لیکن خود انہی کے
اربابِ ادب مانتے کہ شعر وہ چیز نہیں جو اس کا مقابلہ کرے۔ ولید بن ربیعہ نے ندوۂ
قریش کی بھری مجلس میں یہ کہا کہ وہ ان میں سب سے بڑھ کر شاعری اور اس کی اصناف سے
واقف ہے، لیکن محمدﷺ جو کلام پیش کر رہے ہیں وہ کوئی اور ہی چیز ہے۔ آخر جب قوم کی
طرف سے اصرار ہی ہوا کہ حج پر آنے والے قبائل کے آگے کچھ تو کہنا ہے۔ تو ولید نے کہا: بس یہی کہا جا سکتا ہے یہ کوئی
جادو اثر چیز ہے۔
2. اس کا اسلوب اچھوتا ہے۔
عرب کےلیے بالکل نیا۔ عرب شعراء و ادباء کے مابین بےشک ایک درجے کا تنوع تھا، اور
ایک درجہ تنوع ہوتا ہی ہے، پھر بھی اُن کے کلام میں خاصا کچھ ایک دوسرے سے
ملتاجلتا ضرور تھا۔ مگر ایک کلام اپنے
اسلوب میں ان سے اتنا زیادہ ہٹ کر ہو کہ کوئی مشابہت ہی دور دور تک نہ پائی جائے،
یہ بات وہ صرف قرآن میں دیکھ رہے تھے۔ رسول اللہﷺ نے ایک بار عتبہ کو سورۃ حم
السجدۃ کی کچھ آیات سنائیں تو اُس نے تسلیم کیا کہ ایسا کلام اس نے زندگی میں کبھی
نہیں سنا۔
3. جزالت۔ اس کا الٹ ہے رکاکت
یعنی کچاپن۔ جزالت کا مطلب: کلام میں کمال پختگی اور پُرکاری؛ جس سے سننے والا
جھوم اٹھے۔ پڑھنے والا اپنے منہ کو پُر محسوس کرے؛ اور خالی پن نہ پائے۔ لذت کی گھونٹیں
سی آتی محسوس ہوں۔
قرطبی کہتے ہیں: یہ (اوپر مذکورہ) تینوں باتیں بلاغت
میں آتی ہیں۔ ابوالحسن اشعری کہتے ہیں: جس شخص کو کلامِ عرب کے رموز اور اسالیب
آتے ہوں وہ قرآن میں لامحالہ اس بات کا اندازہ کرے گا۔
4. ہر ہر مقام کےلیے ایسی
مناسب تعبیرات کہ کوئی نقاد زبان دان کبھی یہ تجویز نہ کر سکا کہ فلاں بات یوں
نہیں یوں ہوتی تو اور بھی سجتا۔ حالانکہ ہر شاعر اور ادیب کے کلام میں کہیں نہ
کہیں ضرور ایسی باتیں مل جاتی ہیں جو نقد کے دائرے میں آ سکیں۔
5. غیب کی وہ خبریں جو ماضی
میں گزر چکیں، اس میں پورے جزم اور یقین کے ساتھ بتائی گئی ہیں۔ جبکہ وہ ازمنۂ قدیم کے ایسے مقامات ہیں کہ
گزشتہ صحیفوں کے علماء ان کی بابت سرگرداں اور محتاجِ تحقیق رہے تھے۔ اہل کتاب نے
جو پوچھا، پورے اعتماد کے ساتھ قرآن میں اس کا جواب دیا گیا، باوجود اس کے کہ وہ
چن چن کر ایسی باتیں پوچھتے جو ان کے
بڑے بڑے عالموں کو نہ آئیں۔
6.
مستقبل کی پیشین گوئیاں اس میں پورے اعتماد کے ساتھ تلاوت
کی گئیں۔ حالانکہ کوئی عقل مند آنے والے وقت
کی بابت غیر ذمہ داری سے بات نہیں کرتا کہ اگر غلط نکل آئیں تو سب پول ہی کھل جائے گا۔ لیکن قرآن نے دعوے
کے ساتھ خبریں سنائیں۔
7. پھر قرآن کی بہت سی پیش
گوئیاں حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئیں۔
8. پھر اس کی تشریعات کے اندر
ایسی ایسی گہرائیاں ہیں کہ اس کے سامنے بڑے بڑے قانون ساز اور اصلاح کار دنگ رہتے
دیکھے گئے۔ ایک ایسی منظم اور باہم مربوط شریعت کہ احکام کا اتنا بڑا اکاؤنٹ، نیز
زندگی کے ہر ہر مسئلے اور ہر ہر شعبے میں احکام کی اتنی تفصیل، اور ربط ایسا کہ
بےجوڑ، کسی کتاب میں پائی ہی نہیں گئی۔
9. حکمت اور دانائی کا اتنا
بڑا ذخیرہ کہ دنیا میں کسی شخص کا کلام اخلاق اور دانائی کا اتنا بڑا اکاؤنٹ پیش
نہیں کر سکا۔
10. پھر اس میں تضاد کا شائبہ
تک نہیں۔ انسانی ذہن مسلسل ایک حالتِ سفر میں رہتا ہے؛ جس سے اس کے افکار میں
ارتقاء آتا ہے۔ ضرور ایک آدمی کسی وقت ایک ایسی بات کرتا ہے کہ بعد میں اس پر کچھ
نئے در وا ہوتے ہیں، جس سے اس کے پیش کردہ نظریات میں وقت گزرنےکے ساتھ فرق آتا
چلا جاتا ہے۔ ایسے کسی اختلاف سے پاک کلام
اُسی ہستی کا ہو سکتا ہے جو مطلق علیم و خبیر ہے۔ اِس (کسی قسم کا تضاد نہ پائے
جانے کی) شرط پر صرف قرآن مجید پورا اترتا ہے۔
واضح رہے، معتزلہ اعجازِ قرآن کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے عرب کو قرآن کا توڑ لانے سے بےبس کر دیا تھا۔ اس کو وہ ’’صرفہ‘‘ کا
نام دیتے ہیں۔ گویا قرآن کے اپنے اندر کوئی ایسی بات نہیں کہ اس کی مثل نہ لائی جا
سکے، بس ایک خارجی قوت نے عربوں کو ایسا کرنے سے روکے رکھا۔ اہل سنت اس نظریہ کو
قبول نہیں کرتے۔ اہل سنت کا اعتقاد ہے کہ
قرآن کا اصل اعجاز اس کے اپنے اندر ہے، نہ کہ اس کے خارج میں۔