مفتی تقی عثمانی کی ایک عبارت پر اعتراض کا
جائزہ
تنقیحات
سوال:
جمہوریت پر آپ بھی وقتا فوقتا قلم
اٹھاتے ہیں۔ حضرت العلام مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے جمہوریت پر میری نظر میں
ایک نہایت خوب نقد کرتے ہوئے، یا شاید
حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے افکار کے ضمن میں، اغلباً کہیں
لکھ رکھا ہے:
”جمہوریت
کا سب سے پہلا رکن اعظم یہ ہے کہ اس میں عوام کو حاکم اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے اور
عوام کا ہر فیصلہ جو کثرت رائے کی بنیاد پر ہوا ہو، وہ واجب التعمیل اور ناقابل
تنسیخ سمجھا جاتا ہے۔ کثرت رائے کے اس فیصلہ پر کوئی قدغن اور کوئی پابندی عائد
نہیں کی جا سکتی۔ اگر دستور حکومت عوامی نمائندوں کے اختیار قانون سازی پر کوئی
پابندی بھی عائد کر دے (مثلاً یہ کہ وہ کوئی قانون قرآن وسنت کے یا بنیادی حقوق کے
خلاف نہیں بنائے گی) تو یہ پابندی اس لیے واجب التعمیل نہیں ہوتی کہ یہ عوام سے بالاتر
کسی اتھارٹی نے عائد کی ہے یا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جسے ہر حال میں ماننا
ضروری ہے، بلکہ صرف اس لیے واجب التعمیل سمجھی جاتی ہے کہ یہ پابندی خود کثرت رائے
نے عائد کی ہے۔ لہٰذا اگر کثرت رائے کسی وقت چاہے تو اسے منسوخ بھی کر سکتی ہے۔“
(حکیم الامت کے سیاسی افکار، ص ۱۸)
https://www.facebook.com/ammar.nasir.71/posts/10208576523475005
حضرت
مفتی صاحب کے اس بیان پر نقد کرتے ہوئے کسی سیاق میں جناب عمار ناصر صاحب نے لکھا
ہے:
یہ نکتہ پہلے سے بھی بڑھ کر
عجیب بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ دین وشریعت بلکہ دنیا کے کسی بھی قانون یا
ضابطے کی پابندی قبول کرنے کا آخر وہ کون سا اسلوب یا پیرایہ ہو سکتا ہے جس میں یہ
امکان موجود نہ ہو کہ کل کلاں کو پابندی قبول کرنے والا اس کا منکر ہو جائے گا؟ مثال
کے طور پر ایک شخص کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرتا ہے تو اسے اس بنیاد پر مسلمان
تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی مرضی اور آزادی سے یہ فیصلہ کیا ہے، حالانکہ
اس بات کا پورا امکان ہے کہ وہ کسی وقت اسی آزادی کی بنیاد پر اسلام سے منحرف ہونے
کا فیصلہ کر لے۔ اب کیا اس کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ چونکہ کل کلاں کو وہ اپنی
مرضی سے اسلام کو چھوڑ سکتا ہے، اس لیے آج اس کے کلمہ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ
اسلام کو فی نفسہ واجب الاتباع نہیں سمجھتا، بلکہ اپنی ذاتی پسند اور مرضی کی وجہ
سے قبول کر رہا ہے؟ دنیا کے ہر معاہدے اور ہر ضابطے کی پابندی کی بنیاد اسی آزادی
پر ہوتی ہے جو انسانوں کو حاصل ہے اور جو آج کسی پابندی کے حق میں اور کل اس کے
خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے، لیکن ہم اس آزادی کے منفی استعمال کے بالفعل ظہور
پذیر ہونے سے پہلے کبھی مستقبل کے امکانی مفروضوں کی بنیاد پر حال میں یہ قرار
نہیں دیتے کہ فلاں شخص یا گروہ درحقیقت اس قانون یا ضابطے کو فی حد ذاتہ واجب
الاتباع ہی تسلیم نہیں کرتا۔
https://www.facebook.com/ammar.nasir.71/posts/10208576557755862
آپ کیا سمجھتے ہیں کیا واقعتاً حضرت مفتی تقی عثمانی کی عبارت میں کوئی جھول ہے یا
عمار خان ناصر صاحب کی تنقید اس پر بے جا ہے۔
جواب:
عبارت مذکورہ حضرت مفتی
تقی عثمانی دامت برکاتہٗ کے خیالات ہیں
یا حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے افکار، ہم طالبعلموں کی نظر میں یہ ایک نہایت
درست اور حق بات ہے۔ شریعت کے مرتبہ و مقام کی بابت اہلِ دین کے اعتقاد کی بالکل
صحیح عکاسی حضرت مفتی تقی عثمانی کی اس عبارت کے اندر ہوئی ہے۔ مشرق تا مغرب
علمائے عقیدہ نے دورِ حاضر کے ایک جدید تصور ’جمہوریت‘ پر بلاشبہ ایسا ہی نقد کر
رکھا ہے۔ اس عبارت یا اس سے پھوٹنے والے کسی پہلو کو مضحکہ خیز جاننا (اگر محترم
عمار صاحب نے فی الواقع ایسا کہا ہے) میرے نزدیک علمائے اسلام اور فقہائے مغرب ہر
دو کے پیراڈائم کے عدم ادراک کا نتیجہ ہو گا۔
مفصل گفتگو تو اس موضوع پر
کسی اور وقت کی جا سکتی ہے۔ یہاں ہم اس پر چند کلمات ہی کہہ سکیں گے، مگر ایک
مختصر مقدمہ کے بعد۔
مقدمہ: کسی بھی رائج نظام سے، خواہ وہ جمہوریت ہو یا کچھ اور،
نفاذِ شریعت کی خاطر آپ کو سرِدست جو مل سکتا ہو اسے چھوڑ دینے میں اگر اہل اسلام
کا نقصان نظر آتا ہو تو اندریں حالات اسے لے لینا اور بات ہے (اور صحیح ہے)۔ یہاں
تک کہ ایک ’دی ہوئی صورتحال‘ a given situation میں اس کو سراہا بھی جا
سکتا ہے۔ ’بسا غنیمت‘ بھی باور کیا جا سکتا ہے۔ مَا لا يُدرَكُ كلُّه لا يُترَكُ جُلُّه کے باب سے۔ تاہم
اُسے حق ہونے کی سند دینا بالکل اور بات ہے۔ ایسی سند البتہ اسے تبھی دی جا سکتی ہے جب وہ شرعِ آسمانی
کے تابع ہو اور خدا اور رسولؐ کا فرما دینا وہاں آپ اپنی ذات میں آئین ہو.. اور تمام متنازعین کے مابین عند الاختصام اس کا حوالہ بھی خدا اور رسولؐ کا فرمانا ہو نہ کہ اس کی
کوئی فی زمانہ ’ریپلیسمنٹ‘ replacement۔ ’’جماعت‘‘
یا ’’سوسائٹی‘‘ کی سطح پر ’’اسلام‘‘ جس رویّہ کا نام ہو گا وہ ہے ہی یہ کہ تمام
متنازَعات میں، اور تمام مختصمین کے یہاں، حوالہ ’’اللہ و
رسول‘‘ ہوں (فقہاء یا کوئی مجلسِ علماء وغیرہ اگر کسی حد تک آئے گی تو وہ محض اس
’’حوالہ‘‘ کی درست و معیاری تعبیر کے باب سے)۔
پس یہ دو باتیں ہوئیں۔
ایک: کسی نظام میں نفاذ شریعت کےلیے کچھ گنجائش پاتے ہوئے اسے قبول کرنا (تاہم اس
کے شریعت سے متصادم جوانب کو بدستور غلط ہی ماننا، جیسا کہ ہمیں مفتی تقی صاحب کے
ہاں نظر آتا ہے)۔ دوسرا: اس کو عین حق ہونے کی سند دے ڈالنا۔ حضرت مفتی تقی عثمانی
حفظہ اللہ یا حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کی محولہ بالا عبارت ان دو باتوں کے فرق
کی روشنی میں سمجھنی چاہئے۔ کیونکہ اسے نظرانداز کرنے سے بھی کچھ مفاسد جنم لے
سکتے ہیں؛ اور فی الوقت یہاں انتہاپسندوں کا غلغلہ ہے۔
اب ہم اصل موضوع پر آتے
ہیں۔
فاضل
معترض یہاں جس چیز کو نظرانداز فرما رہے ہیں وہ ہے کسی انسانی اجتماعیت کو ’’پابند
کرنے
والا مطلق حوالہ‘‘ An Absolute Binding Reference؛ جس سے وہاں کا اجتماعی سیٹ اپ اپنے حق میں سندِ جواز پاتا ہے (derives its legitimacy)۔ اِس پوائنٹ پر اسلامی اور مغربی پیراڈائم کو گڈمڈ کر دینے کے باعث فاضل معترض ایک بات پر تعجب در
تعجب فرما رہے ہیں۔ التزام اور اطاعت binding کا یہ ’’مطلق
حوالہ‘‘ وہ چیز ہوتی ہے جو ایک قوم کی اجتماعی زندگی میں ہر
ہر چیز کو، ہر ہر صورت میں، اووَررائیڈ override کرے؛ اور وہاں پائی جانے
والی ہر مخلوق کا ہر اختیار اور ہر تصرف اس ایک حوالہ کے تابع (subject to) رکھ
کر دیکھا جائے۔ جیسے ہی وہاں کی کسی مخلوق کا کوئی تصرف اس ’’مطلق حوالہ‘‘ Absolute
reference سے
تصادم کرے گا، اِلغاء nullify ہو گا۔ اور اگر وہ مخلوق اس تصادم پر بضد ہو تو
اُس کی اپنی حیثیت legitimacy اِلغاء nullify ہونے لگے گی۔ اور اگر بالفرض کسی وقت وہ طاقت اور دھونس کے بل پر اپنی
حیثیت اِلغاء نہ ہونے دے تو کم
از بھی یہ ڈیکلیئر کر دیا جائے گا کہ وہ نظام اِلغاء ہو چکا۔ اب یہ کوئی اور نظام
ہے۔ اس کےلیے ’باطل نظام‘ ایسی قاموس کا استعمال بھی تب آپ مباح جانتے ہیں۔
یہ ’’مطلق حوالہ‘‘ The
Absolute Reference of Binding ایک
قوم کی حیاتِ اجتماعی میں بےشک کسی وقت ایک آئینی ’کلاز‘ clause کی صورت میں بھی پایا جائے مگر اس کی اپنی حیثیت کسی ایک عدد ’کلاز‘ سے اوپر
ہوتی ہے۔ آئینی دفعات یا ترامیم
یا اقدامات وغیرہ اُس کے تابع رہ کر تفسیر ہوتے ہیں؛ وہ کسی آئینی دفعہ یا ترمیم
یا اقدام کے تابع رکھ کر تفسیر نہیں ہوتا۔ وہ ’’مطلق حوالہ‘‘The
Absolute Reference of Binding گویا اس نظام کا ’واجب الوجود‘ ہوتا ہے۔ وہاں
کی ہر چیز اس کی طرف لوٹتی ہے اور وہ کسی چیز کی طرف نہیں لوٹتا۔ اس پر گویا دنیا
ختم ہو جاتی ہے اور اس سے پرے beyond صرف خلا ہوتا ہے؛ یعنی
عدم۔ اس کا سقوط نظام کا سقوط ہوتا ہے۔
یہ ’’مطلق حوالہ‘‘ The
Absolute Reference of Binding جماعۃ المسلمین (مسلم معاشرہ+اسلامی ریاست) کے ہاں ہوتا ہے: ’’اللہ و رسول‘‘۔ اور مغرب کی
مجوزہ ’ماڈرن سوسائٹی‘ کے ہاں: ’’حاکمیتِ عوام‘‘۔
مانا کہ آپ اِن دونوں
حوالوں کو یکجا کر لیں گے، پھر بھی ان میں سے ’’مطلق‘‘ ایک ہی رہے گا۔ اور جب ایک
’’مطلق‘‘ ہوا تو دوسرا اپنی اس حیثیت میں نہ رہا۔ اِس معنیٰ میں؛ البتہ آپ
دونوں کو ’یکجا‘ نہیں کرتے؛ بلکہ ایک کو قبول کرتے ہیں۔ ’مطلق‘ کی حیثیت میں دوسرا
رد ہی ہو جاتا ہے۔ اب ایک بنیادی فیصلہ آپ کو یہاں کرنا ہوتا ہے کہ آپ کی حیاتِ
اجتماعی میں اطاعت کا مطلق اور بالاترین حوالہ کیا ہے؟ اس کی پڑتال بھی بہت آسان
ہے: وہ چیز جس کے ساتھ تصادم ہو جانے سے آپ کے نزدیک یہ ڈیکلیئر ہو جائے گا کہ ملک
کا نظام توڑا گیا ہے، اُس چیز کو آپ وہاں کا ’’مطلق حوالہ‘‘ کہیں گے۔ اسی کو ہم
کسی ماحول میں قائم ’’سیاسی عقیدہ‘‘ بھی کہتے ہیں؛ جو ہر دم وہاں مانا اور منوایا
جا رہا ہوتا ہے؛ صبح شام اس پر ایمان اور استقامت کےلیے دُہائیاں پڑ رہی ہوتی ہیں؛
ہر چوپال اور چینل پر اس کی ’’تواصی‘‘ جاری ہوتی ہے؛ اور اس کے توڑے جانے پر سخت سے
سخت ’وعیدیں‘ نشر ہونا کسی کو اوپرا نہیں لگتا؛ بلکہ یہ اس کا ’’حق‘‘مانا جاتا ہے۔
یہ ’’سیاسی عقیدہ‘‘ ہی ہمارے مابین اِس وقت اصل زیرِ بحث ہے؛ اور اسی کے اندر حاکمیتِ
عوام کو ’شیر والا حصہ‘ Lion’s share ملا ہونے
پر نقد کرنا مفتی تقی عثمانی کی عبارت کا مقصود نظر آتا ہے۔
ذرا آپ غور فرمائیں تو
’ماڈرن سوسائٹی‘ میں آئین کی آئینی حیثیت آپ وہاں کے آئین سے نہیں لیتے؛ خود آئین
اپنی یہ حیثیت وہاں پر قائم سیاسی عقیدہ سے لیتا ہے۔ وہاں کا ’’سیاسی عقیدہ‘‘ جس
چیز کو آئین کہے اصل میں آئین وہ ہے اور صرف اس وقت تک آئین ہے جب تک وہاں کا
’’سیاسی عقیدہ‘‘ اسے آئین مانے؛ ورنہ وہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔
ایک مثال سے یہ بات واضح
ہو جائے گی:
ایک ’ماڈرن سوسائٹی‘ کے
آئین میں آج عموماً اِس مضمون کی عبارتیں تحریری یا زبانی درج ہوتی ہیں کہ: (1)
یہاں پائی جانے والی بالاترین دستاویز یہاں کا آئین ہے۔ اور (2) اِس آئین کا تقرر
یا اس میں رد و بدل کرنے والی واحد اتھارٹی یہاں پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت ہے۔
دو تہائی سے وہ جو پاس کردے وہ آئین ہے۔
تیسری
دنیا میں رہتے ہوئے اب ذرا دیر کےلیے فرض کرتے ہیں: ایسے کسی ملک کے ’منتخب‘ سیاستدان ’دوتہائی اکثریت‘ سے کسی وقت یہ ’آئینی ترمیم‘ کر
ڈالتے ہیں کہ آئندہ سے الیکشن ختم؛ اب یہی لوگ یہاں کی تاحیات پارلیمنٹ؛ اور
موجودہ وزیر اعظم ہی اب یہاں کا تاحیات فرمانروا۔ یہاں تک کہ اس
سے معارض کوئی دفعہ اگر آئین میں پائی جا رہی تھی تو سب سے پہلے انہوں نے اسے ہی
دوتہائی ووٹ سے تبدیل کر ڈالا... تو ’ماڈرن سوسائٹی‘ کو یہاں آپ کے خیال میں کیسا
ردعمل سامنے لانا ہو گا؟ اہل جمہوریت آپ کے نزدیک یہاں کس قسم کا ردعمل کرنے کے
’’مجاز‘‘ یا ’’مکلف‘‘ ہوں گے؟ آئین میں ایک باقاعدہ ’آئینی‘ طریقے سے یہ ترمیم ہو
چکی کہ آئندہ سے اب یہاں تقریباً بادشاہت ہے!
میرا
نہیں خیال کہ آپ یہ کہنے میں ذرا تردد کریں گے کہ پارلیمنٹ کا ایسا ایک غیرجمہوری اقدام
’’رد‘‘ ہے اور کسی صورت ’’قبول‘‘ نہیں۔ بےشک وہ پارلیمنٹ کی ’دوتہائی اکثریت‘ کا
متفقہ تصرف ہے پھر بھی وہ اِلغاء void &
nullify ہی
ہو گا۔ وجہ؟
کوئی بھی سسٹم اپنے ہتھیاروں سے اپنی موت نہیں کرواتا۔ لہٰذا ’دوتہائی‘
بےشک ہو، پھر بھی اس کا فیصلہ اب
’’آئین‘‘ کہلانے کے لائق نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ’دوتہائی‘ کا تصادم اب یہاں
کے ’’سیاسی عقیدہ‘‘ سے ہے۔ نظام کے اصل مرجع سے ہے۔ اس کا ٹکراؤ اب یہاں کے اطاعت اور اختیارات کے پیراڈائم سے ہے۔ اس کا
تعارض اب یہاں کے ’’مطلق حوالہ‘‘ Absolute Reference of
Binding سے
ہو گیا ہے؛ یعنی حاکمیتِ عوام۔
یا اس مثال کو آپ ایسے بھی
لے سکتے ہیں، اور جوکہ ہمارے ملک میں بارہا پیش بھی آ چکا ہے: صدرِ مملکت نے آپ کے
آئین ہی کی کسی دفعہ کا سہارا لے کر پارلیمنٹ کو تحلیل اور کابینہ کو فارغ کر ڈالا
اور پھر آئین کی کسی ایمرجنسی کلاز کا سہارا لے کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی ٹھان
لی۔
پہلی مثال میں پارلیمنٹ
اور دوسری میں صدرِ مملکت کے اس فیصلہ کو بزور لاگو کرنے کی بھی کوئی صورت فرض
کریں ’تیسری دنیا‘ کے اس ملک میں مہیا کر لی گئی ہے... اب عملاً تو ظاہر ہے آپ کچھ
نہیں کر سکتے۔ (خونریزی کا فتویٰ جمہوریت کو بحال کروانے کےلیے دیا جا سکتا ہے اور
نہ شریعت کو بحال کروانے کےلیے)۔ لیکن ایسا ’غیرجمہوری‘ اقدام کر چکی جنتا کو ایک
ناجائز ٹولہ تو کہیں گے! اُسے اپنا یہ اقدام واپس لینے پر مجبور کر دینے کی خاطر
ایک عدد ’تحریکِ بحالیِ جمہوریت‘ Movement for Restoration
of Democracy لانچ
ہو جانے کا جواز یا وجوب تو نکلتا ہے! اور یہ تو ’جمہوریت‘ کا کم از کم حق ہے!
جمہوری اصولوں کو پامال کرنے والے کی legitimacy تو چیلنج ہو گی! آپ کا وہ
’نظامِ حق‘ جو وہاں پر قائم سیاسی عقیدہ (حاکمیتِ عوام) پر کھڑا تھا، اب غیر موجود
non-existing
کے
حکم میں تو جائے گا! اصل مسئلہ یہاں ہے برادرم؛ ’اسٹام‘ تو آپ کسی سے ’اسلامی
اصولوں سے کبھی منحرف نہ ہونے‘ کا بھروا سکتے ہیں اور نہ ’جمہوری اصولوں سے کبھی
منحرف نہ ہونے‘ کا۔ کوئی فرد کل کیا کرتا ہے، سرے سے غیرمتعلقہ ہے۔ مسئلہ ایک
نظام میں کسی حرکت کا پیشگی ’سٹیٹس‘ اور ’سنگینی‘ طے ہو رہنے کا ہے؛ کہ کس قسم
کا انحراف ایک نظام کی صحت پر کس نوعیت کا اثر ڈالتا ہے۔
محترم
عمار خان صاحب سے پس ہم اتنی درخواست کریں گے کہ وہ اپنی اس عبارت میں ذرا دیر کےلیے ’’اسلام سے انحراف‘‘ کی جگہ ’’جمہوری اصولوں سے
انحراف‘‘ کے الفاظ رکھ لیں۔ پھر
جو چیز ’’جمہوری اصولوں سے انحراف‘‘ کے معاملہ میں یہاں یا کہیں پر بھی تجویز ہوتی
ہے اور جیسی سنگینی کسی ’غیر
جمہوری‘ اقدام سے متعلق تسلیم ہوتی ہے ویسی ہی چیز وہ ’’محکماتِ شریعت سے انحراف‘‘
کے
معاملہ میں تجویز فرماتے ہوئے جمہوری پیراڈائم میں اس کی گنجائش ڈھونڈیں؛ آپ کو
اُس ’’پوائنٹ‘‘ کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی ان شاء اللہ ہو جائے گی جس کا ایضاح حضرت تقی
عثمانی مد ظلُہ یا حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت میں مقصود ہے۔ جمہوریت کے
حوالے سے ان کے کلام میں اصل محلِ ابطال نقطہ یہ ہے۔
پس جتنا سا بھونچال آ جانا
تیسری دنیا کے کسی ملک میں ’مارشل لا لگ جانے‘ یا ’آئین توڑے جانے‘ کے نتیجہ میں
محترم عمار خان صاحب کی نظر میں کسی ’جمہوری معاشرے‘ کے اندر جائز ہو... زیادہ
نہیں تو اتنا سا بھونچال کسی لا الہ الا اللہ پڑھنے والے معاشرے میں ’’محکماتِ
شریعت توڑے جانے‘‘ پر بھی اگر جائز ٹھہر جائے تو یہ اشکال سرِدست ان شاء اللہ رفع
ہو جاتا ہے۔
اب یہ بحث ہم یہاں نہیں
کریں گے کہ ان میں سے کونسی چیز لا الہ الا اللہ پڑھنے والی ایک قوم کی زندگی میں سنگین
تر ہو گی۔ کونسی چیز ایک لا الٰہ الا اللہ پڑھنے والی قوم کی حیاتِ اجتماعی
میں زیادہ بڑی گالی کی حیثیت رکھے گی: عوام کا مینڈیٹ توڑا جانا یا اللہ
مالک الملک کی شریعت توڑی جانا؟ legitimacy کی قبا کا تار تار ہونا آیا وہاں زیادہ
متصور ہو گا یا یہاں؟ اِس ’’زیادہ‘‘ یا ’’سنگین تر‘‘ کی بحث کسی اور
وقت۔ فی الحال دونوں کی سنگینی ’یکساں‘ مان لی جائے تو بھی ایک مسئلہ سرے لگتا ہے۔
واللہ الموفّق.