محمدقطبؒ
کی کتاب ’’دعوت کا منہج‘‘
سیاسۃ
شرعیۃ والے حصے کو ڈیل نہیں کرتی
تنقیحات
ہمارے
ایک دوست کو موصول ہونے والا ایک سوال جو ہمارے دوست نے آگے ہماری طرف بھیج دیا:
... صاحب السلام علیکم
دو دن پہلے ... صاحب نے ایک پوسٹ کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسلامی انقلاب کے
لئے اب کسی تیسرے اجتہاد کی ضرورت ہوگی جمہوری طریقہ اور طاقت کے استعمال کا طریقہ
ناکام ہو چکا ہے.....اس پوسٹ پر آپ نے ذکر کیا تھا کہ محمد قطب کی "دعوت کا
منھج " کا مطالعہ کیا جائے تیسرا منھج بیان ہوا ہے...میں اس کتاب کا مطالہ کر
چکا ہوں لیکن کچھ باتیں سمجھ نہیں آئیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں شاید آپ سمجھا سکیں...
محمد قطب صاحب کا کہنا ہے کہ اسلامی تحریک کو عقیدے کی دعوت
پر معاشرے کو کھڑا کرنا ہوگا... مطلب پہلے عقیدے کی زبردست دعوت دی جائے اسی سے
باقی اعمال اور معاملات میں ایک الله کی عبادت کا شوق پھوٹے گا پھر جو لوگ اسے
قبول کریں انہیں جمع کر کے ان کی تربیت کی جائے بالکل نبوی مںھج پہ، جیسے رسول
اللهﷺ نے
مکے میں اختیار کیا.... اور پھر اس تربیت یافتہ جماعت کی توسیع ہوگی۔ اس طرح سے یہ
جماعت پورے معاشرے کو اسلامی بنانے کی جدوجہد کرے گی اور معاشرے کی زمین کو اسلامی
نظام کے لئے تیار کرے گی۔ اس میں اسلامی نظام زندگی کی تڑپ اور پیاس پیدا کرے گی
اور طویل عرصے تک یہی کام ہوگا... یہاں تک بات بالکل صاف ہے۔ الجھن اس کے بعد شروع
ہوتی ہے.. دو سوال میرے ذہن میں آتے ہیں حامد کمال الدین صاحب سے تو کوشش کے
باوجود رابطہ نہیں ہوتا شاید آپ اس الجھن کو دور کر دیں... وہ دو سوال یہ ہیں:
1. پاکستانی
معاشرہ ٢٠ کروڑ کی آبادی پر مشتمل ہے... کتنا فیصد معاشرہ تبدیل کرنا پڑے گا تب جا
کر اسلامی حکومت کے لئے کوئی آثار نظر آئیں گے ؟
2. فرض
کریں معاشرہ تیار ہے اسلامی نظام کے لئے لیکن اب وہ آخری اقدام کیا ہوگا جس کے ذرے
سے اقتدار اسلام پسندوں کے ہاتھ میں آئے گا؟ جمہوری انتخابات اور طاقت کے استعمال
کی ناکامی کی بات تو ہو گئی عاطف صاحب کی پوسٹ پر... تیسرا طریقہ کیا ہوگا؟ کیونکہ
دعوت ، تنظیم ، تربیت اور معاشرے کی اصلاح تو لازمی ہیں ہر منھج میں.... آخری
اقدام پر کچھ روشنی ڈالئے محمد قطب یا حامد کمال الدین صاحب کی فکر کے مطابق...
جزاک
الله.. آپ کے جواب کا انتظار رہے گا.
جواب
محمد
قطب کی وہ کتاب بھی ایک عمومی لائحۂ عمل دیتی ہے کیونکہ صرف ’’دعوت‘‘ والے حصے سے
بحث کرتی ہے۔ سیاسۃ شرعیۃ والا حصہ اس میں آیا ہی نہیں ہے۔ البتہ اس وقت کی
صورتحال کے حوالے سے لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم میں کسی ملک کے تحریکی عمل کو کیسے
چلنا ہے، یہ نسبتاً ایک مختلف موضوع ہے، اور ہر ملک میں اس کی صورت مختلف ہو سکتی
ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو ’منہج‘ کہنا ہی غلط ہے۔ یہ تو ماپ لے کر جوڑا سینے والی
ایک بات ہے جو ایک ہی شخص کےلیے چند سالوں کے فرق سے مختلف ہو سکتا ہے، کجا یہ کہ
اس کو ایک ’دائمی‘ حیثیت دے کر ہر کسی کو ’ٹرائی‘ کروائیں! جہاں تک ’منہج‘ کی بات
ہے تو اس میں صرف دعوت ہی کا بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ محمد قطب نے بیان کیا ہے۔
لیکن ’منہج‘ کے ماسوا معاملات میں یہ کتاب آپ کی تشفی نہیں کرائے گی کیونکہ یہ اس
کا موضوع ہی نہیں ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں صاحبِ تصنیف سے ملاقاتوں کے نتیجے میں الگ
سے بھی ہوا۔ لہٰذا کسی الجھے ہوئے سوال میں اس کتاب کو بطور حل پیش کرنا درست نہ
ہو گا۔ تاہم آپ کے یہ دوست دوسرے بہت سے نیک لوگوں کی طرح اگر کسی وجہ سے ’منہجِ
انقلاب‘ سے متاثر ہیں، تو شاید انہیں بہت ابتداء سے ہماری فریکوینسی frequency کو سمجھنا پڑے گا۔ ان کے
سوالات کے جواب میں، ہم کوئی خاص متعین اعمال جن پر ’سنت‘ ہونے کی نص بھی ہو اور
اس وجہ سے اس کو ’منہج‘ سے موسوم کر دیا جا سکے کہ جس میں اب قیامت تک کوئی تقدیم
ہو سکتی ہے نہ تاخیر، توجیہ ہو سکتی ہے نہ تبدیل، سرے سے نہیں دیتے۔ کیونکہ ایسی
کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ جو چیز متعین طور پر ہے اس کا نام ہے دعوت، جس میں ایک
معاشرے کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے شاید بہت دیر تک ’حکومت‘ میں آنے کا سوال
ہی فی الحال بےجا ہو کجا یہ کہ ہم اس کا ’منہج‘ بھی بیان کرتے پھریں اور اس پر
معترضین کے جوابات دیتے اور اس کی جزئیات میں بحثیں کرتے رہیں!
پس
پہلی اور بنیادی بات تو یہی ہے: دعوت ایسی ایک مستقل چیز اور سیاسۃ شرعیۃ سے
متعلقہ ایک ’ماپ لے کر‘ دینے والی (tailor-made) چیز۔ دونوں الگ الگ ہیں۔ ان کو خلط نہ کرنا چاہئے۔
آپ اپنے دوست کے ساتھ ہمارے یہ دو مضمون شیئر کر سکتے ہیں۔ دونوں اسی موضوع سے بحث
کرتے ہیں۔ لیکن اس کا ویسا جواب جو غالباً آپ کے دوست چاہتے ہیں، ہمارے ہاں سے ان
کو نہیں ملے گا۔ وہ انہیں کسی ایسی ہی جگہ سے ملے گا جہاں ’انقلاب‘ کے مدرسہ سے
التزام ہو۔ ہم ان اشیاء کو تدبیری امور میں گنتے ہیں جن کی بابت پیشگی زائچے نہیں
بنائے جاتے۔ ہر چیز کے آپشنز اس کے وقت پر دیکھے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ کسی بات کےلیے
مجبوری اور اضطرار کی نوعیت بھی موقع پر دیکھی جاتی ہے، پہلے سے طے نہیں ہوتی۔