عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2016-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
’مستورات‘ ایک سماجی جبر.. سوشیالوجسٹ کی وحی
:عنوان

آخر وہ سوشیالوجی کا ایک پروفیسر یا انتھروپالوجی کا ایک مصنف ہے اور باہر اسکی’گرل فرینڈ‘اسکا انتظار کر رہی ہےاور اسکا شام کا نائٹ کلب لیٹ ہورہا ہے!’بیوی‘ انتظار کررہی ہوتی یا’نماز‘لیٹ ہو رہی ہوتی تو چلیے آپ اسکو بائسڈ کہہ بھی لیتے!یہاں ’تعصب‘ کا کیا سوال!؟

. باطلفكرى وسماجى مذاہب :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

 ’مستورات‘ ایک سماجی جبر.. سوشیالوجسٹ کی وحی

احوال و تعلیقات

حیا دار رویے، حیا دار ملبوسات... سماج کا جبر! خواہ ’بعد ازاں‘ عورت اپنی مرضی سے ہی وہ کام کیوں نہ کرنے لگی ہو! ہے وہ اپنی حقیقت میں جبر؛ خواہ اس حجاب وغیرہ پر عمل عورت کے ہاں اب رضاکارانہ کیوں نہ ہونے لگا ہو؛ یا حتیٰ کہ عورت وہ کام کتنا ہی بہ اصرار کیوں نہ کرنے لگی ہو... مگر ہم سوشیالوجسٹ آپ کو بتاتے ہیں دراصل یہ ایک سماجی جبر کا نتیجہ ہے!

لبرلزم اور ماڈرن انتھروپالوجی کا ایک اہم مقدمہ۔

البتہ اس کا اطلاق ’حجاب‘ اور ’جسم ڈھانپنے‘ کے تصور پر ہو گا۔ اس کا اطلاق ’’حیاء‘‘ اور ’’اخلاق‘‘ نامی اشیاء پر ہوگا۔

ظاہر ہے اس کا اطلاق ہزاروں تماش بین مردوں کے سامنے ایک جوان لڑکی کے ’کیٹ واک‘ کرنے پر نہیں ہو گا۔ ہزاروں بےرحم دیدے پھاڑپھاڑ دیکھنے والے بھنبھناتے نفوس کے آگے ایک اشتہا انگیز تھال کی طرح لڑکی کا ’پیش‘ ہونا اور بیک وقت ہزاروں لُچوں کےلیے تفریح و تماشا کا ایک ’آبجیکٹ‘ بن کر پہاڑ سے بھاری قدم اٹھاتے ہوئے پورا ریمپ گزر کر دکھانا اور وہ بھی اٹھلا اٹھلا کر، یہ تو عورت میں ’طبعی طور پر پائی جانے‘ والی ایک چیز ہے... اس کو بھی ایک خاص قسم کے ’سماج‘ کے جبر کے کھاتے میں ڈالنا، یہ تو آپ کی نری غلط فہمی ہے۔ بلکہ آپ کی سوچ کا اس طرف کو چلے جانا بذاتِ خود ’سماج کا جبر‘ معلوم ہوتا ہے، جس سے اب آپ کو آزاد کرانا ضروری ہے!

یعنی ’فطرت‘ کا تصور یہاں بھی ختم نہیں ہوا۔ صرف اِس خانے میں فٹ ہونے والی ’’چیز‘‘ بدلی گئی ہے۔

چیزیں یہاں بھی ابھی تک دو ہیں: ایک فطرت۔ اور ایک سماج کا جبر۔

ضروری نہیں ہر چیز جو یہاں آپ کو نظر آتی ہے ’سماج کا جبر‘ ہو؛ کوئی کوئی چیز ’فطرتاً‘ بھی انسان میں ہوتی ہے! ضروری نہیں ہر چیز ’فطرتاً‘ ہو؛ کوئی کوئی چیز سماج کا جبر بھی ہوتی ہے!

فطرت‘ تو ہوتی ہے آپ سے آپ۔ اس کی تو نہ کوئی تفسیر ممکن ہے نہ اس کے معاملے میں ’سماج کا جبر‘ فرض کرنے کی کوئی ضرورت؛ وہ انسان کے اپنے وجود کا حصہ باور ہوتی ہے۔

اور ’سماج کا جبر‘ وہ چیز جو باہر سے آپ پر مسلط کی گئی ہوتی ہے؛ اس کو فطرت نہیں کہا جا سکتا۔

البتہ سارا مسئلہ اس بات کا تعین کرنے میں ہے کہ کیا چیز انسان میں ’طبعی طور پر‘ ہے اور کیا چیز باہر ’سماج کا اثر‘... یہ ’تعین‘ کرنے کےلیے آپ کا کوئی عقیدہ ہونا ضروری ہے؛ خواہ انبیاء پر ایمان اور خواہ انبیاء کے ساتھ کفر؛ دونوں ہی عقیدہ ہیں؛ مگر پہلی چیز کو ’عقیدہ‘ کہہ کر بائسڈنیس biasedness  قرار دے دیا جائے گا اور دوسری چیز کو کسی بھی ’عقیدے‘  dogma   سے بالاتر ہونا...!

سارا مسئلہ اِس کرسی پر جج بن کر بیٹھنے میں ہے۔ انبیاء کو اِس کرسی پر بیٹھنے کا حق نہیں ہے۔ انبیاء کے معاندین کو ہے!

یعنی اس بات کا تعین کرنے کےلیے کہ کونسی چیز ’انسان میں خودبخود‘ ہے اور کونسی چیز ’باہر سے مسلط‘ ہوئی ہے... یہ تعین کرنے کےلیے یہاں جو جج بیٹھا ہو گا اس کی بابت یہ فرض کرنا ضروری ہے، اور اس کو خود بھی یہ دعویٰ کرنا ہو گا، کہ اس پر تو کسی قسم کے ’سماج کا جبر‘ نہیں اور کوئی انتھروپالوجی اس کے خیالات کو جنم دینے یا اس کے احساسات و جذبات پر اثرانداز ہونے والی نہیں ہوئی! وہ تو بس اُدھر پیدا ہوا اور اِدھر فیصلے کی کرسی پر آ بیٹھا! وہ تو کسی قسم کے ’سماجی رویے ‘ social behavior اور کسی قسم کی اھواء inclination کا پروردہ یا کسی سماجی نزاع سے متاثر ہی نہیں ہے۔ وہ تو خالص سٹیل کا بنا ہوا ہے اور کسی بھی قسم کے نظریاتی اور سماجی عوامل کو پاس پھٹکنے نہ دینے کے باعث معروضیت objectivity کا دعویدار ہو سکتا ہے۔ اور کیونکہ وہ کسی نزاع کا حصہ نہیں؛ نہ کسی سے بغض نہ کسی سے پرخاش نہ کسی فکر کے خلاف رد عمل اور نہ کسی فکر سے متاثر؛ بس غیرجانبدارِ محض! لہٰذا کیونکہ اب یہ تو فرشتوں کی طرح سوچ سکتا ہے لہذا آبجیکٹی ویٹی objectivity کی ٹھیکیداری بس اِسی کو زیب دیتی ہے!

پھر یہ ایک given حقیقت ہے؛ اور آپ کو اس کا یہ دعویٰ لازماً تسلیم ہی کرنا ہوگا؛ آخر وہ اس وقت سوشیالوجی کا پروفیسر یا انتھروپالوجی کا ایک مصنف ہے اور باہر اس کی ’گرل فرینڈ‘ اس کا انتظار کر رہی ہے اور اُس کا شام کا نائٹ کلب لیٹ ہو رہا ہے! ’بیوی‘ انتظار کر رہی ہوتی یا ’نماز‘ لیٹ ہو رہی ہوتی تو چلیے آپ اس کو بائسڈ biased کہہ بھی لیتے! سوشیالوجی کے اِس مصنف اور انتھروپالوجی کے اِس مدرّس کی ’غیرجانبداری‘ یا اس کے ’کسی بھی نظریے یا رویے سے متاثر نہ ہونے‘ یا ’کسی بھی سماجی نزاع کا حصہ نہ ہونے‘ پر آپ کے دل میں اگر شک بھی گزر گیا تو آپ ایک تنگ نظر اور متعصب آدمی ہیں جو چیزوں کو ایک خاص رنگ میں دیکھنے کا عادی ہے!

چنانچہ اصل مسئلہ اِس جج پر ’ایمان بالغیب‘ لانا ہے۔ باقی باتیں تو وہی ہیں: ایک چیز انسان کی فطرت ہے جیسے لچرپن اور ہزاروں تماش بینوں کے سامنے خوشبوؤں کے بھبھکے اڑاتی ایک بیس بائیس سالہ لڑکی کا اپنے جسم کو تھال میں رکھ پیش کرتے ہوئے کیٹ واک کرنا۔ اور ایک چیز ہے سماج کا جبر جیسے حجاب، شرم اور حیاء کا تصور!

چیزیں اب بھی دو ہی ہیں۔

بس اتنا ہے کہ انبیاء نے ان کو اس طرح بتایا تھا کہ حیاء انسان کی فطرت ہے اور لچرپن اس پر شیاطین کا مسلط کردہ۔

انبیاء کے منکرین نے صرف اس کو الٹ دیا ہے اور ان کا کہنا ہے: لچرپن انسان کی فطرت ہے اور حیاء و اخلاق اس پر کچھ پاکیزگی پسند عناصر کا مسلط کردہ۔

پس خانے اب بھی دو ہی رہے۔ مسئلہ ان دونوں کو ’لوکیٹ‘ locate کرنے کا ہے کہ کونسی بات کس خانے میں رکھیں۔ جس بات کو آپ ’فطرت‘ کہہ دیں اس کے حق میں آپ بار بار بولیں گے بھی۔ البتہ اس بار بار بولنے اور ہر ہر سطح پر اس کی سرپرستی کرنے کو آپ ’سماجی جبر‘ بھی نہیں گے!!! اور خود اپنے اِس رویے کو آپ ’دھونس‘ بھی نہیں کہیں گے؛ بلکہ یہ ’حق پرستی‘ ہے! اب چونکہ یہ بات اصولاً آپ کو بھی تسلیم ہے؛ لہٰذا اِن حوالوں سے ہم انبیاء کو ماننے والے بھی اصولاً ’جبر‘ کے الزام سے بری ہوئے۔ اصل بات صرف ایک رہ گئی اور وہ یہ کہ اِس جج کے منصب پر کون بیٹھا ہے؟ جو اِس منصب پر جا بیٹھا وہ ’’حقیقت‘‘ کا تعین کرنے کا مجاز ٹھہرا اور اس کی یہ حیثیت given ہے!

یہ ہے اِس ماڈرن سوشیالوجسٹ کے مقدمہ کی مختصر حقیقت؛ جس کو ’چونکہ، چنانچہ، مگر اور اگرچہ‘ کے کچھ غیرمعمولی تاؤ دے کر ایک ’علمی حقیقت‘ ٹھہرا دیا گیا ہے۔

میں آپ سے ایک عرض کروں... یہ سوشیالوجسٹ یہاں ایک اتنے بڑے منصب کا دعویدار ہے اور ’حقیقت‘ کا ایک ایسا منہ پھٹ ٹھیکیدار ہے کہ وہ پرانے مذاہب جن کو یہ محض دھکا اور خرافات کہتا ہے، اِس کے مقابلے پر ایک بہت چھوٹی دھونس ہو گی۔ سب سے بڑا لٹھ مار انسانی تاریخ میں یہ ہے؛ محض اِس لیے کہ اِس کے ہاتھ میں آج یونیورسٹیاں اور تعلیم کا ڈائس ہے!

اور بلاشبہ یہ ایک قوی دلیل ہے! بلکہ اصل دلیل ہی یہ ہے۔ اِس ’دلیل‘ سے انبیاء کو انسانی زندگی سے بےدخل کرنا کچھ ایسا نیا بھی نہیں ہے:

وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَـٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ  أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِّنْ هَـٰذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ  فَلَوْلَا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ  فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ                                (الزخرف: 51۔54)

فرعون لگا اپنی قوم میں پکارنے: اے میری قوم! مصر کی فرماں روائیِ مطلق کیا مجھ کو سزاوار نہیں؛ آخر یہ نہریں میرے ہی نیچے تو بہتی ہیں۔ تو کیا تم دیکھ نہیں سکتے؟ کیا (اس منصب کےلیے) میں بہتر ہوں یا بھلا یہ شخص جو ذلیل ہے اور بات صاف کرتا معلوم نہیں ہوتا؟ (بھلا یہ کچھ ہوتا تو) اس پر کیوں نہ (آسمان سے) سونے کے کنگن آ گرتے یا اس کے ساتھ فرشتے ہی آکر (دکھاتے) جو اس کے پاس رہتے۔ تب فرعون نے اپنی قوم کو کم عقل کرلیا تو وہ اس کے کہے پر چل پڑے۔ بیشک وہ تھے ہی بدکار لوگ۔

پس یہ ہے اصل منطق۔ سٹیٹس کو۔ خصوصاً فکری intellectual status quo ۔

مختصراً... ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کی بجائے فی الحال آپ یوں کہہ لیجیے: جس کی یونیورسٹیاں اس کی دانش... university is might !

*****

یہاں جو مضمون بیان کرنا مطلوب تھا ہمارا وہ مقدمہ تو مکمل ہوا۔

البتہ یہاں سے آپ کو ہمارا ایک اور مقدمہ بھی بآسانی سمجھ آسکتا ہے اور وہ ہے: اس بات کی فرضیت کہ دینِ آسمانی کے پاس معاشرے کو اپنے علمی اقتدار کے زیرنگیں رکھنے کا انتظام ہو۔ ورنہ یہ کسی کے علمی اقتدار کے زیرنگیں ہو گا۔ اسی بات کا ایک سادہ ترجمہ: اسلام کے پاس خود اپنی دولت (ریاست) ہونے کی فرضیت؛ جہاں ایک عام آدمی پر کوئی بیرونی مصدرِ دانش مسلط نہ ہو اور ’’حقیقتوں کے تعین‘‘ میں واحد حوالہ آسمانی وحی ہو۔ (کسی نہ کسی مصدرِ دانش اور تصورِ اَقدار کو تو لازماً مسلط impose ہونا ہے؛ ورنہ اس کو ’معاشرہ‘ کہیں گے ہی نہیں؛ معاشرہ ظاہر ہے محض کسی ’انتظامی‘ بندوبست ہونے کا نام نہیں)۔ حقیقت یہ ہے کہ تفہیمِ دین کے نام پر المورد کے جاری کردہ ’قوانین‘ میں سے کسی بھی قانون سے یہ ایک بڑا قانون ہے: دینِ آسمانی کے معاشرہ پر حاکم ہونے کی فرضیت اور آدمی کو محض انفرادی طور پر کافر ہونے کی اجازت۔ معاشرے پر حاوی ’دانش‘ prevailing epistemology  کی صورت میں دراصل آپ معاشرے کو ایمان پڑھا رہے ہوتے ہیں یا معاشرہ آپ کو الحاد پڑھا رہا ہوتا ہے؛ تیسری کوئی صورت نہیں ہے۔ بالکل نہیں ہے۔ اسلام کے پاس دولت (ریاست) ہونے کی فرضیت کی یہ ایک ایسی واضح برہان ہے کہ نصف النہار کا آفتاب اس کے مقابلے پر کم ہو گا۔ قرآنی آیت حتىٰ لا تکونَ فتنۃٌ میں ’’فتنہ‘‘ کی تفسیر اگر آپ ’’جبر‘‘ بھی لینا چاہیں، جس پر مدرسۂ وحید الدین خان کا پورا ڈسکورس کھڑا ہے، تو بھی اِس ’’جبر‘‘ کو محض کسی ڈنڈے اور لاٹھی کے اندر دیکھنا البتہ تعلیم و ابلاغ کے ایک دیوہیکل انتظام کی صورت میں اِس ’’جبر‘‘ کو نہ دیکھ پانا کوتاہ نظری کی حد ہے۔

’’خلافت‘‘، خواہ اس کی عملی صورت جو بھی ہو (اور یہ تو بالکل ہی ضروری نہیں کہ وہ حزب التحریر والی ہو! بنیادی طور پر ہماری مراد ’’خلافت‘‘ یا ’’دولت‘‘ وغیرہ ایسے الفاظ سے ہوتی ہے معاشرے پر دینِ آسمانی کا اقتدار؛ خواہ اس کی انتظامی صورت جو بھی ہو)... اِس ’’خلافت‘‘ کے ریشنال rationale میں یہ بات ’حدود و تعزیرات یا اسلام کے معاشی احکام وغیرہ کو لاگو کرنے کی ضرورت‘ والی دلیل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اور آج اِس ریشنال کو نمایاں کرنا حد سے بڑھ کر ضروری؛ کہ ایک چیز کے بدترین عواقب (خود سماجیات ہی میں شیاطین کا ایک بھرپور فکری تصرف؛ بلکہ ایک باقاعدہ ’’مرجع‘‘ reference کی حیثیت اختیار کر لینا) آپ اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگے۔

حق یہ ہے کہ اسلام کے پاس ایک دولت ہونے کی فرضیت ہزارہا جہت سے ثابت ہوتی ہے؛ اور یہ بات ضروریاتِ دین میں آتی ہے۔ اِس کا انکار ایک مکابرہ ہے اور اُسی معرفی جبر epistemological coercion  کا نتیجہ جو کوئی صدی بھر کی ’اینلائٹنمنٹ‘ enlightenment  سے آپ کے ذہنوں پر عمل پزیر ہوا ہے؛ اور جس کے نتیجے میں ایک دوسری سطح پر آپ کا نوجوان اب اس بات کو given  ماننے پر آمادہ ہو چلا ہے کہ حیاء اور اخلاق وغیرہ اِس ’ہیومن بیئنگ‘ human being  پر محض باہر سے مسلط ہوجانے والی چیزیں رہی ہیں یعنی سماجی جبر! ...

اِس آخری پوائنٹ سے متعلقہ کچھ مباحث ہمارے ان مضامین میں واضح کیے گئے ہیں:

§        ’’جماعۃ‘‘ کا ’’نظم‘‘ پر مقدم ہونا     http://eeqaz.org/eeqazarticles.aspx?sanid=807&articlename=20150304_jamaatoimaratfukahakaperadaim

§ انتظامی جبر اور تشکیلی جبر کا فرق    http://eeqaz.org/eeqazarticles.aspx?sanid=784&articlename=20150304_fardkamaljaomaavi  دیکھیے حاشیہ 2 

§        ریاست جبرِ حق یا دھونس؟  http://eeqaz.org/eeqazarticles.aspx?sanid=793&articlename=20150304_riyasatejabryachons 

§        علیکم بالجماعۃ   http://eeqaz.org/eeqazarticles.aspx?sanid=797&ArticleName=20150304_alaikumbiljmaat

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات
تنقیحات-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات حامد کمال الدین رواداری کی ایک م۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی حامد کمال الدین بنتِ حوّا کی ع۔۔۔
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے
احوال- وقائع
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے حامد کمال الد۔۔۔
"المورد".. ایک متوازی دین
باطل- فرقے
ديگر
حامد كمال الدين
"المورد".. ایک متوازی دین حامد کمال الدین اصحاب المورد کے ہاں "کتاب" سے اگر عین وہ مراد نہیں۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز