میری کرسمس.. ’مقاصدِ شریعت‘ یا قربِ قیامت؟
تنقیحات
قربِ قیامت کیا کیا واقعات نہ ہوں گے!
وَسَيَـعُـــودُ كَمَـــــــــا بَدَأَ غَرِيبًا.. فَطُوبى
لِلْغُرَبَاء!!!
فقہاء کے مواقف کو استہزاء کا نشانہ بنانا ایک معمول کی بات۔ کسی ایک آدھ فقیہ
نہیں؛ اکٹھے مذاہبِ اربعہ کو!
کون صاحب لتاڑ رہے ہیں فقہائے مذاہبِ اربعہ کو؟ ’کوئی‘
ہونا اس کےلیے کیا ضروری ہے؛ جو بھی کالم لکھ سکتا ہو!
مذاہبِ اربعہ کی غلطی ویسے نکالی کس حوالے سے جا رہی ہے؟
کسی معمولی بات یا کوئی جزئی دلیل مِس miss کر جانے پر
نہیں؛ بلکہ مقاصدِ شریعت ہی کو نہ سمجھ پانے کی بنا پر!
آپ کو معلوم ہے، شریعت کے دلائل یا شواہد کو دو اقسام
کیا جاتا ہے: ایک جزئیات اور ایک کلیات۔ جزئیات جیسے ایک خاص مسئلے یا واقعے میں وارد
ہونے والی کوئی دلیل۔ یہ کوئی متعین نص ہو سکتی ہے۔ یا شریعت میں وارد کسی متعین
واقعے پر قیاس ہو سکتا ہے۔ فقہاء کےلیے اس سے دلیل پکڑنا زیادہ آسان ہوتاہے۔ البتہ
کلیات بےشمار ادلہ اور وقائع کے استقراء یا تتبع سے حاصل کیے جاتے ہیں؛ اور یہاں
فقیہ کا خوب زور لگتا ہے۔ آپ جانتے ہیں، ’مقاصدِشریعت‘ کا تعلق اسی دوسری صنف سے
ہے۔ یعنی یہ ’’کلیات‘‘ میں آتی ہے۔ حق یہ ہے کہ ’مقاصدِ شریعت‘ میں کلام کرنے والے
فقہاء بہت کم ہوئے ہیں۔ وجہ یہ کہ اس کےلیے نہایت اعلیٰ علمی پایہ درکار ہے؛ یہ
عام فقیہ کے بس کی بات نہیں۔ متاخرین میں سے غزالیؒ، شاطبیؒ، ابن تیمیہؒ، شاہ ولی
اللہؒ وغیرہ ایسے کچھ ہی نام ملیں گےجنہوں نے اس مشکل وادی میں چل کر دکھایا ہے۔
زیادہ لوگوں نے، باوجود بڑے فقہاء ہونے کے،ادھر کا بہت زیادہ رخ نہیں کیا؛ کیونکہ
وہ اپنے آپ کو اتنے پانی میں نہ سمجھتے تھے۔ رَحِمَ اللہُ
امۡرَءًا عَرَفَ قَدۡرَ نَفۡسِہٖ۔
یہ واقعہ صرف قربِ قیامت کےلیے باقی تھا کہ ایک کالم
نگار فقہائے مذاہبِ اربعہ کی غلطی اور وہ بھی کسی معمولی بات پر نہیں بلکہ ’مقاصدِ
شریعت‘ کو نہ سمجھ پانے کی بنیاد پر نکال کر دکھائے گا... اور اس کا وہ
مضمون دھڑادھڑ ’شیئر‘ اور ’ٹیگ‘ ہو رہا ہو گا!
ظاہر ہے اس سے بڑا لطیفہ ہم کریں گے اگر ہم اس کو جواب
دینے چل پڑیں اور مقاصدِشریعت سے اس کے ’استدلال‘ کی غلطی کو زیربحث لائیں۔
رَحِمَ اللہُ امۡرَءًا عَرَفَ قَدۡرَ نَفۡسِہٖ۔
کالم نگار کا کہنا ہے، یہ فقہائے (مذاہبِ اربعہ) جو اپنے
وقت کے شرکیہ مذاہب اور ان کے مذہبی شعارات سے بیزاری پر مبنی یہ فتاوىٰ دیتے چلے
گئے ہیں، یہ فقہاء اپنے اِس عمل سے دراصل اس بات کے ذمہ دار ہوئے ہیں کہ دنیا میں
دینِ اسلام نہ پھیل سکے! ورنہ اگر فقہاء اُس دور میں نمازیوں کو بتلاتے کہ اپنا ’’قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ... لَكُمْ
دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ‘‘ اور ’تبرأتُ من الشرک والکفر‘ کا پڑھنا ذرا
موقوف کر کے خدا کا بیٹا کہنے والوں کے ساتھ اُس مزعومہ ’خدا کے بیٹے‘ (معاذاللہ)
کا برتھ ڈے کیک کاٹ کر آئیں تو آج اسلام دنیا میں چہار دانگ پھیل چکا ہوتا! اسی پر
بس نہیں کیا بلکہ کالم نگار کی رائے میں، فقہائے مذاہبِ اربعہ کا یہ وتیرہ خود اُن
کے دور میں بھی تکبر اور غرور میں آتا تھا؛ البتہ وہ لوگ جو آج غربتِ اسلام کے دور
میں بھی فقہاء کے اسی دستور پر باقی ہیں وہ خدا کے ہاں ان تین مبغوض ترین لوگوں
میں آئیں گے جن میں – ازروئےحدیث – ایک وہ شخص ہے جو تنگدست ہونے کے
باوجود تکبر کرتا ہے!
کالم نگار کے خیال میں فقہاء کی نظر نجانے کیوں اس طرف
نہ جا سکی کہ سورۃ النساء کی ایک آیت میں ’’تحیۃ‘‘ (آداب تسلیمات) سے متعلق جو ایک
بات آئی ہے اس میں (کالم نگار کے مطابق) شرک کا ایک شعار منانے والوں کو اُن کے
اِس شرکیہ شعار پر مبارکباد دے کر آنا بھی باقاعدہ طور پر شامل ہے! (قاعدہ اگر یہی
ہے کہ اس آیت میں کوئی کافر ہو یا مسلم، اس کے ہر قسم کے فعل اور تقریب پر
مبارکباد دینے کا وجوب یا استحباب آتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اس فعل کا تعلق کیسے
ہی شرک یا معصیت سے کیوں نہ ہو... قاعدہ اگر یہی ہے تو معلوم نہیں کالم نگار کا
فتوى شراب کی کسی گرینڈپارٹی میں جانے والوں کو مبارکباد پیش کرآنے کی بابت کیا ہو
گا؟ حضرت صاحب آیت کے عموم سے شراب پارٹی پر مبارکباد کے وجوب یا استحباب کو کس
دلیل سے مستثنىٰ کریں گے!)۔ چونکہ فقہاء کو سورۃ نساء میں مذکور اِس ’’تحیہ‘‘ کے
دائرہ کی سمجھ نہ آئی کہ وہ کہاں تک جاتا ہے (یا جا سکتا ہے!) لہٰذا اللہ کے بندوں
(فقہاء) نے اتنی بڑی غلطی کی کہ ایک شرکیہ تہوار پر مبارکباد کو حرام قرار دے کر
آیت کے مقصود کو معطل کر بیٹھے!
علاوہ ازیں، سورۃ الممتحنۃ کی آیت 8 (لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ
الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ
أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی
اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے
خدا تم کو منع نہیں کرتا‘‘)۔ اس آیت میں مذکور ’’بھلائی اور انصاف کا سلوک‘‘ کو
فقہاء ظاہر ہے دنیوی معاملات پر محمول کرتے رہے، یعنی غیرحربی کفار کے ساتھ عام
خوشی غمی، تحفہ تحائف، آنا جانا، میل جول اور معمول کا رہن سہن رکھنا اور ان سب معاملات
میں ان کے ساتھ ایک نہایت اچھا اور مہربانی کا معاملہ کرنا۔ اور یہ وہ حسن سلوک ہے
جو صحابہؓ کے وقت سے لے کر مابعد ادوار تک مسلم معاشروں میں غیرحربی کافروں کے
ساتھ ہوتا آیا ہے اور جس سے متاثر ہو کر اللہ کا شکر ہے ڈھیروں کے ڈھیروں کافر
اسلام قبول کرتے رہے، اور آج بھی ہم بجا طور پر ان کے ساتھ وہ حسن سلوک رکھنے کے
داعی ہیں جو سورۃ الممتحنۃ میں ذکر ہوا... کالم نگار کے نزدیک فقہاء کا اِس ’بھلائی
اور حسن سلوک‘ کو دنیوی معاملات تک محدود رکھنا اور اُن کے اعمالِ دین تک کھینچ نہ
لے جانا غلط ہے! یہاں ہمارے دین کے عمومی اصول
کہ جہاں تک کفار کے دین اور اعمالِ دین کا تعلق ہے تو ان سے ہمیں بہرحال بیزاری ہی رکھنی ہے (اگر کوئی
حسن سلوک ہے، اور یقیناً ہے، تو اس کا تعلق عام دنیوی امور سے ہی رہے گا)... ہمارے
دین کی یہ عمومی ہدایات کہ کفر کے اعمال اور شعارات سے ہماری علیحدگی اور بیزاری
برقرار رہے، ’ہیومن ازم‘ کی بھاری خوراکیں لے چکے ذہنوں سے چونکہ محو ہیں... لہٰذا
کالم نگار کے نزدیک الممتحنۃ کی اس آیت میں مذکور یہ ’’بھلائی اور مبنی بر انصاف
سلوک‘‘ اُس وقت تک مکمل نہیں ہونے کا جب تک ہم دینِ کفر کے کسی مذہبی شعار پر ہی
اپنی خوشی ظاہر کر کے نہ آئیں! یہ وجہ ہے کہ ان کے خیال میں فقہائےمذاہبِ اربعہ کا
وہ مشہور فتویٰ جس میں وہ اہل کفر کے تہواروں پر تہنیت کو حرام ٹھہراتے ہیں، سورۃ
الممتحنۃ میں مذکور ’’حسن سلوک‘‘ کے حکمِ شرعی کے ساتھ متصادم ہے!
اپنے صحافیوں کے ایک طبقے کا گویا خیال ہے کہ رسول اللہﷺ
اور صحابہؓ کے ہاں کفار کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرنے کی نوبت آنے سے جو رہ گئی
(معاذاللہ) تو اغلباً اس لیے کہ صحابہؓ کو
پالا ہی ایسے کافروں سے پڑا رہا جو حربی (اسلام کے خلاف جنگ کرنے والے) تھے! ورنہ کم
از کم کچھ کافر اگر صحابہؓ کے دور میں اور ان کے زیراقتدار خطوں میں ایسے بھی پائے
جاتے جو امن کے ساتھ صحابہؓ کے جوار میں رہائش پزیر ہوتے تو آپ دیکھتے صحابہؓ کس
طرح (سورۃ الممتحنۃ کی آیت نیز مقاصدِشریعت پر عمل کرتے ہوئے) ان کے مذہبی تہواروں
کو رونق بخش بخش کر آتے ہیں! بس یہ (’میری
کرسمس‘ کا) واقعہ اس وجہ سے ہونے سے رہ گیا کہ صحابہؓ کے دور میں غیرحربی کافر
کہیں دستیاب ہی نہ ہو سکے تھے! اور جب تک دستیاب ہوئے تب تک مذاہبِ اربعہ رونما ہو
گئے تھے! سو سورۃ الممتحنۃ کی اِس آیت پر اکیسویں صدی تک عمل معطل رہا؛ اب کہیں جا
کر آپ کو یہ ’حکم شرعی‘ بحال ہوتا ہوا نظر آتا ہے جب ہمارے کچھ جبہ بردار چرچ جا
کر پادری کے ساتھ کھڑے کرسمس کاٹنے کی تصویر بنوا کر آتے ہیں! یہ ہے شریعت کی روح
کو زندہ کرنا!
ظاہر ہے ہم کالم نگار کو کسی بات کا جواب نہیں دے رہے۔
اور نہ دینا بنتا ہے۔ البتہ یہ تجویز کریں
گے کہ وہ اپنے ’مقاصدِشریعت‘ اور اپنے فہمِ سورۃ الممتحنۃ کے ساتھ تصادم کو مذاہبِ
اربعہ تک محدود نہ رکھیں۔ بیہقی، مصنف عبدالرزاق اور دیگر کتب میں حضرت عمرؓ کا یہ
حکم نامہ آتا ہے کہ مسلمان کفار کے گرجوں میں ان کے تہواروں کے موقع پر نہ جائیں
کیونکہ یہ خدا کے غضب کا محل ہیں۔ (یہاں بھی یہی نظر آتا ہے کہ ان کے ساتھ ہمارا
حسن سلوک اپنی جگہ حق ہے مگر اس کا مطلب اُن کے مذہبی اعمال کےلیے قربت ظاہر کرنا
نہیں ہے)۔ لہٰذا حق بنتا ہے کہ کالم نگار
بحق ہیومن ازم دورِصحابہؓ تک کی خبر لیں! اس اصلاح اور نظرثانی کا دائرہ خاصا وسیع
کرنا پڑے گا!