عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2016-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
کافر کی ہمارے خلاف جنگ کا دوسرا محور: "مسلمان" کو ایک تہذیبی واقعے کے طور پر ختم کر ڈالنا
:عنوان

انہیں بخوبی معلوم ہے،اسلام کی یہ تہذیبی قوت اسکےمظاہر میں نہیں بلکہ اسکےاندر متحرک ایک جان دار عقیدہ میں ہےاور وہ ایک ایسا واضح، ثابت، محکم عقیدہ ہےجسےقرآن ایسی حسیں زبان ملی ہوئی ہے۔پھر یہ ایک کامل شریعت پر قائم ہےجو حیات انسانی کی پیچیدہ سے پیچیدہ گرہیں

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

کافر کی ہمارے خلاف جنگ کا دوسرا محور:

"مسلمان" کو ایک تہذیبی واقعے کے طور پر ختم کر ڈالنا

اداریہ 4


62

 
کافر کی جنگ کے اِس پہلو پر ہم بہت کچھ لکھتے رہے ہیں۔ اس کا اعادہ ہم یہاں نہیں کریں گے۔  ایک بوڑھی تہذیب جو اپنے آخری دموں پر ہے عالمی سطح پر ایک نوخیز تہذیبی واقعے ’’اسلام‘‘ سے شدید طور پر خائف ہے، جس کے شواہد شمار سے باہر ہیں۔ یہاں تک کہ سیموئیل ہنٹنگٹن Samuel Hintigton   ایسے لوگ اس بات کو عالم اسلام پر مغرب کی ازسرنو چڑھائی کا ایک فکری اور وجدانی مقدمہ بناتے ہیں۔

وہ دیکھ رہے ہیں، کئی مغربی ممالک میں اسلام آج اُن کی ڈیموگرافی بدل رہا ہے۔ جگہ جگہ اسلامی سنٹر کھل رہے ہیں اور لوگ اِس دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں پچھلے تین عشروں کے اندر ’’نماز‘‘ اور ’’حجاب‘‘ کا فنامنا مسلسل زور پکڑتا رہا ہے۔ ’اتاترک کا ترکی‘ تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوتا چلا گیا ہے اور اس کی جگہ ایک ایسا ترکی سامنے آنے لگا جو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔  مغربی تہذیب کے ہاتھوں ’خاندان‘ جس طرح ٹوٹ پھوٹ گیا ہے، اور چرچ اس محاذ پر جس طرح ناکام دیکھا گیا ہے، یہ جنگ اب صرف اسلام کے لڑنے کی رہ گئی ہے، یہ تاثر ایک بڑی خلقت کے ذہنوں میں مضبوط ہوا ہے۔ مادیت نے انسان کا دل جس طریقے سے ویران کر ڈالا ہے، اس کا مداوا اسلام کے پاس ڈھونڈا جانے لگا ہے۔ ایک ایسی روحانیت جو عقل کی کامل تسکین کرتی ہے۔ اور ایک ایسی عقل جو ہرگز روحانیت کے آڑے نہیں آتی بلکہ اس کی تکمیل اور افزائش کرتی ہے۔ چرچل اور چارلس تک اسلام کی اس مخفی صلاحیت کی داد دے چکے کہ یہاں عقل اور روح، دین اور دنیا ایک دوسرے کے سر آنے کی بجائے کس طرح ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔  گویا اسلام کے پاس آکر ’’انسان‘‘ مکمل ہو جاتا ہے۔ یا یہ کہ انسان ’’برآمد‘‘ ہو جاتا ہے۔ وہ انسان جو دوسری جگہوں پر بہت سارے خداؤں کے مابین کٹ پھٹ گیا تھا! اسلام ان کرچیوں کو جوڑ دیتا ہے! اسلام کی اِس فکری اور تہذیبی قوت نے صرف دورِ فتوحات ہی میں قلوب کو مفتوح اور عقول کو مسحور نہیں کیا، آج اِس دورِ مغلوبیت میں بھی ایک سطح پر اسلام اپنی اِس قوت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

البتہ انہیں بخوبی معلوم ہے، اسلام کی یہ تہذیبی قوت اس کے مظاہر میں نہیں بلکہ اس کے اندر متحرک ایک جان دار عقیدہ (ایمان بالغیب) میں ہے۔ اور وہ ایک ایسا واضح، ثابت، محکم عقیدہ ہے جسے قرآن ایسی حسیں زبان ملی ہوئی ہے۔ پھر یہ ایک کامل شریعت پر قائم ہے جو حیاتِ انسانی کی پیچیدہ سے پیچیدہ گرہیں بڑی قدرت اور کامیابی سے کھولتی ہے، اور اپنے بیان کےلیے نہایت معلوم و ثابت مراجع رکھتی ہے۔ نیز انہیں معلوم ہے، اسلام نفسِ انسانی کو ایک جامعیت دیتا ہے۔ جس کے بعد نفس انسانی ایسا خدا رخ ہوتا ہے کہ نہ ’انسان‘ کے نام پر انسان کی پیشوائی باقی رہے اور نہ ’خدا‘ اور ’مذہب‘ کے نام پر۔ یہاں سب کچھ خدا رُو ہو جاتا ہے اور غیراللہ سے انسان مکمل پھر جاتا ہے۔ زمین پر ’’خدا‘‘ کا ایسا تسلط جہاں واقعتاً انسان کی خدائی ختم ہو جائے، جہاں انسان خدا کو اپنا سب کچھ سونپ کر راحت اور سعادت کا ایک جل تھل آخرت سے پہلے اِسی دنیا میں پائے، نیز اپنے عقل و شعور، تسخیرِ کائنات کےلیے اپنی ایک ازلی تڑپ اور اپنے طبعی قِویٰ اور صلاحیتوں کےلیے ایک وسیع گنجائش پائے، اور اپنے یہ تمام شوق پورے کرتے ہوئے بھی درحقیقت ’’خدا کی عبادت‘‘ ہی کر رہا اور اُسی کے دیے ہوئے مقاصد زمین پر پورے کر رہا ہو... یہ ’’حنیفیتِ سمحۃ‘‘ جو دینِ محمدؐ کا  سب سے بڑا خاصہ ہے، انبیاء کے دشمنوں کو سب سے زیادہ خوفزدہ کرتی ہے، جو انسان سے انسان کی عبادت کروانا چاہتے ہیں؛ کبھی کسی نام پر تو کبھی کسی نام پر۔

’’مسلمان‘‘ کو ایک تہذیبی واقعے کے طور پر جہان سے مٹا ڈالنے کےلیے آج وہ:

1.        ’وار آف آئیڈیاز‘ ‘war of ideas’    لے آئے ہیں۔ جس کا صحیح نام war on ideas   ہونا چاہئے۔ کیونکہ وہ سیدھا  منہ پھاڑ کر اب یہ کہنے لگے ہیں کہ اُن افکار ہی کو اور ان کے حاملین کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دو جو لوگوں کو مغرب کے دیے ہوئے اُس فکری ڈسکورس کا باغی کرتے ہیں جو بڑی محنت کے بعد آج دنیا کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سکۂ رائج الوقت بنا دیا گیا ہے۔ اِس رائج الوقت فکری ڈسکورس کے خلاف ذہنوں کے اندر جو ایک علمی بغاوت ہو گی وہی امنِ عالم کےلیے صاف ایک خطرہ ہے! ایسا الگ فکری ڈسکورس رکھنے والے لوگ چاہے بندوقیں نہ بھی اٹھائے ہوئے ہوں، اور چاہے ایسے لوگ بندوقیں اٹھانے والے کچھ ناپختہ لوگوں کو خود اپنے اس فکر اور دعوت کے حق میں ہی نقصان دہ کہہ کہہ کیوں نہ تھک گئے ہوں، پھر بھی یہ گردن زدنی ہیں! رائج الوقت (مغربی) فکری ڈسکورس کے خلاف علمی بغاوت بجائے خود ایک جرم اور بدامنی کی ایک سرعام دعوت ہے! ایک دو سو سالہ عمل کے نتیجے میں دنیا اب ’حقیقتوں‘ کے تعین کے معاملہ میں جس ڈسکورس پر لے آئی گئی ہے اس سے ذہنوں کو ہٹانا آج بجائےخود ایک ’فساد‘ ہے جسے آہنی ہاتھ سے ختم کردینا چاہئے! وَقَالَ فِرْ‌عَوْنُ ذَرُ‌ونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَ‌بَّهُ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ‌ فِي الْأَرْ‌ضِ الْفَسَادَ ۔(غافر: 26) ’’اور فرعون نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو پکارے۔ میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمہارے دین کو بدل ڈالے گا یا یہ کہ زمین میں فساد پھیلائے گا‘‘۔

2.        مسلم دنیا کے کالجوں یونیورسٹیوں میں الحاد (خدا، نبی، قرآن کا سیدھا سیدھا انکار) اور لادینیت کے غول چھوڑ دیے گئے ہیں۔ بےشمار خفیہ گروپ اس پر کام کر رہے ہیں اور اپنی سرگرمی کےلیے ایک مضبوط پشت پناہی رکھتے ہیں۔

3.        مسلمانوں کے شہروں میں بدکاری اور کنڈوم کلچر کو عام کرنے کے غیرمعمولی انتظامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ این جی اوز کی ایک فوج ظفر موج اندھے وسائل لے کر کچھ نہایت سائنٹیفک منصوبوں کے ساتھ یہاں کی پسماندگی اور معاشی بدحالی کا فائدہ اٹھانے کےلیےمیدان میں اتر آئی ہے۔ یہاں کے بااثر طبقے اکثر و بیشتر یا اُن کے کانے ہیں یا سرے سے اندھے۔

4.        تعلیم کے شعبے میں پرائمری کی سطح تک ’اصلاحات‘ کا جو ایک بھاری بھرکم پروگرام رُو بہ عمل ہے اور جس میں بہت کچھ نہایت مفید بھی ہے، اس شہد میں لادینیت کا ایک نہایت زوداَثر زہر بھی گھول دیا گیا ہے۔ اس کے نتائج دیکھ کر آپ عنقریب سر پکڑ کر رہ جائیں گے۔

5.        مسلمانوں کے تمام مسلَّمات پر ’’تشکیک‘‘ کا حملہ کر دیا گیا ہے۔ ہمارے پڑھےلکھے طبقوں کی نظر میں ہماری ہر چیز ’نظرِ ثانی‘ کی ضرورتمند ٹھہرا دی گئی ہے۔ اسلام کی ایک ’تفسیرِ نو‘ کی ضرورت بجابجا منوائی جا رہی ہے۔ آپ خود جانتے ہیں مسلم معاشروں پر چھائی ہوئی جہالت، علم اور علماء کی کمی، مغربی ڈسکورس کے غلبے اور، اذہان کی غلامی اور ماتحتی کے اِس دور میں اسلام کی جو ایک ’تفسیرِ نو‘ ہو گی، اور پزیرائی پائے گی، وہ کیسی تباہ کن ہو گی۔

6.        ناموسِ رسالت پر مسلم غیرت کا مذاق اڑانا ایک فیشن بنا دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں نفوس کے اندر پیدا ہونے والی مزاحمت ذہنوں کے اندر کچلی جا رہی ہے۔

7.        ادیان کے فرق کو ملیامیٹ کرایا جا رہا ہے۔ باطل ملتوں کے شرک کو بربادی کا موجب ٹھہرانا اور اس پر جہنم کی قرآنی وعیدیں منہ پر لانا تہذیب کے منافی ٹھہرا دیا گیا ہے اور کافر ملتوں سے قربت و ہم آہنگی اختیار کرنا ایک نہایت قابل تحسین ’تہذیبی رویہ‘۔ ’نماز روزہ‘ شاید ابھی کچھ دیر ہمارے پاس بچا رہے (ان لوگوں کےلیے جو بےحیائی کے اِس طوفان میں بھی نماز روزہ پر باقی رہنا چاہیں) البتہ ’’اسلام دنیا کا واحد سچا دین ہے اور اس کے ماسوا ہر دین باطل اور صاف جہنم کا موجب‘‘ یہ عقیدہ سمجھو مسلمان کے ہاتھ سے گیا کہ گیا(ألا ھل بلَّغتُ؟)۔ ’گلوبلائزیشن‘ کو پہلا کام ہی یہاں پر یہ کرنا ہے۔

8.        اس سے پہلے صرف ’سیاست‘ کو ہی دین پسندوں کےلیے شجرِ ممنوعہ ٹھہرایا جاتا تھا۔ مگر اب نہیں۔ مسلمانوں کی ان جماعتوں کو آج ایک خطرہ اور خوف کی علامت بنایا جا رہا ہے جو ’سیاست‘ تک سے کوئی سروکار نہیں رکھتیں مانند تبلیغی جماعت اور الہدیٰ وغیرہ۔ ان جماعتوں کی کل محنت اور توجہ لوگوں کو گناہگاری کی زندگی سے نکال کر تقوی اور پاکیزگی کی زندگی پر لانا ہے۔ ان جماعتوں کو بھی بےرحمی کے ساتھ ہدف بنایا جاتا ہے تو اس کی ایک واضح دلالت ہے، جس سے صرفِ نظر کرنا درست نہیں:  دراصل اُن کی ہمارے ساتھ جنگ اب ’سیاسی اسلام‘ سے بہت آگے گزر چکی ہے۔ اسلام کو فی الوقت وہ کسی ’سیاسی‘ نہیں بلکہ ایک ’’تہذیبی‘‘ چیلنج کے طور پر زیادہ دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا اسلام کی روحانیت اور پرامن دعوت بھی اب انہیں تکلیف دے رہی ہے۔

9.        ’مدارس‘ کے خلاف ایک طریقے سے اعلانِ جنگ ہو چکا۔ ہمارے زیادہ لوگ اس مسئلہ کو محض  ’دہشتگردی‘ کے سیاق میں دیکھ رہے ہیں۔ بےشک دہشتگردی کے کچھ واقعات میں مدارس میں پڑھنے یا پڑھانے والے بعض افراد ملوث ہوں گے۔ مگر ایسی کسی تشویش کا تعلق ہمارے سیکورٹی اداروں سے ہو گا۔ انکل سام اور اُس کے معتمد لبرلز کی پریشانی ’مدارس‘ کی بابت یہ نہیں ہے۔ ’مدارس‘ دراصل وہ ایک ایریا area   ہے جہاں اِس اکیسویں صدی میں بھی انسانی عقل ’جدید‘ ڈسکورس سے ہٹ کر سوچتی ہے! اِس جزیرے کو لازماً اسی ’جدید‘ طوفان کے زیرآب آنا ہے؛ اور جلد از جلد آنا ہے۔ اصل بغاوت یہ ہے انکل سام اور اس کے مقامی معتمدین کے نزدیک۔ باوجود اس کے کہ ہمارے مدارس کی حالت آج بہت ہی پسماندہ اور دگرگوں ہے اور یہاں کسی جاندار فکر کی پرورش اور افزائش سرے سے نہیں ہو رہی، اس کے باوجود یہ (مدارس کی دنیا) جدید ڈسکورس کی بیعت شدہ بہرحال نہیں ہے۔ یہ بجائےخود کوئی چھوٹا جرم نہیں ہے۔ مدارس کو ’وجود‘ برقرار ہی رکھنا ہے تو اِسے ادارۂ استشراق کی بیعت کرنا ہو گی۔ اس ’بیعت‘ کےلیے ڈھیروں انتظامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ خوف کی ایک بھیانک فضا بےوجہ قائم نہیں  کرائی گئی۔ اور توقع کی جا رہی ہے کہ مدارس کی جانب سے جلد از جلد مغرب کے اس دین اکبری کےلیے ایک اظہارِ اطاعت سامنے آجائے۔  ’ہینڈزاَپ‘ ایک بار ہو جائے تو پھر دیکھیں گے مولوی کی ’جدید‘ تعلیم و تربیت کی کیا عملی صورتیں سامنے آتی ہیں۔

10.     سب سے بڑا ہدف ہمارے اِس تہذیبی قتل کےلیے بڑھنے والی مہم کا: ہمارے وہ ادارے ہیں جو عالم اسلام میں ایک فکری خوداختیاری  intellectual independence   پیدا کرنے کا منبع ہیں۔ یہاں؛ خطرے کی سب سوئیاں سعودی جامعات کی طرف گھوم جاتی ہیں جہاں ’جدید‘ پڑھایا بھی خوب جاتا ہے مگر ’قدیم‘ کے تابع وماتحت رکھ کر۔ جہاں اللہ کا شکر ہے ’ریلٹوازم‘ relativism   کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں اور ’’مطلق حق‘‘ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مانا اور منوایا جاتا ہے اور اس ’’مطلق حق‘‘ سے متصادم ہر نظریے کو اور ہر فلسفے کو کھلی ضلالت؛ وَکُلُّ ضَلالَۃٍ فِی النَّار۔ آدمی کو یقین نہیں آتا کہ دنیا میں کوئی ایسا علمی جزیرہ بھی ابھی باقی ہے جہاں مسائلِ سماج میں دینِ حق کی یوں تقریر ہوتی ہے۔ جہاں سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کے تھیسس اُسی ٹھیٹ ڈسکورس پہ کھڑے ہو کر کیے جاتے ہیں جس میں مغرب کے دیے ہوئے جدید افکار تو رہے ایک طرف، تاریخ اسلامی کے جہمیہ اور خوارج اور روافض اور معتزلہ تک باقاعدہ ’ضلالت‘ کے زیرعنوان ذکر ہوتے ہیں۔  جہاں ’’ملتوں کا فرق‘‘ محمد بن عبد الوھاب کی کتب سے پڑھایا جاتا ہے اور انبیاء سے اعراض کرنے والے مذاہب اور فلسفوں کا محاکمہ ابن تیمیہ کے اصول سے۔ جدید ڈسکورس کی اتنی بڑی بغاوت دنیا میں کہیں نہ ہوگی جتنی سعودی جامعات کے اندر دن دیہاڑے ہو رہی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں سعودی عرب اپنا بہت کچھ دے کر اپنا کونسا اثاثہ ابھی تک بچاتا آیا ہے اور جس کی وجہ سے وہ اِس ’عالم نو‘ کےلیے کتنا بڑا خطرہ پالتا رہا ہے۔

*****

آپ نے دیکھا، ہم نے ’’نفاذِ شریعت‘‘ کا ذکر فی الحال یہاں نہیں کیا۔ معاذ اللہ، اس لیے نہیں کہ ’’نفاذِ شریعت‘‘ کوئی کم اہم مسئلہ ہے۔ بلکہ اس لیے کہ معاملہ اس سے بہت آگے جا چکا۔ ایک معرکے کا نقشہ اگر آپ پر واضح نہیں تو اس کو لڑنا بھی آپ کے بس میں نہ ہو گا۔

ý      جہاں تک ’’گرانے‘‘ کا تعلق ہے تو مغرب ہمارے یہاں ’’شریعت کی حکمرانی‘‘ کو بہت دیر پہلے گرا چکا۔ لہٰذا ’’گرانے‘‘ کے حوالے سے ہم جس چیز کا باربار یہاں ذکر کر رہے ہیں اور قوم کو دشمن کے حملوں اور چالوں سے باربار خبردار کر رہے ہیں وہ کوئی اور چیز ہے۔ اور وہ ہے ہمارے اِن معاشروں کا دینِ اسلام پر یقین۔ شریعت کو اپنی زندگی کا دستور ماننے کا عقیدہ۔ انبیاء سے متصادم ادیان اور فلسفوں کو باطل اور جہنم کا سامان جاننے کا اعتقاد۔ وہ ’’شریعت‘‘ کو اِس وقت اقتدار کے ایوانوں سے نہیں نکال رہے؛ کیونکہ یہ کام وہ بہت پہلے کر چکے۔ وہ تو اب ’’شریعت‘‘ کو ذہنوں سے کھرچ رہے ہیں۔ دماغوں سے نکال رہے ہیں۔  شریعت کے رہے سہے اثرات اب وہ معاشروں سے ہٹا رہے ہیں۔ شریعت کو اب وہ ہمارے سماجی نقوش ہی سے محو کر رہے ہیں۔  اِس وقت تو ان کا صاف صاف ہدف ہمارے یہ عقائد ہیں۔ ہمارے تہذیبی خدوخال ہیں جن میں ہم ابھی تک کچھ نہ کچھ مسلمان تھے۔ سارا زور اب ’’مسلمان‘‘ کو اِس مقام پر مار دینے پر ہے۔ یہاں اگر انہوں نے خدانخواستہ ’’مسلمان‘‘ کو مار دیا تو باقی خطرات ان کی راہ سے خودبخود زائل ہو جاتے ہیں۔  اور یہاں اگر ہم ’’مسلمان‘‘ کو بچانے میں کسی طرح کامیاب ہو گئے تو باقی میدان جیتنے کی بھی کسی نہ کسی دن کوئی آس ہو سکتی ہے۔ البتہ اصل توجہ اس مقام پر ہونی چاہئے جہاں وہ ہمیں ’’مارنے‘‘ کےلیے اپنا پورا زور لگا چکے  اور جہاں ہمیں ’’بچنے‘‘ کےلیے اپنا پورا زور صرف کر دینا ہے۔ ’’یہاں‘‘ سے توجہ ہٹا کر کسی اور طرف لے جانا، خواہ کسی اور سیاق میں وہ بات کتنی ہی اہم اور بابرکت ہو، اِس معرکہ میں دشمن کا وار ہم پر چل جانے کا ہی موجب ہو سکتی ہے۔

ý      اور جہاں تک شریعت کو ’’نافذ کرنے‘‘ کا تعلق ہے تو اس پوزیشن سے ابھی ہم بہت پیچھے ہیں۔ بلکہ اور بھی پیچھے دھکیلے جا رہے ہیں۔ اور دھکیل دیےجائیں گے اگر ہم اپنی پوزیشن کا صحیح تعین کرتے ہوئے، اورصورتحال کی پیچیدگیوں کا درست اندازہ کرتے ہوئے، کوئی درست حکمت عملی اختیار نہیں کرتے۔

یعنی شریعت کی حکمرانی ہم سے لے بہت پہلے گئی ہے۔ جبکہ اس کے ہمارے ہاتھ آنے کی کوئی فوری صورت بہرحال نہیں پائی جا رہی۔ البتہ جو چیز ابھی ہمارے ہاتھ میں ہے اُس پر اگر بھرپور توجہ نہ دی تو وہ ضرور ہمارے ہاتھ سے جا سکتی ہے، لا قَدَّر اللہ۔ اپنے ہاتھ کی چیز بچانا اس وقت کہیں ضروری ہے۔ اور وہ، جیسا کہ ہم نے کہا، ہمارا عقیدہ (رسول اللہﷺ کے دین سے متصادم ہر فلسفہ اور ہر تصورِ حیات کو صریح باطل وموجبِ جہنم جاننے، اور صرف ایک شرعِ محمدﷺ کو حق اور واجبِ اتباع ماننے کا ہمارا وہ ٹھیٹ پیراڈائم) ہے جسے ذہنوں سے کھرچ دینے کے منصوبے اِس وقت زوروشور کے ساتھ رُو بہ عمل ہیں۔

پس وقت ہے یہاں دینِ مغرب کے خلاف ایک نظریاتی جنگ لڑنے کا۔ ایک تہذیبی معرکے میں جا اترنے کا۔ مسجدوں، منبروں اور محرابوں کو ’’مسلَّمات‘‘ کی ایک لڑائی میں سرخرو کروانے کا۔

*****

یہاں اگر ہم اللہ کی توفیق سے کامیاب ہو جاتے ہیں... اور حالیہ سیناریو میں ان دو محاذوں پر دشمن کو پسپا کر لیتے ہیں:

1.    صلیبی و بھارتی لشکروں کو عالم اسلام کو غیرمستحکم کر دینے کے مشن میں ناکام کرکے،[1] بےنیل و مرام یہاں سے واپس بھیجنا، جوکہ کوئی چھوٹا ہدف نہیں ہے، اور اس پر ابھی وہ بےپناہ زور لگانے اور نئے سے نئے پتے پھینکنے والا ہے۔

]حالیہ سیناریو میں مسلمانوں کی بڑی جغرافیائی  اکائیوں (مسلمانوں کے وسیع رقبوں اور بڑی آبادیوں پر قائم یونٹ)، طاقتور اور اعلیٰ عسکری صلاحیت کی مالک فوجوں اور مضبوط معیشتوں کو بچا لیا جانا (خواہ مسلمانوں کی یہ اکائیاں فی الوقت کیسے ہی ’غیراسلامی نظام‘ پر کیوں نہ کھڑی ہوں (اس نقطہ کی وضاحت کےلیے براہ کرم ملاحظہ فرمائیے ہمارے اداریہ کی پچھلی فصل) ملتِ صلیب کے ساتھ ہماری جنگ کے آئندہ مراحل میں نہایت اہم ہے۔ ’’قوموں‘‘ کے اِس ٹکراؤ میں چھوٹی (اور عملاً ’مزارع‘) اکائیوں کے ساتھ پایا جانا فی الوقت موت ہے[۔

2.    ملتِ صلیب کے فکری ہراول (ہمارے یہاں کے لبرلز) کو اپنے معاشرتی محاذ سے بےنیل و مرام لوٹانا اور اپنی مادرہائے علمی میں شکست دینا۔ یہ بھی کوئی چھوٹا ہدف نہیں ہے اور اس کےلیے ہمیں یہاں کے تعلیمی اداروں میں ایک بالکل نئی تیاری اور حکمتِ عملی کے ساتھ اترنا ہو گا۔ نیز مدارس، مساجد اور منبر و محراب کو ایک نئے لہجے کے ساتھ میدان میں آنا ہو گا۔

]یہ ایک سماجی سطح کی نظریاتی جنگ ہے جو آپ کو آج ہی لڑنی ہے۔ اور اس کےلیے ’اقتدار‘ اور ’انقلاب‘ کی شرط لگانا، کہ وہ ہو تو یہاں پر ایک سماجی و تہذیبی کشمکش کھڑی کی جائے،  دراصل ایک ’یوٹوپیا‘ میں رہنا ہے۔ میں کہتا ہوں، اگر آپ کسی ’مکی مرحلے‘ کے پابند بھی ہیں، تو ایک ’’عقائدی و تہذیبی کشمکش ‘‘ فی الحال اپنے اِس ’مکی مرحلے‘ کا ہی ایک حصہ سمجھ لیجئے (جو مکہ میں کسی ’اقتدار‘ کے بغیر ہی لڑی گئی تھی) اور جو یہاں پر حملہ آور اُن عقائد (لبرلزم وغیرہ) کے ساتھ آج آپ کو لڑنا ہے جو آپ کے "أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا رسول الله" پر براہِ راست حملہ آور ہیں۔ باطل کے نظریاتی و تہذیبی حملہ کے خلاف ایک نظریاتی و سماجی مزاحمت آپ کو آج ہی لے کر آنی ہے۔ ورنہ آپ کا ’انقلاب‘ یا ’’نفاذِ شریعت‘‘ تو رہی ایک طرف، یہاں خدانخواستہ خدانخواستہ ’’ارتداد‘‘ ہی کے سرعام مظاہر ہونے لگیں گے۔ پھر جس دن مسلم پبلک ہی اللہ و رسولؐ پر ایمان رکھنے والی اور اللہ و رسولؐ سے متصادم ادیان و افکار کو اپنے ایمان کےلیے خطرہ جاننے والی نہ رہے گی تو ’اسلامی حکومت‘ کا خواب آپ کس پر پورا کریں گے!؟ صاف سی بات ہے، جس طرح آپ نے بیرونی محاذ پر ’سوویت یونین‘ سے لڑنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندرونی محاذ پر (ایک نظریاتی و سماجی سطح پر) ’سرخوں‘ کو شکست دی تھی اور مادرہائے علمی اور ثقافتی مراکز کے اندر ’’اسلام کی حقانیت‘‘ کا معرکہ جیت کر دکھایا تھا ویسے ہی آج آپ کو... جس طرح بیرونی محاذ پر صلیب اور بھارت کی جارحیت کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے ہیں، اور اللہ کا شکر ہے آپ کر رہے ہیں، اُسی طرح اپنے اندرونی محاذ پر یہاں آپ کو مغرب اور بھارت کی بولی بولنے والے (لبرل) عنصر کو نہ صرف پہچاننا ہے بلکہ یہاں کی مادرہائے علمی اور ثقافتی مراکز کے اندر اس کے نظریاتی ڈسکورس کو ایک شکستِ فاش دینی ہے۔ اور اس کے مقابلے پر ’’اسلام کے واحد حق ہونے‘‘ اور ’’اسلام سے متصادم ہر دین، ہر فلسفے، ہر نظریے، ہر نظام اور ہر تصورِ حیات کے باطل اور موجبِ جہنم ہونے‘‘ کو منوانے اور اس کی دھاک بٹھانے پر پورا زور صرف کر دینا ہے۔ مسجدوں اور محرابوں کو اِس نظریاتی و سماجی مزاحمت کا بیس کیمپ بنانا ہو گا[۔ "اسلام کا عملی قیام" البتہ اس سے بھی زیادہ اعلیٰ صلاحیتوں کا متقاضی ہو گا؛ اور زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ کام آپ اِن دو محاذوں کو سرے لگانے کے بعد ہی کسی اعلیٰ قومی سطح پر کر سکیں گے (اس پر کچھ گفتگو آگے آ رہی ہے)۔ فی الحال ان دو گھس آئے دشمنوں سے نمٹنا (ہر دو سے الگ الگ میدان میں، اور الگ الگ طریقے سے) آپ کی فوری ترجیح ٹھہرتا ہے۔ البتہ اگر آپ اِن دو محاذوں پر خدانخواستہ آج ہارتے ہیں تو  پھر یہ پوری بساط ہی آپ پر الٹ جاتی ہے۔

ان دو محاذوں پر اگر ہم اللہ کی توفیق سے دشمن کو پسپا کر لیتے ہیں... تو ان شاء اللہ یہ عالم اسلام ہمارا ہے۔ یہ ملک ہمارے ہیں اور ہم اِن کے۔ عنقریب نہ یہاں صلیبی لشکر نظر آئیں گے اور نہ لبرلز کے یہ غول۔ دونوں ’سوویت یونین‘ اور اس کے پروردہ ’سرخوں‘ کی طرح ہمارے اِس جہان سے روپوش ہو جائیں گے۔

ہاں عالمِ اسلام کی ساخت اور تشکیلِ نو ہمارے علماء اور مفکرین اور داعیوں کا ایک امتحان پھر بھی ہو گا۔ یہ قرض یوں بیٹھے ادا نہ ہو گا۔ معاشرے میں اسلام کی واپسی کسی ’آرڈینینس‘ سے یا کسی ’دستوری ترمیم‘ سے یا کسی ’نوٹیفیکیشن‘ سے ہو جانے والی ہے جبکہ آپ کی اپنی مصروفیاتِ روز و شب اور آپ کے اپنے موضوعات وترجیحات عین وہی رہیں جو آپ کے مدارس اور مساجد میں فی الوقت جاری و ساری ہیں، اس واہمے کو تو جس قدر جلد ذہن سے نکال سکیں براہِ کرم نکال دیں۔ ’’نفاذِشریعت‘‘ ایسے بےشمار پراجیکٹ تب بھی (یعنی مسلم سرزمینوں سے بھارتی و صلیبی  وصیہونی لشکروں کے یہاں سے ناکام اور ان کے پروردہ لبرل غولوں کے یہاں سے پسپا ہو جانے کے بعد بھی)... ’’نفاذِ شریعت‘‘ ایسے پراجیکٹ اسی بات پر انحصار کریں گے کہ آپ کے علماء اور مفکرین اور داعی معاشرے کے فکری وتہذیبی رجحانات پر چھانے کی صلاحیت کس درجے کی رکھتے ہیں اور ’الیکشن لڑنے‘ سے بڑھ کر ’’سیاسی عمل پر اثرانداز ہونے‘‘ کی وہ سائنس جو ائمۂ سلف کے ہاں پائی گئی تھی اس کا احیاء یہ یہاں پر کس درجہ میں کر سکتے ہیں۔ معاشرے میں شریعت کی حکمرانی کا عود کر آنا کوئی مفت میں ملنے والی چیز بہرحال نہیں ہے۔ ایک مختلف طرز کا مولوی (دینی رہنمائی دینے والا فِگرfigure ) جب تک آپ معاشرے کو نہیں دیں گے، شریعت کی حکمرانی آپ کو یہاں نہیں ملنے والی۔ تقریروں اور وعظوں اور جلسوں اور نعروں سے اگر شریعت آ جایا کرتی تو اب تک شریعت کا دور دورہ ہو چکا ہونا چاہئے تھا! کچھ کمی تو نہیں رکھی ہم نے یہ ’ضرورت‘ پوری کرنے میں! یا اپنے اِس مولوی میں کوئی تبدیلی برپا کر دیجئے تاکہ معاشرے میں کوئی حقیقی تبدیلی برپا ہو (معاشرہ تو بےچارہ آپ کا منتظر ہی ہے، آپ ہی زحمت فرمانے کےلیے تیار نہیں)[2]۔ یا اگر اِس مولوی میں تبدیلی برپا نہیں کر سکتے تو کچھ وقت لگا کر آپ ایک مختلف طرز کا مولوی یہاں پیدا کر دیجئے۔  کچھ بڑے مشائخ کو مل کر ایسا ایک ’پلانٹ‘ بہرحال لگانا ہو گا۔ لیکن ایسی کسی بنیادی تبدیلی  کے بغیر ہی معاشرہ اسلام کا گہوارہ بن چکا ہو اور ہر طرف دینِ حق کا دور دورہ ہو، جبکہ آپ کے مشغلے وہی ہوں جو اِس وقت ہیں، نیز معاشرے پر اثرانداز ہونے اور یہاں پر جاری عوامل کے اندر ایک ذہین تصرف intelligent maneuvering   کرنےکی صلاحیت آپ کے اندر یوں ہی مفقود ہو، خدارا اِس تصور سے باہر آ جائیے۔

محض ہمارے جلسے جلوس اور تقریریں کرنے اور سرکار کے ایک ’آرڈی نینس‘ اور ’نوٹی فیکیشن‘ کے ذریعے یہاں شریعت آ جائے گی، یہ تصور ناقابلِ یقین حد تک عجیب ہے۔ اس سے زیادہ عجیب تصور صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ گولی اور بم سے ہی یہاں شریعت لے آئی جائے گی!

بھائی ’’شریعت‘‘ آنا یہاں داعیوں کے ایک اعلیٰ سماجی صلاحیت سامنے لانے پر منحصر ہو گا، آج بھی، کل بھی اور پرسوں بھی۔ اس کےلیے ’شارٹ کٹ‘ لگانا اپنے مسائل میں اضافہ کرنا ہو گا۔

*****

میری ان گزارشات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک معاشرتی محاذ پر جُتے اور یہاں ایک کامیاب پیش قدمی کیے بغیر فی الحال آپ شریعت کا مطالبہ تک نہ کریں۔ میرا مطلب صرف ان چیلنجوں کو واضح کرنا ہے جو اِس وقت آپ کو عملاً درپیش ہیں اور جن پر آپ کو فوری اور بھرپور توجہ دینا ہے۔ میرا موضوع یہاں ان اہداف اور ترجیحات کا تعین ہے جن پر ’’نفاذِ شریعت‘‘ سمیت آپ کی اور بہت سی نیک مرادوں کے بر آنے کا انحصار ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں ایک پیچیدگی کی نشان دہی ضروری ہے: متعدد عوامل، نیز کچھ خرانٹ دماغوں کی تدبیر، کہ پچھلے کچھ عرصے میں ’’شریعت‘‘ کو ’’ملیٹنسی‘‘ militancy  کے ساتھ ایک غیرمعمولی حد تک جوڑ دیا گیا ہے۔ ’’شریعت‘‘ کے کیس کو دراصل یہ ایک غیرمعمولی ضرب لگائی گئی ہے، کسی جانب سے دانستہ اور کسی جانب سے نادانستہ۔ قصہ کوتاہ میڈیا کے بَل پر اذہان میں ان دو لفظوں کو کچھ لازم و ملزوم سا کر دیا گیا ہے: ’’شریعت‘‘ اور ’’ملیٹنسی‘‘۔ یہاں سے؛ مسئلہ کی حساسیت کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔  نفاذِشریعت  کےلیے آواز بلند کرنے والے روایتی طبقے اس معاملے کو توجہ نہ دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ’ملیٹنسی‘ سے الگ اپنا ایک تعارف کروانا ان کےلیے کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ خدانخواستہ، زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ بولیں گے ’’شریعت‘‘ اُدھر ذہین میڈیا کو باربار سنے گا ’’عسکریت‘‘! اس اندیشہ سے صرفِ نظر ممکن نہیں کہ مطالبۂ شریعت کے حوالے سے یہاں کے روایتی امن پسند طبقوں کی محنت عسکریت پسند طبقوں کے کھاتے میں جا پڑتی رہے۔ معاملہ واقعتاً اسی قدر پیچیدہ کر دیا گیا ہے۔

اور صرف ایک ’’شریعت‘‘ نہیں اسلام کی بہت سی باتیں اور اصطلاحیں اس وقت عسکریت کے ساتھ جوڑ کر ’خطرے‘ کا نشان بنا دی گئی ہیں۔ اس لحاظ سے؛ ان اشیاء کا وہ سیاق ہی بدل ڈالا گیا ہے جو یہاں اسلام کے کسی داعی کا مقصود ہو سکتا ہے۔ یوں سب سے بڑا نقصان اس وقت یہاں دعوت کا ہوا ہے۔  داعیوں کو دعوت کا صرف ایک مضمون ہی لوگوں کے سپردِ سماعت نہیں کرنا ہوتا؛ بلکہ ماتقدّم pre-emptive    ہو کر انہیں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ ماحول کے اندر ان کی ایک بات کس سیاق و سباق کے اندر سمجھی جانے والی ہے۔ ’کمیونی کیشن‘ کا یہ ایک لازمی و بنیادی حصہ ہے ؛ اور ’’دعوت‘‘ کامیاب کمیونی کیشن کے بغیر کچھ نہیں۔  لہٰذا توحید کے کئی ایک مضامین کو اُن کا صحیح سیاق دینا بھی اِس وقت حد سے مشکل کر دیا گیا ہے۔ دعوت کے مضامین کو اُن کا صحیح سیاق دیے بغیر؛ دعوت کے مقاصد سے برعکس نتائج سامنے آنے کا بھی کافی سے زیادہ امکان ہوتا ہے۔ جبکہ ’دعوت‘ ظاہر ہے کوئی سر سے اتارنے کی چیز نہیں بلکہ ماحول میں ایک صالح تبدیلی برپا کرنے کا نام ہے۔  یہ نہیں تو اسے ’’دعوت‘‘ نہیں محض ایک کارگزاری کہیے۔ پیچیدگیاں بڑھانا ’’دعوت‘‘ میں نہیں آئے گا۔

 ******

اس سلسلہ کے گزشتہ مضامین:



اس سلسلہ کے اگلے مضامین:




[1]  نوٹ کیا جائے، کافر کو فلسطین، افغانستان، عراق اور کشمیر وغیرہ سے محض نکال دینے کی بات یہاں نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ یہ معاملے کی ایک چھوٹی تصویر ہے، اگرچہ اپنی جگہ اہم و ضروری ہے۔ بات یہ ہے، کافر ان خطوں میں خاص ان خطوں کی خاطر نہیں ہے۔ اصل دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہاں سے عالم اسلام کی ایک نئی انجینئرنگ کرنے ]مسلم دنیا کے سب اونچے اونچے ٹیلوں کو ’ہموار‘ اور چھوٹےچھوٹے (متحارب) ’بیگھے‘ اور ’مرلے‘ بنا دینے[ میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ ہے ہماری مراد ’’صلیبی و بھارتی لشکروں کو عالم اسلام کو غیرمستحکم کر دینے کے مشن میں ناکام کرکے، بےنیل و مرام یہاں سے واپس بھیجنا‘‘ سے؛ کیونکہ اصل جنگ فی الوقت اِس کے گرد ہو رہی ہے۔

[2]  ملاحظہ فرمائیے ہمارا ایک  اداریہ (معاشرہ اسلامی تحریکوں کا منتظر) جولائی 2010۔ خصوصاً اس کی فصل (راستے جو ’’عقیدہ‘‘ سے پھوٹیں اور ’’معاشروں‘‘ سے گزریں)۔ پھر اسی اداریہ کے کچھ حصوں کی تلخیص بعنوان (سماجی کردار رکھے بغیر؟) اپریل 2012



Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز