جدید فتنۂ انکارِ حدیث.. خدشات، اسباب اور تدارک
فرقے
فتنۂ انکارِحدیث جو آج کے اس دور میں گویا کہ سر چڑھ
کر بول رہا اور ہرخاص وعام کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہے .. گو امت میں یہ نئی چیز بالکل نہیں...اور ہم علمی توارث میں جگہ جگہ اس کا
ظہور دیکھتے ہیں..مگر جس شدت کیساتھ یہ گذشتہ صدی سے امت میں درآیا ہے، اور جس طرح
اس نے امت کے مسلمات کو گڑبڑانا شروع کیا ہے .... یہ البتہ ایک ایسی شے ہے کہ جو
نئی بھی ہے اور پریشان کن بھی..سلف کے زمانے میں انکارِ حدیث ہوا ..کچھ اس وقت کے
عوام میں دینی حمیت، کچھ عصرِنبوی کی قربت ــــــــ کہ خیرالقرون کا قرب حقیقتاً فتن
سے بچنے کا ایک نہایت عمدہ ذریعہ ہے..مسلم ریاست کا مذہب کے معاملے میں تنبیہی اور
نہی عن المنکر کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کا رویہ....اور سب سے بڑھ کر علمائے
متقدمین کے علمی مجاہدات کا نور اور ان کا علمی رسوخ و تصلب....یہ وہ فیکٹرز ہیں
کہ جنہوں نے اس فتنے کو دبائے ہی رکھا..کہیں پر سر اٹھایا بھی، تو ہر رخ اور ہر
لائن سے اتنا زور پڑا کہ ریت میں دوبارہ سرچھپانا ہی مجبوری ٹھہری .. مگر یہ زمانہ جبکہ ریاست کا سایہ اسلام کے سر سے اٹھ چکا ہے اور بہت سے وہ
مسائل ......اور بہت سی وہ بلائیں کہ جنکا راستہ محض اور محض ریاست کی قوت نے روکے
رکھا تھا......آزاد ہوگئیں..آزاد ہی نہیں بلکہ درپے آزار ہوگئیں...کچھ فتنے تو
ایسے ابھرے، گویا انکی تمتماہٹ اور شان وشوکت دیکھ کر لگتا ہے کہ اسلام کی بنیادیں
ہی ان سے ہل جائیں گی.. ایسے عوامی فتنے .......کہ
جنہوں نے گونگوں کو زبان دی...اندھوں، بہروں کو جگا دیا..انہی میں سے ایک
فتنہ....جدید انکارِ حدیث ہے.. انکارِ حدیث کا فتنہ اصل میں
حدیث کو حجت نہ ماننے کا فتنہ ہے.یعنی حدیث کو مصدرِ فہم دین نہ ماننا اور دین کے
احکام لینے کے لئے حدیث کو ذریعہ نہ بنانا ہے.. منکرینِ حدیث کو ہم دو کیٹگریز میں تقسیم کریں گے.. ایک وہ.جو صاف اور صریح الفاظ
میں حدیث کی اس حیثیت کا انکار کرتے ہیں...جیسے عبداللہ چکڑالوی، غلام احمد
پرویز...وغیرہ.. جبکہ دوسری قسم کے اندر وہ
لوگ آتے ہیں، جو صریح الفاظ میں انکار تو نہیں کرتے..کہیں پر اسے دعوت الی القرآن
کے الفاظ کا لبادہ اور سہارا ملا ہے، تو کہیں پر یہ ننگ دھڑنگ الحاد کی گود میں
بیٹھ کر اپنا تعفن حدیث و سنت کے صافی چشموں میں انڈیل رہے ہیں..چونکہ چنانچہ،
اگر،مگر اور تاویلاتِ باطلہ سے کام لیتے ہیں..اس کے لئے چودہ صدیوں سے آنے والی
اصول علم حدیث اور اصول فقہ کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں..ہر
میدان میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں، جو خواہش کے مطابق ہوتا ہے، اس کو لیتے
ہیں، جو مخالف ہو، اسے بےتکلف پھینک دیتے ہیں.. یا تو محض عقل کے پجاری ہیں، پھر سلف کے اصول و ضوابط کو چھوڑ کر اپنے نئے
اصول و ضوابط وضع کرلئے ہیں.تاویل کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مکر کو چھپا رہے ہیں..اور
امت میں حدیث کی حیثیت کوگردآلود کررہے ہیں..چاہے علمی اعتبار سے ان کو منکرین
حدیث کا نام دینے میں اشکال ہو، مگر واقعاتی دنیا میں یہ پہلے گروہ سے بڑھ کر
نقصان دہ ہیں۔ کیونکہ جب ان کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ خبردار کیا جاتا ہے، تو یہ
فوراﹰ سے پیشتر کہ اٹھتے ہیں کہ جی ہم تو حدیث کو
مانتے ہیں.. دیکھیں ہم نے فلاں فلاں جگہ پر اپنی کتاب میں اتنی اتنی احادیث ذکر کی
ہیں ...جن احادیث کا تعلق اخلاق اور انسانی ذمہ داریوں سے ہے، وہاں پر یہ حدیث کو
تائید کے طور پر عام طور پر لاتے ہیں..کیونکہ یہ ان کے مطلب کی چیز ہے۔
یہی جماعت اس وقت ہمارا موضوع
ِ گفتگو ہے۔ اس قسم کے سربراہ جناب سرسید
احمد خان صاحب تھے..ان کے بعد حافظ اسلم جیراج پوری، تمنا عمادی، نیاز فتح پوری
آتے ہیں...زمانۂ جدید میں علامہ غامدی صاحب اور ان کے تلامذہ اس "مقدس
"مشن کو بااصرار جاری رکھے ہوئے ہیں.. ہمارا موضوع خاص کر اسی گروہ کے گرد گھومتا ہے..یہاں پرہم ان خدشات و اسباب
پر بات کریں گے، جو اس فتنے سے متعلق ہیں اور تدارک کی تدابیر پر بات کریں گے.. ہندوستان کے ماحول میں ہمیں
سب سے پہلے جناب سرسید احمد خان اس صف میں کھڑے نظر آتے ہیں..اگر چند الفاظ میں
سرسید کی انکارِ حدیث کی وجوہات بیان کی جائیں، تو عقل کا غلط استعمال، اصل حدیث
وفقہ سے پوری طرح عدم واقفیت، مصالح قوم کا غلبہ،استشراق سے بےجا متأثر ہونا اور
سائنسی تجزیہء کار کا عام ہونا...یہ چیزیں ہر صاحب نظر کو سر سید کے اندر پہلی نظر
میں ہی نظر آجاتی ہیں. پھر فکری اور ملکی جمیعت ٹوٹی
اور مسالک کا وجود ہوا، تو یہی فتنہ اسلم جیراج پوری، تمنا عمادی وغیرہ کی شکلوں
میں پھوٹا.. ان کی اس فکر کے پیچھے دعوت
الی القران کے علاوہ احادیث کے بارے میں پھیلائے جانے والے شکوک..جیسا کہ ڈیڑھ، دو
صدیوں کے بعد احادیث کا مدون ہونا،راویان میں تشیع کا غلبہ...جیسی باتیں بنیاد
بنیں.. تیسرا مرحلہ ہمارا موجودہ
مرحلہ ہے۔ جس کے اندر ہمارے ممدوح جناب جاوید احمد غامدی صاحب سرفہرست نظر آتے
ہیں..یہاں پر احادیث کا خلافِ قرآن ہونا، خلافِ عقل عامہ ہونا..اور سب سے بڑھکر
خود غامدی صاحب کے خود ساختہ اصولوں کے خلاف ہونا ہے۔ یہ ہمارا موجودہ مسئلہ ہے اور سر پر کھڑا دستک دے رہا ہے..کیونکہ فکرغامدی
میں ہر عصری خواہش کو پورا کرنے کا تمام مواد موجود ہے۔ خواہش سے سب سے زیادہ ٹکرانے والی چیز سنت ہے اور محترم غامدی صاحب کی سب
سے زیادہ تیشہ زنی سنت کو ہی صفِ سنت سے نکالنے پر ہے..یہاں تک کہ اب ایک مسلمان
اور کافر کے درمیان تمیز اتنی مشکل ہوگئی ہے کہ الامان والحفیظ.. جبکہ نہ لباس مسئلہ رہے..نہ
صورت شکل مسئلہ رہے..نہ معاملات میں کسی حرام بلکہ اشد الحرام سود سے بچنا کوئی
مسئلہ رہے..جب دین میں ریاست اپنی اصل شکل میں کسی کو خلاف شرع کام کرنے پر نہ ٹوک
سکے...بلکہ جب مسلمان بننے کے لئے ایمان بالرسالت ہی غیر ضروری ٹھہرے...مطلب آپ
یہودی، عیسائی رہ کر بھی (ایک خاص ماحول کے اندر) حقدار ِ جنت بنتے ہیں ...تو پھر
کہاں رہا اسلام..کہاں رہی شوکتِ اسلام.. یہ وہ خدشات ہیں، جو خدشات نہیں..واقعہ کی دنیا میں سورج کی طرح واضح روپ
دھارے دِکھ رہے ہیں.. سوال یہ نہیں کہ المورد والے
مخلص نہیں..ان کے اخلاص پر شک کی کوئی ضرورت نہیں..ان کے رجوع الی القرآن کی دعوت
بہت عمدہ..دین کو قابلِ فہم اور معقولی بنانے کی کوشش...کوئی شک نہیں کہ یہ ان کے
مقاصد ہوسکتے ہیں..قرآن کو ہی دین کی بنیاد بنانے اور فہمِ دین کا مصدر بنانے کا
نعرہ بھی بہت خوبصورت ہے.. افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ ان
حضرات کی کوششوں سے جیسا دین کا حلیہ بگڑا..اور حدیث کی تشریعی حیثیت متأثر ہونے
سے دین کی بنیادیں جیسی کمزور پڑ رہی، اور وہ ایک دین کی جو چاردیواری چودہ صدیوں
سے بن گئی تھی کہ جس کو دور سے ہی دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ یہ اسلام ہے۔ اس کی
اپنی ایک پہچان، ایک خاص ٹرمنالوجی اورا یک خاص آئیڈیالوجی ہے....ان حضرات کی
کوششوں سے یہ سارا کچھ ریت کے گھروندوں کی طرح منہدم ہوتا اور ہاتھ سے پھسلتا ہوا
محسوس ہورہا... نفسانیت اور خواہش ..جو براہ
راست سنت سے ٹکراتے ہیں ..سنت کو درمیان سے ہٹا کر اسلام کی ایک ایسی من چاہی شکل
بنادی گئی ہے اور بنائی جارہی ہے کہ جہاں آپ کچھ بھی کرکے، کچھ بھی بول کر، کچھ
بھی بنکر مسلمان ہی رہتے ہیں..وہ سیکولرازم اور لبرل ازم ...جنکی جڑوں میں
خدابیزاری اور دین بیزاری ہے..جنکی جڑوں میں ہیومنزم کا تازہ انسانی خدا ...جنکی
باہوں میں نیشن سٹیٹس کے برچھے ہیں، یہ ساری اتنی آسانی سے اور اتنی ہوشیاری سے
دین میں داخل کی جارہی اور نفوذ کرتی جارہی...کہ اچھے بھلے انسان کو بھی جب بتایا
جاتا ہے کہ آپ جانتے بھی ہیں کہ یہ کیا چیز ہے؟ اسلام کی ٹھیٹھ تعلیمات کے مطابق
تو یہ شرک کی کسی قسم سے ہی تعلق رکھتے ہیں، تو وہ چونک اٹھتا ہے ایکدم...وہ آپ کا
منہ نوچنے کے لئے تیار ہوگا کہ نہیں جی...یہ تو عین اسلام ہے.. جب آپ چودہ صدیوں کی ساری
اصطلاحات پر پانی پھیر دیں گے اور ادھر آپ ایک مغلوب،احساسِ کمتری میں مبتلا
تہذیب، ایک مری ہوئی قوم کے مالک اور حامل ہوں گے اور آپ کا دین کسی مائع کی مثل
ایک ایسی سیال شے ہے، کہ اسے جس برتن میں ڈالا جائے، یہ اس کی شکل ہی، اس کی ہیئت
ہی اختیار کرلیتی ہے.....تب غالب تہذیبیں اور غالب اقوام آپ کے وجودِفکری اور
تشخصِِ دینی کا وہ جنازہ نکال دیگی، کہ صدیوں نہیں...شاید چند دہائیوں بعد ہی اس
تہذیب اور اس قوم کا نشان مٹ جائیگا..بس شخصی آزادی کے نام پر وہ چند رسوم، جنھیں کوئی
روکنے کی ضرورت اس لئے بھی محسوس نہیں کریگا کہ جی یہ تو ایزی فیل کرنے اور سکون
حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے..اور بس......
گویا جو شرارِ بولہبی ازل سے، روزِ اول سے
خداپرستوں سے ستیزہ کار رہا ہے اور اپنی انتہائی چاہت، انتہائی کوشش اور جان توڑ
محنتوں کے باوجود اس دین کو مٹانے اور بگاڑنے میں ناکام رہا ہے، وہ خواب، جو کبھی
اس نے اپنا سارا جاہ وحشم خرچ کرکے بھی پورا ہونے کا نہیں سوچا تھا، وہ گویا کسی
پکے پھل کی طرح، خود ہم نے ہی اسکی جھولی میں ڈال دیا ہے..بلا کچھ کئے، ہاتھ پاؤں
ہلائے، ایک دمڑی بھی خرچ کئے بغیر...بشرطیکہ مان لیا جائے کہ ان "مصلحین
"کے پیچھے اس طرح کی کوئی چیز نہیں..اور واقعاتی شہادتوں کو بھی محض حسنِ ظن
کی بنیاد پر جھٹلایا جائے..یہ گویا ایسی خدمت ہے کہ جو آج خود مسلمانوں کے ہاتھوں
انجام دی جارہی ہے۔ جاہلیت جدیدہ کی ساری شکلیں،
جنکا اسلام اول وہلے، پہلے قدم پر انکار ہی اپنے وجود اور حیثیت کی یاددہانی کا
راستہ بناتا ہے..اس کو اپنے ہی اندر سے بیساکھیاں فراہم کی جارہی...اور سمجھا یہ
جارہا کہ دین کی خدمت ہورہی ہے..
یہ دیکھے بغیر کہ ان چیزوں
کی، جنکی طرف آپ شدومد سے بلا رہے ہو اور انہیں ہی اسلام کا حقیقی چہرہ بتلا ہے
ہو...کی تعمیم سے اسلام کا وہی چہرہ بنے گا، جسے جاہلیتِ جدیدہ کے یہ معمار چاہتے
ہیں.. کیا یہ حقیقت نہیں کہ یورپ سے
پوری تاریخ میں بھی اسلام کو یہ...اور ایسا نقصان کبھی نہیں پہنچا تھا کہ اسلام ہی
پہنچایا نہ جاسکے.. بےشک مسلمانوں کے ساتھ بہت
کچھ ہوا..بہت کچھ کیا گیا..مگر اسلام محفوظ ہی رہا.. کیا پتہ تھا کہ اسلام کی یہ درگت خود کو مسلمان کہلوانے والوں کے ہاتھوں
بنے گی.. فیا اسفی.. سوال جو ہم قارئین سے کرنا
چاہتے ہیں...وہ یہ کہ کیا یہ سب کچھ اتفاقی ہے؟
اس حقیقت سے اغماض بھی غلط ٹھہرے
گا کہ ہمارا نوجوان طبقہ اس فتنے کی طرف بڑی تیزی سے متوجہ ہورہا ہے..اور اصل حیرت
تب ہوتی ہے جب ایسے فاضلین کو دیکھتے ہیں، جنکے ساتھ کسی ٹھیٹھ روایتی ادارے کی
سند بھی ملحق ہوتی ہے...مگر وہ باغ المورد سے خوشہ چین ہوتے ہیں.. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر
وہ کیا وجوہات ہیں، جنکی بنیادوں پر یہ فتنہ برپا ہوا اور بڑھتا چلا جارہا.. مجھے کہنے دیں کہ اس کے ذمہ
دار خود ہمارے روایت پسند طبقے ہیں.. ہندوپاک کی فضا میں روایت پسند طبقوں سے مراد قرآن وحدیث سے براستہ فقہاء تمسک
کرنے والے دیوبندی وبریلوی مسالک اور قرآن وحدیث سے براہ راست تمسک کرنے والے یعنی
اہل حدیث وسلفی مسلک.. ہم ہر دو طبقوں کو اس جرم میں
شریک سمجھتے ہیں۔ طبقہء فقہاء کے اندر جمودی تقلید نے جس طرح ذہنوں کو باندھا تھا،
گو ریاست کی جبر نے کسی حد تک لوگوں کی زبانیں بند رکھی تھی...مگر جب ایک طرف
ریاست کا جبر ہٹا.. دوسری طرف آزادی ملی..تیسری طرف مطالعہء حدیث کی یہ آواز لگی
کہ فقہاء اور شخصیات کو چھوڑ کر براہ راست مصادرشریعت سے دین لو..تب ہمارے مدارس
کے فضلاء، جن کو مؤطا امام محمد اور طحاوی صرف دکھانے واسطے دی جاتی ہے..جبکہ
دوسری طرف وہ تمام کتب جو احناف کی مسائل کے خلاف احادیث سے بھری ہوئی ہیں، ان کو
پڑھائی جاتی ہیں... پھر جب ہر بات پر وہ دیکھتے ہیں کہ جی بخاری یہ کہہ رہا، مسلم
یہ کہہ رہا ..ابن ماجہ یہ کہہ رہا..اور احناف کا مسلک اس کے بالمقابل یہ ہے، تو
چونکہ امام صاحب کی استناد کا علم تو ہے نہیں...اب اگر عقیدت مند ہے، تب تو یہ
یقین کرلے گا کہ امام صاحب کے پاس اس سے بہتر دلیل ہوگی ..اور کسی مسئلہ کا حدیث
کی ان کتابوں میں نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ دوسری کتب میں بھی مذکور نہ
ہو.....یہ سمجھ کر چپ رہیگا.. لیکن اگر بچہ ذہین ہے.. ذہن
پر اطاعت سے زیادہ شرارت سوار ہے.. عقل کے راستے اس الجھن سے نکلنا چاہتا ہے.. آپ
کی درسی تقریر سے مطمئن نہیں ہورہا، تو اب اس کے لئے آپ نے کیا کیا ہے؟ آپ نے ابن
حجر کی ایک کتاب اصل حدیث پر بھگاتے بھگاتے نکال دی ہے..آپ نے اصول فقہ کی صدیوں پرانی
کتاب، ادق زبان کی حامل، صدیوں پرانے طریقے سے پڑھائی..نہ تطبیق دی ..نہ ان پر
احکام کی تفریع کرائی ..کہ آپ کا بچہ صرف ذہنی انتشار کا شکار ہوگیا ہے.. اب جب کوئی انشاء پرداز، کوئی
ادیب قلم کار، منکرِ حدیث (مذکورہ بالا تشریح کے مطابق)
لکھتا ہے، تشکیک کے تار وپود کو الفاظ کا لبادہ پہناتا ہے..شک کے برہنہ وجود پر
تاویل کی دسیسہ کاری کرتا ہے..اس کی زبان بھی عام فہم ..اس کا طرز بھی دلنشین، اس
کا انداز بھی جدید..وہ باڈی لینگویج سے باخبر، الفاظ کی بُنت کا ماہر...تو آپ کایہ
نوخیز طالب علم ..یہ مدرسہ سے تازہ فارغ التحصیل، اس کی مادی زندگی کی رنگینیوں کو
دیکھتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ یہ حضرت علامہ بھی کہلاتے ہیں..زندگی میں کوئی قید بھی
نہیں..ہٹوبچو کا شور بھی ہرطرف سے اٹھتا ہے۔ قدامت پرستی کا طعنہ بھی نہیں لگ رہا.. خود ملک عزیز کے اندر اسلام
پسندوں اور دیندار طبقے کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت......یہ ساری چیزین اسے اٹھا
کر، اس تجدد پسند کی گود میں ڈال دیتی ہیں۔ مجھےکہنے دیجئے کہ آپ نے نہ
اسے اصول فقہ پر تطبیق دی، نہ اصول حدیث کی تحقیق کرائی..نہ احناف کے اصول ِ اخذ
حدیث، ترکِ حدیث سکھائے..تو جب وہ ہر جگہ پر، ہر حدیث کے مباحثے کے دوران یہ الفاظ
سنتا ہے کہ یہ مذہب فلاں کا ہے..یہ مذہب فلاں کا ہے..اس کے مقابلے میں احناف کا
کہنا یہ ہے، تو یہ نوخیز بچہ دل ہی دل میں یہی سمجھتا ہے کہ گویا احناف حدیث کے
منکر ہیں۔ تو اصول پر گرفت نہ ہونے کے
باعث وہ اٹھ کر جاتا ہے اہل حدیث کے پاس..کہ جی یہ تو عامل بالحدیث ہیں..لیکن جب
یہاں آکر وہ دیکھتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے بلاتکلف حدیث پڑھو.. اب جب کتابوں کے
اندر اس کا مطالعہ بڑھتا ہے، تو اس کو نظر آتا ہے کہ یہاں پر تو بہت زیادہ احادیث
ایسی ہیں کہ جنکا رد خود اہل حدیث کے عمل سے ہورہا ہے.. تو وہ ایکدم سے جھنجھلا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ جب ان "چکنے چکنے
"منکرین کو دیکھتا ہے، ان کی مادی کروفر کو دیکھتا ہے، ان کے لباس، حلئے کو دیکھتا ہے، تو بےاختیار لپک کر جاتا ہے اور ان کے گلے لگ
جاتا ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ احناف کے
مدارس میں کتب اخلاق وتربیت کا آخر میں پڑھانا بلکہ بھگانا ...طلبہ کو مادیت کے مقابلے
میں ان کی زندگی کے بہترین آٹھ دس سال گذارنے کے بعد بے سہارا، ٹامک ٹوئیاں مارنے
کے لئے چھوڑ جانا.. اسی طرح اہل حدیث اور سلفی
حضرات میں عوامی سطح پر عامۂ فقہاء پر رد، قلبی واردات سے فرار اور امور قلبیہ کی
طرف سے عدم اعتناء ایسی چیزیں ہیں، جو ہمارے بچوں کو ہم سے چھین رہی ہیں.. انکار
حدیث، جس کی جلومیں اورجس کے آگے پیچھے مادیت ہی مادیت چھپی ہوئی ہے، الحاد ہی
الحاد اور زندقہ ہی زندقہ.. مین پوری بصیرت سے سمجھتا ہوں
کہ اگر تو ہم نے اپنے طلباء کو اصول حدیث، فقہ،اور اصول تفسیر کی تیسیر کرائی ..ان
کی اخلاقی، روحانی تربیت کی، ان کے سامنے احناف کے اخذ حدیث اور ترک حدیث کی عملی
تطبیقات بیان کیں، پھر ان کے معاش کی بھی فکر کی..تو ان شاءاللہ میدان ہمارے ہاتھ
رہیگا.. یہ ہوا، تو بہت عمدہ..ورنہ تو
کھلی آنکھوں سے الحاد وزندقہ آپ کے انہی روایت پسند طبقات سے نکلتا دیکھائی دے رہا
ہے.. سو اے صاحبان ..یہ دہائی ہے دردِ دل کی.. خدا کرے سمجھے کوئی..