فصل39
حدود قائم کرنے میں، کمزور اور طاقتور کی تفریقہماری نئی تالیف
اسی ضمن میں نبیﷺ کی یہ تنبیہ آتی ہے کہ: ہم پچھلی امتوں کا وہ وتیرہ اختیار نہ کریں جو اُن کے ہاں خدا کی حدیں قائم کرنے میں روا رکھا جاتا۔ یعنی اونچے گھرانوں کےلیے الگ دستور اور نچلے طبقوں کےلیے الگ۔ آپﷺ کی تعلیم تھی: سب کے مابین برابری رکھو۔ گو بہت سے سیاسیات و سماجیات کے ماہرین یہ خیال کرتے ہیں کہ سربراہانِ مملکت کو قانون سے چھوٹ حاصل ہونی چاہئے۔
صحیحین میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کر لی تو اسامہ رسول اللہﷺ کے پاس اُس کےلیے سفارش کر بیٹھے۔ تب آپﷺ نے غضبناک ہو کر فرمایا:
يا أسامة أتشفع في حد من حدود الله ؟ ! إنما هلك بنو إسرائيل أنهم كانوا: إذا سرق فيهم الشريف تركوه، وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد، والذي نفسي بيده لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها
اے اسامہ! کیا تم اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کے اندر سفارش کر رہے ہو؟ بنی اسرائیل اسی لیے تو ہلاک ہوئے تھے کہ جب کوئی اونچا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کر دیتے۔ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کر لیتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹتا۔
بنی مخزوم قریش میں چوٹی کے خانوادوں میں سے ایک تھا۔ ان پر یہ بہت گراں تھا کہ اس خاندان کی ایک شریف زادی ہاتھ کٹوا بیٹھے۔ اس پر سفارش آئی تو نبیﷺ نے امتوں کی بربادی سے متعلق ایک قانون بیان فرما دیا: بنی اسرائیل کی ہلاکت کا ایک باقاعدہ سبب ہی یہ تھا کہ اونچی کلاس کے لوگوں کو یاں مخصوص طور پر سزاؤں سے معافی حاصل رہتی۔ چنانچہ اس مسئلہ کی سنگینی یوں بیان فرمائی کہ یہاں تو آپؐ کی اپنی صاحبزادی بھی (معاذاللہ) کوئی ایسا جرم کر لیں تو انہیں کوئی استثناء نہ ملے کجا یہ کہ کوئی اور عورت۔
یہی مضمون ہمیں صحیحین کی اس روایت میں ملتا ہے، جوکہ حضرت براء بن عازب سے مروی ہے:
مر على النبي صلى الله عليه وسلم بيهودي، محمَّم مجلود، فدعاهم، فقال: "هكذا تجدون حد الزاني في كتابكم ؟" قالوا: نعم. فدعا رجلا من علمائهم قال: "أنشدك بالله الذي أنزل التوراة على موسى، أهكذا تجدون حد الزاني في كتابكم ؟" قال: لا، ولولا أنك نشدتني بهذا لم أخبرك، نجده: الرجم، ولكنه كثر في أشرافنا، فكنا إذا أخذنا الشريف تركناه، وإذا أخذنا الضعيف أقمنا عليه الحد، فقلنا: تعالوا فلنجتمع على شيء نقيمه على الشريف والوضيع، فجعلنا التحميم والجلد مكان الرجم فقال صلى الله عليه وسلم: "اللهم إني أول من أحيا أمرك، إذ أماتوه". فأمر به فرجم، فأنزل الله تعالى: {يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ} إلى قوله: {إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ}.
يقول: ائتوا محمدا فإن أمركم بالتحميم والجلد فخذوه، وإن أفتاكم بالرجم فاحذروا، فأنزل الله تعالى: {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدة: 44). وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (المائدة: 45). وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (المائدة: 43)} في الكفار كلها ".
نبیﷺ کے پاس سے ایک یہودی کو لے کر گزرا گیا، جس کا منہ کالا کر رکھا اور اسے کوڑے مارے گئے تھے۔ آپﷺ نے ان کو طلب فرمایا اور پوچھا: کیا زانی کی ایسی ہی حد تم اپنی کتاب میں پاتے ہو؟ کہنے لگے: جی۔ تب آپﷺ نے ان کے علماء میں سے ایک شخص کو بلایا اور فرمایا: دیکھو میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے توراۃ موسیٰؑ پر اتاری، کیا زانی کی ایسی ہی حد تم اپنی کتاب میں پاتے ہو؟ وہ بولا: نہیں۔ آپ نے مجھے وہ قسم نہ دی ہوتی تو میں آپ کو ہرگز مطلع نہ کرتا۔ پاتے تو ہم رجم (سنگسار کرنا) ہی ہیں۔ مگر یہ (جرم) ہماری اونچی کلاس میں عام ہو گیا تو ایک اونچے آدمی کے گرفتار ہونے پر ہم اسے چھوڑ دیتے اور کوئی کمزور پکڑا جاتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ تب ہم نے کہا: آؤ کسی ایسی شےء پر اتفاق کر لیں جسے اونچے اور کمزور دونوں پر نافذ کر سکیں۔ تب ہم نے رجم کی جگہ منہ کالا کرنا اور کوڑے مقرر کر لیے۔ تب نبیﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ میں وہ پہلا شخص ہوں جو تیرے دستور کو زندہ کرتا ہے جبکہ وہ اسے موت کی نیند سلا چکے‘‘۔ تب آپﷺ نے حکم دیا اور اسے سنگسار کر دیا گیا۔ تب اللہ نے یہ آیات اتاریں: يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ سے إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ تک۔
( إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا’’ کہتے ہیں یہ حکم تمہیں ملے تو مانو اور یہ نہ ملے تو بچو‘‘ کی تفسیر میں) حضرت حذیفہ کہتے ہیں: مراد یہ کہ محمدؐ کے پاس جاؤ۔ اگر وہ بھی منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کا ہی فرمائیں تو اسے اختیار کر لو۔ اور اگر رجم کا فتویٰ دیں تو بچ نکلو۔ تب اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں: وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدة: 44) ’’جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے کے مطابق فیصلے نہ کریں بس وہی کافر ہیں‘‘۔ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (المائدة: 45) ’’جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے کے مطابق فیصلے نہ کریں بس وہی ظالم ہیں‘‘۔ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (المائدة: 43) ’’جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے کے مطابق فیصلے نہ کریں بس وہی فاسق ہیں‘‘۔ یہ سب (آیتیں) کافروں پر ہی ہیں۔
(کتاب کا صفحہ 471 تا 490)