فصل37
اہل کتاب کی طرح، دلوں پر کلامِ خداوندی کی ہیبت جاتی رہنا
ہماری نئی تالیف
ابن
تیمیہ نکتہ اٹھاتے ہیں: ایک چیز قرآن میں ویسے بھی ذکر کی جا سکتی تھی۔
مگر وہ خاص اِس سیاق میں لاکر فرمائی گئی کہ دیکھنا اہل کتاب کی طرح نہ ہوجانا۔ جس
سے ایک تو اہل کتاب کے ساتھ مماثلت ہو جانے سے ڈرنے اور ہوشیار رہنے کا سبق ملا؛
جوکہ اصل ہے۔ دوسرا، اس خاص مسئلہ کا علم ہوا جس نے اہل کتاب کی لٹیا ڈبوئی تھی؛
یعنی دلوں سے وحیِ خداوندی کی ہیبت چلی جانا۔ چنانچہ سورۃ الحدید میں فرمایا:
أَلَمْ
يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّـهِ وَمَا
نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ
فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ
مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ (الحدید: 16)
کیا ابھی تک مومنوں کے
لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد کرنے کے وقت اور (قرآن) جو (خدائے) برحق (کی
طرف) سے نازل ہوا ہے اس کے سننے کے وقت ان کے دل نرم ہوجائیں؟ اور یہ اُن
لوگوں کی طرف نہ ہوجائیں جن کو (ان سے) پہلے کتابیں دی گئی تھیں: کہ جب ایک
لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے۔ اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔
یہ
چیز جسے قرآن میں ’’دلوں کی سختی‘‘ کہا گیا، اہل کتاب کے حوالے سے
(ہمارے لیے بطورِ تنبیہ) کئی مقامات پر ذکر ہوئی:
ثُمَّ
قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ
قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ
الْأَنْهَارُ ۚوَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ
الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ
اللَّـهِ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (البقرۃ: 74)
مگر ایسی نشانیاں دیکھنے
کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرف سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان
سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے
پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف
سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے اللہ تمہارے کرتوتوں سے بےخبر نہیں ہے۔
فَبِمَا نَقْضِهِم
مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ
قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن
مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا
بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا
قَلِيلًا مِّنْهُمْ
(المائدۃ: 13)
تو ان لوگوں کے عہد توڑ
دینے کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا۔ یہ اللہ کی باتوں
کو ان کے ٹھکانوں سے بدلتے ہیں اور بُھلا بیٹھے بڑا حصہ ان نصیحتوں کا جو انہیں دی
گئیں اور تم ہمیشہ ان کی ایک نہ ایک دغا پر مطلع ہوتے رہو گے۔
اِس ’’دلوں کی سختی‘‘ کا ایک
سبب جو اوپر آیت المائدہ میں بیان ہوا وہ ہے: خدا کی نافرمانیوں کا چلن اختیار کر
نا اور خدا کا عہد توڑ دینا۔ یہ یہود کا حال رہا۔ جبکہ نصاریٰ کے ہاں آنے والی
’’سختی‘‘ ایک دوسری جہت سے تھی۔ سورۃ الحدید ہی میں آگے چل کر ایک اشارہ ملتا ہے
کہ: اس کا ایک اور سبب دین میں ان کا سختی اختیار کرنا ہے۔ چنانچہ
فرمایا:
وَرَهْبَانِيَّةً
ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّـهِ
فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ
رِعَايَتِهَا (الحدید: 27)
اور رہبانیت انہوں نے خود
ایجاد کرلی، ہم نے اُسے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں
انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا وہ بھی ادا
نہ کیا۔
اِسی نکتہ کی تائید میں، پھر ابن تیمیہ سنن ابی داود کی یہ حدیث لے کر آتے
ہیں:
عن سهل بن أبي أمامة، أنه
دخل هو وأبوه على أنس بن مالك بالمدينة، في زمان عمر بن عبد العزيز وهو أمير
بالمدينة، فإذا هو يصلي صلاة خفيفة، كأنها صلاة المسافر أو قريبا منها، فلما سلم
قال: يرحمك الله، أرأيت هذه الصلاة المكتوبة أم شيء تنفلته ؟ قال: إنها
للمكتوبة، وإنها لصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: { لا
تشددوا على أنفسكم فيشدد الله عليكم، فإن قوما شددوا على أنفسهم فشدد الله
عليهم فتلك بقاياهم في الصوامع والديارات رهبانية ابتدعوها، ما كتبناها
عليهم } .
حضرت سہل بن ابی امامہ سے روایت ہے کہ وہ اور ان کے والد حضرت انس بن مالک کے ہاں حاضر ہوئے، جب آپؓ عمر بن عبد العزیزؒ کے دور میں مدینہ کے گورنر تھے۔ دیکھ کہ آپ ہلکی نماز پڑھ رہے ہیں، گویا مسافر کی نماز یا اس سے قریب کی صورت ہو۔ جب سلام پھیرا تو عرض کیا: اللہ آپ پر رحمت فرمائے، کیا یہ فرض نماز ہے یا آپ نے کوئی نفل وغیرہ پڑھے ہیں؟ فرمایا: فرض۔ اور رسول اللہﷺ کی نماز بھی ایسی ہی تھی۔ آپﷺ فرمایا کرتے: اپنے آپ پر سختیاں مت کر لینا؛ تب اللہ بھی تم پر سختیاں کر ڈالے گا؛ کیونکہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختیاں کی تھیں تو اب دیکھ لو ان کی باقیات ان خانقاہوں اور دَیروں میں (اور یہ آیت پڑھی): وَرَهْبَانِيَّةً
ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ ’’اور رہبانیت (کی
بدعت) جو انہوں نے اپنے پاس سے گھڑ لی ہم نے ان پر فرض نہ کی تھی‘‘۔
ابن تیمیہ کہتے ہیں: یہ وجہ ہے کہ سورۃ الحدید کے اختتام پر رسولِ آخرالزمانﷺ کا دامن پکڑنے کی جو خصوصی تلقین ہوئی:
يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ
كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ
لَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ لِّئَلَّا
يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّن فَضْلِ
اللَّـهِ ۙ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ
ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحدید: 27)
اے ایمان والو! اللہ سے
ڈرو اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ عطا فرمائے
گا اور تمہیں وہ نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو، اور تمہارے قصور معاف کر دے
گا، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ یہ اس لیے کہ اہل کتاب جان جائیں کہ
اللہ کے فضل کی کسی چیز پر ان کا قابو نہیں اور یہ کہ فضل اللہ کے ہاتھ ہے دیتا ہے
جسے چاہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
تو یہاں اہل کتاب کے ان ہر دو رویے سے بچنا آگیا۔ اور یہاں رسول آخر الزمانﷺ کی امت کے حق میں وہ نورِخداوندی مکمل اور رحمتِ خداوندی دوچند ہوجاتی ہے؛ جس سے اہل کتاب نبی آخرالزمانﷺ کا دامن نہ تھامنے کے باعث خالی رہتے ہیں۔
(کتاب کا صفحہ 471 تا 490)