فصل36 فتنۂ زن و زر؛ جس کے ہاتھوں پہلی امتیں ہلاک ہوئیں
ہماری نئی تالیف
فی حدیث عمرو بن عوف، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: فوالله ما الفقر أخشى عليكم، ولكن أخشى عليكم أن تبسط الدنيا عليكم، كما بسطت على من كان قبلكم، فتنافسوها، كما تنافسوها، فتهلككم كما أهلكتهم. (متفق عليه)
عمرو بن عوف کی حدیث میں: نبیﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم مجھے تم پر غربت کا ڈر نہیں۔ مجھے ڈر ہے تو یہ کہ تم پر دنیا کے دروازے کھل جائیں جیسے تم سے پہلوں پر کھلے تھے۔ تب تم بھی اس میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرو جیسے تم سے پہلے اس میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگے تھے۔ تب یہ تمہیں بھی ہلاک کر ڈالے جیسے یہ تم سے پہلوں کو ہلاک کر چکی ہے۔
وفی حدیث أبي سعيد، عن النبي صلى اللہ علیہ وسلم، أنہ قال: { إن الدنيا حلوة خضرة، وإن الله سبحانه مستخلفكم فيها، فينظر كيف تعملون؟ فاتقوا الدنيا، واتقوا النساء فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء (رواہ مسلم)
ابو سعید خدریﷺ کی حدیث میں، نبیﷺ نے فرمایا: دنیا ایک بڑی مزے کی، لہلہاتی چیز ہے اور اللہ تمہیں اس میں اختیار دے کر چھوڑ رکھنے والا ہے کہ دیکھے تم (اس میں) کیا کرتے ہو۔ پس دنیا سے بچو، اور عورتوں سے بچ کر رہو۔ کیونکہ بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں کے معاملہ میں ہی تھا۔
اس مضمون کی کچھ مزید احادیث لانے کے بعد ابن تیمیہ کہتے ہیں: اہل کتاب کی مشابہت اختیار کرنے کے بہت سے کام، خواہ وہ ان کے تہواروں کے معاملہ میں ہو یا دوسرے امور میں، مسلم معاشروں کے اندر زیادہ عورتوں کی تحریک پر ہی انجام پاتے ہیں۔
ابن تیمیہ کے اِس قول پر، کتاب کے محقق شیخ ناصر العقل حاشیہ لگاتے ہیں:
مراد یہ کہ عورتیں پرائی ملت کی رِیس اور مشابہت کرنے میں سب سے پہلی اور اس کی سنگینی کا ادراک کرنے میں سب سے آخری مخلوق ثابت ہوتی ہیں۔ فرد اور معاشرے پر اس کے کیسے بھیانک اثرات مرتب ہوں گے؟ اور دین و دنیا میں یہ عمل کیسی تباہ کاریاں لانے والا ہے؟ یہ اندازہ کرنے میں عورتیں (بالعموم) سب سے پیچھے ہوتی ہیں۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں، بدقسمتی سے مغربی فیشنوں اور ماڈلوں کے پیچھے جانے میں ہماری عورتیں سب سے آگے ہیں۔ کافر (مغربی یا ہندو) معاشروں سے در آنے والے طوراطوار اور رسم رواج کو اپنانے میں عورتیں سب سے بڑھ کر محرک ہوتی ہیں؛ جس کے زیرِاثر یہ (درآمدشدہ طوراطوار) نسل نو کی گھٹی میں بیٹھتی چلے جاتے ہیں۔ معاشرے کے یہ طبقے کافر معاشروں کی کوئی اچھی چیز تو شاید ہی کبھی لیں، بری چیزیں البتہ دھڑادھڑ لی جا رہی ہوتی ہیں۔
(غرض عورتیں، اور ان کے زیراثر قوم کی الہڑ نسلیں، رہن سہن کے باب میں مغضوب علیہم اور ضالین کی راہ پر آسانی سے جا پڑیں گی۔ جبکہ اہل دانش طبقے فلسفے، افکار اور نظریاتی بدعات و تفرقہ کے باب میں اہل کتاب کے ڈھنگ اختیار کریں گے)۔
اس (فتنۂ زن و زر) کے علاوہ جاہ پرستی اور اقتدار کی دوڑ کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں کہ پہلی امتوں میں اِس چیز نے لوگوں کو آسمانی ہدایت پر چلنے کی روش سے دور کر ڈالا تھا۔ اِس نے اسلامی تاریخ میں بھی جو جو نقصان کیے وہ لائقِ توجہ ہیں۔
اِس (فتنۂ زن و زر و جاہ) کی بابت ابن تیمیہ کہتے ہیں: یہ سب سورۃ التوبۃ کی اس آیت کے تحت مندرج ہو سکے گا: فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ ’’تم نے بھی اپنے حصے کے مزے اسی طرح لوٹے جیسے اُن (تم سے پہلوں) نے لوٹے تھے‘‘۔
(کتاب کا صفحہ 471 تا 490)