فصل35 اختلاف و تفرقہ
ہماری نئی تالیف
قرآن مجید میں نبی آخر الزمانﷺ کی امت کو اہل کتاب کے اس مہلک رویے سے یوں متنبہ کیا گیا:
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (آل عمران: 105)
تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈاﻻ، اور اختلاف کیا، انہیں لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔
قرآن مجید میں ’’اختلاف‘‘ دو انداز کا ذکر ہوا ہے:
قرآن میں مذکور اختلاف کی پہلی قسم:
) جس میں اختلاف کرنے والے دونوں ہی فریق مذموم ہوتے ہیں (
یہ قرآن مجید کے اِس مقام پر مذکور ہوا:
وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ. إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ ۚ (ہود: 118۔119)
وہ ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے۔ مگر جن پر تمہارے رب نے رحم کیا۔
یعنی ایک تو وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت سے اِس اختلاف سے بچ گئے۔ باقی سب اس اختلاف اور سر پھٹول ہی میں رہیں گے اور ان کا معاملہ کبھی سرے نہ لگے گا۔ یعنی یہ وہ اختلاف ہوا جس میں اختلاف کے سب فریق ہی مذموم ہیں۔ یہ وہ اختلاف نہیں جس میں ایک فریق صحیح اور ایک فریق غلط ہو۔ بلکہ سب کے سب غلط ہوتے ہیں۔
اس (اختلافِ مذموم) کی وجہ:
ö کسی وقت فسادِ نیت۔ یعنی نفوس میں پایا جانے والا بغی و حسد۔ ایک دوسرے پر بالاتر ہونے اور دوسرے کو مات دینے کا جذبہ،
ö تو کسی وقت ہردو فریق کا اس معاملے کی حقیقت سے جاہل ہونا جس میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہوتے ہیں،
ö یا اُس دلیل سے جاہل ہونا جس کی جانب معاملے کا ایک فریق دوسرے کی راہ نمائی کر سکے۔
ö یا ہر دو فریق کا اس بات سے جاہل ہونا کہ (اس مسئلہ میں) دوسرے کے پاس بھی کچھ حق ہے۔
اِس اختلاف کی عملاً دو صورتیں ہیں: (أ) اختلافِ تنوع میں فساد اٹھانا اور (ب) اختلافِ تضاد میں پڑنا۔ ذیل میں ان دونوں کی کچھ تفصیل کی جاتی ہے:
أ۔ اختلافِ تنوع میں فساد اٹھانا:
یعنی
ö کسی وقت ہر دو فریق ہی کا قول یا فعل حق ہوتا ہے، مگر وہ پھر بھی جھگڑتے ہیں۔ یہاں ان کا قابل مذمت ہونا ’اختلاف‘ کر لینے کے باعث نہیں بلکہ ’’اختلاف میں فساد اٹھانے‘‘ کے باعث ہے۔ اِس (اختلافِ تنوع) کی مثال: جیسے قرآن مجید کی متعدد قراءتیں۔ یا اذان کی یا اقامت کی ایک سے زیادہ صورتیں جو نبیﷺ سے ماثور ہیں۔ یہ سب کی سب شریعت میں وارد ہیں۔ ایسے مسائل میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز دوسری سے افضل ہو، تاہم ایسا نہیں کہ ان میں ایک حق ہو اور دوسرا باطل۔ ان امور میں لڑائی بھڑائی کرنے والے ہر دو فریق غلط ہوں گے۔
ö یا ہردو فریق کے مابین صرف تعبیر کا فرق ہوگا۔ جیسے ایک ہی حقیقت کو مختلف تعریفاتdefinitions سے بیان کرنا؛ جبکہ مضمون کے اعتبار سے بات ایک ہی ہو۔ ان میں لڑائی بھڑائی ہونا ظلم اور جہالت ہے۔
ö یا کسی وقت معنیٰ میں کچھ فرق ہو بھی تو وہ اس درجہ کا نہیں کہ ایک دوسرے کی نفی ہوتی ہو۔ لیکن اس پر نزاع اس طرح ہو رہا ہوتا ہے گویا ہردو معنیٰ کے مابین ایک صاف نفی اور تصادم ہے۔
ö یا کسی وقت یوں ہوتا ہے کہ کسی نے اپنی محنت اور سرگرمی کےلیے نیکی کا کوئی ایک شعبہ اختیار کرلیا تو کسی نے دوسرا۔ لیکن دونوں ایک دوسرے کو غلط اور زیادتی کرنے والا باور کرنے لگے؛ اور بس اسی پر نزاع اٹھ کھڑا ہوا۔
یہ چیز جسے ہم نے اختلافِ تنوع کہا ہے، برائی اس کے ہو جانے میں نہیں۔ بلکہ برائی ہے اس پر فساد اٹھانے اور ایک دوسرے کو غلط یا گمراہ ٹھہرانے میں۔ خوب یاد رکھو: امت میں ہونے والا وہ اکثر اختلاف جو ایک بڑے بغض و عداوت، خونریزی اور ایک دوسرے کا جان مال آبرو مباح کر لینے کا سبب بنا رہا، وہ اختلاف کی یہی قسم ہے۔
ب۔ اختلافِ تضاد میں پڑنا:
اختلافِ تضاد یعنی جہاں ایک قول یا ایک فعل واقعتاً دوسرے کے منافی ہوتا ہے۔ اس کا معاملہ سنگین تر ہے۔ لیکن اکثر جھگڑنے والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ دونوں طرف کچھ باطل ہے تو کچھ حق بھی ہے۔ تاہم ایک فریق دوسرے کو مطلق غلط ٹھہرانے پر ہی زور لگا رہا ہوتا ہے۔ یوں یہ اُس کا رد کرنے میں کچھ غلط ہوتا ہے؛ اور وہ اِس کا رد کرنے میں کچھ غلط ہوتا ہے۔ اس مصیبت سے بعض اہل سنت طبقے تک چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ (کچھ اہل سنت طبقے بھی کسی کسی وقت اختلاف کی اِس صورت میں جا گرتے ہیں)۔ تقدیر یا صفاتِ خداوندی یا صحابہؓ سے متعلقہ مسائل میں بسا اوقات یہ مخالف کی غلط بات کا بھی رد کر رہے ہوتے ہیں اور صحیح بات کا بھی۔ فقہ کے مسائل میں بعض فقہاء کے ساتھ بھی ایسا ہو جاتا ہے کہ مخالف کی غلط بات کے ساتھ ساتھ اس کی ٹھیک بات بھی رد کر گئے۔ رہ گئے اہل بدعت تو ان کا حق کو رد کرنا تو بالکل ہی ظاہر ہے۔
قرآن میں مذکور اختلاف کی دوسری قسم:
(جس میں اختلاف کا ایک فریق قابل ستائش رہتا ہے اور دوسرا قابلِ مذمت)
یہ اس قبیل کا اختلاف ہے جو اہل ایمان و اہل کفر یا اہل سنت و اہل بدعت کے مابین ہوتا ہے۔ اور حق ہے۔ اختلاف کی یہ نوع قرآن میں یوں مذکور ہوئی:
وَلَـٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ (البقرۃ: 253)
مگر انہوں نے اختلاف کیا، یعنی کچھ ان میں ایمان پر رہے اور کچھ کفر کر گئے۔
اس اختلاف میں البتہ:
ö ایک فریق اہل حق ہو گا۔ یہ ہیں:
o انبیاء کے پیروکار، حواريون و اصحاب کی راہ پر قائم رہنے والے لوگ۔
ö جبکہ دوسرا فریق اہل باطل۔ یہ دو سطحوں پر ہیں:
o امت کے باہر: انبیاء کا دامن تھامنے سے انکاری۔ وقت کے نبی پر ایمان نہ رکھنے والے کافر اور مشرک۔
o اور امت کے اندر: حواریون و اصحاب کی راہ سے ہٹ کر راہیں نکالنے والے۔
’’اہل اختلاف‘‘ یا ’’اہلِ فرقہ‘‘ کا لفظ اِس سیاق میں اِسی مؤخر الذکر طبقہ پر بولا جاتا ہے (یعنی اہل اسلام کے مقابلے پر بات ہو تو ’’اہل اختلاف‘‘ ہوں گے: کفار و مشرکین۔ اور اہل سنت و جماعت کے مقابلے پر بات ہو تو ’’اہل اختلاف‘‘ ہوں گے: اہل بدعت)۔ جبکہ اِس اختلاف کا وہ فریق جو (بیرونی سطح پر) انبیاء اور (اندرونی سطح پر) حواریوں واصحابؓ کے راستے پر رہا وہ: ’’اہل الجماعۃ‘‘۔
خود رسول اللہﷺ نے پیش گوئی فرمائی کہ ایسے بَہتّر اہل تفرقہ خود آپؐ کی امت میں پیدا ہو جائیں گے۔ جبکہ اِس تفرقہ سے بچ رہنے والی صرف ایک جماعت ؛اور اس کی نشانی یہ کہ یہ عین اُس راستے پر برقرار رہے گی جس پر دین کے معاملہ میں رسول اللہﷺ اور اصحاب پائے گئے۔
چنانچہ اس اختلاف کا ایک ہی فریق مذموم ہو گا (اسلام کے مقابلے پر اہل کفر۔ یا پھر سنت کے مقابلے پر اہل بدعت)۔ ان کا اختلاف موجبِ ہلاکت ہو گا۔ جبکہ دوسرا فریق (کفر کے مقابلے پر اہل اسلام۔ یا پھر بدعت کے مقابلے پر اہل سنت) اِس اختلاف کے حوالے سے قابلِ ستائش ہوں گے۔ اِن کا اختلاف موجبِ نجات ہو گا۔
اِس مبحث کے آخر میں ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:
اختلاف کی یہ تمام مذموم صورتیں سورۃ التوبۃ کی اس آیت کے تحت درج ہوں گی: وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ’’ ویسی ہی بحثوں میں تم (اِس امت کے منافقین) بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ (پچھلے لوگ) پڑے تھے‘‘۔ اس آیت پر پیچھے ہم قدرے تفصیل سے بات کر آئے ہیں۔
واضح رہے، اوپر جو تفصیل ہوئی وہ ’’دین میں اختلاف‘‘ سے متعلق ؛ جوکہ اختلاف کی سنگین تر صورت ہے۔ جبکہ نبیﷺ نے ’’دنیا میں اختلاف‘‘ کی بھی پیش گوئی فرمائی۔ یعنی محض دنیوی محرکات کے تحت اِس امت کے مختلف قوموں، قبیلوں اور جماعتوں کا ایک دوسرے کے شمشیر بکف ہو جانا۔ اِس سے نبیﷺ نے شدید طور پر متنبہ فرمایا اور اپنے ایک ایک امتی کی جان و مال کی حرمت پر نصوص بیان فرمائیں۔
(کتاب کا صفحہ 471 تا 490)