فصل34 کتاب کے ایک حصے کا دوسرے سے ردّ کرنا
ہماری نئی تالیف
مسند احمد و دیگر میں عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے:
أن نفرا كانوا جلوسا بباب النبي صلى الله عليه وسلم فقال بعضهم: ألم يقل الله كذا وكذا؟ وقال بعضهم: ألم يقل الله كذا وكذا؟ فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج فكأنما فقئ في وجهه حب الرمان! فقال: " أبهذا أمرتم؟ أو بهذا بعثتم: أن تضربوا كتاب الله بعضه ببعض؟ إنما ضلت الأمم قبلكم في مثل هذا؛ إنكم لستم مما ههنا في شيء، انظروا الذي أمرتم به فاعملوا به، والذي نهيتم عنه فانتهوا عنه
کچھ اصحابؓ نبیﷺ کے در پہ بیٹھے تھے۔ ان میں سے کچھ کہہ رہے تھے: بھئی کیا اللہ نے یہ اور یہ نہیں کہا؟ (اس کے جواب میں) کچھ دوسرے کہہ رہے تھے: بھئی کیا اللہ نے یہ اور یہ نہیں کہا؟ رسول اللہﷺ کے کان میں ان کی بات پڑی۔ آپؐ یوں (غصہ میں) باہر آئے گویا آپؐ کے چہرہ مبارک پر انار کے دانے پھوڑ دیے گئے ہوں، اور فرمایا: کیا تمہیں یہی ہدایت ہوئی ہے؟ یا کہا: کیا تم اسی چیز کے ساتھ بھیجے گئے ہو؟ کہ تم کتاب اللہ کے ایک حصے کو کتاب اللہ کے دوسرے حصے کے ساتھ دے مارو؟ اِسی عمل میں تو پہلی امتیں راہِ راست سے ہٹ جاتی رہیں۔ تمہارے اِس طریقے کو تو (کتاب اللہ کے ساتھ درست معاملہ کرنے) سے کچھ علاقہ نہیں۔ بس یہ دیکھو تمہیں کیا کرنے کا کہا جا رہا ہے اور بس وہی کرو۔ اور جس بات سے روک دیا گیا اس سے رک جاؤ۔
} دیگر روایات سے واضح ہے، یہ تقدیر کا مسئلہ تھا جس کے ایک ایک (بظاہر متعارض) پہلو پر صحابہؓ کتاب اللہ سے (ایک دوسرے کے مقابلے پر) دلائل پیش کر رہے تھے{۔
اِس مضمون کی کئی ایک احادیث لانے کے بعد ابن تیمیہ کہتے ہیں: اس مضمون کی احادیث حضرات ابو ہریرہ، عمر، عائشہ اور انس سے بھی مروی ہیں اور یہ ایک نہایت وسیع باب ہے جس کی تفصیل میں جانا یہاں مقصود نہیں۔ یہ احادیث لانے سے یہاں ہماری غرض صرف اتنی ہے کہ اس بات کی سنگینی واضح ہو جائے کہ یہ امت اس مسئلہ میں پچھلی امتوں کی راہ نہ چلے جبکہ اس پر شدید تنبیہ فرمائی گئی۔ بلکہ رسول اللہﷺ نے یہاں تک واضح کر دیا کہ پہلی امتیں تباہ ہوئیں جب تقدیر کے مسئلہ پر (وارد ایک مضمون کی شرعی نصوص کو دوسرے مضمون کی شرعی نصوص کے ساتھ دے مارنے) پر مبنی بحثیں سامنے آنے لگیں۔ خود اِس امت میں یہاں تک ہوا کہ جیسے مجوس کا عقیدہ رہا ہے کہ نور اور ظلمت کے الگ الگ خدا ہیں، اِسی طرح یہاں افعال العباد خصوصاً شر کا خالق انسان کو قرار دے کر دو خالقوں کا تصور پیش ہونے لگا۔ (غرض ہر موضوع پر دو انتہاؤں میں سے کسی ایک پر چل نکلنے کا عمل بزعمِ خویش ’کتاب اللہ کی راہنمائی میں‘ انجام پانے لگا! ایک فریق نے ایک قسم کی آیات پکڑ رکھی ہیں اور دوسرے فریق نے دوسری قسم کی؛ اور دونوں قرآن کی مدد سے ایک دوسرے کو مات دینے میں لگے ہیں!)۔
ابن تیمیہ کہتے ہیں: ان بہت سے لوگوں کا جو بالآخر شرائع کو معطل کر ڈالتے ہیں، ابتداءً یہی طرزِ استدلال رہا ہے۔ جبکہ تمام نصوص کو بیک وقت لے کر چلنا اُن خوش قسمتوں کا شیوہ جو سنت و جماعتِ صحابہؓ کے متبعین رہے۔
ایک دوسرے مقام پر ابن تیمیہ یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ ’’کتاب کے ایک حصے کو نظرانداز کردینا‘‘ ہی قرآن کی رُو سے فرقوں کی باہمی لڑائی اور سرپھٹول کا باعث رہا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ (المائدۃ: 14)
اور جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد وپیمان لیا، انہوں نے بھی جو چیز انہیں یاد کرائی گئی اس کا ایک حصہ فراموش کر دیا ۔تب ہم نے بھی ان کے مابین تاقیامت بغض وعداوت ڈال دی۔
یہاں؛ ابن تیمیہ کہتے ہیں: پورے دین کو لے کر چلنا کبھی تفرقہ کا موجب نہیں ہوتا۔ تفرقہ، دھڑے، ٹولے جب بنیں گے ان کی بنیاد میں یہ ایک ہی بات ہو گی: کتاب اللہ کے ایک حصے کو اس کے دوسرے حصے کی قیمت پر اختیار کرنا؛ کوئی کسی حصے کو اختیار کرے گا تو کوئی کسی حصے کو۔
(کتاب کا صفحہ 471 تا 490)