فصل31 قبروں پر عبادت گاہیں اور تعمیرات
ہماری نئی تالیف
قرآن مجید میں فرمایا:
قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا (الکہف: 21)
جو لوگ اُن کے معاملے پر غالب آئے، بولے " ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنا کر رہیں گے"۔
نیز نبیﷺ کی حدیث ہے:
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ، ذَكَرَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَنِيسَةً رَأَتْهَا بِأَرْضِ الحَبَشَةِ يُقَالُ لَهَا مَارِيَةُ، فَذَكَرَتْ لَهُ مَا رَأَتْ فِيهَا مِنَ الصُّوَرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ العَبْدُ الصَّالِحُ، أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ،بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ»
(صحیح البخاری)
روایت حضرت عائشہ سے: حضرت ام سلمہ نے رسول اللہﷺ سے ارضِ حبشہ میں کسی (سینٹ) مَیری نامی چرچ کا ذکر کیا، جہاں انہیں (بڑی بڑی) مورتیں دیکھنے کو ملیں۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ ایسے لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی صالح بندہ وفات پا جاتا تو یہ اس کی قبر پر ایک عبادت گاہ تعمیر کر دیتے اور اس میں وہ مورتیں لگا دیتے۔ یہ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں۔
جبکہ اِدھر یہ حال کہ نبیﷺ کی اتنی شدید تنبیہ کے باوجود قبروں پر عبادت گاہوں کی پوری ایک دنیا آباد ہے۔ قبروں پر تعمیر یہ مزارات اپنی رونق اور ٹھاٹ باٹ میں بڑی بڑی مساجد کا مقابلہ کرنے اور ان سے بڑھ کر رَش لینے لگے۔
جس طرح بیت اللہ جانے کی آپ باقاعدہ منتیں مانتے اور وہاں پہنچ کر خدا کے گھر کے چکر لگاتے ہیں، یہاں یہ معاملہ بعض مردہ ہستیوں کے مزارات کے ساتھ ہونے لگا۔ دُوردُور سے سفر کر کے ’حاضری‘ دے کر آنا! جس طرح خدا کے گھر میں اعتکاف کر کے آتے ہیں، یہاں مزارات کی باقاعدہ مجاورت ہونے لگی۔ بیت اللہ میں سارا سال عمرہ و طواف چلنے کے ساتھ ساتھ، سال کے ایک خاص وقت پر جس طرح ایک مخصوص اکٹھ (حج) ہوتا ہے، ’سالانہ عرس‘ کی صورت میں یہاں بھی اس کی ایک رِیس ہوئی۔
یہ سب امور نبیﷺ کے وقت اِس امت میں نہیں تھے۔ یہاں تک کہ صحابہ اور تابعین کا تمام تر دورِ سعادت اِس امت کی تاریخ میں یوں گزرا کہ کسی بڑی سے بڑی نیک ہستی کی قبر پر مزار ایسی شےء نام کو نہ پائی جاتی تھی؛ حالانکہ صحابہ سے بڑے اولیاء امت میں کون ہو سکتے ہیں؟ بڑے سے بڑے ولی کے حصے میں ایک عام سی قبر ہی آتی۔ پورا عالم اسلام ان مشاہد سے یکسر خالی؛ دُوردُور تک ایسے کسی مزار یا درگاہ کا نشان نہ تھا۔ سوائے مساجد کے، مسلمانوں کے ہاں عبادت کے کوئی مراکز تھے ہی نہیں۔ مگر افسوس، جیساکہ نبیﷺ پیش گوئی فرما گئے کہ تم بھی گزشتہ امتوں والے کام کرنے لگو گے، دورِسلف کے مابعد صدیوں میں قبروں پر فلک شگاف تعمیرات کی بھرمار ہوتی چلی گئی۔
(کتاب کا صفحہ 471 تا 490)