فصل29
پیشوا
شخصیات کی اطاعت میں غلو
ہماری نئی تالیف
یعنی اگر کچھ لوگوں کی تعظیم کرنا یا ان کے کسی علمی مرتبے یا سیاسی منصب کے
حوالے سے ان کی اطاعت اور پیروی کرنا بنتا ہے... تو یہاں اس حد تک چلا جانا کہ وہ
شخصیات آدمی کےلیے مطلق پیشوا ہو جائیں۔ یعنی شریعت سے بالاتر وہ کسی حرام کو اس
پر حلال کر دیں یا حلال کو حرام، تو بھی وہ انہی کی مانتا جائے۔
یہود و نصاریٰ کے ہاں یہ باقاعدہ ہوتا رہا۔ ان دونوں گروہوں کی بابت فرمایا:
اتَّخَذُوا
أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ
مَرْيَمَ (التوبۃ: 31)
انہوں نے اپنے علماء اور
درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔
اس آیت کی تفسیر نبیﷺ نے یہ فرمائی کہ وہ ان کےلیے حلال کو حرام اور اور حرام کو حلال کرتے تو اس میں یہ ان کی اطاعت
کرتے۔[1]
یہاں بھی بہت سے عبادتگزار طبقے فرطِ عقیدت میں اپنے پیشواؤں کو یہ مقام دے
دیتے رہے۔ کسی پہنچی ہوئی سرکار کا فرمان ان کےلیے مطلق واجبِ اطاعت ہوتا ہے، بغیر
یہ دیکھے کہ شرعِ خداوندی سے کوئی بالاتر سند اس ہستی کو اس مسئلہ
میں حاصل ہے یا نہیں، اگرچہ اس سے کوئی حرام حلال کیوں نہ ہو جاتا ہو
یا کوئی حلال حرام کیوں نہ ٹھہر جاتا ہو۔
(یورپ کی تھیوکریسی یہی تھی جس کی جانب سورۃ التوبۃ کی مذکورہ بالا آیت میں
اشارہ ہوا۔ بعدازاں چرچ اور سٹیٹ میں تفریق کرکے معاملاتِ دنیا سے متعلق عین یہ
(تحلیل و تحریم) کا اختیار چرچ کی بجائے سٹیٹ کا تسلیم کر لیا گیا اور اسے
ڈیموکریسی کا نام دیا گیا)۔
(کتاب کا صفحہ 471 تا 490)
[1] یہاں ایک خلط مبحث کی نشان دہی ضروری ہے۔ بعض حضرات اس آیت کا اطلاق وہاں بھی
فرما رہے ہوتے ہیں جہاں ایک عامی کو فقہی مسائل میں ائمۂ سنت مانند ابو حنیفہ و
مالک و شافعی و احمد کی تحقیق پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔ عامی کے ان ائمہ میں سے کسی ایک پر تحقیقی سہارا کرنے کو یہ خدا کے بندے ’شرک‘
اور ’ائمہ کو اَرباباً من دون اللہ‘ بنا لینا قرار دیتے ہیں...
جبکہ ان ائمہ کی تحقیق کے مقابلے پر (ایسے تمام فقہی مسائل میں) اپنی تحقیق کرنے
چل دینا ’توحید‘!!
نہایت واضح ہو، اس آیت کا اطلاق وہاں ہو گا
جہاں ایک چیز کا خلافِ شریعت ہونا مسلم معاشرے میں معلوم اور معروف ہو۔ (کسی تحقیق
کے شبہے کے تحت ایسا نہ ہو)۔ مثلاً نصاریٰ کے ہاں یہ معلوم تھا کہ شریعتِ موسوی و
عیسوی میں خنزیر کا گوشت حرام ہے، لیکن اپنے پوپوں اور پادریوں کے کہنے پر وہ اسے
اپنے اوپر حلال ٹھہرانے لگے۔ یا ختنہ ایسی معلوم شےء کو ساقط کر دینا۔ وغیرہ۔ صرف
ایسی دیدہ دلیر deliberate تحریم اور تحلیل کو کہیں گے شرک۔ آج کے مسلم معاشرے میں مثلاً اگر
کسی سیاسی مجتہد کے سود کو حلال ٹھہرانے پر آپ سود کوحلال ٹھہرانے
لگیں۔ یا کوئی ’پہنچی ہوئی‘ سرکار مثال کے طور پر پنجوقتہ نمازوں سے اپنے مریدین
کو چھوٹ دے ڈالے یا عام مباحات (اسلام کے معروف جائز امور) میں سے کوئی چیز ان پر
حرام ٹھہرا دے (جیساکہ صوفیہ کے بعض بہکے ہوئے طبقوں میں ہوتا ہے) اور اس میں اُس
ہستی کی اتباع ہونے لگے۔ کیونکہسود یا شراب وغیرہ کی حرمت یا نماز
اور روزہ وغیرہ کی فرضیت یا عام جائز امور کی اِباحت ضروریاتِ
دین (معلوم
من الدین بالضرورۃ) میں سے ہے۔
رہ گیا تحقیقی مسائل میں ائمہُ فقہ و سنت میں
سے کسی ایک پر انحصار کرنا، تو یہ بالکل اور چیز ہے، اور درست ہے، بلکہ عامی کے حق
میں واجب۔ اس بات کو شرک سے جوڑنا سراسر جہالت ہے۔ اسے شرک کہنے والے شخص کا عذر
اگر جہالت نہ ہو، تو سب سے بڑ ھ کر حق بنتا ہے کہ خود اسی کو ’دینِ خداوندی میں
تحلیل و تحریم کرنے والا‘ ٹھہرایا جائے اور اس کی پیروی میں لوگوں کو مشرک ٹھہرانے
والوں کو اپنےاِس مفتی کو ’ارباباً میں دون اللہ‘ ماننے والے۔