فصل27 وحیِ خداوندی میں تحریف
ہماری نئی تالیف
یہود کی ایک خصلت بتائی:
مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ (النساء: 46)
یہودیوں میں بعض ایسے ہیں جو الفاظ کو ان کے محل سے پھیر دیتے ہیں۔
وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (آل عمران: 89)
اور ان میں کچھ وہ ہیں جو زبان پھیر کر کتاب میں میل (ملاوٹ) کرتے ہیں کہ تم سمجھو یہ بھی کتاب میں ہے اور وہ کتاب میں نہیں، اور وہ کہتے ہیں یہ اللہ کے پاس سے ہے اور وہ اللہ کے پاس سے نہیں، اور اللہ پر دیدہ و دانستہ جھوٹ باندھتے ہیں۔
تحریف (یعنی کلام کو اس کے اصل پر نہ رہنے دینا)۔ یہ یہود کے ہاں وحی کے الفاظ کے ساتھ بھی ہوتا رہا اور معانی کے ساتھ بھی۔
ہماری امت میں بھی بہت سے گروہ تحریفِ معنوی میں ملوث رہے۔ احادیث کے معالمہ میں تو یہ تحریفِ لفظی تک چلے جاتے رہے۔ یعنی احادیث کو منکر روایات سے بیان کرنا۔ بلکہ تنزیلِ خداوندی میں بھی تحریفِ لفظی کی کچھ کوشش ہوئی، جیساکہ صفتِ کلام کی نفی میں زور لگانے والے بعض طبقوں نے چال چلی کہ سورۃ النساء کی اِس آیت میں یہ لفظ اللہُ کو پیش کی بجائے زبر کے ساتھ پڑھیں وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا (ترجمہ ’’اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا‘‘) تاکہ کلام کرنے والا (فاعل) اللہ نہ رہے، موسیؑ ہو جائیں۔
(کتاب کا صفحہ 471 تا 490)