فصل26شخصیت پرستی میں انکارِ حق
ہماری نئی تالیف
یہود کا وصف بیان ہوا:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ (البقرۃ: 91)
اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس پر ایمان لاؤ جو الله نے نازل کیا ہے تو کہتے ہیں ہم تو اسی کو مانتے ہیں جو ہم پر اترا ہے اور اسے نہیں مانتے ہیں جو اس کے سوا ہے حالانکہ وہ حق ہے اور تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس ہے۔
وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا (البقرۃ: 89)
حالانکہ اس سے پہلے وہ (اِس نبیؐ اور شریعت کے حوالہ سے) کافروں پر فتح پانے کی دعائیں کیا کرتے تھے۔
غرض یہود کی یہ خصلت بیان ہوئی کہ: ایک ایسا نبی جو ان کی اپنی جماعت اور قبیلے سے نہیں یہ اس کے پیروکار ہونے کے نہیں۔ بضد ہیں کہ خدا کی نازل کی ہوئی بھی کسی ایسی ہی بات پر ایمان لائیں گے جو خود اِن کے ہاں پائی جائے۔ یعنی حق بھی قبول ہوگا تو وہ اپنے ہی دھڑے کے لوگوں سے۔ اپنے دھڑے سے باہر ہے تو وہ لاکھ حق ہوا کرے، اور خواہ وہ حق ان کے اپنے ہی اعتقاد کا لازمہ ہو، قبول نہیں!
یہی بات رفتہ رفتہ ہمارے بہت سے مدعیانِ علم و دین اور صاحبانِ فقہ و تصوف کے ہاں پائی جانے لگی۔ یہاں؛ دین کی وہی بات مانی جائے گی جس پر اپنے گروہ کی چھاپ ہو۔ حق اپنے گروہ سے باہر ہو تو ان کو بالکل متاثر نہیں کرتا! حالانکہ دینِ اسلام حق کی مطلق اتباع کا حکم دیتا ہے؛ روایت کا معاملہ ہو تو بھی اور درایت و معنیٰ کا معاملہ ہو تو بھی۔ اس میں کسی شخص یا گروہ کی قید نہیں، سوائے رسول اللہﷺ کے جو ہمارے اور خدا کے مابین واحد مستند واسطہ ہیں۔
(کتاب کا صفحہ 471 تا 490)