ماردھاڑ اور جدت پسند بیانیوں کا ظہور
اور انقلابی منہج
کو درپیش فرسٹریشن
ایک
چیز عین ابتداء کے اندر واضح کر دی جائے۔ ہماری یہ معروضات نہ کسی ’تبلیغی‘ ڈسکورس سے پھوٹ کر آرہی
ہیں (جسے سیاست سے کچھ سروکار نہیں) اور نہ
کسی ’جہادمخالف‘ ڈسکورس سے (جسے عالمِ کفر کی حالیہ یلغار کے ساتھ کوئی
مسئلہ نہیں)۔ ہمارا فکری تعلق یقیناً اُس کیمپ سے ہے جسے مغرب اپنی کسی خاص غرض
کے تحت ’پولیٹیکل اسلام‘ کا نام دیتا ہے اور جس کا درست نام ہمارے ہاں
’’سیاسۃ شرعیۃ‘‘ ہے۔ یعنی فی زمانہ عالم اسلام
پر مسلط مغربی نظاموں سے خلاصی اور ان کی جگہ پر شرعِ محمدی کی حتی الوسع بحالی
اور مسلم زندگی کی اس پر استواری۔ یہ ہمارا
ایمان ہے۔ (اندرونِ عالَمِ اسلام فرنٹ پر)۔ نیز ہمارا فکری تعلق اُس جہادی ڈسکورس سے ہے جسے ہم سہولتِ مبحث کےلیے
کسی وقت ’عبد اللہ عزامؒ کی اکیڈمی‘ کہتے ہیں، یعنی مسلم مقبوضہ جات کو واگزار
کرانے کےلیے جہاد، اور جوکہ متعدد مسلم خطوں
کے اندر جاری ہے، مانند فلسطین، کشمیر، افغانستان وغیرہ۔ (بیرونی فرنٹ)
ہمارا قاری جانتا ہے، یہ
دونوں فرنٹ ہم سے کس درجہ توجہ اور اہمیت لیتے ہیں۔ نیز ہم اِن دونوں محاذوں کو خلط بھی نہیں ہونے دیتے۔ ہمارے ڈسکورس میں
دونوں کا اپنااپنا محل برقرار رہتا ہے۔
انقلابی منہج کے سامنے دو راستے
البتہ ’’سیاسۃ شرعیہ‘‘ اور ’’انقلابی منہج‘‘ دو
الگ الگ چیزیں ہیں، گو ان دونوں میں کچھ اشیاء مشترک بھی ہیں۔ ہیں یہ دو الگ الگ
اپروچ باوجود اس کے کہ ’’سیاست‘‘ سے دونوں بحث کرتے ہیں۔ دستیاب مواقع کو اسلامی ایجنڈا کے حق میں
بہترین طور پر استعمال کرنا اور اِس راہ سے قوم کی اجتماعی زندگی کو اسلام کے
تقاضوں کے ساتھ بقدرِ استطاعت ہم آہنگ کرتے چلے جانا ’’سیاسۃ شرعیۃ‘‘ ہی
میں آتا ہے۔ اِس میں اور ’’انقلابی منہج‘‘ میں کیا فرق ہے، اس پر ہم ایک علیحدہ
مضمون میں بات کر چکے۔ ’’انقلابی منہج‘‘
کے حوالے سے وہاں ہم دیکھ آئے، یہ اپنے اندر کچھ بےلچک قالب رکھنے کے باعث بالعموم
ایک بند گلی پر پہنچتا ہے۔ جس کے بعد لازماً آپ کو ان دو میں سے کوئی ایک رخ اختیار کرنا ہوتا ہے:
1.
ایک:
نظرثانی کا راستہ۔ جس میں آپ ’انقلابی‘ منہج
سے واپسی کا راستہ لیتے اور بالعموم وہ روٹ اختیار کرتے ہیں جسے ہم ’’اصلاح بقدرِ استطاعت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ یعنی دستیاب مواقع سے ہی اسلامی ایجنڈا کے حق میں جتنی خیر برآمد کروائی جا
سکتی ہو کروانا اور ’پورے‘ کے انتظار میں ’جو ہو سکتا ہے‘ اُس سے ہاتھ نہ جھاڑ
بیٹھنا۔ یہ چیز جسے ہم نے ’’اصلاح بقدرِ استطاعت‘‘ کہا، یقیناً ایک صالح روٹ ہے
بشرطیکہ اس کے پیچھے ایک غایت درجہ کی
عقائدی پختگی اور ٹھیٹ پن کام کر رہا ہو،
جوکہ انقلابی جماعتوں میں کسی قدر محل نظر
ہے۔ (بہت سی انقلابی جماعتیں تو ’عقیدہ‘ کا لفظ ہی سن کرتعجب سے دیکھتی ہیں کہ یہ
ہوتا کیا ہے اور کس کام آتا ہے! ان کا زیادہ فوکس ’’ذاتی فہمِ قرآن‘‘ ہوتا ہے۔ اب
اِس ’ذاتی‘ یا ’جماعتی‘ فہمِ قرآن کے ساتھ مجبوری یہ ہے کہ یہ اُن فکری و وِجدانی
کیفیات پر انحصار کرتا ہے جو ایک آدمی یا ایک تنظیم پر اس وقت گزر رہی ہوں۔ یعنی ’دل کا دریا‘ آپ کے ہاں جس رخ پر بہتا ہے
اُسی رخ کے استدلالات و استنباطات قرآن سے آپ پر ’کھلتے‘ چلے جاتے ہیں اگرچہ آپ سمجھ یہ رہے ہوں کہ آپ کے نظریات تو
براہِ راست قرآن سے ماخوذ ہیں، نیز اس سے متصادم نظریات تو صاف قرآن سے متصادم
ہیں! یہ ایک واقعہ ہے کہ یہاں کے مختلف فکری گروہ اپنےاپنے ’رجوع الی القرآن‘ کے
دوران کچھ بنیادی ترین امور میں ایک دوسرے سے متعارض استدلال فرما رہے ہوتے ہیں؛
باوجودیکہ دونوں کے ہاتھ میں جو قرآن ہے وہ ایک ہے! جس کے باعث، ہردو فریق کے پاس
کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ ایک دوسرے
کو یا تو ’متعصب‘ گردانیں جو اپنی ’غلط
رائے‘ چھوڑنے پر آمادہ نہیں یا ایک دوسرے کے فہم کو قرآن ’غور سے‘ نہ پڑھنے کا
نتیجہ قرار دیں!)۔ ایسے عقائدی ٹھیٹ پن کی غیرموجودگی میں، ’’اصلاح بقدرِ
استطاعت‘‘ کے روٹ پر چل پڑنے کی صورت میں، خدشہ یہ ہوتا ہے کہ جیسےجیسے حالات،
جیساجیسا ماحول، جیسی جیسی فضا اور جیسی جیسی جذباتی کیفیت ان کو ہر ہر مرحلے کے
اندر پیش آتی جائے گی ویسی ویسی تبدیلیاں اِن کے اپنے فکری پیراڈائم کے اندر رونما
ہوتی چلی جائیں گی؛ یہاں تک کہ اِن مصلحین ہی کو بالآخر کچھ سے کچھ بنا چھوڑیں گی۔ نتیجتاً، یہ حضرات ماحول اور فضا کی اُتنی صورت
گری shaping نہیں کریں گے جتنی کہ
ماحول اور فضا اِن کی کردے گی۔ یہ حالات کو اُتنا ٹھیک نہیں کریں گے جتنا کہ حالات
اِن کو ’ٹھیک‘ کردیں گے۔ یہاں تک امکان ہوتا ہے کہ آپ ماحول اور فضا ہی کے ہو
جائیں ۔ جو کچھ ٹھوس فکری مواقف اپنے ’دورِ انقلاب‘ میں آپ رکھا کرتے تھے وہ رفتہ
رفتہ ’حالات‘ کی نذر ہو کر نری ’تاریخ‘ بن جائیں؛ اور آپ اپنے اُس تمام فکری اثاثے
سے ہلکےپھلکے ہو کر نرے ’حالات‘ کے پیروکار۔ لہٰذا فکری پیراڈائم میں اگر ایک غایت درجے کی صلابت اور ٹھیٹ پن پیدا
کر لیا گیا ہو اور یہاں پر فکری نقل مکانی کے اسباب تلف کر لیے گئے ہوں، جوکہ
ڈھیروں محنت کا متقاضی ہے... تو ’’اصلاح بقدرِ استطاعت‘‘ کو ’’انقلابی منہج‘‘ کے
مقابلے پر ہم یقیناً ایک راست ترین منہج باور کرتے ہیں۔
2.
دوسرا: جمود stagnancy کا راستہ۔ جس میں آپ اپنے آپ کو سمجھاتے ہیں کہ ’پورے نظام‘ کو سر تا
پیر تبدیل کر دینے (انقلاب) اور اِس سے کم کسی بات کو ہاتھ نہ لگانے کا جو ایک ہدف
آپ نے اپنی جدوجہد کےلیے بہت عشرے پہلے مقرر کیا تھا... باوجود اس کے کہ دُور دُور
تک اِس کے پورا ہونے کی کوئی عملی صورت نظر نہیں آتی، اور واقع میں یہ ایک
نہایت غیرحقیقی یا غیر عملی ہدف یا ایک بند راستہ dead end ہی دکھائی دیتا ہے، لیکن آپ کےلیے چونکہ یہ ایک
’عقیدہ‘ کا مسئلہ ہے لہٰذا آپ تو ایسے ہی کسی واقعہ کے انتظار میں رہیں گے خواہ یہ
جب بھی ہو، اور نہیں ہوتا تو نہ ہو، اِس سے ہٹ کر اپنائے جانے والے راستے البتہ
غلط اور خلافِ شریعت ہیں اور یہی ایک راستہ درست و حقیقی راستہ ہے۔ مگر یہ محض
اپنے آپ کو سمجھانے والی بات ہوتی ہے۔ عملاً آپ اپنی توقعات کے ساتھ ایک واضح
سمجھوتہ کر چکے ہوتے ہیں اور آپ کے سب رویے اور معمولات اسی کی خبر دے رہے ہوتے
ہیں، جسے جانچنے کےلیے ایک ہلکا سا نفسیاتی تجزیہ کفایت کرتا ہے۔ یعنی کھڑا پانی جس
کے بحر کی موجوں میں اب وہ اضطراب نہیں۔ وہ بےقابو ولولے جو ابتدائی عشروں میں
کہیں سے پھوٹ پھوٹ کر آرہے تھے اور ایک صاف طغیانی کا پتہ دیتے تھے، اب کسی ’بھاری
پتھر‘ کے ساتھ سمجھوتہ کر چکے ہوتے ہیں، اگرچہ عبارتیں آپ کے ہاں وہی کی وہی ہوں۔ معاملات
کا نظریاتی ہی نہیں، نفسیاتی جائزہ بھی آپ کو بہت سے فائدہ مند نتائج تک
پہنچاتا ہے۔ سیلاب کا پانی چڑھتے وقت اپنی کہانی خود کہتا ہے تو اُترتے وقت بھی آپ
ہی اپنی زبان ہوتا ہے، اور ہردو واقعہ کا فرق بےحد نمایاں۔ اِس اترتے پانی کا حل
بہرحال آپ کے پاس نہیں ہوتا خواہ اپنے آپ کو سمجھانے اور شروع دن کے اسباق کا
اعادہ کرنے میں کتنا ہی زور صرف کر رکھا گیا ہو۔ غرض ہر دن گزرنے کے ساتھ آپ منظر
سے ہٹتے چلے جاتے ہیں خواہ اپنی ایک بند دنیا میں کتنی ہی چہل پہل اپنے اردگرد
پائیں۔ دیکھنے والا صاف اندازہ کرسکتا ہے کہ اب یہاں وقت گزاری ہے خواہ جتنی کر
لیں؛ عمل کا راستہ یہاں سراسر مفقود ہے۔ عمل کا راستہ یا تو پہلا ہے (جس کے ہم بھی
مؤید ہیں؛ اور اصلاح و تبدیلی کےلیے کوئی اور راستہ اندریں حالات ہماری نظر میں
نہیں ہے)، یا پھر وہ جسے ’’راستہ‘‘ کہنا
ہی نہیں چاہئے کہ وہ ’عمل‘ سے بڑھ کر تباہی
اور بربادی کا پیش خیمہ ہے، اور اس سے کسی اصلاح کی توقع رکھنا آخری درجے کی
نادانی، یعنی ماردھاڑ، جس کا کچھ ذکر آگے آ رہا ہے۔
ماردھاڑ اور اس کا جوابی بیانیہ.. انقلابی منہج کی فرسٹریشن سے فائدہ
اٹھاتے ہوئے
’’انقلاب‘‘
اپنے رونما نہ ہونے کی صورت میں بعض لوگوں کو ’’جمود‘‘ کی جانب دھکیلتا ہے، جیساکہ
پیچھے بیان ہو چکا۔ اور یہ جمود البتہ کچھ جذباتی نفوس میں فرسٹریشن اور بےچینی
بھی پیدا کر دیتا ہے۔
یہاں
پہنچیں.. تو ایک ’ماردھاڑ‘ کا بیانیہ آتا ہےاور ایک اس کا ’جوابی بیانیہ‘۔ دونوں
ایک دوسرے سے بھیانک۔ نیز ایک دوسرے سے باقاعدہ تقویت پانے والے۔
ماردھاڑ
کا بیانیہ کہتا ہے: دیکھا سیدھی انگلی سے گھی نکالنے کا نتیجہ! انگلی ٹیڑھی کیے
بغیر چارہ ہی نہیں۔ آؤ ہمارے ساتھ، بندوق اٹھاؤ اور خون کا ایک کھیل شروع کرو۔
یہاں اس
کا ’جوابی بیانیہ‘ آتا ہے: دیکھا ’انقلاب انقلاب‘ کرنے کا نتیجہ! یہ ساری خونریزی
دراصل تمہاری وجہ سے ہوئی ہے۔ نہ تم ’اسلامی ریاست‘ یا ’اسلامی حکومت‘ کا نام لیتے
اور نہ نوجوان اس کےلیے طاقت کے استعمال پر اترتے۔ جب تم پُراَمن طریقے سے اپنا یہ
خواب پورا نہ کر سکے تو انہوں نے غیرپُراَمن طریقوں کا سہارا تو لینا ہی تھا (استدلال!!!)
اصل قصور یہ خواب دکھانے والوں کا ہوا (ہو سکے تو مودودیؒ کو قبر سے جا کر پکڑو!)
نہ یہ خواب تم دکھاتے اور نہ یہ نوجوان اس سے اگلا کوئی قدم اٹھاتے!
غرض
انقلابی بیانیہ تھا: پُراَمن عوامی راستوں سے ایک اسلامی انقلاب
برپا کرنا:
- ’ماردھاڑ
بیانیہ‘ کا حملہ ہوا اس کے پہلے حصے پر، یعنی پرامن عوامی
راستوں کے تصور پر اور وہ اس کی جگہ ’بندوق‘
لے آیا۔
- ’جوابی
بیانیہ‘ کا حملہ ہوا اس کے دوسرے حصے پر، یعنی خود انقلاب
ہی کے مقصد اور غرض و غایت پر۔ اس کا کہنا تھا، اصل فساد یہاں ہے۔ اور یہ
اس کی جگہ ’مغربی ریاست‘ کو
قبول کروانے کی فرضیت لے آیا۔ بلکہ جو شخص آج ’مغربی ریاست‘ کو قبول
نہ کرے اس کو قریب قریب گردن زدنی بھی قرار دینے لگا۔ (اپنی افتاد میں یہ
’جوابی بیانیہ‘ بھی اتنا ہی فاشسٹ ہے جتنا کہ وہ ’ماردھاڑ بیانیہ‘)۔
غرض ان
دونوں بیانیوں کے نتیجے میں ہمارا امن بھی گیا (یہاں تک کہ
ہمارے بہت سے مسلم ملکوں کی سالمیت خطرے میں پڑ گئی) اور ہمارا اسلامی
ریاست کا تصور بھی دریابُرد ہوا۔ خدانخواستہ ہم ملک سے بھی گئے اور اسلام
کی عملداری سے بھی!
انقلابی
منہج کو اگرچہ ہم اون own نہیں کرتے لیکن انقلابی
منہج کے ساتھ یہ دونوں بیانیے مل کر جو ہاتھ کرنا چاہتے ہیں، بلکہ پورے اسلامی
(روایتی) سیکٹر کا جو حشر کرنا چاہتے ہیں، اس پر تنبیہ البتہ ضروری ہے۔
’ماردھاڑ
بیانیہ‘ پر ذرا آگے چل کر ہم بات کریں گے۔ البتہ ’جوابی بیانیہ‘ کی یہ موقع پرستی
جو وہ ’’اسلامی ریاست‘‘ یا ’’اسلامی حکومت‘‘ کے تصور کو ’فساد کی اصل جڑ‘ قرار
دینے کےلیے سامنے آتی ہے اور اس پر تمام عالمی فورمز کی تائید و نصرت کے مزے لوٹتی
ہے... اس پر چند کلمات کہہ دینا ضروری ہے:
ان لوگوں
کا بیانیہ یہ ہے کہ نہ آپ مغربی ریاست کو غلط کہتے اور اسلامی شریعت کی مکمل
عملداری کی تحریک اٹھاتے اور نہ یہ نوجوان تمہارے اس خواب کو پورا کرنے کےلیے
خونیں راستوں کا رخ کرتے۔ ہم ان سے کہتے ہیں: بھائی تم ہمارے مغربی ریاست کو غلط
کہنے سے جی بھر کر اختلاف کرو، واللہ کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارے شریعتِ اسلامی کی
مکمل عملداری کو فرض ٹھہرانے پر جیسے مرضی سوال اٹھاؤ۔ ہم اس پر تمہارے ساتھ بات
کر سکتے ہیں۔ تم ہمیں اس پر غلط کہو اور ہم تمہیں اس موضوع پر غلط گردانیں، یہ
کوئی بڑی بات نہیں۔ اور نہ افکار کی دنیا میں یہ کوئی انہونی چیز۔ لیکن ہمارے ’’اسلامی ریاست‘‘ یا ’’شریعت کی مکمل عملداری‘‘ کے اِس کیس
کو تمہارا فساد کی جڑ اور خونریزی کا اصل موجب قرار دینا اگر تمہارے کسی کینہ
(حِقدِ دفین) پر محمول نہ بھی کیا جائے تو اس کی سطحیت بہرحال اپنی مثال آپ ہے۔
آؤ ہم تمہیں بتائیں، کیسے۔ بس یہی آئینہ ہم تمہارے سامنے رکھ دیتے
ہیں:
چلو ریاست
کے ’’اسلامی‘‘ ہونے کو تم فرض نہیں کہتے یا شاید درست بھی نہیں سمجھتے۔ ٹھیک ہے۔ لیکن ریاست کے ’’جمہوری‘‘
ہونے کو تو فرض یا ضروری کہتے ہو؟ کسی بیرونی قبضے سے آزادی حاصل کرنے کی ’بات‘ کرنے کو تو حق جانتے
ہو؟ تو کیا اگر
کسی ملک میں کچھ جذباتی لوگ ’’جمہوریت‘‘ کےلیے ہتھیار اٹھا لیں تو اُس خونریزی کی
ذمہ داری آپ قبول کریں گے؟ کہیں مارشل لا کے خلاف کوئی ’الذولفقار‘
نکل آئے اور ملک بھر میں تخریب کاری کرتی پھرے، یا کہیں بادشاہت کے خلاف کوئی
’انقلابِ فرانس‘ اٹھ کھڑا ہو جو ہزاروں یا لاکھوں کی جان لے لے، یا بیرونی قبضے سے
آزادی کےلیے کوئی سبھاش چندر بوس ہتھیار اٹھا لے... تو اس پر آپ کو پکڑ لیا جائے؟ اس لیے کہ آپ ’مارشل لا‘ کو یا ’بادشاہت‘ کو
یا ’بیرونی اقتدار‘ کو اصولاً مسترد کرتے ہیں اور اس کی جگہ پر ایک ’مقامی‘ یا
’جمہوری‘ حکومت کے قیام کو اصولاً ضروری گردانتے ہیں؟ اور کیا آپ کے اس بیانیے سے
قاعدہ یہ اخذ کیا جائے کہ: دنیا میں جو بھی شخص کسی طرزِریاست کو مسترد کرے اور اس کی جگہ کسی دوسرے طرزِریاست کو لازم
قرار دے... تو اگر اس کے مستردکردہ نظام کو گرانے اور اس کے تجویز کردہ
نظام کو قائم کرنے کا نعرہ لگا کر کسی وقت کوئی سرپھرا
گروہ ہتھیار اٹھا لیتا ہے (اور اِس راہ سے، دانستہ یا نادانستہ، خود اُس شخص کے کیس کو ہی تباہ و برباد بھی کر دیتا
ہے) تو اس تمام خونریزی کا ذمہ دار بہرحال اُسی پہلے شخص کو قرار دیا جائے
گا جس نے ایک نظام کو غلط اور اس کی جگہ کسی دوسرے نظام کو ضروری کہنے کی ایک پُراَمن بات کر دی تھی؟ یعنی ایک سرپھرے گروہ کے ہاتھوں اِس
بھلےمانس کا ایک پُراَمن کیس لُوٹا بھی گیا اور اُس لُوٹنے والے کی سب غارت گری کی
چَٹی بھی اب یہی دے گا؟ وہ اُس سے بھی مار کھائے اور آپ سے بھی، اس لیے کہ اس نے
کسی نظامِ موجودہ status quo کو
غلط کہنے کا پاپ کر لیا تھا! اگر قاعدہ یہی ہے تو پھر صاف لفظوں میں یہ کیوں نہ کہا جائے کہ معاملہ دراصل کسی اسلامی
یا غیر اسلامی ریاست کا سرے سے نہیں ہے، بلکہ ایک سٹیٹس کو کے خلاف آواز
اٹھانا ہی درحقیقت ’’فساد‘‘ کی بنا ڈالنا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ سٹیٹس کو اسلامی
ہے یا جمہوری یا استبدادی یا بادشاہی یا مارشل لائی یا مغربی یا مشرقی یا جنوبی یا
شمالی۔ سٹیٹس کو جیسا بھی ہے، اس پر ایمان لانا بجائےخود فرض ہے اور اس کو مسترد
کرنا بجائےخود فساد! یعنی مطلق دینِ اکبری!
غرض اس سے
بودا بیانیہ شاید نظریات کی تاریخ میں کبھی نہ پایا گیا ہو۔ بخدا، اگر عالمی سٹیٹس
کو کی یہ ایک ناگزیر ضرورت نہ ہوتا اور اِس کی پزیرائی کرانے کو ایسی دیوہیکل
ابلاغی مشینری مسخر نہ ہوتی تو ایسا ’نکتہ‘ نکال لانے والے پر دنیا صرف ایک قہقہہ
لگانے کی روادار ہوتی۔ مگر میڈیائی قوت کا کرشمہ ہے کہ ’’اسلامی ریاست‘‘ کے بیانیہ
کے خلاف اب یہ ایک برہانِ قاطع ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں! بھائی اِس کا جواب
فی الواقع نہیں!
یعنی آدمی
چیختا رہ جائے کہ ایک طرزِریاست کو مسترد کرنے اور اس کی جگہ ایک دوسرے طرزِریاست
کو قائم کرنے کی بات میں نے سو فیصد
پُراَمن بنیادوں پر کی تھی اور اس معاملہ میں تشدد میرے
ہاں سو فیصد مذموم ہے، جس پر میری پوری تحریک اور میرے زبان و بیان کا ہر
ہر انداز شاہد ہے... آزادیِ افکار کے چیمپئن عباقرہ کی جانب سے مگر اس کو ایک ہی
جواب دیا جائے گا: افکار کی دنیا میں یہی تو اصل جرم ہے!
غرض اصول تو ہے یہی، البتہ لاگو یہ صرف ’’اسلامی ریاست‘‘ کی
بات کرنے والوں پر ہو
گا۔ دنیا میں تبدیلی کی یہ بس ایک ہی صدا لائقِ قدغن ہے؛ باقیوں کےلیے یہ مکمل
دورِ آزادی ہے!
*****
جہاں تک ماردھاڑ والے منہج کا تعلق ہے... تو انقلابی جماعتوں کا بلاشبہ کبھی اِس راہ سے سروکار نہیں رہا۔ نہ انہوں نے اپنے ’آئندہ کسی مرحلہ‘
کے طور پر ہی کبھی اِس منہج کی تبلیغ کی ہے۔ یہ بات حقیقتاً سراہنے کے لائق ہے، جس
کی آج بھی قدر نہیں کی جا رہی۔ ان (انقلابی) جماعتوں کی کل امید اور وابستگی عوامی
عمل سے رہی ہے؛ اور زمانہ اِس پر شاہد۔ مایوس سے مایوس کن حالات بھی انہیں اس سے
نہ ہٹا سکے۔ ان جماعتوں میں اپنے ملک کے لوگوں اور اداروں کے ساتھ امن پسندی
وخیرخواہی کے رویے شروع سے لے کر آج تک ایک حقیقت ہیں۔ میڈیا کے ظالم ایک طرف
پاکستان کی تاریخ کا خلاصہ کرتے ہوئے ’’مُلا
مِلٹری الائنس‘‘ کی پھبتی کستے ہیں۔ دوسری طرف ان دینی جماعتوں پر ملک
دشمنی کا ملبہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں (یہ ایک الگ بات کہ ملک کے اِن ’دردمندوں‘
میں سے بہت سوں کی اپنی تاریخ روس اور پھر
اب بھارت اور امریکہ کی کاسہ لیسی سے عبارت ہے)۔ جہاں تک واقعہ ہے تو یہاں کی
تقریباً سبھی اسلامی انقلابی جماعتیں ہر مشکل گھڑی میں ملکی اداروں کے ساتھ کھڑی
نظر آئی ہیں خواہ وہ کسی بیرونی دشمن کے مقابلے پر ہو یا کسی قدرتی آفت یا کسی
اندرونی بحران سے نمٹنے کے معاملے میں۔ اور یہ معاملہ آج تک برقرار ہے۔ اور اپنے
لوگوں پر تو یہ سب جماعتیں ہمیشہ فدا ہوتی ہیں۔ اِن ملکوں کا کچھ نہ کچھ سنوارا
گیا ہو گا تو اِنہی اسلامی جماعتوں کے دم سے؛ سیکولر پارٹیوں نے تو آج تک اجاڑا
اور کھایا ہے۔ مشرقی پاکستان اور پھر کشمیر میں اِن کی قربانیاں تصور سے باہر ہیں۔
پچھلے کچھ عرصہ سے بہت سے مسلم ممالک میں رونما ہونے والے عسکریت پسند ڈسکورس کو بھی نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام بھر میں
پائی جانے والی اسلامی انقلابی جماعتوں نے بلاشبہ رد ہی کیا ہے اور ان کے
منہج کی کبھی تائید نہیں کی ہے۔ اس لحاظ
سے یہ انقلابی جماعتیں ان حالیہ عسکریت پسند رجحانات سے قطعی بریءالذمہ ٹھہرتی
ہیں۔ رہی وہ فرسٹریشن frustration جو ایک بند
راستے dead end پر ہونے کی
وجہ سے انقلابی منہج پیدا کر کے دیتا ہے... اور جس سے یہ عسکریت پسند اپنے بیانیہ
کو تقویت دینے کےلیے ایک موقع پاتے رہے ہیں تو یہ معاملہ سٹیٹس کو کو رد کرنے والی
کسی بھی پُراَمن سے پُراَمن دعوت کے ساتھ پیش آسکتا ہے، جیساکہ ’جوابی بیانیہ‘ کے
رد میں پیچھے گزر چکا۔
پھر اگر
’فرسٹریشن‘ کی بات ہے... تو خود یہ عسکریت پسندی اپنی نہاد میں انقلابی منہج کی نسبت ایک کہیں زیادہ بند راستہ ہے۔ کئی ملکوں میں ڈھیروں نقصان کر والینے کے بعد
لوگوں کو یہ بات سمجھ آئی کہ یہ عسکریت پسندی انہیں کسی بھی ہدف پر پہنچانے والی
نہیں۔ (علاوہ اس بات کے کہ
یہ اصولاً ایک بےحد غلط راستہ ہے)۔ تاہم ’فرسٹریشن‘ جس چیز کا نام ہے وہ کسی منطقی
طرزفکر کو خاطر میں لانے کی گنجائش بہت کم چھوڑتی ہے اور ایک بار تو بہرحال
نقصان کروانے کا موجب بنتی ہے۔ علاوہ اس بات کے __ جوکہ
اس معاملہ کا سب سے تشویشناک پہلو ہے __
کہ انقلابی منہج کی عدم نتیجہ خیز ی دیکھ کر تو چلیے آپ نے عسکریت پسندی میں اس
کا ’متبادل‘ ڈھونڈنا چاہا البتہ
جب ایک بھاری نقصان کروا لینے کے بعد عسکریت پسندی بھی آپ کا کوئی ہدف سر
نہیں کروا پاتی تو ’متبادل‘ کہاں ڈھونڈا جائے گا؟ حق یہ ہے کہ وہ فرسٹریشن جو ایک ملک میں عسکریت پسندی کی تباہ کاریاں دیکھ
لینے کے بعد پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ ایک گھٹاٹوپ اندھیرا چھا جاتا ہے، معاشرے کی سطح پر تب جو آپ سے آپ ایک
’متبادل‘ سامنے آتا ہے وہ غامدیت یا وحیدالدین خانیت یا مدخلیت/جامیت نما
آفتوں کا نزول ہوتا ہے، جس کا حملہ وہاں کے مذہبی
اذہان پر ہوتا ہے، اور جوکہ عام لوگوں کی سطح پر معاشرے کو لبرلائز کر دینے کےلیے ایک پل کا کام دیتا ہے۔
یہ ایک واقعہ ہے اور براہِ کرم اس کو خصوصی طور پر نوٹ کیا
جائے کہ:
جب تک انقلابی جماعتوں کی اپیل عروج پر رہی تب تک یہاں کے
دین پسند پڑھے لکھوں میں المورد و وحیدالدین ایسی آوازوں کا یوں غلغلہ نہیں ہوا تھا بلکہ تقریباً کوئی اِنہیں
نہ پوچھتا تھا۔ حالانکہ یہ منحنی آوازیں پہلے بھی یہاں موجود ہی رہی تھیں؛ آج یکدم
بہرحال نہیں آ گئیں (مقبول یکدم اب ہوئی ہیں)۔ لیکن اب جب انقلابی ڈسکورس کسی حد
تک پس منظر میں چلا گیا اور عسکریت پسندی کا آہنگ اس کی نسبت بلند ہوا تو
یکلخت یہاں المورد وغیرہ کا بھی طوطی بولنے لگا۔ بلکہ فی الوقت آپ کو دو ہی
’بیانیے‘ میدان میں نظر آتے ہیں: یا ماردھاڑ یا غامدیت۔ (موخرالذکر، لبرلزم
کی راہ ہموار کرنے کا ایک اسلامی فکری
اوزار)۔ ہماری نظر میں المورد وأخواتُھا کی یہ غیرمعمولی پزیرائی اِسی عسکریت پسندی کی مرہونِ منت ہے جس نے ان کو مقبولیت کے کچھ غیرطبعی مواقع دے ڈالے۔ آخر کیسے ہو سکتا تھا لبرل ایجنڈا کے زیرتحریک کام
کرنے والے چینل یہ موقع ہاتھ سے جانے دیتے اور ملکی تاریخ کے اِس عظیم خلا
کے موقع پر ایسے ’اصل اسلام‘ بیان کرنے والوں کو ہاتھوں ہاتھ نہ لیتے! المورد کی
دریافت پر کوئی ان لبرلز کا خوشی سے چہکنا دیکھے! تاریخ انسانی میں پنسلین کی
دریافت بھی شاید ہی اتنی ’بروقت‘ کہی جا
سکتی ہو جتنی کہ عالمِ اسلام کی تشکیلِ نو کا تاریخی پراجیکٹ لانچ کرتے وقت
’المورد‘ کی دریافت! آپ خود تصور کر لیں آج کی اِس دنیا میں المورد نہ ہوتا تو لبرل ایجنڈا کو مطلوب ’اسلامی‘ دلیلوں کا
بندوبست کہاں سے ہوتا!
کلاسیکل
منہج پر رہنا آپ کو اِس پورے گنجلک سے کفایت کرتا۔ واللہ الموفِق