عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2016-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
ماردھاڑ اور جدت پسند بیانیوں کا ظہور اور انقلابی منہج کو درپیش فرسٹریشن
:عنوان

ہماری نظر میں المورد وأخواتُھا کی یہ غیرمعمولی پزیرائی اِسی عسکریت پسندی کی مرہونِ منت ہے جس نے ان کو مقبولیت کے کچھ غیرطبعی مواقع دے ڈالے۔

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

ماردھاڑ اور جدت پسند بیانیوں کا ظہور

اور انقلابی منہج کو درپیش فرسٹریشن

ایک چیز عین ابتداء کے اندر واضح کر دی جائے۔ ہماری یہ معروضات نہ کسی ’تبلیغی‘ ڈسکورس سے پھوٹ کر آرہی ہیں (جسے سیاست سے کچھ سروکار نہیں) اور نہ کسی ’جہادمخالف‘ ڈسکورس سے (جسے عالمِ کفر کی حالیہ یلغار کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں)۔ ہمارا فکری تعلق یقیناً اُس کیمپ سے ہے جسے مغرب اپنی کسی خاص غرض کے تحت ’پولیٹیکل اسلام‘ کا نام دیتا ہے اور جس کا درست نام ہمارے ہاں ’’سیاسۃ شرعیۃ‘‘ ہے۔  یعنی فی زمانہ عالم اسلام پر مسلط مغربی نظاموں سے خلاصی اور ان کی جگہ پر شرعِ محمدی کی حتی الوسع بحالی اور مسلم زندگی کی اس پر استواری۔ یہ ہمارا ایمان ہے۔ (اندرونِ عالَمِ اسلام فرنٹ پر)۔ نیز ہمارا فکری تعلق اُس جہادی ڈسکورس سے ہے جسے ہم سہولتِ مبحث کےلیے کسی وقت ’عبد اللہ عزامؒ کی اکیڈمی‘ کہتے ہیں، یعنی مسلم مقبوضہ جات کو واگزار کرانے کےلیے جہاد، اور جوکہ متعدد مسلم خطوں کے اندر جاری ہے، مانند فلسطین، کشمیر، افغانستان وغیرہ۔ (بیرونی فرنٹ)

ہمارا قاری جانتا ہے، یہ دونوں فرنٹ ہم سے کس درجہ توجہ اور اہمیت لیتے ہیں۔ نیز ہم اِن دونوں محاذوں کو خلط بھی نہیں ہونے دیتے۔ ہمارے ڈسکورس میں دونوں کا اپنااپنا محل برقرار رہتا ہے۔

انقلابی منہج کے سامنے دو راستے

البتہ ’’سیاسۃ شرعیہ‘‘ اور ’’انقلابی منہج‘‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں، گو ان دونوں میں کچھ اشیاء مشترک بھی ہیں۔ ہیں یہ دو الگ الگ اپروچ باوجود اس کے کہ ’’سیاست‘‘ سے دونوں بحث کرتے ہیں۔  دستیاب مواقع کو اسلامی ایجنڈا کے حق میں بہترین طور پر استعمال کرنا اور اِس راہ سے قوم کی اجتماعی زندگی کو اسلام کے تقاضوں کے ساتھ بقدرِ استطاعت ہم آہنگ کرتے چلے جانا ’’سیاسۃ شرعیۃ‘‘ ہی میں آتا ہے۔ اِس میں اور ’’انقلابی منہج‘‘ میں کیا فرق ہے، اس پر ہم ایک علیحدہ مضمون میں بات کر چکے۔  ’’انقلابی منہج‘‘ کے حوالے سے وہاں ہم دیکھ آئے، یہ اپنے اندر کچھ بےلچک قالب رکھنے کے باعث بالعموم ایک بند گلی پر پہنچتا ہے۔ جس کے بعد لازماً آپ کو ان دو میں سے  کوئی ایک رخ اختیار کرنا ہوتا ہے:

1.    ایک: نظرثانی کا راستہ۔ جس میں آپ ’انقلابی‘ منہج سے واپسی کا راستہ لیتے اور بالعموم وہ روٹ اختیار کرتے ہیں جسے ہم ’’اصلاح بقدرِ استطاعت‘‘[1]  کا نام دیتے ہیں۔ یعنی دستیاب مواقع سے ہی اسلامی ایجنڈا کے حق میں جتنی خیر برآمد کروائی جا سکتی ہو کروانا اور ’پورے‘ کے انتظار میں ’جو ہو سکتا ہے‘ اُس سے ہاتھ نہ جھاڑ بیٹھنا۔ یہ چیز جسے ہم نے ’’اصلاح بقدرِ استطاعت‘‘ کہا، یقیناً ایک صالح روٹ ہے بشرطیکہ اس کے پیچھے ایک غایت درجہ کی عقائدی پختگی  اور ٹھیٹ پن کام کر رہا ہو، جوکہ  انقلابی جماعتوں میں کسی قدر محل نظر ہے۔ (بہت سی انقلابی جماعتیں تو ’عقیدہ‘ کا لفظ ہی سن کرتعجب سے دیکھتی ہیں کہ یہ ہوتا کیا ہے اور کس کام آتا ہے! ان کا زیادہ فوکس ’’ذاتی فہمِ قرآن‘‘ ہوتا ہے۔ اب اِس ’ذاتی‘ یا ’جماعتی‘ فہمِ قرآن کے ساتھ مجبوری یہ ہے کہ یہ اُن فکری و وِجدانی کیفیات پر انحصار کرتا ہے جو ایک آدمی یا ایک تنظیم پر اس وقت گزر رہی ہوں۔  یعنی ’دل کا دریا‘ آپ کے ہاں جس رخ پر بہتا ہے اُسی رخ کے استدلالات و استنباطات قرآن سے آپ پر ’کھلتے‘ چلے جاتے ہیں[2] اگرچہ آپ سمجھ یہ رہے ہوں کہ آپ کے نظریات تو براہِ راست قرآن سے ماخوذ ہیں، نیز اس سے متصادم نظریات تو صاف قرآن سے متصادم ہیں! یہ ایک واقعہ ہے کہ یہاں کے مختلف فکری گروہ اپنےاپنے ’رجوع الی القرآن‘ کے دوران کچھ بنیادی ترین امور میں ایک دوسرے سے متعارض استدلال فرما رہے ہوتے ہیں؛ باوجودیکہ دونوں کے ہاتھ میں جو قرآن ہے وہ ایک ہے! جس کے باعث، ہردو فریق کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ ایک  دوسرے کو یا تو ’متعصب‘  گردانیں جو اپنی ’غلط رائے‘ چھوڑنے پر آمادہ نہیں یا ایک دوسرے کے فہم کو قرآن ’غور سے‘ نہ پڑھنے کا نتیجہ قرار دیں!)۔ ایسے عقائدی ٹھیٹ پن کی غیرموجودگی میں، ’’اصلاح بقدرِ استطاعت‘‘ کے روٹ پر چل پڑنے کی صورت میں، خدشہ یہ ہوتا ہے کہ جیسےجیسے حالات، جیساجیسا ماحول، جیسی جیسی فضا اور جیسی جیسی جذباتی کیفیت ان کو ہر ہر مرحلے کے اندر پیش آتی جائے گی ویسی ویسی تبدیلیاں اِن کے اپنے فکری پیراڈائم کے اندر رونما ہوتی چلی جائیں گی؛ یہاں تک کہ اِن مصلحین ہی کو بالآخر کچھ سے کچھ بنا  چھوڑیں گی۔[3] نتیجتاً، یہ حضرات ماحول اور فضا کی اُتنی صورت گری  shaping نہیں کریں گے جتنی کہ ماحول اور فضا اِن کی کردے گی۔ یہ حالات کو اُتنا ٹھیک نہیں کریں گے جتنا کہ حالات اِن کو ’ٹھیک‘ کردیں گے۔ یہاں تک امکان ہوتا ہے کہ آپ ماحول اور فضا ہی کے ہو جائیں ۔ جو کچھ ٹھوس فکری مواقف اپنے ’دورِ انقلاب‘ میں آپ رکھا کرتے تھے وہ رفتہ رفتہ ’حالات‘ کی نذر ہو کر نری ’تاریخ‘ بن جائیں؛ اور آپ اپنے اُس تمام فکری اثاثے سے ہلکےپھلکے ہو کر نرے ’حالات‘ کے پیروکار۔ لہٰذا فکری پیراڈائم میں اگر ایک غایت درجے کی صلابت اور ٹھیٹ پن پیدا کر لیا گیا ہو اور یہاں پر فکری نقل مکانی کے اسباب تلف کر لیے گئے ہوں، جوکہ ڈھیروں محنت کا متقاضی ہے... تو ’’اصلاح بقدرِ استطاعت‘‘ کو ’’انقلابی منہج‘‘ کے مقابلے پر ہم یقیناً ایک راست ترین منہج باور کرتے ہیں۔

2.                دوسرا: جمود stagnancy   کا راستہ۔ جس میں آپ اپنے آپ کو سمجھاتے ہیں کہ ’پورے نظام‘ کو سر تا پیر تبدیل کر دینے (انقلاب) اور اِس سے کم کسی بات کو ہاتھ نہ لگانے کا جو ایک ہدف آپ نے اپنی جدوجہد کےلیے بہت عشرے پہلے مقرر کیا تھا... باوجود اس کے کہ دُور دُور تک اِس کے پورا ہونے کی کوئی عملی صورت نظر نہیں آتی، اور واقع میں یہ ایک نہایت غیرحقیقی یا غیر عملی ہدف یا ایک بند راستہ dead end   ہی دکھائی دیتا ہے، لیکن آپ کےلیے چونکہ یہ ایک ’عقیدہ‘ کا مسئلہ ہے لہٰذا آپ تو ایسے ہی کسی واقعہ کے انتظار میں رہیں گے خواہ یہ جب بھی ہو، اور نہیں ہوتا تو نہ ہو، اِس سے ہٹ کر اپنائے جانے والے راستے البتہ غلط اور خلافِ شریعت ہیں اور یہی ایک راستہ درست و حقیقی راستہ ہے۔ مگر یہ محض اپنے آپ کو سمجھانے والی بات ہوتی ہے۔ عملاً آپ اپنی توقعات کے ساتھ ایک واضح سمجھوتہ کر چکے ہوتے ہیں اور آپ کے سب رویے اور معمولات اسی کی خبر دے رہے ہوتے ہیں، جسے جانچنے کےلیے ایک ہلکا سا نفسیاتی تجزیہ کفایت کرتا ہے۔ یعنی کھڑا پانی جس کے بحر کی موجوں میں اب وہ اضطراب نہیں۔ وہ بےقابو ولولے جو ابتدائی عشروں میں کہیں سے پھوٹ پھوٹ کر آرہے تھے اور ایک صاف طغیانی کا پتہ دیتے تھے، اب کسی ’بھاری پتھر‘ کے ساتھ سمجھوتہ کر چکے ہوتے ہیں، اگرچہ عبارتیں آپ کے ہاں وہی کی وہی ہوں۔ معاملات کا نظریاتی ہی نہیں، نفسیاتی جائزہ بھی آپ کو بہت سے فائدہ مند نتائج تک پہنچاتا ہے۔ سیلاب کا پانی چڑھتے وقت اپنی کہانی خود کہتا ہے تو اُترتے وقت بھی آپ ہی اپنی زبان ہوتا ہے، اور ہردو واقعہ کا فرق بےحد نمایاں۔ اِس اترتے پانی کا حل بہرحال آپ کے پاس نہیں ہوتا خواہ اپنے آپ کو سمجھانے اور شروع دن کے اسباق کا اعادہ کرنے میں کتنا ہی زور صرف کر رکھا گیا ہو۔ غرض ہر دن گزرنے کے ساتھ آپ منظر سے ہٹتے چلے جاتے ہیں خواہ اپنی ایک بند دنیا میں کتنی ہی چہل پہل اپنے اردگرد پائیں۔ دیکھنے والا صاف اندازہ کرسکتا ہے کہ اب یہاں وقت گزاری ہے خواہ جتنی کر لیں؛ عمل کا راستہ یہاں سراسر مفقود ہے۔ عمل کا راستہ یا تو پہلا ہے (جس کے ہم بھی مؤید ہیں؛ اور اصلاح و تبدیلی کےلیے کوئی اور راستہ اندریں حالات ہماری نظر میں نہیں ہے)، یا پھر وہ  جسے ’’راستہ‘‘ کہنا ہی نہیں چاہئے کہ وہ ’عمل‘  سے بڑھ کر تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ہے، اور اس سے کسی اصلاح کی توقع رکھنا آخری درجے کی نادانی، یعنی ماردھاڑ، جس کا کچھ ذکر آگے آ رہا ہے۔

ماردھاڑ اور اس کا جوابی بیانیہ.. انقلابی منہج کی فرسٹریشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے

’’انقلاب‘‘ اپنے رونما نہ ہونے کی صورت میں بعض لوگوں کو ’’جمود‘‘ کی جانب دھکیلتا ہے، جیساکہ پیچھے بیان ہو چکا۔ اور یہ جمود البتہ کچھ جذباتی نفوس میں فرسٹریشن اور بےچینی بھی پیدا کر دیتا ہے۔

یہاں پہنچیں.. تو ایک ’ماردھاڑ‘ کا بیانیہ آتا ہےاور ایک اس کا ’جوابی بیانیہ‘۔ دونوں ایک دوسرے سے بھیانک۔ نیز ایک دوسرے سے باقاعدہ تقویت پانے والے۔

ماردھاڑ کا بیانیہ کہتا ہے: دیکھا سیدھی انگلی سے گھی نکالنے کا نتیجہ! انگلی ٹیڑھی کیے بغیر چارہ ہی نہیں۔ آؤ ہمارے ساتھ، بندوق اٹھاؤ اور خون کا ایک کھیل شروع کرو۔

یہاں اس کا ’جوابی بیانیہ‘ آتا ہے: دیکھا ’انقلاب انقلاب‘ کرنے کا نتیجہ! یہ ساری خونریزی دراصل تمہاری وجہ سے ہوئی ہے۔ نہ تم ’اسلامی ریاست‘ یا ’اسلامی حکومت‘ کا نام لیتے اور نہ نوجوان اس کےلیے طاقت کے استعمال پر اترتے۔ جب تم پُراَمن طریقے سے اپنا یہ خواب پورا نہ کر سکے تو انہوں نے غیرپُراَمن طریقوں کا سہارا تو لینا ہی تھا (استدلال!!!) اصل قصور یہ خواب دکھانے والوں کا ہوا (ہو سکے تو مودودیؒ کو قبر سے جا کر پکڑو!) نہ یہ خواب تم دکھاتے اور نہ یہ نوجوان اس سے اگلا کوئی قدم اٹھاتے!

غرض انقلابی بیانیہ تھا: پُراَمن عوامی راستوں سے ایک اسلامی انقلاب برپا کرنا:

  • ’ماردھاڑ بیانیہ‘ کا حملہ ہوا اس کے پہلے حصے پر، یعنی پرامن عوامی راستوں کے تصور پر اور وہ اس کی جگہ ’بندوق‘ لے آیا۔
  • ’جوابی بیانیہ‘ کا حملہ ہوا اس کے دوسرے حصے پر، یعنی خود انقلاب ہی کے مقصد اور غرض و غایت پر۔ اس کا کہنا تھا، اصل فساد یہاں ہے۔ اور یہ اس کی جگہ ’مغربی ریاست‘ کو قبول کروانے کی فرضیت لے آیا۔ بلکہ جو شخص آج ’مغربی ریاست‘ کو قبول نہ کرے اس کو قریب قریب گردن زدنی بھی قرار دینے لگا۔ (اپنی افتاد میں یہ ’جوابی بیانیہ‘ بھی اتنا ہی فاشسٹ ہے جتنا کہ وہ ’ماردھاڑ بیانیہ‘)۔

غرض ان دونوں بیانیوں کے نتیجے میں ہمارا امن بھی گیا (یہاں تک کہ ہمارے بہت سے مسلم ملکوں کی سالمیت خطرے میں پڑ گئی) اور ہمارا اسلامی ریاست کا تصور بھی دریابُرد ہوا۔ خدانخواستہ ہم ملک سے بھی گئے اور اسلام کی عملداری سے بھی!

انقلابی منہج کو اگرچہ ہم اون own نہیں کرتے لیکن انقلابی منہج کے ساتھ یہ دونوں بیانیے مل کر جو ہاتھ کرنا چاہتے ہیں، بلکہ پورے اسلامی (روایتی) سیکٹر کا جو حشر کرنا چاہتے ہیں، اس پر تنبیہ البتہ ضروری ہے۔

’ماردھاڑ بیانیہ‘ پر ذرا آگے چل کر ہم بات کریں گے۔ البتہ ’جوابی بیانیہ‘ کی یہ موقع پرستی جو وہ ’’اسلامی ریاست‘‘ یا ’’اسلامی حکومت‘‘ کے تصور کو ’فساد کی اصل جڑ‘ قرار دینے کےلیے سامنے آتی ہے اور اس پر تمام عالمی فورمز کی تائید و نصرت کے مزے لوٹتی ہے... اس پر چند کلمات کہہ دینا ضروری ہے:

ان لوگوں کا بیانیہ یہ ہے کہ نہ آپ مغربی ریاست کو غلط کہتے اور اسلامی شریعت کی مکمل عملداری کی تحریک اٹھاتے اور نہ یہ نوجوان تمہارے اس خواب کو پورا کرنے کےلیے خونیں راستوں کا رخ کرتے۔ ہم ان سے کہتے ہیں: بھائی تم ہمارے مغربی ریاست کو غلط کہنے سے جی بھر کر اختلاف کرو، واللہ کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارے شریعتِ اسلامی کی مکمل عملداری کو فرض ٹھہرانے پر جیسے مرضی سوال اٹھاؤ۔ ہم اس پر تمہارے ساتھ بات کر سکتے ہیں۔ تم ہمیں اس پر غلط کہو اور ہم تمہیں اس موضوع پر غلط گردانیں، یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ اور نہ افکار کی دنیا میں یہ کوئی انہونی چیز۔ لیکن ہمارے ’’اسلامی ریاست‘‘ یا ’’شریعت کی مکمل عملداری‘‘ کے اِس کیس کو تمہارا فساد کی جڑ اور خونریزی کا اصل موجب قرار دینا اگر تمہارے کسی کینہ (حِقدِ دفین) پر محمول نہ بھی کیا جائے تو اس کی سطحیت بہرحال اپنی مثال آپ ہے۔ آؤ ہم تمہیں بتائیں، کیسے۔ بس یہی آئینہ ہم تمہارے سامنے رکھ دیتے ہیں:

چلو ریاست کے ’’اسلامی‘‘ ہونے کو تم فرض نہیں کہتے یا شاید درست بھی نہیں سمجھتے۔ ٹھیک ہے۔ لیکن ریاست کے ’’جمہوری‘‘ ہونے کو تو فرض یا ضروری کہتے ہو؟ کسی بیرونی قبضے سے آزادی حاصل کرنے کی ’بات‘ کرنے کو تو حق جانتے ہو؟ تو کیا اگر کسی ملک میں کچھ جذباتی لوگ ’’جمہوریت‘‘ کےلیے ہتھیار اٹھا لیں تو اُس خونریزی کی ذمہ داری آپ قبول کریں گے؟ کہیں مارشل لا کے خلاف کوئی ’الذولفقار‘ نکل آئے اور ملک بھر میں تخریب کاری کرتی پھرے، یا کہیں بادشاہت کے خلاف کوئی ’انقلابِ فرانس‘ اٹھ کھڑا ہو جو ہزاروں یا لاکھوں کی جان لے لے، یا بیرونی قبضے سے آزادی کےلیے کوئی سبھاش چندر بوس ہتھیار اٹھا لے... تو اس پر آپ کو پکڑ لیا جائے؟ اس لیے کہ آپ ’مارشل لا‘ کو یا ’بادشاہت‘ کو یا ’بیرونی اقتدار‘ کو اصولاً مسترد کرتے ہیں اور اس کی جگہ پر ایک ’مقامی‘ یا ’جمہوری‘ حکومت کے قیام کو اصولاً ضروری گردانتے ہیں؟ اور کیا آپ کے اس بیانیے سے قاعدہ یہ اخذ کیا جائے کہ: دنیا میں جو بھی شخص کسی طرزِریاست کو مسترد کرے اور اس کی جگہ کسی دوسرے طرزِریاست کو لازم قرار دے... تو اگر اس کے مستردکردہ نظام کو گرانے اور اس کے تجویز کردہ نظام کو قائم کرنے کا نعرہ لگا کر کسی وقت کوئی سرپھرا گروہ ہتھیار اٹھا لیتا ہے (اور اِس راہ سے، دانستہ یا نادانستہ، خود اُس شخص کے کیس کو ہی تباہ و برباد بھی کر دیتا ہے) تو اس تمام خونریزی کا ذمہ دار بہرحال اُسی پہلے شخص کو قرار دیا جائے گا جس نے ایک نظام کو غلط اور اس کی جگہ کسی دوسرے نظام کو ضروری کہنے کی ایک پُراَمن بات کر دی تھی؟ یعنی ایک سرپھرے گروہ کے ہاتھوں اِس بھلےمانس کا ایک پُراَمن کیس لُوٹا بھی گیا اور اُس لُوٹنے والے کی سب غارت گری کی چَٹی بھی اب یہی دے گا؟ وہ اُس سے بھی مار کھائے اور آپ سے بھی، اس لیے کہ اس نے کسی نظامِ موجودہ status quo کو غلط کہنے کا پاپ کر لیا تھا! اگر قاعدہ یہی ہے تو پھر صاف لفظوں میں یہ کیوں نہ کہا جائے کہ معاملہ دراصل کسی اسلامی یا غیر اسلامی ریاست کا سرے سے نہیں ہے، بلکہ ایک سٹیٹس کو کے خلاف آواز اٹھانا ہی درحقیقت ’’فساد‘‘ کی بنا ڈالنا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ سٹیٹس کو اسلامی ہے یا جمہوری یا استبدادی یا بادشاہی یا مارشل لائی یا مغربی یا مشرقی یا جنوبی یا شمالی۔ سٹیٹس کو جیسا بھی ہے، اس پر ایمان لانا بجائےخود فرض ہے اور اس کو مسترد کرنا بجائےخود فساد! یعنی مطلق دینِ اکبری!

غرض اس سے بودا بیانیہ شاید نظریات کی تاریخ میں کبھی نہ پایا گیا ہو۔ بخدا، اگر عالمی سٹیٹس کو کی یہ ایک ناگزیر ضرورت نہ ہوتا اور اِس کی پزیرائی کرانے کو ایسی دیوہیکل ابلاغی مشینری مسخر نہ ہوتی تو ایسا ’نکتہ‘ نکال لانے والے پر دنیا صرف ایک قہقہہ لگانے کی روادار ہوتی۔ مگر میڈیائی قوت کا کرشمہ ہے کہ ’’اسلامی ریاست‘‘ کے بیانیہ کے خلاف اب یہ ایک برہانِ قاطع ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں! بھائی اِس کا جواب فی الواقع نہیں!

یعنی آدمی چیختا رہ جائے کہ ایک طرزِریاست کو مسترد کرنے اور اس کی جگہ ایک دوسرے طرزِریاست کو قائم کرنے کی بات میں نے سو فیصد پُراَمن بنیادوں پر کی تھی اور اس معاملہ میں تشدد میرے ہاں سو فیصد مذموم ہے، جس پر میری پوری تحریک اور میرے زبان و بیان کا ہر ہر انداز شاہد ہے... آزادیِ افکار کے چیمپئن عباقرہ کی جانب سے مگر اس کو ایک ہی جواب دیا جائے گا: افکار کی دنیا میں یہی تو اصل جرم ہے!

غرض اصول تو ہے یہی، البتہ لاگو یہ صرف ’’اسلامی ریاست‘‘ کی بات کرنے والوں پر ہو گا۔ دنیا میں تبدیلی کی یہ بس ایک ہی صدا لائقِ قدغن ہے؛ باقیوں کےلیے یہ مکمل دورِ آزادی ہے!

*****

جہاں تک ماردھاڑ والے منہج کا تعلق ہے...  تو انقلابی جماعتوں کا بلاشبہ کبھی اِس راہ سے سروکار نہیں رہا۔ نہ انہوں نے اپنے ’آئندہ کسی مرحلہ‘ کے طور پر ہی کبھی اِس منہج کی تبلیغ کی ہے۔ یہ بات حقیقتاً سراہنے کے لائق ہے، جس کی آج بھی قدر نہیں کی جا رہی۔ ان (انقلابی) جماعتوں کی کل امید اور وابستگی عوامی عمل سے رہی ہے؛ اور زمانہ اِس پر شاہد۔ مایوس سے مایوس کن حالات بھی انہیں اس سے نہ ہٹا سکے۔ ان جماعتوں میں اپنے ملک کے لوگوں اور اداروں کے ساتھ امن پسندی وخیرخواہی کے رویے شروع سے لے کر آج تک ایک حقیقت ہیں۔ میڈیا کے ظالم ایک طرف پاکستان کی تاریخ کا خلاصہ کرتے ہوئے ’’مُلا مِلٹری الائنس‘‘ کی پھبتی کستے ہیں۔ دوسری طرف ان دینی جماعتوں پر ملک دشمنی کا ملبہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں (یہ ایک الگ بات کہ ملک کے اِن ’دردمندوں‘ میں سے بہت سوں کی اپنی تاریخ روس  اور پھر اب بھارت اور امریکہ کی کاسہ لیسی سے عبارت ہے)۔ جہاں تک واقعہ ہے تو یہاں کی تقریباً سبھی اسلامی انقلابی جماعتیں ہر مشکل گھڑی میں ملکی اداروں کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہیں خواہ وہ کسی بیرونی دشمن کے مقابلے پر ہو یا کسی قدرتی آفت یا کسی اندرونی بحران سے نمٹنے کے معاملے میں۔ اور یہ معاملہ آج تک برقرار ہے۔ اور اپنے لوگوں پر تو یہ سب جماعتیں ہمیشہ فدا ہوتی ہیں۔ اِن ملکوں کا کچھ نہ کچھ سنوارا گیا ہو گا تو اِنہی اسلامی جماعتوں کے دم سے؛ سیکولر پارٹیوں نے تو آج تک اجاڑا اور کھایا ہے۔ مشرقی پاکستان اور پھر کشمیر میں اِن کی قربانیاں تصور سے باہر ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے بہت سے مسلم ممالک میں رونما ہونے والے عسکریت پسند ڈسکورس  کو بھی نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام بھر میں پائی جانے والی اسلامی انقلابی جماعتوں نے بلاشبہ رد ہی کیا ہے اور ان کے منہج  کی کبھی تائید نہیں کی ہے۔ اس لحاظ سے یہ انقلابی جماعتیں ان حالیہ عسکریت پسند رجحانات سے قطعی بریءالذمہ ٹھہرتی ہیں۔  رہی وہ فرسٹریشن frustration  جو ایک بند راستے dead end  پر ہونے کی وجہ سے انقلابی منہج پیدا کر کے دیتا ہے... اور جس سے یہ عسکریت پسند اپنے بیانیہ کو تقویت دینے کےلیے ایک موقع پاتے رہے ہیں تو یہ معاملہ سٹیٹس کو کو رد کرنے والی کسی بھی پُراَمن سے پُراَمن دعوت کے ساتھ پیش آسکتا ہے، جیساکہ ’جوابی بیانیہ‘ کے رد میں پیچھے گزر چکا۔

پھر اگر ’فرسٹریشن‘ کی بات ہے...  تو خود یہ عسکریت پسندی اپنی نہاد میں انقلابی منہج کی نسبت ایک کہیں زیادہ بند راستہ ہے۔[4]  کئی ملکوں میں ڈھیروں نقصان کر والینے کے بعد لوگوں کو یہ بات سمجھ آئی کہ یہ عسکریت پسندی انہیں کسی بھی ہدف پر پہنچانے والی نہیں۔ (علاوہ اس بات کے کہ یہ اصولاً ایک بےحد غلط راستہ ہے)۔ تاہم ’فرسٹریشن‘ جس چیز کا نام ہے وہ کسی منطقی طرزفکر کو خاطر میں لانے کی گنجائش بہت کم چھوڑتی ہے اور ایک بار تو بہرحال نقصان کروانے کا موجب بنتی ہے۔  علاوہ اس بات کے  __  جوکہ اس معاملہ کا سب سے تشویشناک پہلو ہے  __ کہ انقلابی منہج کی عدم نتیجہ خیز ی دیکھ کر تو چلیے آپ نے عسکریت پسندی میں اس کا ’متبادل‘ ڈھونڈنا چاہا البتہ جب ایک بھاری نقصان کروا لینے کے بعد عسکریت پسندی بھی آپ کا کوئی ہدف سر نہیں کروا پاتی تو ’متبادل‘ کہاں ڈھونڈا جائے گا؟  حق یہ ہے کہ وہ فرسٹریشن جو ایک ملک میں عسکریت پسندی کی تباہ کاریاں دیکھ لینے کے بعد پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ ایک گھٹاٹوپ اندھیرا چھا جاتا ہے، معاشرے کی سطح پر تب جو آپ سے آپ ایک ’متبادل‘ سامنے آتا ہے وہ غامدیت یا وحیدالدین خانیت یا مدخلیت/جامیت[5] نما آفتوں کا نزول ہوتا ہے، جس کا حملہ وہاں کے مذہبی اذہان پر ہوتا ہے، اور جوکہ عام لوگوں کی سطح پر معاشرے کو لبرلائز کر دینے کےلیے ایک پل کا کام دیتا ہے۔

یہ ایک واقعہ ہے اور براہِ کرم اس کو خصوصی طور پر نوٹ کیا جائے کہ:

جب تک انقلابی جماعتوں کی اپیل عروج پر رہی تب تک یہاں کے دین پسند پڑھے لکھوں میں المورد و وحیدالدین ایسی آوازوں کا یوں غلغلہ نہیں ہوا تھا بلکہ تقریباً کوئی اِنہیں نہ پوچھتا تھا۔ حالانکہ یہ منحنی آوازیں پہلے بھی یہاں موجود ہی رہی تھیں؛ آج یکدم بہرحال نہیں آ گئیں (مقبول یکدم اب ہوئی ہیں)۔ لیکن اب جب انقلابی ڈسکورس کسی حد تک پس منظر میں چلا گیا اور عسکریت پسندی کا آہنگ اس کی نسبت بلند ہوا تو یکلخت یہاں المورد وغیرہ کا بھی طوطی بولنے لگا۔ بلکہ فی الوقت آپ کو دو ہی ’بیانیے‘ میدان میں نظر آتے ہیں: یا ماردھاڑ یا غامدیت۔ (موخرالذکر، لبرلزم کی راہ ہموار کرنے کا ایک اسلامی فکری اوزار)۔  ہماری نظر میں المورد وأخواتُھا کی یہ غیرمعمولی پزیرائی اِسی عسکریت پسندی کی مرہونِ منت ہے جس نے ان  کو مقبولیت کے کچھ غیرطبعی مواقع دے ڈالے۔ آخر کیسے ہو سکتا تھا لبرل ایجنڈا کے زیرتحریک کام کرنے والے چینل یہ موقع ہاتھ سے جانے دیتے اور ملکی تاریخ کے اِس عظیم خلا کے موقع پر ایسے ’اصل اسلام‘ بیان کرنے والوں کو ہاتھوں ہاتھ نہ لیتے! المورد کی دریافت پر کوئی ان لبرلز کا خوشی سے چہکنا دیکھے! تاریخ انسانی میں پنسلین کی دریافت بھی  شاید ہی اتنی ’بروقت‘ کہی جا سکتی ہو جتنی کہ عالمِ اسلام کی تشکیلِ نو کا تاریخی پراجیکٹ لانچ کرتے وقت ’المورد‘ کی دریافت! آپ خود تصور کر لیں آج کی اِس دنیا میں المورد نہ ہوتا  تو لبرل ایجنڈا کو مطلوب ’اسلامی‘ دلیلوں کا بندوبست کہاں سے ہوتا!

کلاسیکل منہج پر رہنا آپ کو اِس پورے گنجلک سے کفایت کرتا۔ واللہ الموفِق

 

 



[1]    اصلاح بقدرِ استطاعت یعنی ’دیے گئے حالات میں‘ ہی جو کچھ ممکن اور جو ’مواقع‘ میسر ہیں ان کو دینِ حق کے حق میں بہترین طور پر استعمال کر تے اور اسی میں ایک اعلیٰ کارکردگی دکھاتے چلے جانا۔ کل کیا ہوتا ہے، اسے کل پر چھوڑنا۔ البتہ آج کیا ہو سکتا ہے، اس معاملہ میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دینا۔ 

[2]    یعنی پہلے آپ ایک خاص فکری و وجدانی رخ اختیار کرتے ہیں اور اس کے بعد قرآن سے ’استدلالات‘ کا سلسلسہ شروع ہوتا ہے۔ اور تب آپ کا وہ فکری و وجدانی رخ اور بھی تقویت پاتا ہے۔ ممکن نہیں کہ دنیا کا کوئی گروہ بغیر کچھ ابتدائی مقدمات اختیار کیے قرآن سے استنباط و استدلال کا سفر شروع کرتا ہو۔ پس سب سے اہم سوال یہی ہے کہ وہ ابتدائی جہت آپ کہاں سے پاتے ہیں؟ اسی کا نام درحقیقت ’مدرسہ‘ یا ’دبستان‘ یا ’عقیدہ‘ ہے۔ یہ چیز آپ متقدمین سے لے لیں یا متاخرین سےیا متجددین سے، مگر لینی آپ کو پڑے گی۔ اور کچھ نہیں تو خود اپنی ذات میں ہی آپ ایک ’مدرسہ‘ یا ’دبستان‘ یا ’عقیدہ‘ ہوں گے۔ اس کے یکسر بغیر البتہ آپ نہیں پائے جا سکتے۔ پس کوئی حلقہ یا تنظیم یہاں ایسی نہیں جو آپ کو ایک عدد ’مدرسہ‘ یا ’دبستان‘ یا ’عقیدہ‘ فراہم نہ کرتی ہو۔ یہ ’مدرسہ‘ یا ’دبستان‘ یا ’عقیدہ‘ ہی دراصل آپ کے ’فہمِ قرآن‘ کی ایک باقاعدہ ساخت کرنے والا ہوتا ہے، اگرچہ آپ کو لگے یہ کہ یہ تو خود قرآن ہے جس نے آپ کے اِن سب نظریات و افکار کی ساخت کر دی ہے۔ لہٰذا یہ سوال تو بےضرورت ہے کہ آدمی کا کوئی ’عقیدہ‘ یا کوئی ’مدرسہ‘ ہونا چاہئے یا نہیں؛ یہ تو ہونا ہی ہونا ہے، اِس سے تو کوئی مفر نہیں۔ سوال آپ صرف یہ کیجئے کہ ایسا کوئی ’مدرسہ‘ یا ’عقیدہ‘ رکھنے کے معاملہ میں آپ متقدمین کے دستور کی پابندی کرتے ہیں یا آپ کا شجرہ اِس معاملہ میں آپ کے اپنے ہی دور اور اپنے ہی شہر پر ختم ہو جاتا ہے؟

سلف کا یہ کہنا کہ ’’پہلے ہم ایمان سیکھتے، پھر ہم قرآن سیکھتے، تب ہم ایمان میں اور بھی ترقی کرتے‘‘، آج ہمارے لیے ڈھیروں غور کا متقاضی ہے۔ ایمان کی حقیقتیں مدرسۂ صحابہؓ سے سیکھنا، جوکہ آپ کے فہمِ قرآن کو ایک باقاعدہ جہت دے جاتا ہے، اِسی کو درحقیقت ہم تعلیمِ عقیدہ کہتے ہیں۔ جیساکہ ہم نے کہا، یہ چیز آپ ’’پہلوں‘‘ سے نہیں لیں گے تو ’بعد والوں‘ سے لیں گے یا خود وضع کریں گے، چوتھی کوئی صورت نہیں۔

یہ ایک علیحدہ سے بےحد اہم مضمون ہے جو ایقاظ میں مختلف جہتوں سے دہرایا جاتا ہے۔

[3]    مثلاً یہ حضرات اپنے ’انقلابی‘ دور میں جمہوریت کو دورِ حاضر کا کفر عظیم گردانیں گے۔ یا کم از کم بھی اسے شدید باعثِ تنقید جانیں گے۔ لیکن کسی سبب سے اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ جمہوریت کی بنیاد پر بننے والے ایوانوں میں اِن کو بہرحال کوئی فائدہ مند کردار ادا کرنا چاہئے... تو کچھ دیر بعد شاید آپ ان کو ’جمہوریت‘ کا ایک بہترین ایڈووکیٹ بنا ہوا بھی دیکھیں! (جیسا کہ ہماری برصغیر کی تحریک اسلامی کے بعض سرکلز کا حال رہا)۔ کہیں پر ایک اسلامی حلقے کو آپ ’سیکولرزم‘ کا دفاع کرتے ہوئے بھی دیکھیں (جیساکہ جناب رجب اردگان کو اخوانِ مصر کو مشورہ دیتے وقت ملاحظہ کیا گیا)۔ یہ جو چیز ہے، بظاہر کچھ لوگوں کو یہ ’’دستیاب مواقع کو لینے‘‘ یا ’’اصلاح بقدرِ استطاعت‘‘ کا منہج اختیار کرنے کا نتیجہ نظر آئے گا۔ جوکہ درست نہیں۔ ہماری نظر میں، یہ ہے نتیجہ فکری صلابت (عقائدی ٹھوس پن) کی کمی کا؛ جوکہ شروع سے تھی لیکن عمل کے میدان میں اترنے کے ساتھ سامنے آ گئی۔ ہاں یہ (فکری ٹھیٹ پن کی کمی) البتہ قدم قدم پر ’حالات‘ کے اثرات کو قبول کرنے کی صورت میں اپنا ظہور کرے گی۔ عربی میں اس کیفیت کو تمیُّع کہتے ہیں، یعنی مائع پن، کیونکہ’مائع‘ کی اپنی کوئی شکل نہیں ہوتی، مائع جن ظروف میں ڈالا جائے گا اس کی وہی شکل ہو جائے گی۔  ایک بےلحاظ حد تک ٹھیٹ فکری پیراڈائم رکھے بغیر اِس (اصلاح بقدرِ استطاعت) والے کوچے کا رخ کرنا البتہ نمک کی کان میں نمک ہوجانے پر منتج ہو سکتا ہے، یہ ہم مانتے ہیں۔ بلکہ ہمارا کیس ہی یہ ہے۔ عقیدہ میں صلابت جبکہ عمل میں آسان روی معاشرے کی سرزمین پر پیش قدمی میں آپ کو بہترین توازن دیتی ہے۔ عمل میں آسان روی نہ ہو تو آپ بیٹھے رہتے ہیں؛ چل نہیں پاتے، اور وقت گزاری ہوتی ہے۔ عقیدہ میں صلابت نہ ہو تو آپ اپنی راہ چلنے کی بجائے کسی کی راہ چلنے لگتے ہیں۔ پس نہ ایسا بیٹھنا اچھا جو آپ کے عقیدہ کو معاشرے میں راستہ بنا کر نہیں دے سکتا۔ اور نہ ایسا چلنا اچھا جو آپ کے اپنے عقیدہ اور اپنے ایجنڈا کی پیش قدمی نہیں۔

(بات مجموعی رویے کی ہو رہی ہے۔ ورنہ ایسا نہیں ہے کہ فکری مفاہمت compromise in ideology    کا راستہ چلنے والی جماعتوں میں کوئی خیر ہے ہی نہیں اور کامیاب ہونے کی صورت میں یہ امت کےلیے کوئی بھلا لے کر نہیں آئیں گی۔ ظاہر ہے ہماری گفتگو کا سیاق یہاں کچھ اور ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگر یہ جماعتیں عمل میں تو صرف ’’ممکن‘‘ تک ہی محدود رہیں اور اس معاملہ میں ہرگز نہ تو کوئی جلدبازی کریں اور نہ ہمت سے بڑھ کر کوئی بوجھ اٹھائیں اور نہ دستیاب مواقع کو ناں کریں البتہ اپنے نظریات میں  زیادہ سے زیادہ ٹھیٹ رہیں اور اِس احاطہ میں مغربی مصنوعات کو پاس نہ پھٹکنے دیں تو یہ کومبی نیشن combination   ان شاءاللہ کمال نتائج دے سکتا ہے۔ بلکہ ہم کہیں گے، یہ کومبی نیشن جس قدر بڑھیا ہو گا اتنے ہی بڑھیا نتائج دے گا۔ گو کچھ نہ کچھ نتائج ہر اسلامی جماعت ہی، اپنی پیش قدمی ہو جانے کی صورت میں، آپ کو دے گی۔ اس لیے ہم اس کی مدد و اعانت تو اسلام دشمنوں کے مقابلے پر ہر حالت میں ہی کریں گے، خواہ وہ پاکستان کی کوئی دینی جماعت ہو یا ترکی کی یا مصر کی۔ البتہ عمل میں اس کی پیش قدمی کی حمایت و تائید کے ساتھ ساتھ اس کے فکری پیراڈائم کو زیادہ سے زیادہ خالص اور ٹھیٹ رکھنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کریں گے کہ کومبی نیشن combination   اصل میں ہے ہی ہے: عمل میں: صرف وہ جو ہو سکے۔ اور نظریے میں: صرف وہ جو ہونا چاہئے

[4]   ایک اشکال:

مسلم ملکوں کے اندر عسکریت پسندی militancy within the Muslim lands  کو آپ نے ایک راستہ بند راستہ کیونکر کہا جبکہ ایک عسکریت پسند جماعت نے عراق کے اندر آپ کو حکومت حاصل کر کے دکھا دی۔ لہٰذا آپ اس کے نظریات سے جو بھی اختلاف رکھیں، اس کے راستے کو ایک بند راستہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟

جواب:

 ہم جو منہج آج تک تجویز کرتے آئے ہیں اس میں ہم مسلمانوں کے اندرونی فرنٹ (مانند مصر، الجزائر، پاکستان، سعودی عرب وغیرہ) پر عسکریت کو مسترد کرتے ہیں۔ البتہ وہ مسلم ممالک جہاں صیہونی یا صلیبی افواج حملہ آور ہیں یا جہاں غاصب ہندو اپنی افواج کے ساتھ اتر آیا ہے وہاں ہم قتال فی سبیل اللہ کو برحق نیز امت کے احیائےنو کے حق میں نہایت مؤثر جانتے ہیں۔ اب ظاہر ہے عراق بھی ان ملکوں میں تھا جہاں ملتِ صلیب اپنے لاؤلشکر سمیت آن اتری تھی۔ لہٰذا یہاں ابتدائی طور پر جو قتال ہوا وہ ہمارے تجویزکردہ منہج کے مطابق ہی ٹھہرتا ہے۔ یہی قتال جوان ہوتےہوتے  بالآخر اس بات کا سبب بنا کہ یہاں لڑنے ولی جماعتوں میں سے ایک جماعت کی حکومت بھی قائم ہو جائے۔  ورنہ سوال یہ ہے کہ صدام کے زمانے میں کوئی جماعت ایسا کیوں نہ کر پائی؛ اور اس کےلیے بیرونی قبضہ کار کے ہاتھوں پیش آنے والی صورتحال ہی کیوں مساعد ہوئی؟ لہٰذا صلیبی یا صیہونی یا ہندو افواج کے مقابلے پر ہونے والا جہادی عمل ہماری نظر میں عمل پسند مسلمانوں کےلیے بلاشبہ کچھ غیرمعمولی مواقع لے کر آتا ہے۔ پس  عراق کی مثال تو ہماری بات کو غلط ٹھہرانے کےلیے دلیل نہ بنے گی۔  ہاں یہ ہماری ایک اور بات کی تصدیق کر سکتی ہے۔  اور وہ یہ کہ چونکہ اس جماعت میں مصر، الجزائر، پاکستان وغیرہ ایسے اندرونی فرنٹ پر قتال کرنے کے نظریات ہی حاوی رہے تھے اس لیے عراق و شام میں بھی بہت سے مسلمان گروہوں کے ساتھ اس کا ایک اندرونی محاذ کھل گیا، جس سے معاملہ بہت زیادہ متنازعہ و دگرگوں ہو گیا۔ ورنہ اگر مسلمانوں کے ساتھ وہاں کوئی محاذ نہ کھولا جاتا تو بیرونی قبضہ کاروں کے مقابلے پر مسلمانوں کی اِس کامیابی کو، جو اِس آپس کی خونریزی سے بھی بچی ہوتی، ہم اُسی طرح ذکر کرتے جس طرح ملا عمر کے جہاد کو۔

[5]    عرب دنیا کی دو شخصیات ربیع ہادی المدخلی اور محمد امان الجامی سے منسوب ’سٹیٹس کو‘ سے چمٹ رہنے اور اس کو ڈاڑھوں سے دبا رکھنے کی داعی ایک تحریک یا ایک ذہنیت۔ عرب دنیا کےلیے اس کے پاس کیسے شگوفے ہیں اس کا اندازہ کرانا تو شاید اس مختصر مقام پر مشکل ہو، البتہ برصغیر کی جانب اس کے جن ناقابل ذکر داعیوں کا رخ ہوا ہے وہ یہاں کی تبلیغی جماعت تک سے راضی نظر نہ آئیں گے اور جماعتِ اسلامی، تنظیم اسلامی اور جماعۃ الدعوۃ وغیرہ تو صاف صاف ان کے کاغذوں میں ’خوارج‘ قرار پاتے ہیں، کیونکہ یہ اپنے اپنے ملک کے ’ولی الامر‘ کی بیعتِ شرعی میں نہیں! یہاں تک کہ نجانے کن بنیادوں پر ذاکر نائیک ایسے داعیوں کو مفسدین میں گنتے ہیں!

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز