عدتِ شرعی ’ڈی
این اے‘ کے سنک میں!
لا حولَ ولا
قوۃَ إلا باللہ
فرقے
یہ قربِ
قیامت مجتہدین (متعلقین المورد وغیرہ)
فقہاء کے
طریقے پر احکامِ شرعی کی ’’حکمت‘‘ اور ’’علت‘‘ کے مابین فرق کر لیتے تو ایسے شگوفے
نہ چھوڑتے۔
*****
اس علاماتِ قیامت ’اجتہاد‘ کی رُو سے حمل کا ایک ٹیسٹ ہی اب عدتِ شرعی سے
کفایت کر دے گا، یوں عورت چند ہفتوں میں کئی آدمیوں سے شادی کر سکتی ہے! بلکہ
زیادہ سوفسٹی کیٹڈ sophisticated ٹیسٹ کی سہولت موجود ہو (اور یقیناً ہے) تو ایک ایک دن کے وقفے سے، یا اس سے بھی کم وقفوں سے، کئی کئی آدمیوں کی زوجیت میں
جانا عورت کےلیے شرعاً حلال ہو جائے گا، صرف سماجی طور پر ’کچھ دیر کےلیے‘ اس کو
معیوب کہا جا سکے گا!
اور حق تو
یہ ہے کہ یہ ’حمل ٹیسٹ‘ عقدِ ثانی سے پہلے ضروری ہی کیا ہے! ایک راستہ آخر تک کھل
گیا ہے، آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کیسے...
اٹھانے
والوں نے نہایت خوب سوال اٹھایا: استبرائے رحم میں بھی معاملہ محصور کس نے کردیا
ہے اور کس دلیل سے؟ عدت ایسے منصوص حکم کی اگر ’توجیہ‘ ہو سکتی ہے تو استبرائے رحم
ایسے استنباطی مسئلے کی ’توجیہ‘ کیوں نہیں ہو سکتی؟ استبرائے رحم کس لیے؟ تاکہ
نطفے خلط نہ ہوں اور اس کے نتیجے میں اَنساب مشتبہ نہ ہوں۔ بھائی یہ مسئلہ تو ’ڈی
این اے ٹیسٹ‘ نے بڑی آسانی سے حل کر دیا ہے، نطفے اب خلط ہو کر دکھا ہی نہیں سکتے،
آپ کیوں اس پر دورانِ حمل نیا نکاح حرام کر رہے ہیں؟ لہٰذا اگر وہ
حاملہ ہے بھی تو بھلے سے دوسرے مرد سے شادی کرے، ’ڈی این اے‘ بتا دے گا یہ پہلے
مرد کا بچہ ہے یا دوسرے کا یا تیسرے کا یا چوتھے کا یا بیسویں کا؟ اب تو آپ اُس پر
دورانِ عدت ہی کیا دورانِ حمل بھی عقدِ ثانی یا ثالث یا رابع کو حرام کرنے کی کوئی
’’دلیل‘‘ نہیں رکھتے! حفظِ انساب اب ’ڈی این اے‘ کرے گا، معاملہ ختم! لہٰذا عدت
ایسا ایک معلوم حکمِ شرعی آپ نے ساقط کر دیا تو حمل ٹیسٹ ایسا ایک خودساختہ
’فریضۂ شرعی‘ بھی کیوں ساقط نہیں ہو سکتا؟ اس کو بھی عدت کی طرح سکِپ skip
کر دیجئے: یہ عورت بغیر کسی بھی حمل ٹیسٹ کے انتظار میں وقت ضائع کیے،
آگے پیچھے کئی کئی مردوں سے ’شادی‘ کر سکتی ہے۔ ’ڈی این اے ٹیسٹ‘ کسی بھی وقت یہ
بتا دے گا کہ بچہ کس کا ہے، حمل ظاہر ہونے سے پہلے حمل ٹیسٹ کراتے پھرنا خوامخواہ
کی کوفت hassle ہے۔ حفظِ انساب اس پر موقوف بہرحال نہیں ہے!
پس اِس
منطق نے تو ایک کمال راستہ کھول دیا۔ عورت چند ساعتوں میں مرد بدل سکتی ہے۔ ’ہندو
مرد سے شادی‘ کی طرح اس کو بھی آپ سماجی طور پر ہی ’نامناسب‘ کہہ سکیں گے (وہ بھی
کب تک؟!) شرعاً اس کو حرام کہنے کی بنیاد البتہ آپ نے ختم کر ڈالی۔
*****
دیکھئے حضرات۔ اہل سنت گروہوں (کلاسیکل اسلام کے ماننے والوں) کےلیے، ان کے
مسالک کے تمام تر فرق کے علی الرغم، واللہ جتنی وسعت آپ ہمارے ہاں پائیں گے وہ
شاید یہاں بہت کم لوگوں کے ہاں آپ کو نظر آئے۔ البتہ دین کو سیکولر لیبارٹری بنانے
والوں کےلیے ہمارے پاس یہ وسعت مفقود ہے۔ زیرو
ٹالرینس zero tolerance ان شاءاللہ۔ یہ
ہم پر سنت (کلاسیکل) اسلام کا حق ہے اور اس پر سب طعنے سننا ہمارے لیے باعثِ شرف۔
یہ ’شدت‘ بھی ہمارے نزدیک اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ وہ ’’وسعت‘‘۔
’’الذی
تولّٰی کِبرَہ‘‘ اپنی ذہانت کے سبب، یا ایک راستے میں لوگوں کے
ابتدائےعشق کا پاس کرتے ہوئے، ہو سکتا ہے کھینچ
تان کی کسی ’دلیل‘ سے اس بات کو حرام رکھے کہ عورت دورانِ حمل کسی
دوسرے مرد سے شادی کرے۔ یا آگے پیچھے کئی کئی مردوں سے شادی کر لے اور ’حمل
ہونے کی صورت میں‘ ڈی این اے سے پتہ چلا لے کہ یہ بچہ کس کا ہے۔ یا یہ اس بات پر ’خاموشی‘ اختیار کرے کہ ہندو مرد سے مسلم
عورت کا نکاح حرام ہونے کی کوئی دلیل شریعت میں باقی
نہیں رہ گئی! لیکن ایک نہایت بھیانک راستہ اس شخص نے یقیناً کھول دیا ہے۔ اور وہ
بالکل چوپٹ ہو چکا ہے۔ آج نہیں تو کل یہ راستہ ’’سرے تک‘‘ چلا جائے گا۔ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً
سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ
بِهَا ، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ۔ کلچرل گلوبلائزیشن کا عفریت باہر جبڑے کھولے کھڑا ہے؛ اور اسے سب کچھ ہضم
ہوتا ہے! آج آپ اِن کے ساتھ ’رواداری‘ اور ’بصد احترام
محض رائے کا اختلاف‘ کیجئے، کیونکہ ہر قسم کی ضلالت کے مقابلے پر یہی وقت کا دستور
ہے (استشراق کی دی ہوئی یونیورسٹیوں کا منہج)۔ کل اس سے اگلا قدم اٹھانے والے
’محققین‘ کے ساتھ اسی ’رواداری‘ کا ثبوت دیجئے گا جو ان اشیاء کو مکمل طور
پر ’’حفظِ انساب‘‘ میں محصور ٹھہراتے ہوئے ’ڈی این اے‘ کے ذریعے ایک سے
ایک بڑھ کر کمالات کریں گے اور آپ ’بصد احترام‘ دیکھتے رہ جائیں گے۔ دین کا جیسا
مرضی ستیاناس ہوتا رہے، بس ’رواداری‘ ہاتھ سے نہ جائے؛ اس سے بڑا کفر دین کے ساتھ
کھلواڑ کے اِس دور میں بہرحال نہیں ہے! (سوشل میڈیا پر دی گئی ہماری ایک
تحریر۔ لنک: https://goo.gl/kdr5t8 )