’دنیا کی مذمت‘ سلف کے ہاں کس معنیٰ میں؟
ایمان کا سبق
جیسا کہ ابن جوزیؒ، ابن قیمؒ، ابن رجبؒ و دیگر سلف کے ترجمان ائمۂ علم کی توضیحات سے واضح ہوتا ہے، سلف ومابعد کے ائمۂ سنت کے ہاں ’دنیا کی مذمت‘ ہوتی ہے تو درحقیقت وہ اس سیاق میں ہوتی ہے:
1. دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا۔ دنیا کی طلب، آخرت کی طلب کی قیمت پر ہونا۔ اس سیاق میں دنیا کی جس قدر مذمت ہوئی، بیان سے باہر ہے۔
2. دنیا کی طلب میں حرام حلال کا فرق ملیا میٹ کر دینا، جوکہ دنیا کے طلبگاروں کے ہاں اکثر ہوتا ہے۔ اس معنیٰ میں بھی دنیا کی مذمت اہل علم کے ہاں بکثرت ہوئی ہے۔
3. دنیا کو دنیا کیلئے طلب کرنا، نہ کہ اسکو حق کی قوت اور آخرت میں سرخروئی پانے کیلئے حاصل کرنا۔ دنیا کو بس تکمیل خواہش کا ذریعہ جاننا نہ کہ خدا کی شکر و احسان مندی کا ذریعہ بنانا۔ پس اس معنیٰ میں کہ یہ فی نفسہ آدمی کی مقصود ہو جائے، دنیا سلف کے ہاں نہایت قابل مذمت جانی گئی ہے۔
4. پھر دنیا میں آرزوؤں کا دراز ہوجانا، ”مذمتِ دنیا“ کا ایک اور پہلو ہے جو اس باب میں ائمۂ سلف کے کلام کی روحِ رواں رہا ہے... اس کا کچھ بیان نیچے کیا جاتا ہے:
’خلود‘ کی طلب انسان کی فطرت کا جزوِ لازم ہے۔ صحت، عافیت، آسودگی، رزق کی فراوانی، بیوی بچوں اور اصحاب احباب کے ساتھ اچھے سے اچھے لمحات، عزت، آبرو، حسن، خوبروئی.... سب نہ صرف یہ کہ اس انسانی مخلوق کے بنیادی ترین مطالب ہیں بلکہ ان چیزوں کا انسان کی دسترس میں رہنا اور کبھی ہاتھ سے نہ جانا اِس کیلئے بے انتہا اہم ہے۔ (خدا کی طلب گو ان سب پر فوقیت رکھتی ہے، دنیا کے اندر بھی اور آخرت کے اندر بھی۔) اسلام نے چونکہ فطرت کی نفی نہیں کی ہے اس لئے ان چیزوں کی بھی نفی نہیں کی ہے۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ یہ چیزیں اس معنیٰ میں یہاں پائی ہی نہیں جاتیں کہ ان کے ملنے کی انسان کو کوئی ضمانت ہو اور پھر، خصوصاً، ایک ملی ہوئی چیز کے باقی رہنے کی کوئی ضمانت ہو۔ پس یہ چیز یہاں اس دنیا میں کہیں پائی ہی نہیں جاتی۔ نہ ایمان والوں کے لئے نہ ایمان کے منکروں کیلئے۔ جو اس کو یہاں ڈھونڈے وہ درحقیقت احمق ہے، علاوہ اس بات کے کہ وہ ایمان سے بھی محروم ہے۔ پس یہ چیز جس کی ائمۂ سلف کے ہاں ’درازیِ آرزو‘ کے عنوان کے تحت مذمت ہوتی ہے، یہ ایمان سے محرومیت تو ہے ہی خِرد سے بھی محرومیت ہے۔
پس اسلام نے نفس کے ان مطالب کا انکار نہیں کیا جنہیں خدا نے آپ ہی اِسکی فطرت کا حصہ بنا رکھا ہے۔ اسلام نے کچھ کیا تو وہ یہ کہ انسان کو اِنکے پائے جانے کا ”اصل محل“ دکھایا ہے اور اس حماقت سے باز رہنے کی تاکید کی ہے کہ وہ انہیں وہاں ڈھونڈے جہاں خدا نے یہ رکھے ہی نہیں۔ اس حماقت کو ہی سلف کی زبان میں طول الأمل یعنی ’درازیِ آرزو‘ کہا جاتا ہے۔
یہ وجہ ہے کہ بعض ائمہ نے ”زہد“ کی تعریف ہی ”آرزو کے مختصر ہوجانے“ کے الفاظ سے کی ہے۔ کیونکہ جو چیز ابھی ملی نہیں اس کا تو ذکر ہی کیا، جو چیز مل چکی وہ بھی ’دینے والے‘ نے بڑے ہی وقتی طور پر تمہارے ہاتھ میں چھوڑ رکھی ہے اور یقینی طور پر وہ کسی بھی وقت تمہارے ہاتھ سے ’واپس‘ لے لینے والا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے تم کسی سے ’ذرا دیکھنے‘ کیلئے ایک چیز پکڑ کر ہاتھ میں لو، یا کسی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اس سے وہ چیز عاریتاً لے رکھو۔ ایسی چیز پر ’دل آجانا‘ خِسّت اور کمینگی ہے، نیز حماقت اور چیز کے مالک کی نگاہ سے گر جانا.... کہ اُس کا اگر یہ ارادہ ہو بھی کہ یہ چیز وہ تمہیں ہی دے دے، تو تمہاری اس گھٹیا حرکت کو دیکھ کر وہ اپنا ارادہ ہمیشہ کیلئے بدل لے! تم خود کہو گے، ایسی چیز تو ’دل‘ میں نہیں ’ہاتھ‘ میں ہی اچھی لگتی ہے!!!
اب چونکہ غلط بات یہ نہیں کہ یہ چیزیں انسان کی ضرورت ہوں؛ اور نہ یہ غلط ہے کہ یہ انسان کے ’ہاتھ‘ میں ہوں، جیسا کہ ہم بیان کر چکے؛ اور نہ یہ غلط ہے کہ انسان ان چیزوں کو ’صاحبِ ملکیت‘ کی اجازت سے، اور پوری دیانت اور ذمہ داری کے ساتھ، اپنے معقول مطالب کی تکمیل کیلئے استعمال کرتا ہو، خصوصاً جبکہ ’صاحبِ ملکیت‘ نہایت فیاض اور بےپروا ہو اور خصوصاً جبکہ انسان اس ’صاحبِ ملکیت‘ سے جب بھی ملے اس پر اس کا شکریہ ادا کرنا نہ بھولے، اُس کیلئے اپنی احسان مندی بار بار ظاہر کرے اور یہ تو ہر وقت اس کی زبان پر رہے کہ یہ چیز مالک ہی کی ہے اور یہ کہ وہ کبھی اتنا احمق اور کم ظرف ہونے والا نہیں کہ محض اس بات سے دھوکہ کھا کر کہ ایک چیز اس کے ’ہاتھ‘ میں ہے، جبکہ عنقریب واپس لے لی جانے والی ہے، اس پر وہ اپنا کوئی ’حق‘ بھی جاننے لگے؛ اور یہ تو کمال ہی کی بات ہے اگر وہ اس چیز کو مالک ہی کے کسی کام میں تندہی کے ساتھ برتتا ہے اور اس پر وہ مالک کا اور بھی شکر گزار ہوتا ہے کہ اُس نے اِسے اپنی خدمت کا ایک موقعہ دیا...!!!
اب چونکہ ان سب باتوں میں حرج کی کوئی بھی بات نہیں، لہٰذا دنیا کو ’ہاتھ‘ میں کرنے کے یہ سب پہلو ہرگز ہرگز قابلِ مذمت نہیں، بلکہ مستحسن ہیں۔ ائمۂ سنت وعلمائے زہد کے ہاں ’طلبِ دنیا‘ کو جو بکثرت معیوب ٹھہرایا گیا ہے اور جوکہ بالکل برحق ہے، تو وہ اُن چاروں میں سے کسی ایک لحاظ سے ہے جو پیچھے بیان ہوئے۔ رہا طلب یا حصولِ دنیا کا یہ صالح مفہوم جو اوپر کے پیرے میں بیان ہوا، تو اِس معنیٰ میں دنیا کے وسائل ہاتھ میں کرنا نہایت خوب ہے، مسلم فرد کیلئے بھی اور مسلم معاشرے کیلئے بھی:
عن موسیٰ بن علی عن أبیہ، قال: سمعت عمرو بن العاص، یقول: بعث اِلَیَّ رسول اللہ ﷺ فقال: خذ علیک ثیابک وسلاحک، ثم ائتنی، فأتیتہ وهو یتوضأ، فصعد فیَّ النظر ثم طأطأہ، فقال: اِنی أرید أن أبعثک علی جیش، فیسلمک اللہ ویغنمک، و أرغب لک من المال رغبة صالحة۔ قال: قلت: یا رسول اللہ! ما أسلمت من أجل المال ولکنی أسلمت رغبة فی الاِسلام و أن أکون مع رسول اللہ ﷺ۔ فقال: یا عمرو، نِعمَ المَالُ الصَّالِحُ لِلُمَرئِ الصَّالِحِ۔(مسند احمد، صححہ الالبانی)
موسیٰ بن علی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، کہا: میں نے عمروؓ بن العاص کو بیان کرتے سنا، کہا:میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے پیغام روانہ فرمایا: اپنا (جنگی) لباس اور ہتھیار پہن کر میرے پاس پہنچو۔ میں آپ کے پاس حاضر ہوا تو آپ وضو کر رہے تھے۔ آپ نے مجھ پر اوپر سے لیکر نیچے تک نگاہ ڈالی، پھر فرمایا: میں تمہیں ایک لشکر کی کمان دے کر (مہم پر) روانہ کرنا چاہتا ہوں، کہ اللہ تمہیں (اس سے) صحیح سالم لائے اور نصرت و غنیمت دے، اور میں تمہارے مال پانے کیلئے بھی خوب طور پر خواہشمند ہوں۔ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں مال پانے کی خاطر اسلام نہیں لایا، بلکہ اس لئے اسلام لایا ہوں کہ اسلام ہی مجھے مرغوب ہے اور اس لئے کہ اللہ کے رسولﷺ کی صحبت و معیت پاؤں۔ تب آپ نے فرمایا: یا عمرو، نِعمَ المَالُ الصَّالِحُ لِلُمَرئِ الصَّالِحِ۔ اے عمرو! کیا ہی خوب ہے کہ صالح مال ہو اور صالح آدمی کے ہاتھ میں ہو“!!!
یہ حدیث اس صالح معنیٰ پر دلالت کیلئے صرف ایک مثال ہے ورنہ شرعی نصوص میں، اور علمائے سنت کے اقوال و آثار میں، اس کے بے پناہ شواہد موجود ہیں۔ یہاں آنحضرتﷺ کے یہ الفاظ نہایت قابل توجہ ہیں: ”کیا ہی خوب ہے کہصالح مال ہو اور صالح آدمی کے ہاتھ میں ہو“۔ یہی بات ایک اچھے عہدے کی بابت کہی جائے گی کہ وہ صالح آدمی کے پاس ہو تو کیا ہی خوب ہے۔ یہی باتسماجی رتبے کے بارے میں کہی جائے گی اور یہی بات دنیا میں پائی جانے والی خدا کی اور بہت سی نعمتوں پر صادق آئے گی۔ ’صالحین‘ کے ہاتھ میں تو پوری دنیا آجائے تو یہ ایک بڑی نعمت ہے، صالحین کے حق میں بھی اور خود اس ’دنیا‘ کے حق میں بھی!
اب چونکہ غلط بات یہ نہیں کہ یہ چیزیں انسان کے ’ہاتھ‘ میں ہوں؛ غلط صرف یہ ہے کہ ان پر انسان کا ’دل‘ آجائے؛ کیونکہ بنانے والے نے دنیا کا نقشہ بنایا ہی کچھ اس طرح ہے کہ ان چیزوں کے ساتھ ’دل‘ لگانے کی گنجائش نہیں؛ اس لئے ان چیزوں کو دل کا راستہ دکھانا سلف کے ہاں مذموم جانا گیا ہے اور اسی چیز کو ’درازیِ آرزو‘ یا ’خواہشِ دنیا‘ کا نام دیا گیا۔
دراصل انسان کے اندر ’نفس‘ کی کچھ ایسی ساخت کی گئی ہے کہ یہ ان فانی و وقتی اشیاء سے ہی چپک چپک جاتا ہے اور ان کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ یوں یہ نادان، ’دل‘ کیلئے اس کا سفر جاری رکھنا مشکل کر دیتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک لمبے سفر پر گامزن شخص کسی گھنے سائے کے نیچے دو ٹک آرام کرے اور ’منزلِ شوق‘ پر پہنچنے کیلئے اسے پھر آگے چل دینا ہو۔’دل‘ جانتا ہے ’منزل‘ کی کیا اہمیت ہے اور یہ ’سایہ‘ کتنا بھی سہانا اور خواب آور ہو، اس کے بیٹھ رہنے کیلئے قابل التفات نہیں۔ مگر ’نفس‘ ہے جو منزل کے حسن و اہمیت کا ادراک کرنے سے قاصر ہے اور اس گھنے سائے کی جانب ہی کھنچا جاتا ہے۔ یہ ’تپتی دھوپ‘ میں سفر جاری رکھنے سے بھاگتا ہے اور اس ’آرام دہ پیڑ‘ کے نیچے ہی ہمیشہ کیلئے رہ جانا چاہتا ہے حالانکہ اس پیڑ کا سایہ مسلسل جگہ بدلتا جا رہا ہے اور چند ساعتوں میں بالکل روپوش ہو رہنے والا ہے۔ تھوڑی دیر میں یہاں اندھیری رات پڑ جانے والی ہے؛ اور یہ دشت ایسا کہ جس مسافر کو یہاں اس حالت میں رات پڑ جائے اسے اگلی صبح دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ بلکہ ’اگلی صبح‘ یہاں اس دشت کی قسمت میں ہے ہی نہیں صرف رات ہے، جس میں ’سائے‘ اپنی سب اہمیت کھو دیتے ہیں۔ بلکہ اپنی حقیقت کھو دیتے ہیں! کسی خرد مند کو ’اگلی صبح‘ دیکھنے میں دلچسپی ہے تو اس کو آج ہی دِن دِن یہ دشت چل کر اُس ’پہاڑ‘ کے پار جانا ہے؛ جوکہ آدمی ذرا ہمت سے چل لے تو بہت دور نہیں۔ ہاں اُس پار نہایت خوب سبزہ اور آبشاریں ہیں، میٹھی شفاف نہریں ہیں، میووں سے لدے پیڑ ہیں ، مخملیں نشستیں ہیں، لطف کے جام چلتے ہیں، سرود کی انتہا نہیں، کمال کے دوست احباب جمع ہیں، وہ بیٹھکیں ہیں جو اجڑتی نہیں، ایسے میلے ہیں جن کی شام نہیں، مِلن ہیں جن کے بچھڑنے کا نام نہیں؛ ہاں وہاں ہیں وہ سائے جو سمٹتے نہیں، اور وہ گھر جو اجڑتے نہیں، اور وہ ساتھ جو ٹوٹتے نہیں، اور وہ مزے جو ختم نہیں ہوتے۔
دل کے حق میں اس سے بڑی حماقت کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ اس دشت میں بیٹھا، ایک سمٹتا سایہ دیکھ کر نفس کے چاؤ پورے کراتا رہے اور اسی میں سارا ’دن‘ پار کردے، اور یوں اسی اجاڑ بیابان میں اس کو وہ ’رات‘ آلے جس کی کوئی صبح نہیں۔یہاں، دل اگر عقلمندی سے کام لیتا ہے؛ اور راستے کی سب سہولتوں کو، اپنے اس سفر کو نہایت خوشگوار اور کامیاب بنانے کے کام لے آتا ہے، البتہ ’سفر‘ کسی ایک لمحہ کیلئے بھی اسکی نظر سے روپوش نہیں ہوتا، تو اس کا راستے کی کسی چیز سے دل نہ لگانا اور نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی راہ چلتے چلے جانا ”زہد“ کہلائے گا۔ اور اگر وہ نادانی اور حماقت کا شکار ہوتا ہے اور راستے کی آسائشوں کو ہی دل دے بیٹھتا ہے؛ جس سے منزل پہ پہنچنے کا عمل متاثر ہوتا ہے، تو اس کو ”درازیِ آرزو‘ اور ’خواہشِ دنیا‘ کہیں گے۔
یہ بھی جان لو کہ: تعلیم اور ارشاد کا معاملہ ہو تو اور بات ہے، ورنہ جو آدمی صحیح معنیٰ میں زاہد ہے وہ دنیا کی چاہت تو کیا کرے گا، دنیا کی مذمت کرنے اور اس کو برا بھلا کہنے میں بھی ہرگز وقت برباد نہیں کرے گا۔ وہ تو سیدھا اپنی راہ چلتا ہے اور اس کی نظر اپنی منزل پر ہوتی ہے۔ دائیں بائیں دیکھنے کیلئے اس کے پاس زیادہ وقت ہی نہیں ہوتا۔ وہ دنیا کو اپنے اس سفرِ آخرت کا توشہ بنانے کی تو ہر ہر تدبیر کرتا ہے اور اس معنیٰ میں ’مقاصدِ خیر‘ کیلئے دنیا کے تمام تر ذرائع کو مسخر کررکھنے کی بھی فکر میں رہتا ہے، کیونکہ یہ اس کے اس اخروی مشن ہی کا حصہ ہے۔ البتہ وہ اس دنیا کو فی نفسہ کسی قیمت کی نہیں جانتا۔ وہ اس کو اس قابل تک نہیں جانتا کہ وہ اس کو برا کہنے میں اپنا وقت صرف کرے۔
دنیا کو صبح شام دشنام دینا بھی دراصل انسان کے اندر کا ایک کھوکھلاپن ہے اور بسا اوقات ’محرومیت‘ کا ایک اظہار ہوتا ہے، گو آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ’زہد‘ کی راہ پر ہے!
یحیی بن معاذؒ کہتے ہیں: دنیا ایک بھدی دلہن ہے۔ جو اس کا ’طالب‘ ہے وہ احمق اس کی غزلیں کہنے اور اس کے بناؤ سنگھار کرانے میں لگا ہے۔ جو سطحی قسم کا ’زاہد‘ہے وہ نادان گویا اس سے تنگ آیا ہوا ہے، بڑی تن دہی کے ساتھ اس کو کوسنے میں لگا ہے اور اس کا منہ کالا کرنے اور کھینچ کھینچ کر اس کے بال اکھاڑنے اور کپڑے پھاڑنے کے درپے ہے اور سمجھتا ہے کہ اصل نیکی یہی ہے۔ جبکہ وہ شخص جو اصل ’عارف‘ ہے اس کے پاس ان سب باتوں کیلئے وقت ہی نہیں؛ اس کی کل توجہ اور مصروفیت خدا کے ساتھ ہے!
چنانچہ ”زہد“ کسی ’منفیت‘ یا کسی ’مردہ دلی‘ یا کسی ’محرومیت‘ کا نام نہیں۔ یہ ایک زبردست ”فاعلیت“ کا نام ہے جو پوری انسانی زندگی اور انسانی نشاط کو آخرت کے دھارے میں لا رکھنے کی کوشش سے عبارت ہے۔ ”زہد“دنیا کو ترک کرنے کا نام ہے اور نہ دنیا سے متنفر ہونے کا اور نہ دنیا سے فرار اختیار کرنے کا۔ ”زہد“ کا مطلب دنیا سے خالی رہنا نہیں۔ ”زہد“ تو درحقیقت دنیا سے آخرت کیلئے جھولیاں بھر بھر کر لے جانے کا نام ہے۔کوئی سمجھے تو ”زہد“ در اصل دنیا کو ”آخرت کی کھیتی“ بنا ڈالنا ہے۔ بےانتہا محنت!
دنیا کی وقعت دیکھنا چاہتے ہو تو سید المرسلینﷺ کی زندگی دیکھو۔ آخرت کے اندر مقامِ محمود پر جا پہنچنے والا اور بہشت میں سب سے اونچے محلات کا مالک، تاریخ کا یہ عظیم ترین انسان، یہاں دنیا کے اندر اپنے پھٹے ہوئے لبادے پر خود اپنے ہاتھ سے پیوند لگاتا ہے اور پھر اس کو خدا کا شکر کرکے پہن لیتا ہے۔ اپنے جوتے کو جو ٹوٹ گیا ہے، خود ہی مرمت کر لیتا ہے۔ اپنی بکری کا دودھ خود دھوتا ہے۔ گندم تو گندم، جو کے آٹے سے مسلسل دو روز تک سیر ہونے کا واقعہ اس کی زندگی میں کبھی پیش آتا ہی نہیں، تاآنکہ الرفیق الاعلیٰ سے جاملنے کا دن آجاتا ہے۔ ایک چاند گزرتا ہے، پھر دوسرا چاند گزر جاتا ہے، تیسرا چاند چڑھ آتا ہے، گھر میں چولہا نہیں جلتا۔ چند کھجوریں، کچھ گھونٹ پانی اور پھر خدا کی حمد اور تعریفیں!!! لمبے قیام، طویل سجدے!!! جہاد میں مشغول!!! غزوۂ خندق میں اِس کے پیروکار پیٹ پر پتھر باندھ کر نکلتے ہیں تو اِس کے اپنے پیٹ پر دو پتھر بندھے دیکھے جاتے ہیں!!! خندق کھودتے ہوئے اِس کے ساتھی پسینے میں شرابور ہیں تو یہ بھی گینتی پکڑ کر پتھریلی خندق میں اترا، خدا کی تکبیریں بلند کرتا دیکھا جاتا ہے۔ بھوک سے بے حال، طلبِ آخرت سے سرشار، خندق کھودتے گرد میں اٹے، اِس کے اصحابؓ نشید گاتے ہیں تو یہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے: ”خدایا! ہم عیش مانگیں تو آخرت کے عیش..“!
(تفصیلی مطالعہ کےلیے ہماری کتاب: ایمان کا سبق)