"متقدمین" ڈسکورس کا ’انقلابی‘ ڈسکورس سے فرق
سماج، سیاست، جہاد، امر
بالمعروف و نھی عن المنکر، اصلاح اور احیائےدین وغیرہ ایسے معاملات اور مسائل کو
دیکھنے کےلیے یہاں دو اپروچ پائے جاتے ہیں؛ اور دونوں اپنی نہاد میں بےحد مختلف:
ایک: متقدمین۔
دوسرا: انقلابی۔
بےشک ایک
بڑی تعداد ایسی ہے جس کے ہاں یہ دونوں اپروچ خلط ملتے ہیں۔ پھر اِس ’خلط‘ کا نسبت
تناسب مختلف حلقوں میں مختلف ملے گا۔ (یعنی کسی کے ہاں انقلابی منہج نمایاں تر تو کسی
کے ہاں متقدمین کا منہج غالب تر) تاہم ’’اجتماعی فرائض‘‘ کو سمجھنے کے حوالے سے، ہیں یہ دو الگ الگ دھارے۔
اگر آپ مجھ سے کہیں، میں ان دونوں کے مابین ایک موٹی
لکیر کھینچ کر واضح کروں کہ اصل فرق ہے کیا...
تو یہاں میں اس کی علمی بنیادوں اور دلیلوں
میں جائے بغیر چند عملی کسوٹیاں touchstones آپ کے
گوش گزار کر سکتا ہوں:
1.
انقلابی
منہج میں ایک قیادت، اور اس کے پیچھے کھڑا ایک گروہ، باقاعدہ اقتدار کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کےلیے ایک کیمپین campaign
کرتا ہے۔ (اقتدار کا یہ مطالبہ
بےشک وہ اپنی ذات کےلیے نہیں کرتا بلکہ دین کے نفاذ کی خاطر ہی کرتا ہے، البتہ
ہوتا وہ ایک اقتدار کا مطالبہ ہے)۔ جس کا سادہ
مطلب، کسی لگی لپٹی کے بغیر، یہ ہوتا ہے کہ اِس کشمکش کے نتیجے میں برسراقتدار طبقوں
کو اس کرسی سے بےدخل ہونا ہے اور اقتدار کے
کچھ نئے دعویداروں کو اس پر متمکن ہونا ہے؛ جس کے بغیر یہ بیل منڈھے چڑھنے
کی نہیں۔ انجامِ کار؛ دونوں فریقوں کی ایک بڑی سرگرمی ایک دوسرے کے مقابلے پر ’اقتدار نہ چھوڑنے‘ اور ’اقتدار چھڑوا کر
رہنے‘ کے گرد گھومتی ہے اور یہی؛ فریقین کے مابین ایک بڑا (یا شاید مرکزی) باعثِ
نزاع۔ جبکہ متقدمین منہج میں اقتدار کے
مطالبے کے ساتھ میدان میں اتری ہوئی کوئی قیادت یا جماعت سرے سے نہیں ہوتی۔۔ ’’سٹیٹس
کو‘‘ پر کڑی سے کڑی تنقید متقدمین منہج میں بھی ہو سکتی ہے اگر معاملہ اس کا
متقاضی ہو (حدیث کے الفاظ میں: أفضل
الجھاد کلمۃُ حقٍ عند سلطانٍ جائر) تاہم اقتدار کی منتقلی کا کوئی مطالبہ اِس منہج
کا بنیادی حصہ نہیں۔ اس معاملے کو متقدمین منہج بالکل ایک اور طریقے سے
لیتا ہے۔
2. انقلابی منہج کا ایک بہت بڑا اور مرکزی موضوع ’نظام‘ ہوتا
ہے۔ نظام نہیں بدلا تو گویا کچھ نہیں بدلا!
کوئی بھی بڑی سے بڑی پیش رفت تقریباً بےمعنیٰ ہے جب تک سیاست کا معاملہ ہاتھ میں نہیں لیا جاتا اور ’سٹیئرنگ‘ قابو
نہیں آ جاتا۔ جبکہ متقدمین منہج کے
مرکزی موضوعات ’’عقیدہ‘‘، ’’ملتوں کا اختلاف‘‘ اور ’’استطاعت‘‘ کے محور سے جڑی
ہوئی ’’اقامتِ شریعت کروانا‘‘ ہوتی ہے۔ ’’امت‘‘ کی تعلیم
یا توسیع یا بہبود
یا دفاع یا فتوحات
کسی وقت ’سیاسی معاملات‘ سے بڑھ کر ایک ترجیح ہوتی ہے۔
3. متقدمین ڈسکورس میں أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا
فِيهِ کا جلی تر مطلب: دین کو مستقیم رکھنا، دین کو اس کی صحیح
کھری ٹھیٹ بنیادوں پر قائم رکھنا اور اس میں کوئی فرق اور تفرقہ نہ آنے دینا ہے۔
جبکہ ’’دین‘‘ بھی اصل میں توحید اور رسالت کے معنیٰ میں ہے۔ جس کے اندر عین اُسی
آسمانی حقیقت پر رہنا جو ’’عبادت‘‘ کے باب میں بذریعہ ’’رسالت‘‘ دیا گیا۔ یہ امتوں اور ملتوں کے حق میں دراصل ایک بڑا چیلنج ہوتا
ہے۔ کیونکہ نئے نئے فرقے آ کر اُس آسمانی حقیقت کو کچھ سے کچھ کر دیتے ہیں
اور تھوڑے عرصے میں عقیدہ اور شریعت کے معاملہ میں امت کی پٹڑی سرک کر کہیں سے
کہیں چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ صحیح آسمانی دین اس قدر متنازعہ، نادستیاب اور
تحریف زدہ ہو جاتا ہے کہ (پچھلے ادوار میں) کچھ ہی دیر بعد ایک نئی رسالت کی ضرورت
آ پڑتی رہی ہے۔ اس لحاظ سے ’’اقامتِ
دین‘‘ کا قوی تر حوالہ: دین کو اُس کی حقیقت پر رکھنا اور اس میں سرِ مو فرق نہ
آنے دینا ہے۔ جس میں دین سے تحریف الغالین اور انتحال المبطلین اور تأویل الجاھلین کو دفع کرنا آتا ہے۔ دین کو زمانے کی
دھول اور ناپاکیوں سے صاف کرنا۔ روز اِس کے صحن میں جھاڑو دینا۔ غرض دین کو عین
اُسی حقیقت پر رکھنا جس پر زمین میں ملتِ آسمانی ایک بار کھڑی کروائی گئی تھی اور جس
ڈھب پر انسانوں کو خدا کے آگے جھکایا گیا تھا: شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ
مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ
إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا
فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ
إِلَيْهِ ۚ اللَّـهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ
وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ. وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا
مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ. پس
ø
بیرون
میں باطل ادیان اور اندرون میں گمراہ فرقوں کے ساتھ نظریاتی محاذ پر ایک دُوبدُو
جنگ
ø
اور دینِ حق کا زیادہ سے زیادہ احقاق کرنا، نفوس پر اس کی
دھاک بٹھانا اور معاشرے کو اس پر زیادہ سے زیادہ پختہ
اور یکسو کرانا اور اس سے ہرگز نہ ہٹنے دینا
اِسی مطلب کے تحت آئے گا۔ یہاں؛ مشرکین و اہل کتاب سے اپنے
ملّی فرق کو نمایاں اور غالب کرکے رکھنا دین کی اقامت و اِظہار میں آتا ہے۔ جہان
سے شرک کو مٹانا، الحاد کی سرکوبی، بُتوں کے ساتھ دشمنی، کفر کو زک پہنچانا،
بےدینی کو شنیع بنا کر رکھنا، اسلام کے واحد حق ہونےکی ہیبت نفوس میں قائم کروانا اور اس کے ماسوا کو اذہان میں متروک، معیوب،
مردود اور اچھوت بنا کر رکھنا، غیرِ اسلام کو ناآئین outlaw کر کے رکھنا یہ سب ’’دین کو قائم رکھنے‘‘ میں
آئے گا۔ ’حکومت‘ وغیرہ پر اثرانداز ہونا اس کے یہاں اگر ’’اِقامتِ دین‘‘ میں آئے
گا تو اِس اصل مطلب کی ذیل ہی میں لاکر، اور
بشرطِ دستیابی ایک ذریعہ جانتے ہوئے؛ جبکہ اصل زور ’’اقامتِ دین‘‘
کے باب میں پھر بھی وہیں پر رہے گا۔ یہ ہے متقدمین ڈسکورس، جو کتبِ عقیدہ سے پھوٹ
پھوٹ کر آتا ہے۔ ادھر انقلابی ڈسکورس میں: أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا
فِيهِ کا مرکزی ترین حوالہ ایک عدد اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ دین کو قَیّـــِـم (ٹھیٹ، ٹکسالی) رکھنے
(شرک و بےدینی کا ابطال اور بدعات و نافرمانی کی گوشمالی وغیرہ) ایسے مفہومات ان حضرات کے ہاں اگر ’’اِقامتِ دین‘‘ میں آئیں گے تو
ایک ذیلی اور ثانوی حیثیت میں ہی۔ ]مثال کے طور پر: جہمیہ یا باطنیہ و رافضہ ایسی گھٹاٹوپ
ضلالتوں کے ردّ کو اِس طبقے کے سامنے اگر آپ ’’اقامتِ دین‘‘ میں شمار کریں تو یہ
اس پر متعجب ہو گا۔ اس لیے کہ ’حکومتِ الٰہیہ‘
کے قیام سے بھلا اِس مسئلہ کو کیا تعلق! (بلکہ بدعتی ٹولوں کا رد کرنا تو
حکومتِ الٰہیہ کے قیام میں الٹا ایک رکاوٹ اور ’تفرقہ‘ باور ہو گا!) یہاں ایک محدِّث
امت کے روزمرہ و محاورہ سے زنادقہ کی ڈالی
ہوئی موضوعات کو نکال باہر کرنے کی اَن تھک سعی کرتا ہے اور اس کے نتیجے
میں مسلمانوں کا دین اُجلا اور نکھرا ہو جاتا ہے۔ باطل کے اندھیرے قلوب سے چھٹتے اور حق کا نور یہاں چھا جاتا ہے... اور آپ اُس محدث
کی اِس سعیِ مشکور کو دین کی
اقامت میں گنتے ہیں تو یہ طبقہ اس
پر حیرت زدہ ہو گا۔ امت کا کوئی طبقہ قادیانیت یا سیکولرزم کے بخیے
ادھیڑتا ہے اور مسلم اذہان کو لبرلزم کے اثرات سے پاک کر کے خالص دین پر
یکسو کرواتا ہےتو اسے بھی شاید یہ ’’اقامتِ دین‘‘ شمار کرنے پر آمادہ نہ ہو،
سوائے اس باب سے کہ اس کا یہ فعل ’اسلامی حکومت‘ قائم کرنے میں ممدّ ہو سکتا ہے یا
اسلامی حکومت کے راستے کی کچھ رکاوٹیں دور کرنے میں موثر ہو سکتا ہے؛ نہ کہ فی
نفسہٖ اس عمل کو اقامتِ دین گنے گا۔ وغیرہ[۔
4.
انقلابی
ڈسکورس میں ’مراحل‘ کا ایک فلسفہ بھی کسی نہ کسی طور شامل ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ
کسی کے ہاں کتنے ’مرحلے‘ ہوں اور کسی کے ہاں کتنے۔ اور اِس تقسیم کے بموجب؛ کوئی
خود کو کسی مرحلے میں جانتا ہو گا اور کوئی کسی مرحلے میں۔ ’مکی مرحلہ‘ اور ’مدنی
مرحلہ‘ تو بالعموم ہوتا ہی ہے۔ یہاں؛ دین کے بہت سے اعمال ’ابھی‘ انجام دیے جانے
پر باقاعدہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس چیز کا تو ’مرحلہ‘ آیا ہی نہیں، ابھی
یہ کام دین میں کیونکر جائز ہو گا! دوسری جانب، متقدمین ڈسکورس ’مراحل‘ ایسے فلسفے
کو ہکا بکا ہو کر سنتا ہے۔ نبیﷺ پر دین
پورا اتر آنے کے بعد اب قیامت تک پورے کا پورا واحب العمل ہے۔ اس میں کوئی تقدیم
اور تاخیر دین کا مسئلہ نہیں۔ ’مرحلہ‘ ایسی کسی دلیل سے دین کی کسی ایک بھی بات
پر عمل موقوف نہ ہو گا۔ ہاں دین پر عمل کسی
چیز سے مشروط ہے تو وہ ہے آپ کا ایک بات کی قدرت و استطاعت رکھنا؛ خواہ بطورِ
فرد اور خواہ بطورِ جماعت۔ یہ ’’قدرت و عدم قدرت‘‘ البتہ ایک صالح اعتبار ہے اور
نصوصِ شریعت میں جا بجا بیان ہوا ہے۔
5. انقلابی ڈسکورس میں ’’عبادات‘‘ کو حکومتِ الٰہیہ کےلیے درکار افراد کے اندر مطلوبہ ’مواصفات‘ یا ’تقاضوں‘
کے طور پر دیکھنے تک کی نوبت آتی ہے۔ جبکہ متقدمین ڈسکورس ’’عبادات‘‘ اور ’’پابندیِ حلال و حرام‘‘ کو آپ اپنی ذات میں مقصود
جانتا ہے۔ خدا کو سجدہ کرنا، خدا کی تسبیح اور پاکی بیان کرنا اور اُس کی عبادت کے
جملہ افعال بجا لانا آپ اپنی ذات میں مطلوب ہے اور بجائےخود تخلیقِ جن و اِنس کی غایت۔
یہاں سے؛ شرک اور توحید کے پیراڈائم میں بھی فریقین کے ہاں ایک واضح فرق آجاتا ہے۔
اور وہ جابجا نظر آتا ہے۔ غیر اللہ کو
سجدہ کرنا یا خالق کی صفات میں تشبیہ یا
تعطیل لانا آپ اپنی ذات میں فساد، اشتعال انگیز اور دین کو مسمار کر دینے والا ایک
فعل ہو گا اور اس کا اِبطال بجائےخود ’’دین کو قائم رکھنا‘‘۔ (متقدمین ڈسکورس)۔ جبکہ انقلابی ڈسکورس میں یہ نرا ’علم الکلام‘ کا
مسئلہ! ’نظامِ حکومت‘ سے جب اس کا کوئی خاص تعلق نہیں تو اس (مسئلۂ صفاتِ خداوندی) کو مسلم ذہن کی
تشکیل کے کسی مرکزی ترین مضمون کے طور پر لانا بےجا ہو گا۔ یا شاید ناروا! ’خدا
کا بیٹا‘ ایسا لفظ سن کر آدمی کو ایک جھرجھری آئے اور وہ بےساختہ اُس ذہنی کیفیت
سے گزرے جو ’مکی مرحلے‘ کی ایک سورت میں باقاعدہ نفوس کے اندر اتاری جاتی ہے: تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ
وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ﴿٩٠﴾ أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَـنِ وَلَدًا ﴿٩١﴾ وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَـنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ﴿92 مریم﴾ پروردگارِ عالم کی بابت ایسی
شرکیہ بات منہ سے نکالنے والے کو آدمی ’حکمران کے ظلم‘ سے بھی سنگین تر دیکھے اور
ایسی بات کو جہان سے مٹانے کےلیے ’حکمران کے خلاف سرگرم ہونے‘ سے بھی بڑھ کر بےچین
ہو جائے... خدا کے وصف پر باطل اقوال کی غلاظتیں پڑتی دیکھے تو آدمی کے بحر کی
موجوں میں ایک غیرمعمولی ہیجان اور اضطراب آئے اور وہ خدا کے وصف کو اس سے دھونے
اور اُجلا کرنے کےلیے ماہیِ بےآب ہو (’’تسبیح‘‘ کا ایک باقاعدہ معنیٰ)... ایسی
طبیعتیں اور مزاج آپ کے اندر متقدمین منہج
ہی پیدا کرتا ہے۔ انقلابی منہج تو اِس کو ’مکی مرحلے‘ کا جزوِ لاینفک بھی شاید نہ
گنے!
6. متقدمین ڈسکورس میں آپ کا مرکزی ترین فوکس: ’’معاشرہ‘‘ ہو
گا۔ جبکہ انقلابی ڈسکورس میں: ’’حکومت‘‘۔ اول الذکر کا بنیادی ترین میدان ’’عقول‘‘ اور ’’نفوس‘‘، جبکہ
ثانی الذکر کا ’’اختیارات‘‘۔
7. اسلامی تاریخ پڑھنے میں بھی یہاں ایک اپروچ کا فرق آ جاتا
ہے۔ متقدمین ڈسکورس خلافتِ راشدہ کو اسلام
کے ایک مثالی دور کے طور پر لیتا ہے۔ البتہ ’’مثالی‘‘ سے نیچے صرف صفر ہی نہیں ہوتا! تاہم انقلابی ڈسکورس اسلامی
تاریخ پڑھنے کے دوران معاملے کو تقریباً یوں دیکھتا ہے گویا ایک چیز یا تو پورا سو
ہوتی ہے یا صفر؛ بیچ میں کچھ نہیں! چنانچہ اس ذہن سے تاریخ پڑھتے ہوئے؛ اسلامی
تاریخ تیس سال کے بعد قریباً سائیں سائیں کرنے
لگتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ: کسی دَور یا کسی اجتماعی واقع کو جانچنے میں وہاں کی
’سیاسی صورتحال‘ کو کچھ زیادہ ہی یا شاید کُلی وزن دے ڈالنا۔ جبکہ تاریخ کو
’معاشروں‘ یا ’تہذیبوں‘ کی نظر سے پڑھنا، ادیان کی کشمکش اور ملتوں کی آویزش کی
نظر سے پڑھنا تقریباً یہاں اوجھل ہے۔
حالانکہ تاریخ پڑھنے یا ایک اجتماعی واقع کو جانچنے کی یہ کوئی چھوٹی جہت نہیں۔ پھر یہ معاملہ ’تاریخ‘ پڑھنے پر موقوف نہیں؛ خود
’’نظر‘‘ ہی سے متعلق ہے۔ اصل میں اس کے اندر وہ تمام ترجیحات پوشیدہ ہیں جو ہمارے ائمہ متقدمین کے
یہاں معاملات کو دیکھنے میں پیش نظر رہی
تھیں، اور جن کے تحت افریقہ، اندلس، ایشیا (خود ہمارا برعظیم پاک و ہند)
اور مشرقی یورپ کا ایک بڑا حصہ خلافتِ راشدہ کے بعد ہی کامیابی کے ساتھ
اسلام کے زیرنگیں لے آیا گیا اور یہاں شرک کے اندھیرے ختم کر ڈالے گئے تھے۔ پس اصل
مسئلہ ایک ’’ملی جلی ہوئی صورتحال‘‘ کو دیکھنے
اور سلجھانے میں ہے جو خلافتِ راشدہ کے ختم ہونے کے بعد سے لے کر آج تک چلی
آتی ہے اور خدا ہی جانے کب تک جاری رہتی ہے۔ (اغلباً قربِ قیامت تک جاری رہے گی)۔
ایسی ’’ملی جلی ہوئی صورتحال‘‘ کو پچھلے چودہ سو سال سے یہ متقدمین ڈسکورس ہی
سنبھالتا آیا ہے اور یہ صرف اسی کے سنبھالنے کی ہے۔
8.
’’کام‘‘ کا
فارمیٹ متقدمین منہج کے اندر خالصتاً ’دعوتی‘ ہوتا ہے۔یعنی ایک سلسلۂ رشد و ہدایت
اور بس۔ (باقی بہت کچھ ہوتا ہے؛ مگر اپنےاپنے سیاق میں لا کر، اور اپنےاپنے خانوں
میں رکھ کر، اور خاص احوال و ظروف کی رعایت سے۔ البتہ عمل کا ایک عمومی دھارا اِس متقدمین فارمیٹ میں ان تین چیزوں پر ہی
مبنی ہوتا ہے: علماء و طلبۂ علم کی کھیپ برآمد کرنا، عوام کو رشد و
تلقین، اور حکام کو پند و نصیحت اور ان کے معاملات پر گہری نظر اور وہاں
دستیاب عوامل کو ہلانا جلانا maneuvering )۔ ادھر انقلابی
منہج کے اندر ’’کام‘‘ کے فارمیٹ کو لازماً ’تنظیمی‘ ہونا ہوتا ہے۔
] کام کے ’دعوتی‘ و ’تنظیمی‘ فارمیٹ کے فرق کی کچھ وضاحت: ’دعوتی‘ سے ہماری مراد: کسی خاص عقیدہ یا نظریہ یا عمل یا رویّے کو لوگوں سے منوانے
اور ان سے اس پر عمل کروانے پر ہی داعیوں کا کل زور ہوتا ہے اور اس سے متصادم کسی عقیدے یا نظریے یا عمل یا رویّے کو نفوس کے اندر شکست دینے
پر ہی کل توجہ رکھی جاتی ہے۔ سب شور، سب
اختلاف، سب ترکیز اسی پر ہوتی ہے۔ یعنی عقائد،
نظریات، اعمال ، اخلاق اور رویّے ہی دعوت کا کل مضمون ہوتے ہیں؛ سلباً یا ایجاباً۔ اور اس کے نتیجے میں آگے آنے والوں میں سے (1) خواص کو طلبہ و علماء میں ڈھال
دینا اور ایسے نور کے مناروں کی ایک سے بڑھ
کر ایک کھیپ نکال دینا۔ (2) اور اس کے ذریعے عامۃ الناس کو
تلقین و ارشاد۔ (3) جبکہ بااثر طبقوں میں اثر و رسوخ (اور اِرادتمند) رکھنے کو دین کی
تمکین کا ذریعہ بنا کر رکھنا؛ اور یہاں
جتنے مہرے خالص اسلامی ایجنڈا کےلیے ذہانت اور ہوشمندی سے ہلائے جا سکتے ہوں، ہلانا اور کسی کسی وقت تو بااثر طبقوں
میں اپنے ارادتمندوں کی پشت پر کھل کر آجانا
(کسی جہادی یا اصلاحی مہم میں اپنے پیروکاروں کو لے کر باقاعدہ ان کے ہم رکاب چلنا) البتہ یہاں بھی ’مثالی‘ ہونے کی
بجائے اندریں صورت ’جو مل سکتا ہو‘ اسے ہی لینے پر اکتفاء کرنا (اِس آخری بات
کو تو متقدمین منہج کا مرکزی ترین نقطہ جانیے)۔ جبکہ اس کے مقابلے پر
’تنظیمی‘ فارمیٹ سے ہماری مراد: جس میں کسی کو ’جوائن‘ join کرنے یا نہ کرنے کا معنیٰ غالب تر ہوتا ہے۔ ’کارکن‘، ’ممبرشپ‘، ’امیر/ ناظم/ صدر‘،
’دفتر‘ وغیرہ ایسی لغت ملتی
ہے۔ ’’نظم‘‘ یہاں ایک خاصی مرکزی اصطلاح
ہوتی ہے اور ’’ارشادِ عامہ‘‘ کے
مقابلے پر ایک حاوی تر حقیقت[۔
9. متقدمین منہج چونکہ معاملے کو زیادہ
’امتوں‘، ’عقیدوں‘ اور ’ملتوں‘ کی سطح پر دیکھتا ہے لہٰذا
’نظام‘ وغیرہ سے قطع نظر بھی یہ ہندؤوں، صیہونیوں اور صلیبیوں کی دستبرد سے مسلم ثقافت، مسلم مفادات، مسلم زمینوں، آبادیوں، پانیوں
یا کسی وقت مسلم عزتوں اور آبروؤں کو
بچانے کےلیے جہاد کو واجب ٹھہراتا ہے اور اسے ’’اللہ کے راستے کا جہاد‘‘ گنتا
ہے۔ جہاں مسئلہ دو ملتوں کا ہو، وہاں یہ مسئلے
کو ’دونَ مالہٖ‘ یا ’دونَ ارضہٖ‘ سے بڑا دیکھتا ہے اور
براہِ راست ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے جوڑتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی وقت ’گائے کی قربانی‘ کا مسئلہ ہی اس کے نزدیک جہاد کا مستوجب
ہو سکتا ہے (کیونکہ نزاع کی طبیعت یہاں ’’ملتوں‘‘ والی ہے) چاہے گائے کی قربانی کرنے والوں کی سائڈ پر ’اسلامی
نظام‘ کسی وجہ سے قائم نہ بھی ہو یا اس کی کوئی صورت ان کے یہاں میسر نہ بھی ہو۔ لیکن انقلابی فکر کی سوئی بار بار یہاں بھی،
بلکہ ہر جگہ، ’نظام‘ کے مسئلہ پر اٹکے گی۔
روس کے خلاف افغانستان کے جہاد میں چونکہ اس ذہن کو جیت کی صورت میں
’اسلامی نظام‘ آتا دکھائی نہیں دے رہا تھا لہٰذا اسلام اور کمیونزم کے مابین زندگی
موت کی نوبت کو جا پہنچنے والی ایک خونیں کشمکش کو بھی یہ ’’جہاد‘‘ ماننے پر
آمادہ نہ تھا۔ یہی مسئلہ اِس ذہن کے ہاں جہادِ
کشمیر اور جہادِ فلسطین کے معاملہ میں آڑے آتا رہا ہے۔ اور شاید برما اور بوسنیا وغیرہ کے معاملہ میں بھی۔
یعنی کسی جگہ کے مسلمان اگر اس قدر پسماندہ یا بےبس ہیں کہ ’نظام‘ سے
متعلقہ موضوعات ان بیچاروں کو ازبر نہیں ہیں لیکن غیرتِ دینی اس قدر ہے کہ مسلم
عزتوں کو کافر کے ہاتھوں پامال ہوتا برداشت نہیں کر سکتے اور اس پر کافر کا ہاتھ توڑنے
اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو یہ ذہن اُس کے جہاد کو ’فی سبیل اللہ‘ نہیں مانے گا جب تک کہ
وہ ’نظام‘ کا مسئلہ ہی لے کر کھڑا نہیں ہوتا! کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کو
پہنچنے والے پاکستانی نوجوانوں یا ان کی تنظیموں کے سامنے اِن حضرات کا باربار یہ
سوال لانا کہ کیا اپنے ملک میں اسلامی نظام لے آئے جو پرائے ملک کا رخ کرنے چلے،
اِسی اندازِ فکر کا شاخسانہ رہا ہے۔
10.
انقلابی
ذہن چونکہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کے کام کو ’’انقلاب‘‘ سے تعبیر کرتا ہے، لہٰذا اُس کے تمام طریقۂ کار
اور مراحل کو بھی عموماً ’منصوص‘ کے طور
پر دیکھتا ہے۔ اس کے باوجود، اپنے طریقۂ کار
کے تعین میں یہ ایک شدید غموض اور اختلاف کا شکار ہے! اپنی مثالی
حالت میں، ایک انقلابی جماعت سوائے اپنی تقریر و تحریر کی ایک سرگرمی
اور سوائے اپنی ایک داخلی نظم بندی رکھنے کے، عملاً کچھ نہ کرنے پر
یقین رکھتی ہے۔ علاوہ کچھ موہوم واقعات رونما ہو جانے کا انتظار کرنے کے،
جس کا تعلق عمل سے نہیں۔ نوٹ کیجئے، ہم نے کہا: اپنی مثالی حالت میں۔ یہ ایک واقعہ
ہے جو سید مودودی تک کے ’دورِ اول‘ پر صادق آتا ہے۔ انقلابی جماعت کی مثالی
حالت عملاً ایک عزلت isolation سے عبارت ہوتی ہے خواہ وہ اسے جتنا بھی طول دینا
چاہے۔ ’نظامِ قائمہ‘status quo میں
شرکت، اس کو تبدیل کر ڈالنے سے پہلے، اصولاً ’نظریۂ انقلاب‘ کے منافی ہے۔ تاہم
اگر یہ نظامِ قائمہ میں شرکت نہ کرے تو بیشتر معاشرتی فورمز سے دور، معاشرتی عمل
پر اثرانداز ہونے سے قاصر، اپنے ہی مراکز میں پڑی، پرانی ہوتی رہتی ہے۔ ایک
نظامِ قائمہ کے فراہم کردہ مواقع لینا اور ’’استطاعت‘‘ کی حد تک اس میں سے خیر
نکالنا اور باقی کے معاملہ میں صابر رہنا دراصل متقدمین منہج ہے؛ اور انقلابی منہج کی ضد۔ لہٰذا انقلابی منہج اپنی
مثالی حالت میں ایک عزلت isolation ہی ہے یعنی کچھ تقریر و تحریر اور
داخلی نظم تک محدود رہنا۔ اور جہاں تک اس کی تحریر و تقریر کا تعلق ہے تو
اس کا فارمیٹ بھی چونکہ صرف عقائدی و
دعوتی (ارشادِ عامہ) طرز کا نہیں ہوتا بلکہ اس میں تنظیمی طرز ہی غالب
ہوتا ہے اس لیے یہ تحریر و تقریر ماحول کے اندر ’دعوت‘ کا فائدہ بھی تقریباً نہیں
دے رہی ہوتی۔ انجامِ کار؛ یہ عزلت ایک پکی
پکی بند گلی ہوتی ہے؛ جس کو چھوڑے بِنا چارہ نہیں۔ یہاں وہ پوائنٹ ہے کہ سید
مودودی ایسے فہمیدہ و دُوربین لوگ صورتحال کو بجا طور پر بھانپتے ہوئے؛
’کومپرومائز‘ کا طعنہ سہہ لینا اپنی اسی عزلت isolation و انجماد stagnancy کا اسیر رہنے کی نسبت وارے
کا جانتے ہیں، جوکہ ہمارے نزدیک آپؒ کا ایک راست اقدام ہے۔ بس کمی سید مودودی سے
یہ رہ جاتی ہے کہ وہ اسے ایک ’کومپرومائز‘ رکھتے ہیں۔ یعنی اپنے ’’نظریے‘‘ میں
ایک انقلابی جماعت صرف اپنے ’’راستے‘‘ کی حد تک غیر انقلابی ہو جائے؛ جوکہ ایک
غیرطبعی جوڑ ہے۔ حالانکہ اگر پورا فارمیٹ تبدیل کر لیا جاتا اور نظریے کے اندر ہی ’’انقلاب‘‘ کی بجائے ’’ایک دی گئی صورتحال میں ممکنہ طور پر ایک بہترین
کردار ادا کرجانے پر اکتفاء‘‘ لے آتے... اور
فلسفۂ انقلاب کے تحت جن فرائضِ وقت کو مؤخر یا نظرانداز کروایا جانا ہوتا ہے، باقاعدہ
ایک متقدمین منہج پر آتے ہوئے، (غزالیؒ، ابن تیمیہؒ، احمد سرہندیؒ وغیرہ کی طرز
پر) وقت کے اُن فرائض ہی کو لے کر کھڑے ہو جاتے... خصوصاً معاشرے کی تعلیم اور
تیاری کا ایک مؤثر اور آسان فارمیٹ سامنے لاتے (’’ارشادِ عامہ‘‘ ہمارے ائمہ و
مشائخ کا ایک معروف متقدمین منہج ہے) اور اس کو تنظیمی کی بجائے ایک بےتحاشا دعوتی
رَو بنا ڈالتے تو یہ غیرانقلابی راستہ (یعنی 1۔ نظامِ قائمہ prevailing
system کے اندر ہی ایک لطیف سرایت کر جانا، 2۔ نظامِ
قائمہ کے اندر کارفرما عوامل factors کے ساتھ پوری ذہانت کے ساتھ کھیلنا an intelligent maneuvering ، اور 3۔ نظامِ قائمہ کے دستیاب کردہ مواقع
سے __ نظریہ میں
اپنے ایک ٹھیٹ پیراڈائم پر رہتے، مگر عمل
میں استطاعت اور موازنۂ مصالح و مفاسد کے منہج پر چلتے ہوئے __ بھرپور
گنجائش لینا) یقیناً
آپؒ کو کچھ بہت کارآمد منزلوں پر پہنچاتا۔ یہ منزل ظاہر ہے ’انقلاب‘ تو نہ ہوتا
(اِلّا اَن یشاءَ اللہ) لیکن معاشرے میں اسلامی عمل کی ایک کمال پیش رفت ضرور
ہوتا۔ نیز بعد کی فرسٹریشن frustration کی نوبت بھی یہ چیز
نہ آنے دیتی۔
11.
یہ
واضح کرتے چلیں، ذہنوں کا یہ فرق دعوتی یاسیاسی دنیا تک محدود نہیں۔ خود جہاد (معاصر)
میں یہ دونوں دھارے برابر پائے جاتے ہیں۔ عبد اللہ عزام نوجوانوں پرحملہ آور اُس
ذہن کو بڑی ابتداء میں بھانپ گئے تھے جو جہادِ افغانستان پر یہ سوال اٹھا رہا تھا کہ: افغانوں کے سات جماعتی
اتحاد کی حالت تو دور دور تک نہیں بتا رہی کہ روس کو نکالنے کے بعد یہ ملک میں ’اسلامی
نظام‘ نافذ کر لیں گے، پس یہ جہاد کیسا؟! یا
کسی وقت یہ نوجوان جہادِ افغانستان پر اس
حوالے سے سوال اٹھاتے کہ: یہ تو کچھ غیرشرعی حکومتوں اور انٹیلی جنسوں سے مدد لیتا
ہے پس یہ جہاد کیسے؟! ]وجہ وہی: تاریخی طور پر مسلمانوں کے منہجِ استطاعت
کو نہ جاننا۔ اور ’’ایک دی ہوئی صورتحال میں
ممکنہ طور پر بہترین کردار ادا کر جانے پر
اکتفاء‘‘ کے متقدمین منہج کو رد کرنا،
اس لیے کہ ایک ’مکمل مطلوب صورتحال‘ تو یہاں پیدا ہو ہی نہیں رہی! لہٰذا
صورتحال ’جتنی بہتر ہو سکتی ہے‘اس کو بھی خاطر
میں نہ لانا بلکہ صاف مسترد کر دینا۔ اور ’شر کو جتنا دفع کیا جا سکتا ہے‘ یہاں اس کا بھی روادار نہ ہونا۔
یہ انقلابی منہج بنیادی طور پر ایک مثالیت پر قائم ہے۔ جبکہ متقدمین منہج: ایک
دی ہوئی صورتحال کے اندر ہی جو مصالح اور مفاسد ہیں ان کا ایک واقعاتی موازنہ؛ نیز جو چیز ایک دی ہوئی صورتحال میں آپ کو مل ہی
نہیں سکتی اس کےلیے نہ ضد کرنا، نہ نعرے لگوانا، نہ اس سے لوگوں کی یوں امیدیں
وابستہ کروانا گویا وہ تو کسی بھی موڑ سے برآمد ہوئی کہ ہوئی! چونکہ یہاں واقعیت
پسندی ہے؛ لہٰذا متقدمین منہج حوصلے پست ہونے کی کوئی بنیاد ہی سرے سے نہیں چھوڑتا، (کہ ان حوصلوں کو بحال کروانے
کے پھر ڈھیروں جتن کرنے پڑیں)۔ ظاہر ہے بچوں کے ساتھ تو یہ ہو سکتاہے کہ
ہنڈیا میں پانی چڑھا کر ڈوئی ہلاتے رہیں کہ
آخر انہیں نیند آجائے گی اور صبح اٹھ کر کوئی اور ہاتھ پیر مار لیں گے، بڑوں میں البتہ
ایسی ’نیند‘ نہیں رکھی گئی! چنانچہ متقدمین فقہ کا یہ ’’مصالح و مفاسد کے موازنہ‘‘
والا قاعدہ ایک نہایت واقعاتی اور بری سے بری صورتحال میں کام دینے والا اصول ہے؛
جو دینی عمل کو ایک کمال ڈائنامزم dynamism دیتا ہے (ڈائنامزم اُسی وقت آتا ہے جب اس کے
اندر ایک گونا لچک flexibility ہو)۔ انقلابی ذہن چونکہ مثالیت میں
رہتا ہے (یوٹوپیا، جو ’لچک‘ جانتا ہی نہیں)، لہٰذا اس طبقے کے نوجوانوں کے
یہاں فقہاء کے ’’مصالح و مفاسد‘‘ والے قاعدہ کا مذاق تک اڑایا جاتا ہے۔ ہمیں
اچھی طرح یاد ہے، اس ٹھٹھے اور مذاق سےعبد اللہ عزام کو بھی خوب نوازا گیا۔ عبد
اللہ عزام جب اپنے خطبوں میں کہتے: ’’مت توقع رکھو کہ افغان مجاہدین ادھر روس کو افغانستان
سے نکالیں گےاور ادھر ملک میں اسلامی نظام کا دور
دورہ ہو جائے گا۔ بھائی یہاں بہت کچھ چیزوں سے ابھی تمہیں گزرنا ہے۔ بڑی بڑی
گھاٹیاں اور کھائیاں ہیں۔ فی الحال ایسی کسی بات کی توقع مت رکھو‘‘۔ تو اس پر
پشاور کے کچھ عرب حلقوں میں ایک قہقہہ پڑتا۔ عبداللہ عزامؒ پر کھل کر تنقید
ہوتی کہ لو یہ بات ہے تو پھر جہاد کرنے ہی یہاں کیوں آئے۔ ’اسلامی نظام‘ نہ آیا تو
ہم تو ان افغان قیادتوں کو گریبانوں سے پکڑیں گے[۔ نوجوانوں کے ذہنوں سے ایسے اشکالات کو رفع کرنے پر عبداللہ عزامؒ کی اچھی خاصی محنت ہوئی تھی۔ اور کچھ
’فاصلے‘ بھی بڑھتے گئے۔ آخری سالوں تک پہنچتےپہنچتے ایک شدت پسند طبقہ
جہادی دنیا کے اندر عبداللہ عزامؒ کے منہج کو صاف رد کرنے لگا، واقفانِ حال سے یہ ہرگز اوجھل نہیں۔ یہی طبقہ تھوڑی
دیر میں الجزائر کے اندر شروع ہونے والے مسلح عمل کا روحِ رواں ہوا۔ اور اس سے
سامنے آنے والے نقصانات اب ہر کسی کو معلوم ہیں۔ لیکن یہاں سے ایک اور چیز
مسئلہ سے جڑتی ہے اور وہ ہے تکفیر۔ اس سے مابعد نقصانات کا تعلق البتہ اِس نئی فکر
(تکفیر) سے ہے۔ یہ بالکل ایک اور چیز ہے۔ محض انقلابی ڈسکورس کو اس کا بوجھ
اٹھوانا ہماری نظر میں زیادتی ہو گی۔ ہاں یہ واضح کردینا مناسب اور ضروری ہے کہ:
جہاد کے باب میں متقدمین ڈسکورس
کی حامل جماعتیں وہی ہیں جن کی نظر اپنے
ملکوں کی داخلی صورتحال سے متعلق ’نظام‘ کے مسئلے میں اٹک نہیں جاتی۔
اس سے گزر کر؛ وہ اپنی قوموں کی تمام تر کمیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کے علی الرغم
کافروں سے ان کا دفاع کرنے پر یقین رکھتی ہیں اور مسلم خون، مسلم مفاد، مسلم زمین
اور مسلم استحکام کی محافظ ہیں۔
اب
یہ کہنا ظاہر ہے تحصیلِ حاصل ہو گا کہ... ہمارا
اپنا فکری قبیلہ دین کا یہی متقدمین ڈسکورس ہے؛ اور اسی کے رجال ہمارے ائمہ و اساتذہ۔
اسی کے اندر ہم اسلام کا اِحیاء اور قوت دیکھتے ہیں۔ اس منہج میں جو ایک کمال لچک flexibility
اور فاعلیت dynamism
ہے... ہم بجا طور پر یہ
کہتے ہیں: اس سے کما حقہٗ استفادہ ہمارے یہاں ابھی ہو انہیں؛ ورنہ اس کے اعلیٰ
ثمرات دیکھے جاتے۔ اب بھی اس کی جانب آنے میں کوئی حرج نہیں۔